حضرت مُنْذِر بن عَمْرو بن خُنَیْسؓ
حضرت مُنْذِر بن عَمْرو بن خُنَیْس ایک صحابی ہیں جن کا لقب تھا مُعْنِقْ لِیَمُوْتَ یا مُعْنِقُ لِلْمَوْتِ یعنی آگے بڑھ کر موت کو گلے لگانے والا۔ ان کا نام مُنْذِر اور والد کا نام عَمْرو تھا۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو سَاعِدہ سے تھے۔ بیعتِ عَقَبہ میں شریک ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُنْذِر بن عَمْرو کو اور حضرت سعد بن عُبَادۃ کو ان کے قبیلہ بنو ساعدہ کا نقیب مقرر فرمایا تھا یعنی سردار مقرر کیا تھا یا نگران مقرر کیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی حضرت مُنْذِر پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُنْذِر اور حضرت طُلَیْب بن عُمَیْر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ آپ غزوۂ بدر میں یعنی حضرت مُنْذِر غزوہ بدر میں اور احد میں بھی شریک ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 258 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
حضرت مُنْذِر بن عَمْرو کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ:۔ ’’قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعِدہ سے تھے اور ایک صوفی مزاج آدمی تھے۔ بئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔ ‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 232)
بئرِ معونہ کی تفصیل پہلے صحابہ کے ذکر میں بھی آ چکی ہے۔ کچھ حصہ حضرت مُنْذِر بن عَمْرو کے حوالے سے بھی خلاصۃً یہاں بیان کر دیتا ہوں جو سیرت خاتم النبیینؐ میں سے ہی ہے۔
قبائل سُلَیْم اور غَطْفَان یہ قبائل عرب کے وسط میں سطح مرتفع نجد پر آباد تھے اور مسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کے ساتھ ساز باز رکھتے تھے۔ آپس میں ان کی مکہ کے قریش کے ساتھ ساز باز تھی کہ کس طرح اسلام کو ختم کیا جائے اور آہستہ آہستہ ان شریر قبائل کی شرارت بڑھتی جاتی تھی اور سارا سطح مرتفع نجد اسلام کی عداوت کے زہر کی لپیٹ میں آتا چلا جا رہا تھا اور ا س کا اثر ہو رہا تھا۔ چنانچہ ان ایام میں ایک شخص ابوبَرَاء عَامِرِی جو وسط عرب کے قبائل بنو عَامِر کا ایک رئیس تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا، پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ بڑی نرمی سے آپؐ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی۔ اس نے بھی بظاہر بڑے شوق سے تبلیغ سنی مگر مسلمان نہیں ہوا۔ پھر جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے ساتھ آپؐ چند اصحاب نجد کی طرف روانہ کریں جو وہاں جا کر اہل نجد میں اسلام کی تبلیغ کریں اور پھر ساتھ یہ بھی کہنے لگا کہ مجھے امید ہے کہ نجدی لوگ آپ کی دعوت کو ردّ نہیں کریں گے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تو اہل نجد پر اعتماد نہیں ہے۔ اَبُوبَرَاء کہنے لگا کہ آپؐ ہرگز فکر نہ کریں۔ جو لوگ میرے ساتھ جائیں گے مَیں ان کی حفاظت کا ضامن ہوں۔ چونکہ ابوبَرَاء ایک قبیلے کا رئیس اور صاحبِ اثر آدمی تھا آپؐ نے اس کے اطمینان دلانے پر یقین کر لیا اور صحابہ کی ایک جماعت نجد کی طرف روانہ فرما دی۔
حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی روایت ہے لیکن بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ قبائل رِعْل اور ذَکْوَان وغیرہ جو مشہور قبیلہ بنو سُلَیْم کی شاخ تھے ان کے چند لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا اظہار کر کے درخواست کی کہ ہماری قوم میں سے جو لوگ اسلام کے دشمن ہیں ان کے خلاف ہماری امداد کریں۔ یہ تشریح نہیں تھی کہ کس قسم کی امداد ہے آیا فوجی ہے یا تبلیغ کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے درخواست کی کہ چند آدمی اس کے لئے روانہ کئے جائیں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دستہ روانہ فرمایا جس کا ذکر ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے بئرِ معونہ کی تفصیلات میں بخاری کی روایات میں بھی کچھ خلط واقع ہو گیا۔ دو واقعات کی کچھ روایتیں آپس میں اکٹھی مل گئی ہیں۔ اس لئے تاریخ سے اور بخاری کی روایات سے صحیح طرح پتہ نہیں لگتا کہ حقیقت کیا ہے؟ جس کی وجہ سے حقیقت پوری طرح متعین نہیں ہو سکتی؟ لیکن بہرحال انہوں نے اس کا حل بھی نکالا ہے فرماتے ہیں کہ بہرحال اس قدر یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر قبائل رِعْل اور ذَکْوَان وغیرہ کے لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے اور انہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ چند صحابہ ان کے ساتھ بھجوائے جائیں۔ آپؓ نے یہ لکھا ہے کہ اگر ایک دو روایتیں مختلف ہیں اور اگر ان کی آپس میں مطابقت کرنی ہے کہ ایک دوسرے سے ان کا کیا تعلق ہے یا کس طرح اس کی تطبیق کی جاسکتی ہے تو فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں کی مطابقت کی یہ صورت اس طرح ہو سکتی ہے کہ رِعل اور ذکوان کے لوگوں کے ساتھ ابوبَرَاء عَامِری رئیس قبیلہ عَامِر بھی آیا ہو۔ اس نے ان کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات کی ہو۔ چنانچہ تاریخی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مجھے اہل نجد کی طرف سے اطمینان نہیں ہے اور پھر اس کا یہ جواب دینا کہ آپؐ کوئی فکر نہ کریں۔ مَیں اس کا ضامن ہوتا ہوں کہ آپؐ کے صحابہ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابوبَرَاء کے ساتھ رِعل اور ذکوان کے لوگ بھی آئے تھے جن کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند تھے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صَفر 4ہجری میں مُنْذِر بن عَمْرو اَنْصَارِی کی امارت میں صحابہ کی ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ یہ لوگ عموماً انصار میں سے تھے، تعداد میں ستر تھے۔ قریباً سارے کے سارے قاری اور قرآن خواں تھے۔ جب یہ لوگ اس مقام پر پہنچے جو ایک کنوئیں کی وجہ سے بئرِ معونہ کے نام سے مشہور تھا تو ان میں سے ایک شخص حَرَام بن مِلْحَانؓ جو انس بن مالکؓ کے ماموں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا پیغام لے کر قبیلہ عَامِرکے رئیس اور ابوبَرَاء عامری جس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کے بھتیجے عَمْرو بن طُفَیل کے پاس گئے اور باقی صحابہ پیچھے رہے۔ جب حَرَام بن مِلْحَان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر عَامِر بن طُفَیل اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے تو انہوں نے شروع میں تو منافقانہ طور پر آؤ بھگت کی لیکن پھر جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگ گئے تو جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے بعض شریروں نے کسی آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے حملہ کر کے ان کو نیزہ مار کر وہیں شہید کر دیا۔ اس وقت حَرَام بن مِلْحَان کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اَللہُ اَکْبَرُ! فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی اللہ اکبر! کعبہ کے رب کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچا۔ عَمْرو بن طُفَیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اپنے قبیلہ بنو عَامِر کے لوگوں کو اکسایا کہ وہ مسلمانوں کی بقیہ جماعت پر حملہ آور ہو جائیں مگر انہوں نے جیسا کہ ذکر ہوا اس کا انکار کیا لیکن جو زائد بات ہے اور یہاں ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ کہا کہ ہم ابوبَراء کی ذمہ داری کے ہوتے ہوئے مسلمانوں پہ حملہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ ابوبَرَاء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کا ضامن ہوں۔ تو اس قبیلے نے کہا کہ جب وہ ضامن ہو گیا تو ہم حملہ نہیں کریں گے۔
اس پر عَامِر نے سُلَیْم میں سے بنو رِعْل اور ذَکْوَان اور عُصیہ وغیرہ کو جو دوسرا قبیلہ تھا اور جو بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بن کر آئے تھے، اپنے ساتھ لیا اور یہ سب لوگ مسلمانوں کی اس قلیل اور بے بس جماعت پر حملہ آور ہو گئے۔ مسلمانوں نے جب ان وحشی درندوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو ان سے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی تعرض نہیں۔ ہم لڑنے تو آئے نہیں ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک کام کے لئے آئے ہیں اور تم سے بالکل لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور سب کو شہید کر دیا۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 517 تا 519)
تاریخ میں آتا ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے بئرِ معونہ کے شہداء کے بارے میں خبر دی تو آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُنْذِر بن عَمْرو کے بارے میں فرمایا جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے کہ اَعْنَقَ لِیَمُوْتَ یعنی حضرت مُنْذِر بن عَمْرو نے یہ جانتے ہوئے کہ اب شہادت ہی مقدر ہے اپنے ساتھیوں کی طرح اسی جگہ لڑتے ہوئے شہادت کو قبول کر لیا اس وجہ سے آپ مُعْنِق لِیَمُوْتَ یا مُعْنِقُ لِلْمَوْتِ کے لقب سے مشہور تھے۔ (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 258 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)(الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ 40 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)حضرت مُنْذِر بن عَمْرو سے ان لوگوں نے کہا تھا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں امن دے دیں گے لیکن حضرت مُنْذِر نے ان کی امان لینے سے انکار کر دیا۔ (اسدالغابہ۔ جلد 5 صفحہ 259-258۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت اَبُواُسَیْد کے ہاں ان کے بیٹے مُنْذِر بن اَبی اُسَیْد پیدا ہوئے تو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنی ران پر بٹھا لیا۔ اس وقت حضرت اَبُواُسَیْد بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول ہوگئے۔ حضرت اَبُواُسَیْد نے اشارہ کیا تو لوگ مُنْذِر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر سے اٹھا کر لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کام سے فراغت ہوئی تو دریافت فرمایا کہ بچہ کہاں گیا؟ حضرت اَبُواُسَیْد نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے اس کو گھر بھیج دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کا نام کیا رکھا ہے؟ اَبُو اُسَیْد نے عرض کیا کہ فلاں نام رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اس کا نام مُنْذِرہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن اس بچے کا نام مُنْذِر رکھا۔ یہ وہ مُنْذِر نہیں ہے جن کا ذکر ہو رہا ہے۔ شارحین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بچے کانام مُنْذِر رکھنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ حضرت ابواُسَید کے چچا کا نام مُنْذِر بن عَمْرو تھا، وہی صحابی جن کا ذکر ہوا جو بئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔ ابواُسَید کے چچا کا نام تھا مُنْذِر بن عَمْرو۔ یہ ابواُسَید کے چچا تھے جو بئرِ معونہ میں شہید ہوئے تھے۔ پس یہ نام تفاؤل کی وجہ سے رکھا گیا تھا کہ یہ بھی ان کے اچھے جانشین ثابت ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب تحویل الاسم الی اسم احسن منہ حدیث 6191)(فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب المغازی جلد 7 صفحہ 452 مطبوعہ دار الریان للتراث القاھرہ 1986ء)یہ بھی وجہ ہو گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یقیناًاپنے پیاروں کے ناموں کو زندہ رکھنے کے لئے بھی ان کے قریبیوں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہوں گے۔