حضرت وَہْب بن سَعْد بن ابی سَرْحؓ
حضرت وَہْب بن سَعْد بن ابی سَرْحؓ کے والد کا نام سعد تھا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عامر بن لُؤی سے تھا۔ آپ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے بھائی تھے۔ آپ کی والدہ کا نام مُھَانَہ بنتِ جابِر تھا جو اشعری قبیلہ سے تھیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ217، وھب بن سعد، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
حضرت وَہْبؓ کا بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح وہی کاتب وحی تھا جس نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ ان کے بھائی کے بارے میں اس واقعے کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کاتب ِوحی تھا جس کا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا اور سیرۃ الحلبیۃ میں لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان بن عفانؓ کا رضاعی بھائی تھا۔ بہرحال پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ آپؐ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اسے بلوا کر لکھو ادیتے تھے۔ ایک دن آپ سورۃ المومنین کی آیت 14 اور 15 لکھوا رہے تھے۔ جب آپؐ یہاں پہنچے کہ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ تو یہ جو کاتب وحی تھا اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ سورۃ المؤمنون کی آیت 15میں اس کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وحی ہے اس کو لکھ لو۔ اس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجے میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح میرے منہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپؐ نعوذ باللہ خود سارا قرآن بنا رہے ہیں۔ چنانچہ وہ مرتد ہو گیا اور مکّے چلا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر جن لوگوں کو قتل کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا ان میں ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا مگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے پناہ دے دی۔ اور اس پناہ کی تفصیل یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب عبداللہ بن ابی سرح کو معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل کا حکم دیا ہے تو یہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان بن عفانؓ کے پاس ان کی پناہ لینے چلا گیا اور ان سے کہنے لگا کہ اے بھائی اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گردن ماریں مجھے ان سے امان دلوا دو۔ سیرۃ الحلبیۃ میں یہ لکھا ہے۔ بہرحال حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ وہ آپؓ کے گھر میں تین چار دن چھپا رہا۔ ایک دن جبکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکّے کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ بن ابی سرح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو کچھ دیر تامل فرمایا مگر پھر آپؐ نے اس کی بیعت لے لی اور اس طرح دوبارہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد6صفحہ139) (السیرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ130 باب ذکر مغازیہ/فتح مکہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
اَور بھی اس کی بہت ساری باتیں تھیں جس کی وجہ سے، فتنہ اور فساد کی وجہ سے اور بھڑکانے کی وجہ سے بھی یہ حکم دیاگیا تھا۔ صرف ایک ہی وجہ نہیں تھی کہ یہ مرتد ہو گیا تھا اس لیے قتل کا حکم دے دیا۔
عاصم بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت وَہْبؓ نے مکّے سے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپؓ نے حضرت کلثوم بن ھِدم کے ہاں قیام کیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت وَہْبؓ اور حضرت سُوَیْد بن عَمروؓ کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا یعنی یہ دونوں بھائی بنے تھے۔ آپ دونوں جنگ مؤتہ کے دن شہید ہوئے۔ حضرت وَہْبؓ غزوۂ بدر، احد، خندق اور حدیبیہ اور خیبر میں شریک ہوئے اور آپؓ جمادی الاولیٰ 8ہجری میں جنگ مؤتہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے روز آپؓ کی عمر 40 سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ217، وھب بن سعد، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
جنگ مؤتہ کیا تھی یا اس کے اسباب کیا تھے؟ اس کا طبقات الکبریٰ میں کچھ ذکر ہے۔ یہ جنگ جمادی الاولیٰ سنہ 8ہجری میں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حَارِث بن عُمَیرؓ کو قاصد بنا کر شاہ بُصْریٰ کے پاس خط دے کر بھیجا۔ جب وہ مُؤْتَہ کے مقام پر اترے تو انہیں شُرَحْبِیْل بن عَمْرو غَسَّانِی، (شرحبیل جو تھا وہ سیرۃ الحلبیۃ کے مطابق قیصر کے شام پر مقرر کردہ امراء میں سے ایک تھا، اس)نے روکا اور ان کو شہید کر دیا۔ حضرت حارِث بن عمیرؓ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کوئی قاصد شہیدنہیں کیا گیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سانحے کی اطلاع پہنچی تو آپؐ پر یہ بہت گراں گزرا۔ اس کا بہت افسوس ہوا۔ آپؐ نے لوگوں کو جنگ کے لیے بلایا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ ان کی تعداد تین ہزار تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سب کے امیر حضرت زَید بن حارِثہؓ ہیں اور ایک سفید جھنڈا تیار کر کے حضرت زیدؓ کو دیتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ حضرت حارِث بن عمیرؓ جہاں شہید کیے گئے ہیں وہاں پہنچ کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے۔ نہیں تو ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ان سے جنگ کریں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 314 سریہ مؤتہ دار احیاء التراث العربی1996ء) (السیرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ 96 باب ذکر مغازیہ /غزوہ مؤتہ، مطبوعہ دار الکتب اللعلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت وَہْبؓ بھی اس جنگ میں شامل تھے۔ اس جنگ کی تفصیل مزید بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سریہ مؤتہ کے لیے حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر زیدؓ شہید ہو جائیں تو جعفرؓ امیر ہوں گے اور اگر جعفرؓ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رَوَاحہؓ تمہارے امیر ہوں گے۔ اس لشکر کو جَیْشِ امراء بھی کہتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ مؤتۃ من أرض الشام حدیث 4261) (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 505 حدیث 22918 مسند ابو قتادہ انصاری مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اس کی تفصیل میں حضرت مصلح موعودؓ نے اتنا ہی لکھا ہے کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس وقت وہاں قریب ایک یہودی بھی بیٹھا تھا۔ اس نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تو حضرت زیدؓ کے پاس آ یا اور آ کر کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو تم تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کے واپس نہیں آئے گا۔ اس پر حضرت زیدؓ نے کہا کہ مَیں زندہ بچ کے آؤں یا نہ آؤں لیکن یہ بہرحال سچ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول اور نبی ہیں۔ (ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 405-406)
اس جنگ کے حالات کی، شہدا کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی۔ اس بارے میں ایک روایت ہے حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیدؓ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوئے۔ پھر جعفرؓ نے اسے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہؓ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ یہ خبر دیتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ پھر جھنڈے کو خالدؓ بن ولیدنے بغیر سردار ہونے کے پکڑا اور انہیں فتح حاصل ہوئی۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب الرجل ینعی الیٰ اھل المیت بنفسہ حدیث 1246)
اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔