حضرت مُنْذِرْ بن محمد انصاریؓ
حضرت منذر بن محمد کا تعلق قبیلہ بنو جَحْجَبَا سے تھا۔ مدینہ تشریف لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت منذر بن محمد اور طفیل بن حارث کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ248 منذر بن محمدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) جب حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اور حضرت ابو سَبْرَہ بِن اَبِی رُھْم مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انہوں نے حضرت مُنذر بن محمد کے گھر قیام کیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ55 زبیر بن العوامؓ، صفحہ 61 حاطب بن ابی بلتعہ، صفحہ 215 ابو سبرہ بن ابی رھم مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) حضرت منذر نے غزوہ بدر اور اُحد میں شرکت کی اور بئر معونہ کے واقعہ میں شہید ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ248 منذر بن محمدؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) بئر معونہ کا پہلے بھی ایک دو جگہ صحابہ کے واقعات میں ذکر ہو چکا ہے۔ دوبارہ اس حوالے سے مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ حضرت منذر کی شہادت کی جو تفصیل ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھی ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر 4ہجری میں منذر بن عمرو انصاری کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے۔ ان کی تعداد ستّر تھی۔ سارے کے سارے قاری تھے۔ یعنی قرآن خواں تھے۔ جو دن کے وقت جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے، لکڑیاں بیچتے اور پھر اپنا پیٹ پالتے۔ رات کا بہت سا حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنوئیں کی وجہ سے بئر مَعُوْنَہ کے نام سے مشہور تھا تو ان میں سے ایک شخص حَرَام بن مِلْحَان جو انس بن مالک کے ماموں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عامر کے رئیس اور اَبُوبَرَاء عامر کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس آگے گئے۔ باقی صحابہ پیچھے رہے۔ جب حرام بن ملحان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عامر بن طفیل اور ان کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر بڑی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اسلام کا پیغام پہنچانے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے اس بے گناہ ایلچی کو پیچھے کی طرف سے نیزے کا وار کر کے وہیں ڈھیر کر دیا۔ اس وقت جب حَرام بن مِلحان زخمی ہوئے تو ان کی زبان پر الفاظ تھے کہ اَللّٰہُ اَکْبَر فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کہ اللہ اکبر رب کعبہ کی قسم! کہ مَیں اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ عامر بن طفیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عامر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ کریں مگر انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ ہم ابوبَراء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ نہیں کریں گے اس پر عامر نے قبیلہ بنو سُلَیم میں سے بَنُو رِعْل اور ذکوان اور عُصَیَّہ وغیرہ کو(یعنی وہی لوگ جو بخاری کی حدیث کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے کہ ہمیں کچھ لوگ بھیجیں جو ہمیں تبلیغ کریں) اپنے ساتھ لیا اور یہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ آور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرّض نہیں ہے۔ ہم کوئی لڑائی کرنے نہیں آئے۔ ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اور ہم تم سے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا۔ ان صحابیوں میں سے جو اس وقت موجود تھے صرف ایک شخص بچا جو پاؤں سے لنگڑا تھا اور پہاڑی کے اوپر چڑھ گیا ہوا تھا۔ ان صحابی کا نام کعب بن زید تھا۔ (ان کا ذکر ہو چکا ہے۔) بعض اَور روایات سے پتہ لگتا ہے کہ کفار نے اس پر بھی حملہ کیا تھا جس سے وہ زخمی ہوئے تھے اور کفار انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے مگر اصل میں ان میں جان باقی تھی اور وہ بعد میں بچ گئے۔
صحابہ کی اس جماعت میں سے دو شخص یعنی عَمرو بن اُمیّہ ضَمْرِی اور مُنذِر بن محمد اس وقت اونٹوں وغیرہ کے چرانے کے لئے اپنی جماعت سے الگ ہو کر اِدھر اُدھر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دُور سے اپنے ڈیرے کی طرف نظر ڈالی تو انہوں نے دیکھا کہ پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ ہوا میں اڑتے پھر رہے ہیں۔ وہ اس صحرائی اشارے کو خوب سمجھتے تھے۔ (جب ریت میں پرندے اس طرح جھنڈ کے جھنڈ پھر رہے ہوں تو مطلب ہوتا ہے کہ نیچے ان کے لئے کھانے کا کوئی انتظام ہے۔) وہ فوراً سمجھ گئے کہ کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ واپس آئے اور دیکھا تو ظالم کفار کے کشت و خون کا کارنامہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ دور سے ہی یہ نظارہ دیکھ کر انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ایک نے کہا کہ ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہئے اور مدینہ پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینی چاہئے۔ مگر دوسرے نے اس رائے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ میں تو اس جگہ سے بھاگ کر نہیں جاؤں گا۔ جہاں ہمارا امیر منذر بن عمرو شہید ہوا ہے وہیں ہم لڑیں گے۔ چنانچہ وہ بھی آگے بڑھے اور لڑ کر شہید ہوئے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 518-519) یعنی منذر بن محمد جو اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے جب وہ آئے تو انہوں نے بھی دشمنوں کا مقابلہ کیا اور وہیں شہید ہوئے۔ اس طرح ان کی شہادت 4ہجری میں ہوئی۔‘‘