حضرت نُعَیْمَان بن عَمروؓ
حضرت نعمانؓ کا نام نعمان بھی ملتا ہے اور نُعَیْمَان بھی۔ اور ان کے والد کا نام عَمرو بن رِفاعہ اور والدہ کا نام فاطمہ بنتِ عمرو تھا۔ حضرت نُعَیْمَانؓ کی اولاد میں محمد، عامر، سَبْرَة، لُبَابَہ، کَبْشَہ، مریم اور اُمِّ حَبِیب، اَمَةُ اللّٰہ اور حَکِیمہ کا ذکر ملتا ہے۔ ابنِ اسحاق کے نزدیک حضرت نُعَیْمَان بیعت عقبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ہم راہ شامل ہوئے تھے۔ حضرت نعمان غزوۂ بدر، احد، خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ شریک رہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نُعَیْمَان کے لیے سوائے خیر کے کچھ نہ کہو کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ حضرت نُعَیْمَانؓ کی وفات حضرت امیر معاویہؓ کے دور ِحکومت میں 60ہجری میں ہوئی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 257 وَمِنْ بَنِي غَنْمِ النعمان بن عمرو۔ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 405 ذکر عدۃ حوادث۔ سنۃ 60، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2006ء)
حضرت اُمِّ سَلَمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال قبل بُصْریٰ جو ملک شام کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر کے دوران اسی شہر میں قیام کیا تھا اور اسی طرح جب حضرت خدیجہؓ کا سامان شام کی طرف لے کر گئے تھے تو اس وقت بھی اسی جگہ پر قیام کیا تھا اور اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت خدیجہ کا غلام مَیْسَرَہ بھی تھا۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ جب وفات سے ایک سال قبل تجارت کے لیے اس طرف گئے تو ان کے ساتھ نُعَیْمَان اور سُوَیْبِطْ بن حَرْمَلَہ نے بھی سفر کیا اور یہ دونوں جنگِ بدر میں بھی موجود تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اس سفر میں نُعَیْمَان زادِ راہ پر متعین تھے اور اسی سفر کا واقعہ ہے جب ان کے ساتھی نے حضرت نُعَیْمَانؓ کو ایک قوم کے پاس مذاق مذاق میں فروخت کر دیا تھا۔ یہ واقعہ مَیں حضرت سُوَیْبِطْؓ کے ضمن میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ بہرحال کچھ مختصر بیان کر دیتا ہوں۔ سُوَیْبِطْؓ جو ان کے ساتھی تھے ان کی طبیعت میں مزاح تھا بلکہ بعض روایات سے پتا لگتا ہے کہ دونوں ہی، حضرت نعمانؓ بھی اور حضرتسُوَیْبِطْؓ بھی آپس میں بڑے بے تکلف تھے، مذاق کیا کرتے تھے اور ان کی طبیعت میں مزاح تھا۔ تو انہوں نے سفر کے دوران نعمان سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابوبکرؓ نہیں آئیں گے، جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے، کھانا نہیں دوں گا۔ سُوَیْبِطْؓ نے اس پر کہا کہ اگرتم نے مجھے کھانا نہ دیا تو پھر میں ایسی باتیں کروں گا جس پر تمہیں غصہ آئے۔ راوی نے کہا کہ ان کا اس دوران ایک قوم کے پاس سے گزر ہوا تو سُوَیْبِطْنے ان سے کہا کہ کیا تم مجھ سے میرا ایک غلام خریدو گے۔ بہرحال کچھ وقفے کے بعد چند دنوں کے بعد یا کچھ سفر میں چلتے چلتے ہی اس وقت یہ ذکر ہوگا۔ تو اس قوم کو حضرت سُوَیْبِطْ نے کہا کہ میرے سے غلام خریدو گے۔ قوم نے کہا ہاں خریدیں گے تو سُوَیْبِطْ نے اس پر ان کو کہا کہ وہ بڑا بولنے والا ہے اور یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں اور جب وہ تمہیں یہ بات کہے کہ تم اس کو چھوڑ دو تو پھر یہ نہ ہو کہ تم میرے غلام کو خراب کرنا۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ہم اسے تجھ سے خریدنا چاہتے ہیں اور انہوں نے اسے دس اونٹنیوں کے عوض خرید لیا۔ پھر وہ لوگ نُعَیْمَان کے پاس آئے اور ان کے گلے میں پگڑی یا رسی ڈالی تا کہ غلام بنا کے لے جائیں۔ نُعَیْمَانؓ ان سے بولے کہ یہ شخص تم سے مذاق کر رہا ہے میں تو آزاد ہوں۔ غلام نہیں ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس نے تمہارے بارے میں پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا۔ بہرحال وہ زبردستی انہیں ساتھ لے گئے۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور لوگوں نے اس کے متعلق بتایا تو پھر آپ ان لوگوں کے پیچھے گئے، اس قوم کے پیچھے گئے اور ان کو اونٹنیاں واپس دیں اور نعمان کو واپس لے آئے۔ راوی نے بتایا کہ جب یہ لوگ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو راوی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ اس سے بہت محظوظ ہوئے۔ بڑا ہنسے اور ایک سال تک ان میں یہ لطیفہ بنا رہا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المزاح حدیث 3719۔ معجم البلدان جلد2 صفحہ348 ’’بصریٰ‘‘۔ فرہنگ سیرت صفحہ 58 ’’بصریٰ‘‘)
بعض جگہ بعض کتابوں میں اس فرق کے ساتھ یہ واقعہ ملتا ہے کہ فروخت کرنے والے حضرت سُوَیْبٌطْ نہیں تھے بلکہ حضرت نعمان تھے۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ 354 سُوَیْبٌطْ بن حرملہ دارالفکر بیروت لبنان2003ء)
بہرحال دونوں کے بارے میں ہی یہ روایت آتی ہے۔ حضرت نُعَیْمَانؓ کے بارے میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ ان کی طبیعت میں بھی مزاح پایا جاتا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی باتیں سن کر محظوظ ہوا کرتے تھے۔
رَبِیْعَہ بن عُثْمان سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بَدُّو آیا اور مسجد میں داخل ہو کر اس نے اپنے اونٹ کو صحن میں بٹھا دیا۔ اس پر بعض صحابہ نے حضرت نعمانؓ سے کہا کہ اگر تم اس اونٹ کو ذبح کر دو تو ہم اسے کھائیں گے کیونکہ ہمیں گوشت کھانے کا بڑادل کر رہا ہے۔ اور بہرحال یہ بدو کا اونٹ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب شکایت ہو گی تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تاوان ادا کر دیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت نعمانؓ نے ان کی باتوں میں آ کے اونٹ ذبح کر دیا اور جب بدو باہرنکلا اور اپنی سواری کو اس حالت میں دیکھا تو شور مچانے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! میرا اونٹ ذبح ہو گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا نعمان نے۔ یہ کرنے کے بعدنعمان وہاں سے چلے گئے۔ کہیں جا کے چھپ گئےتو آپؐ ان کی تلاش میں نکلے۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ انہیں حضرت ضُبَاعَہ بنتِ زُبیر بن عبدالمطلبؓ کے ہاں چھپا ہوا پایا۔ جہاں وہ چھپے ہوئے تھے وہاں ایک شخص نے اپنی انگلی سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کہیں نظر نہیں آ رہا۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہاں سے نکالا اور فرمایا کہ یہ حرکت تم نے کیوں کی ہے؟ تو نعمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جن لوگوں نے آپؐ کو میرے بارے میں خبر دی ہے کہ میں نے یہ ذبح کیا، انہوں نے ہی مجھے اس پہ اکسایا تھا۔ انہوں نے ہی مجھے کہا تھا اور یہ بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں اس کا تاوان دے دیں گے، قیمت ادا کر دیں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کے نعمانؓ کے چہرے کو چھوا، اپنا ہاتھ لگایا اور مسکرانے لگے اور آپؐ نے اس بدو کو اس اونٹ کی قیمت ادا کر دی۔ (اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 4 صفحہ 332 نُعَیْمَان بن عمرو دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (الفکاھۃ والمزاح از زبیر بن بکار صفحہ24-25 مطبوعہ 2017ء)
زُبیر بن بَکَّار اپنی کتاب اَلْفُکَاھَۃ و المِزَاح میں حضرت نعمانؓ کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
مدینے میں جب بھی کوئی پھیری والا داخل ہوتا، باہر سے کوئی تاجر کوئی چیز لے کر آتا تو حضرت نعمانؓ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی چیز خرید لیتے اور وہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور یہ عرض کرتے کہ آپؐ کے لیے میری طرف سے تحفہ ہے۔ جب اس چیز کا مالک حضرت نعمانؓ سے اس کی قیمت لینے کے لیے آتا۔ وہاں پِھر رہے ہوتے تھے۔ بتا دیتے تھے کہ میں وہاں رہتا ہوں۔ بعد میں قیمت بھی لے لیتے تھے۔ واقف ہوتے تھے۔ بہرحال جب وہ قیمت لینے آتا تو وہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے اور عرض کرتے کہ اسے اس کے مال کی قیمت ادا کردیں۔ یہ چیز جو میں نے خریدی تھی اور آپؐ کو دی تھی اس کی قیمت ادا کر دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کیا تم نے یہ چیز مجھے بطور تحفہ نہیں دی تھی تو وہ کہتے یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میرے پاس اس چیز کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم نہیں تھی تاہم میرا شوق تھا کہ اگر وہ کھانے کی چیز ہے تو آپؐ اسے کھائیں۔ رکھنے کی چیز ہے تو آپؐ اسے رکھیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگتے اور اس چیز کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنے کا حکم فرماتے۔ (ماخوذ از الفکاھۃ والمزاح از زبیر بن بکار صفحہ27، مطبوعہ 2017ء)
تو یہ عجیب پیار اور محبت اور مزاح کی مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ صرف خشک مجلسیں نہیں ہوتی تھیں۔