حضرت مھجعؓ

خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2018ء

حضرت مھجع جو حضرت عمرؓ کے غلام تھے۔ ان کے والد کا نام صالح تھا۔ غزوۂ بدر میں یہ سب سے پہلے شہید تھے۔ان کا تعلق یمن سے تھا۔ شروع میں قیدی ہونے کی حالت میں یہ حضرت عمرؓ کے پاس لائے گئے۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے احسان کرتے ہوئے ان کو آزاد کر دیا۔ آپ اوّل المہاجرین میں سے تھے۔ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ آپ اسلامی لشکر کے سب سے پہلے شہید تھے۔ دو صفوں کے درمیان تھے کہ اچانک ایک تیر آپ کو لگا جس سے آپ شہید ہو گئے۔ عامر بن حضرمی نے آپ کو شہید کیا تھا، اس کا تیر لگا تھا۔ حضرت سعید بن مسیّب کی روایت ہے کہ حضرت مھجع شہید ہوئے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ انا مھجع والی ربی ارجع۔ کہ میں مھجع ہوں اور اپنے پروردگار کی طرف لوٹنے والا ہوں۔

حضرت مھجع ان لوگوں میں شامل تھے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی کہ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ (الانعام53:)اور تو ان لوگوں کو نہ دھتکار جو اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے صبح بھی پکارتے ہیں اور شام کو بھی پکارتے ہیں۔ ان کے علاوہ اس میں مندرجہ ذیل اصحاب بھی شامل تھے۔ حضرت بلالؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت عمارؓ، حضرت خبابؓ، حضرت عتبہ ؓبن غزوان، حضرت اوسؓ بن خولی، حضرت عامرؓ بن فھیرۃ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 299-300 مہجع بن صالحؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) ، (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 268 مہجعؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)، (کنز العمال جلد 10 صفحہ 408 کتاب الغذوات حدیث 29985 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

اس کا مطلب یہ نہیں ہے نعوذ باللہ کہ یہ جو آیت نازل ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں کو دھتکارتے تھے۔ آپ کا پیار اور عزت اور احترام اور شفقت غریبوں کے لئے بے مثال اور غیر معمولی تھی جس کا ہمیں حدیثوں سے بھی، ان غرباء کے اپنے حوالوں سے بھی پتہ لگتا ہے۔ اس آیت میں اصل میں تو ان امیر لوگوں اور بڑے لوگوں کو جواب ہے جو یہ چاہتے تھے کہ ہمیں زیادہ عزت اور احترام دیا جائے اس پہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میں نے تو رسول کو یہ کہا ہوا ہے اور یہ حکم ہے کہ غریب لوگ جو ذکر اور عبادت میں بڑھے ہوئے ہیں ان کی عزت اور احترام اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری دولت اور خاندانی عزت سے زیادہ ہے اور اللہ کا رسول تو وہی کرتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے۔ پس اس آیت سے اصل میں تو ان امیروں کو یہ جواب دیا گیا جن کے خیال میں یہ تھا کہ ان کا مقام زیادہ بلند ہے کہ اللہ کے رسول کو تمہاری عزت اور تمہاری دولت کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اس کو تو یہی لوگ پیارے ہیں۔