حضرت نعمان بن مالکؓ
حضرت نعمان بن مالکؓ۔ حضرت نعمان بن مالکؓ کا نام نعمان بن قَوقَل بھی بیان کیا جاتا ہے۔ امام بخاری نے ان کا نام ابن قوقل بیان کیا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی جو ایک عالم تھے وہ بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ابن قوقل کا مکمل نام نعمان بن مالک بن ثعلبہ بن اصرم تھا اور ثعلبہ یا اَصْرَم کا لقب قوقل تھا اور نعمان اپنے دادا کی طرف منسوب ہوتے تھے اس لیے انہیں نعمان بن قوقل کہا جاتا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب الکافر یقتل المسلم…… حدیث 2827) (عمدۃ القاری جلد14 صفحہ 182-183 کتاب الجہاد والسیر باب الکافر یقتل المسلم……، دار احیاء التراث العربی بیروت 2003)
حضرت نعمان بن مالکؓ کی چال میں ذرا لنگڑا پن پایا جاتا تھا۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم جلد 04 صفحہ 317، باب النون، 2850-النعمان بن قوقل الانصاری، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002)
حضرت نعمان بن مالکؓ کے والد کا نام مالک بن ثعلبہ اور والدہ کا نام عَمْرہ بنت ذیاد تھا اور وہ حضرت مُجَذَّر بن ذیاد کی ہمشیرہ تھیں۔ حضرت نعمانؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو غَنَم ْسے تھا۔ یہ قبیلہ قوقل کے نام سے مشہور تھا۔ ابن ہشام کے نزدیک حضرت نعمان بن مالکؓ نعمان قوقل کے نام سے بھی مشہور تھے اور ابن ہشام نے ان کا قبیلہ بنو دَعْدبھی بیان کیا ہے۔ قوقل کیوں کہلاتے تھے پچھلی دفعہ بھی ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں کہ جب مدینے میں کسی سردار کے پاس کوئی شخص پناہ کا طلب گار ہوتا تو اسے یہ کہا جاتا تھا کہ اس پہاڑ پر جیسے مرضی چڑھ۔ یعنی اب تو امن میں ہے، جس طرح مرضی رہ اور تُو اس حالت میں لوٹ جا کہ تو فراخی محسوس کر، کوئی تنگی نہیں اب تجھے اور کسی چیز کا خوف نہ کھا اور وہ لوگ جو پناہ دینے والے تھے وہ قواقلہ کے نام سے مشہور تھے۔ تاریخ لکھنے والے ابن ہشام یہ کہتے ہیں کہ ایسے سردار جب کسی کو پناہ دیتے تو اسے ایک تیر دے کر کہتے اس تیر کو لے کر اب جہاں مرضی جا۔ حضرت نعمانؓ کے دادا ثعلبہ بن دعد کو قوقل کہا جاتا تھا۔ پناہ دینے والوں میں سے تھے۔ اسی طرح خزرج کے سردار غنم بن عوف کو بھی قوقل کہا جاتا تھا۔ اسی طرح حضرت عبادہ بن صامت بھی قوقل کے لقب سے مشہور تھے۔ بنو سالم، بنو غنم اور بنو عوف بن خزرج کو بھی قواقلہ کہا جاتا تھا۔ بنو عوف کے سردار حضرت عبادہ بن صامت تھے۔
حضرت نعمان بن مالکؓ غزوۂ بدر اور احد میں شریک ہوئے اور غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ انہیں صفوان بن امیہ نے شہید کیا تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نعمان بن مالکؓ کو اَبان بن سعیدنے شہید کیا تھا۔ حضرت نعمان بن مالکؓ حضرت مُجَذَّر بن ذیاد اور حضرت عبادہ بن حِسْحاس کو غزوۂ احد کے موقع پر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ414‘‘النعمان بن مالک’’، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء) (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 158-159 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2008ء)(السیرة النبویۃ لابن ہشام 560صفحہ ذِكْرُ مَن اسْتُشْهِدَ بِأُحُدِ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ صفحہ 468 الانصار ومن معھم، دار الکتب العلمیہ بیروت 2001) (عمدۃ القاری جلد 14 صفحہ 182 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2003ء)
حضرت نعمان بن مالکؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوۂ احد کے لیے نکلتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عبداللہ بن أبی بن سلول سے مشورہ کے وقت عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بخدا میں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کیسے؟ تو حضرت نعمانؓ نے عرض کیا اس وجہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور میں لڑائی سے ہرگز نہ بھاگوں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے سچ کہا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 322‘‘النعمان بن مالک الخزرجی’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
خالد بن ابو مالک جعدی روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی کتاب میں یہ روایت پائی کہ حضرت نعمان بن قوقل انصاریؓ نے دعا کی تھی کہ مجھے تیری قسم اے میرے رب! ابھی سورج غروب نہیں ہو گا کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت کی سرسبزی میں چل رہا ہوں گا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی کیونکہ میں نے اسے دیکھا، یہ کشفی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس کو دیکھا کہ وہ جنت میں چل رہا تھا اور اس میں کسی قسم کا لنگڑا پن یا لڑکھڑاہٹ نہیں تھی۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم جلد 04 صفحہ 317، النعمان بن قوقل الانصاری، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے جبکہ صحابہ اسے فتح کر چکے تھے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! مجھے بھی حصہ دیں۔ سعید بن عاص کے ایک بیٹے نے کہا کہ یا رسول اللہ! اسے حصہ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ یہ نعمان بن قوقل کا قاتل ہے۔ ابن سعید بن عاص نے کہا کہ اس پر تعجب ہے ہم پر اکڑتا ہے۔ ابھی ضأن پہاڑی، جو تہامہ کے علاقہ میں ہے اور حضرت ابوہریرہ کے قبیلے دوس کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے کہتے ہیں اس کی چوٹی پر سے بکریاں چراتا ہمارے پاس آ گیا ہے اور مجھ پر عیب لگاتا ہے کہ میں نے ایک مسلمان مرد کو قتل کر دیا تھا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ جس کو اللہ نے میرے ہاتھ سے عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں رسوا نہیں کیا۔ بڑا ہوشیاری سے بیان دیا۔ سفیان کہتے تھے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حصہ دیا یا نہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر بَابُ الكَافِرِ يَقْتُلُ المُسْلِمَ …… حدیث 2827) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 223)
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضرت نعمان بن قوقلؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر میں فرض نمازیں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں اور حرام چیزوں کو حرام قرار دوں اور حلال چیزوں کو حلال قرار دوں اور اس پر کچھ بھی زیادہ نہ کروں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! مَیں اس پر کچھ بھی زیادہ نہ کروں گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 23 صفحہ 78 مسند جابر بن عبد اللہ، مؤسسۃ الرسالۃ 2008)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نعمان بن قوقلؓ مسجد میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا اے نعمان! دو رکعتیں ادا کرو۔ یہ جمعہ کی جو سنتیں ہیں ان کا بھی مسئلہ اس میں بیان کیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپؐ نے انہیں کہا کہ دو رکعتیں ادا کرو اور ان میں اختصار سے کام لو۔ مختصر طور پر جمعہ کی سنتیں پہلے پڑھ لو۔ خطبہ شروع ہو گیا ہے دو رکعت ادا کرو اور مختصر پڑھو۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعت نماز پڑھے اور وہ دونوں رکعتیں ہلکی ہوں۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم جلد 04 صفحہ 317، النعمان بن قوقل الانصاری، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002)