وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے(۱)
آصف محمود باسط
توکل علی اللہ کا مضمون اس قدر گہرا ، وسیع اور اپنے اندر روحانیت کے گہرے معارف لئے ہوئے ہے کہ خاکسار کو اس پر کچھ بھی کہنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔ نہ تو مجھے اس بحرِ بے کنار کی وسعتوں سے واقفیت کا اندازہ ہے اور نہ میرا کوئی مقام و منصب یا تعلیمی قابلیت ہی ایسی ہے کہ اس مضمون پر کچھ لکھ سکوں۔ تاہم کچھ مشاہدات مجھے اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ میں انہیں دوسروں کے علم میں لاؤں کہ میرے نزدیک ایسے مشاہدات ایک قومی امانت کا درجہ رکھتے ہیں۔
خاکسار کو محض اللہ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت اور محبت کے طفیل 2004 میں زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ اور کوئی بات پوری زندگی میں قابلِ ذکر نہیں۔ آج جو کچھ عرض کرنے کا ارادہ کیا ہے، اس کا بھی موقع نہ بنتا اگر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شفقت کا سلوک فرماتے ہوئے اپنے قدموں میں جگہ نہ دی ہوتی۔ کمزوریوں اور خامیوں کی حالت تو یہ ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت اور مجال نہیں ہوتی۔ یہ محض اور محض حضور انور کی شفقت ہے کہ اپنے قدموں میں جگہ عنایت فرماتے ہیں۔ ان بیش بہا لمحات میں جب یہ غلام اپنے آقا کے حضور حاضر ہوتا ہے، کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جسے عام لمحوں کی قطار میں کھڑا کیا جا سکے۔ ہر لمحہ اپنے اندر کئی گنج ہائے گراں مایہ لئے ہوئے ہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی خدمت میں تو خاکسار 2004 سے دفتری ملاقات کی غرض سے حاضر ہو رہا ہے۔ مگر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کی خدمت میں خلافت سے قبل بھی حاضر ہونے کا موقع ملا۔ تب حضور ناظر تعلیم کے عہدہ پر فائز تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بی اے کے بعد ایم اے میں داخلہ کا وقت آیا تو میں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر خواہش ظاہر کی کہ خاکسار یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی بجائے پرائیویٹ ایم اے کے امتحانات دے لے۔ حضورنے میرے اس خیال کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ جو exposure یونیورسٹی جا کر ملے گا وہ گھر بیٹھے نہیں مل سکتا۔ اس ارشاد کا ہر حرف درست اور برحق تھا۔ یقیناً جو کچھ یونیورسٹی کی فضا انسان کو بطور تجربہ کے سکھاتی ہے، وہ پرائیویٹ امتحان دے کر نہیں سیکھا جا سکتا۔ یونیورسٹی کے ماحول میں تو بڑے بڑے سکالر، دانشور اور بڑے زبردست کتب خانے ہوتے ہیں۔ انسان لیکچر روم کے علاوہ بھی ، نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ سیکھتا اور سمجھتا ہے ۔ یہ وہ متاع ہوتی ہے جو عمر بھر انسان کے کام آتی ہے۔ مگر آج اس مضمون کے آغاز میں خاکسار یہ تسلیم کرنا چاہتا ہے کہ جو exposureحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے سے ملتا ہے، وہ دنیا کی کوئی لائبریری، کوئی یونیورسٹی، کوئی دانشور نہیں دے سکتا۔ بقولِ شاعر، بس یونہی نور سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل، والی کیفیت ہوتی ہے اور کیا ہی خوب ہوتی ہے۔اگر کوئی ایک بھی لفظ غیر معمولی نہ لگے تو انسان کی اپنی کوتاہ فہمی ہوتی ہے، کیونکہ وہاں تو یہ حال ہے کہ منہ سے جو بات نکل جائے ادب۔
کس بات کا ذکر کیا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ آج صرف توکل کے مضمون پر بات کرتے ہیں۔ باقی کبھی موقع ملا تو پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
عموماً لوگ اس حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کاش ہم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہوتے ۔ یا کاش ہم حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں رہے ہوتے۔ یہ خواہشات یقیناً عشق اور محبت کی غماز ہیں، مگر کیا کریں کہ انہیں حسرت کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس بارہ میں کچھ ہو نہیں سکتا۔ مگر یہی بات کیا فخر کرنے اور دل کی تسلی کے لئے کافی نہیں کہ ہم وہ خوشنصیب ہیں جو خلافت احمدیہ کے زمانہ میں جی رہے ہیں۔ ہم نے وہ زمانہ پایا ہے جس میں ہم آنحضرت ﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے تخت پر آپ کے نائب ، اور جانشین اور خلیفہ کو متمکن دیکھتے ہیں۔ پس توکل کے معاملہ جو کچھ ہم نے سیرت رسول ﷺ اور سیرت مسیح موعود ؑ میں پڑھا سنا، اس کا عکس ہمیں اس شخص میں بہت نمایاں نظر آتا ہے جو انہی دونوں برگزیدہ ہستیوں کے کام کو لے کر آگے چلنے والا اور ان کا نائب اور خلیفہ ہے۔
28 مئی 2010 ، بروز جمعۃ المبارک جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اس ظلم کے حوالہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب ظالم دشمن نے معصوم احمدیوں پر بہیمانہ حملے کر کے ان کی کمر ہمت کو توڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ کئی درجن احمدیوں پر گولیاں برسا کر انہیں شہید کر دیا گیا۔ ہر ٹیلی وژن چینل اس ظلم اور استبداد کے نظارے دکھا رہا تھا۔دنیا بھر میں رہنے والا شاید ہی کوئی احمدی ہوجس کا ذہن و دل اس خونچکاں خبر سے کٹ کر نہ رہ گیا ہو۔ ادھر لندن میں جمعہ کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہر احمدی حسبِ معمول اپنے محبوب خلیفہ کے خطبہ جمعہ کو سننے کے لئے بے قرار تویوں بھی ہوتا ہی ہے، اس روز یہ بے تابی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ادھر ایم ٹی اے میں ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اس صورتحال میں حضور انور شاید مسجد بیت الفتوح تشریف نہ لائیں اورخطبہ جمعہ مسجد فضل لندن سے ارشاد فرمائیں لہذا وہاں بھی تیاری کر لی گئی۔ مگر مسجد فضل لندن سے قافلہ اپنے وقت پر روانہ ہوا، اپنے وقت پر مسجد بیت الفتوح پہنچا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حسبِ معمول عین وقت پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ چہرہ پر وہی سکون جو ہمیشہ، ہر حال میں حضور کے چہرہ ٔ مبارک پر نظر آتا ہے۔وہی سکون جسے دیکھ کر ہم سب سکون حاصل کرتے ہیں۔ پس حضور انور کے پرسکون چہرۂ مبارک کو دیکھ کر جماعت کی آدھی پریشانی تو یوں ہی کافور ہو گئی۔ پھر عام قیاس تو یہ تھا کہ خطبہ صرف اور صرف اسی موضوع پر ہوگا کہ جماعت احمدیہ کی مساجد پر فائرنگ ہو گئی ہے اور بہت سا جانی نقصان بھی ہو گیا ہے۔ مگر عام آدمی کی عقل اور فہم تو اس فراست کی جوتیاں سیدھی کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے چنیدہ خلیفہ کو عطا کر رکھی ہوتی ہے۔ حضور انور نے خطبہ میں جماعت کی دینی و روحانی تربیت کے حوالہ سے ارشادات فرمائے اور آخر پر احبابِ جماعت کو لاہور میں ہونے والے سانحہ سے مطلع بھی فرمایا اور دعا کی تحریک بھی فرمائی۔ ایک جملہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جس میں حضور انور نے فرمایا کہ ابھی معلوم نہیں کہ حملہ آوروں پر قابو پایا جاچکا ہے یا ابھی وہی موجود ہیں۔ یہ ایک بڑا باریک اشارہ تھا کہ اس موقع پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو سکتا ہے، لہذا حضور بھی اسی پر اکتفا کر رہے ہیں اور احباب بھی پریشانی میں افواہوں پر نہ تو کان دھریں اور نہ ہی انہیں مزید ہوا دینے میں بلاواسطہ یا بالواسطہ، دانستہ یا غیر دانستہ حصہ لیں۔
اس تمہید سے جو بات بیان کرنا مقصود تھی، اس کی طرف آتا ہوں۔ اس سانحہ کے روز خطبہ جمعہ سے تھوڑی دیر بعد خاکسار کو حضور انور کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ ہوایوں کہ خاکسار نے ایم ٹی اے کے سلسلہ میں کچھ امور پر رہنمائی کی غرض سے حضور انور کی خدمت میں کچھ روز قبل تحریر کیا تھا۔ اس پر حضور انور نے ازراہِ شفقت تفصیلی نوٹ میں ہدایات سے نوازا اور آخر پر لکھا ’’مزید تفصیل زبانی۔ جمعہ کی شام یا ہفتہ کی صبح‘‘ ۔ خاکسار کا ارادہ تھا کہ جمعہ کی شام کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں حاضر ہو جائے گا۔ اگر حضور انور نے یاد فرمالیا تو پیش ہو جاؤں گا ورنہ ہفتہ کی صبح حاضر ہو جاؤں گا۔ مگر جمعہ کی صبح تو یہ اندوہناک سانحہ ساتھ لے کر آئی۔ ہر احمدی کی طرح مجھے بھی احساس تھا کہ اگر جماعت اس قدر رنج اور غم میں مبتلاہے تو امامِ جماعت کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی۔ وہ کس کرب میں ہوں گے کہ ان کے لئے تو ہر احمدی جس نے اپنی جان دے دی اولاد کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عزیز تھا۔ سوچا کہ اس موقع پر حاضر ہونا شاید مناسب نہ ہو۔ مگر پھر یہ خیال بھی تھا کہ حضور انور کے ارشاد کے برخلاف ازخود کیسے فیصلہ کرلوں؟اسی گومگو کی کیفیت میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں پہنچا۔ مکرم و محترم منیر احمد جاوید صاحب، پرائیویٹ سیکرٹری سے مشورہ کیا۔ انہوں کہا کہ یہیں بیٹھو، اگر یاد فرما لیا تو مل لینا ورنہ پھر کل سہی یا جب یاد فرمائیں۔ خاکسار انتظار گاہ میں بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد پرائیویٹ سیکرٹری صاحب حضور انور کے دفتر سے باہر تشریف لائے اور بتایا کہ حضور نے بلالیا ہے۔
خاکسار عجیب و غریب توقعات لے کر اندر حاضر ہوا۔ حسبِ معمول آسمانِ اسلام سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز تھا۔ کمرہ میں، آپ کے چہرہ مبارک پر، آپ کے کام کرنے کے انداز میں کچھ بھی تبدیلی نہ تھی۔ آپ ہمیشہ کی طرح بڑے اطمینان سے کرسی پر رونق افروز اپنے خداداد کام میں مصروف تھے۔میں سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ ’’کیا کہتے ہو؟‘‘ حضور کا یہ پیار بھرا جملہ سائل کو کچھ عرض کرنے کی ہمت دیتا ہے، ورنہ وہاں از خود بات شروع کر دینے کی مجال کہاں اور کسے۔
خاکسار نے ایم ٹی اے سے متعلق مذکورہ معاملہ پیش کیا اور حضور انور نے ازراہ شفقت بڑی تفصیل سے اس معاملہ پر رہنمائی فرمائی۔ ایسے جیسے اس وقت صرف یہی معاملہ زیر غور ہے اور اسی پر ساری توجہ مرکوز ہے۔ ہم کیا اور ہمارے معاملات کیا، مگر اس شفیق وجود کا حال خاکسار نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جو بات بھی کرو، ادنیٰ سے ادنیٰ ، اسے بھرپور توجہ سے سماعت فرمانا، اس پر غور کرنا اور اس پر پورے اطمینان کے ساتھ رہنمائی فرمانا آپ ہی کا خاصہ ہے۔ عام آدمی کو تو دو معاملات بیک وقت درپیش ہو جائیں تو الجھ کر رہ جاتا ہے بلکہ زچ ہو کر جھلاہٹ کا اظہار بھی کر دیتا ہے۔ مگر وہ جسے خدا اپنے کاموں اور اپنے بندوں کی امامت کے لئے چنتا ہےیہ اسی کا خاصہ ہے کہ قرطاسِ خیال پر ہزارہا مسائل اپنے نقش و نگار بنا رہے ہوں، مگر وہ ہر بات کو اس کے مقام پر رکھ کر اسے سلجھاتا چلا جاتا ہے۔ سائل کو محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت صرف اسی کا مسئلہ حضور کا مسئلہ بن گیا ہے، اور یہ احساس ہی بذاتِ خود تریاق ہو جاتاہے۔
تو اس عجیب و غریب گھڑی میں بھی یہی محسوس کیا۔ حضور کی توجہ اور رہنمائی نے میرے مسئلہ کو حل کر دیا۔ حضور کی خدمت میں حاضر ہونے والے احباب جانتے ہیں کہ ملاقات کا اختتام بھی ایک عجیب مرحلہ ہوتا ہے۔ دل میں حضور کے وقت کی قدر و قیمت کا احساس ہوتے ہوئے بھی ازخود اٹھ کھڑے ہونا بے ادبی نہ لگے۔ بیٹھے رہنا حضور کے وقت کے ضیاع کا موجب نہ ہو۔ ایسے میں وہ پیار اور محبت سے بھری حتمیت کہ ’’اور؟ بس؟چلو پھر!‘‘ سائل کی کشمکش کو آسان کردیتی ہے۔ انہی الفاظ کے ساتھ خاکسار اس روز بھی اٹھا۔ مگر اس روز تو ایک اورکشمکش بھی دامنگیر تھی اور وہ یہ کہ پاکستان کے معصوم احمدیوں پر قیامت گزر گئی اور میں چپ چاپ اٹھ کر چلا آؤں۔ تعزیت کرنا تو مسنون ہے، مستحب، مستحسن ہے اور پھر وہ بھی اس سے جس کے 80 سے زائد بچے بے دردی سے شہید کر دئیے گئے ہوں۔خدا نے ہمت دی تو عرض کی کہ ’’حضور، آج کے سانحہ کا بہت افسوس ہوا‘‘۔
عموماً ایسی باتوں کا اظہار ایک متوقع ردِّ عمل اور جواب لئے ہوئے ہوتا ہے۔ مگر حضور نے بڑے تحمل، بڑی بردباری، بڑے وقار اور حوصلہ کے ساتھ فرمایا ’’ہاں! افسوس تو ہے! خدا جانے آگے کیا ارادے ہیں ان کے! ابھی آگے آگے پتہ نہیں کیا کریں گے۔ مگر اپنی تباہی اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے ہیں۔ میں تو یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں‘‘۔
سبحان اللہ۔ خدا کا یہ جرنیل، جو حق کا جھنڈا اٹھائے ہوئے باطل کے خلاف نبرد آزما ہے۔ جا الحق و زھق الباطل پر ایسا پختہ ایمان اللہ کے فرستادوں کے سوا اور کسے حاصل ہو سکتا ہے۔
ہم نے ہر غم سے نکھاری ہیں تمہاری یادیں
عسر ہو یسر، تنگی ہو کہ آسائش ہو، خدا کے اس جرنیل کی نظر خدا کے دین کے غلبہ پر لگی ہے۔ بے تحاشا خون بہہ جانے کا کرب دل میں ہے، مگر اسے دل میں مہمان بنا کر بٹھا ہی نہیں لیا بلکہ اس کرب کو بھی خدا کے حضور پیش کر دیا ہے۔ ان جانوں کے ساتھ ساتھ جو راہِ مولا میں قربان ہو گئیں، اپنا کرب اور درد بھی اسی خدا کے حضور پیش کر دیا۔ یہ سانحہ تو ہوگیا، اب آگے کیا کرنا ہے، کیا ہونے والا ہے، باطل کیسا ظلم کرے گا اور مجھےجو خدا نے حق کا علم تھمایا ہے، میں اسے کس طرح بلند سے بلند تر کرتا چلا جاؤں گا۔ اپنی جماعت کی کمرِ ہمت کس طرح کسے رکھوں گا کہ وہ بھی اس علم کو میرے ساتھ تھامے رکھیں اور اسے بلند کرنے کی فکر میں رہیں۔ مگر یہ اندیشے نہیں۔ بلکہ وہ ممکنات ہیں جو خدائے قادر کے اس محبوب ترین بندہ نے خدا ہی کے سپرد کر دی ہیں۔ توکل کی مثال ایسی قائم کر دی ہے کہ ہر فردِ جماعت کے لئے ، بلکہ امتِ مسلمہ بلکہ بنی نوع انسان کے لئے ایک عظیم الشان نمونہ بن گئی ۔
پھر بعد میں اپنے خطبات میں حضور انور نے اس سانحہ کا ذکر بھی کیا مگر کمال تحمل کے ساتھ۔ دنیا اسے تحمل کہتی ہے، مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ تحمل سے بھی زیادہ توکل کا عالی شان مقام ہے جو اپنے اندر آنحضرت ﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا پرتو لئے ہوئے ہے۔ پھر ایک اور بات بھی تو ہے۔ اس سال جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر حضور نے اس سانحہ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ذرا سوچیں کہ اسی قدر اظہار پر تمام جماعت کے دل کپکپا کر رہ گئے،تو اگر حضور کبھی اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کھل کر کر دیں تو شاید ہمارے کلیجے پھٹ جائیں اور ہم اس کی تاب ہی نہ لا سکیں۔ پس اس دور میں توکل کی بہترین مثال بننے والا یہ شخص جب اپنے کرب کو خدا کے حضور پیش کرتا ہوگا، تو کیا حشر بپا ہوتا ہوگا۔ یہ تو اللہ اور اس کا خلیفہ ہی جانتے ہیں، مگر اس کے تصور سے بھی دل کانپ اٹھتا ہے۔
پھر ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں۔ 26 ستمبر 2015 کو مسجد بیت الفتوح لندن سے ملحقہ کمپلیکس میں آگ لگ گئی۔ پہلے پہل تو یہ لگا کہ شاید باورچی خانہ میں کوئی بے احتیاطی ہوئی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں الارم وغیر ہ بج گئے ہوں گے۔ خاکسار اس وقت محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کے ساتھ ان مقامات کی فلمنگ کرنے لندن کے ان حصوں کی طرف گیا ہوا تھا جہاں حضرت المصلح الموعود ؓ نے دورۂ لندن کے دوران قیام فرمایا تھا یا خطابات ارشاد فرمائے تھے۔ ہم واپس آ ہی رہے تھے کہ میرے ایک رفیق کار قاصد معین احمد صاحب کا ٹیکسٹ میسج ملا کہ بیت الفتوح میں فائر الارم بج رہے ہیں(ہمارے ایم ٹی اے دفاتر اور سٹوڈیوز بیت الفتوح میں واقع ہیں)۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا کہ کبھی صرف ٹیسٹ کےطور پر الارم بجائے گئے ہوں اور کبھی یہ کہ باورچی خانہ سے اٹھنے والے دھویں کو آگ کا دھواں سمجھ کر الارم بول اٹھے ہوں۔ مگر پھر پیغام آیاکہ بیت الفتوح اور اس سے متصل کمپلکس اور ایم ٹی اے کے دفاتر میں موجود سب لوگوں کو کہا گیا ہے کہ بلڈنگ خالی کر دیں اور بیت الفتوح کے احاطہ سے بالکل باہر چلے جائیں کیونکہ آگ پھیل رہی ہے۔ اب معاملہ کی سنگینی اور شدت سے کا اندازہ ہوا۔ محترم میر صاحب کو واپس گیسٹ ہاؤس اتار کر گاڑی کا رخ بیت الفتوح کی طرف موڑا اور وہاں پہنچ کر جو کچھ دیکھا، وہ دل کو دہلا دینے والا منظر تھا۔ سیاہ و سفید دھویں کی دبیز لہریں کمپلیکس سے اٹھ کر فضا میں بلند ہو رہی تھیں۔ عمارت کا سامنے والا حصہ جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔ گاڑی جہاں تہاں کھڑی کر سکتا تھا، کھڑی کی اور دوڑ لگا کر مسجد کے سامنے موجود اپنے رفقأ کار کے ساتھ کھڑے ہوکر اس منظر کو دیکھنے لگا۔ وہاں موجود ہر فرد بے حد پریشان تھا۔ اندر دفاتر تھے، دفاتر کے ریکارڈ تھے، اور ہمارے لئے تو سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ اندر ہماری ایم ٹی اے کی وڈیو لائبریری تھی جس میں خلفا کرام کی ان گنت وڈیوز محفوظ تھیں۔ کئی لاکھ پاؤنڈ کا قیمتی سامان تھا جو ہمارے سٹوڈیوز میں نصب تھا۔ میرے دماغ میں میرے دفتر کا نقشہ گردش کر رہا تھا۔ آٹھ، دس سال پر محیط حضور انور کی طرف سے موصول ہونے والے، آپ کے دست مبارک سے تحریر کئے ہوئے سینکڑوں ارشادات تھے۔ حضور کا تحریر کردہ تو ہر حرف ہمارے لئے موجبِ رہنمائی ہوتاہے، وہاں تو ایک بہت قیمتی اثاثہ تھا۔ ان بیش قیمت خطوط کی سوچ دل و دماغ پر چپکی ہوئی تھی۔ ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا کہ دھویں کے بادل جب بلند ہوئے تو ان میں بہت سے جلے ہوئے کاغذ بھی ہوا میں تیرتے ہوئے نظر آئے۔ دل اور بھی گھبراگیا۔ یا اللہ۔ یہ وہ خطوط نہ ہوں جن پر تیرے محبوب نے اپنے ہاتھ سے الفاظ تحریر فرمائے ہوئے ہیں۔اپنے آپ کو ملامت بھی کرتا رہا کیونکہ کئی بار خیال بھی آیا تھاکہ ان خطوط کو سکین کر کے محفوظ کر لیا جائے۔ کسی اور مقام پر ان کی نقول رکھ لی جائیں مگر کیسی کوتاہ اندیشی تھی۔ ہمیشہ یہی رہا کہ انشا اللہ کبھی ضرور کریں گے۔ اس روز بہت سے سبق جو میں سیکھے ان میں سے ایک تو یہ تھا کہ خلیفہ وقت کی تحریر موصول ہوتے ساتھ اس کی نقول رکھ لینی چاہئیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت بہت ہے۔ مگر فرد کا وقت اور قوم کا وقت دوالگ جہات ہیں۔ جہاں خدا کے فرستادہ کی بات ہو، وہاں Time and Space کا تصور بدل جاتا ہے۔ کبھی بھی فرد کے وقت کو اور ملت کے وقت کو ایک ہی دریا کے دو مساوی دھارے نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمارا انفرادی وقت ایک سست رو دھارا ہے اور جماعت کا وقت ایک سبک خرام ، ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے جو پہاڑوں، چوٹیوں، میدانوں کو سر کرتاکہیں کا کہیں نکل جاتا ہے۔ ہمارا انفرادی وقت ایک اور جہت ہے اور قومی وقت ایک الگ جہت سے تعلق رکھتا ہے۔ جماعتی کام کی بات ہو تو ہمارا ضائع کیا ہوا ایک بھی لمحہ ہمیں آئندہ نسلوں کے سامنے جوابدہ کر سکتا ہے۔ اسی پچھتاوے اور ملال میں کھڑا میں اس دھویں کو دیکھتا رہا۔
اسی روز شام کو پروگرام ’’راہِ ہدیٰ‘‘ لائیو نشر ہونا تھا۔ مگر بیت الفتوح کی انتظامیہ نے بتایا کہ فائر بریگیڈ کا کہنا ہے کہ تا اطلاع ثانی اندر کوئی نہیں جاسکتا کیونکہ ابھی معلوم نہیں کہ آگ کا پھیلاؤ رک گیا ہے یا ابھی یہ کسی اور طرف بھی رخ کر سکتا ہے۔ اس اطلاع کے ساتھ ہی خاکسار نے کسی لائیو پروگرام کو کینسل کرنے کے طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ پروگرام نشر ہونے کی تو کوئی صورت نہیں، لہذا آج پروگرام لائیو نشر کرنے کی بجائے گزشتہ پروگرام کو مکرر نشر کر دیا جائے۔
پھر خبر ملی کہ آگ نے وڈیولائبریری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔یہ سن کر دل بیٹھ گیا۔
ابھی یہ خبر آئی ہی تھی کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے نمبر سے فون آئے تو مطلب ہوتا ہے ’’فوری، ضروری‘‘۔ فوراً فون اٹھایا تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مختصر مگر جامع پیغام دیا کہ ’’حضور یاد فرما رہے ہیں‘‘۔ بلاتوقف اپنی گاڑی مسجد فضل کی طرف دوڑ ا دی۔ اس پر بھی خدا کا شکر کیا کہ اتفاقاًگاڑی ایسی جگہ ہی کھڑی کر آیا تھا جو آمد و رفت کے ممنوعہ علاقہ سے باہر تھی۔ بے طرح دوڑتے ہوئے گاڑی تک پہنچا اور گاڑی مسجد فضل کی طرف روانہ تھی۔ ایسے موقعوں پر بھی خدا کا فضل ہی ہے کہ لندن کی بدنامِ زمانہ ٹریفک کبھی سدِ راہ نہیں بنی۔ 12 یا 15 منٹ میں خاکسار دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں موجود تھا۔
پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ حضور تو ابھی ابھی دفتر سے رہائش گاہ میں تشریف لے گئے ہیں، مگر میں اطلاع بھجوا دیتا ہوں۔ تقریباً دس منٹ بعد ہی حضور کے دفتر کے باہر نصب لائٹ روشن ہوئی، یعنی حضور دفتر میں تشریف لے آئے تھے۔ بلائے جانے پر خاکسار حاضر ہوا۔ آگے جو الفاظ تحریر کروں گا، وہ مجھے یقین ہے کہ میرے حافظہ پر جس طرح نقش ہیں ، اسی طرح ارشاد فرمائے گئے تھے۔ (مفہوم اگرچہ خاکسار نے محفوظ کر لیا تھا)
ارشاد ہوا کہ ’’کیا بات ہے؟ بڑے گھبرائے ہوئے لگ رہے ہو؟‘‘
عرض کی کہ حضورآگ پھیلتے پھیلتے ہماری لائبریری کو بھی جلا گئی۔
’’تو کیا ہوا؟ اس طرح کے واقعات سے جماعتوں کے کام نہیں رک جاتے! ‘‘
افسردگی کے ساتھ عرض کی کہ حضور اس میں خلفا کے پروگرام تھے، اس آرکائیو میں سب جل گئے ہوں گے۔
فرمایا ’’حضرت مسیح موعود ؑ کی آواز ریکارڈ ہوئی تھی گراموفون پر۔ پتہ ہے نا؟ وہ بھی ضائع ہو گئی تھی۔اس سے قیمتی کیا ہو سکتا تھا؟ اس کے ضائع ہو جانے سے جماعت کے کام رکے تو نہیں! کام تو چلتے چلے گئے ہیں! کہ نہیں؟‘‘
عرض کی کہ جی حضور، بالکل ایسا ہی ہے۔ وہاں یہ مجال بھی کسے ہوتی ہے کہ اسقدر ہی کہہ سکے کہ حضور، اس طرف تو توجہ گئی ہی نہیں۔ ہم نادان تو سوگ کی کیفیت میں کھڑے تھے۔
’’تمہیں آگ بجھانی آتی ہے؟‘‘
’’جی نہیں ، حضور!‘‘
’’وہاں وہ تمہیں اندر جانے دیتے ؟ آگ بجھانے کے لئے؟‘‘
’’جی نہیں، حضور!‘‘
’’پھر تمہیں چاہیے تھا کہ فوراً یہاں مسجد فضل آتے اور یہاں کے سٹوڈیو کو تیار کرتے۔ تم سب ایم ٹی اے والوں کو یہاں جمع ہوجانا چاہیے تھا اور دیکھنا چاہیے تھا اب ان حالات میں کیا کیا جائے کہ نشریات میں کسی طرح کا تعطل نہ ہو‘‘
ایسے میں ندامت سے جوحالت ہوئی ہو گی، وہ نہ تو بیان کی جاسکتی ہے اور شاید بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ سبھی تھوڑا بہت اندازہ تو کر ہی سکتے ہیں۔ خاکسار نے حضور سے معذرت چاہی۔ ساتھ ہی ارشاد ہوا
’’اب یہاں بیٹھو اور ایم ٹی اے پر دینے کے لئے نیوزbulletin تیار کرو۔ لیکن تم نے تو شاید کچھ کھایا ہوا بھی نہیں ہے۔ شکل سے پتہ چل رہا ہے۔ بھوکے پیاسے ہو۔ پہلے باہر جاؤ، کچھ کھاؤ پھر یہ تیار کر کے واپس لاؤ‘‘
خاکسار باہر آیا۔حضور کے لئے محبت سے دل سرشار ہو رہا تھا۔ ایسے میں بھی اس ادنیٰ، نالائق اور نااہل غلام کی بھوک کا خیال فرمایا۔ایسا بادشاہ دنیا میں کس نے دیکھا ہوگا کہ اپنے ایک ادنیٰ چاکر کی بھوک کا بھی خیال کرے، وہ بھی ایسی ہنگامی حالت میں۔ اس بادشاہ کو تو کروڑوں لوگوں کی بھوک اور پیاس کا احساس رہتا ہے۔ عام بھوک بھی اور روحانی پیاس بھی۔ جی چاہا کہ سب کچھ حضور پر قربان کر دوں۔ مگر کیا قربان کروں؟ سبھی کچھ اللہ کے فضل سے آپ ہی کا دیا ہوا تو ہے۔
ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے سامنے ہی پڑے ہوئے بسکٹ کھائے۔ اور خبر تیار کرنے لگا۔ خبر میں دینے کے لئے حقائق کی باوثوق ذرائع سے تصدیق ضروری تھی۔ آگ کب لگی، کہاں تک پھیلی، ابھی بھی پھیل رہی ہے یا کس حد تک قابو پا لیا گیا ہے وغیرہ۔ یہ اطلاعات حاصل کرکے خاکسار نے ایک خبر تیار کی جو ایم ٹی اے پر پڑھی جانی تھی۔دنیا بھر کے معتبر اخباری چینل اس آگ کی خبر نشر کر رہے تھے۔ دنیا بھر کے احمدی تشویش کا شکار تھے۔ حضور انور کے پیش نظر یہی تشویش ہوگی کہ جس کے باعث حضور نے خود اپنی نگرانی میں خبر تیار کروائی۔
خبر تیار ہوجانے پر خاکسار خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ حضور نے خبر کے متن کا بغور مطالعہ فرمایا۔ خود بھی ایک فون کیا اور تازہ ترین صورتحال کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ پھر خبر کے متن کی منظوری دینے سے قبل ایک درستگی فرمائی۔ خبر میں لکھا تھا کہ ’’لندن فائربریگیڈ کے بیان کے مطابق آگ پر قابو پا لیا گیاہے، اور اب آگ کو بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔
حضور نے تصحیح فرماتے ہوئے اس جملہ سے قبل اضافہ فرمایا ’’اللہ کے فضل سے۔۔۔‘‘
ساتھ ہی فرمایا کہ ’’ خود انہوں نے کیا قابو پانا تھا۔۔۔‘‘
پھر حضور انور کی خدمت میں عرض کی گئی کہ پروگرام ’’راہِ ہدیٰ‘‘ لائیو نہیں ہو رہا بلکہ گزشتہ پروگرام مکرر نشر کیا جائے گا۔ حضور نے فرمایا کہ’’ پروگرام لائیو ہوگا۔ ابھی ابھی یہاں کا سٹوڈیو تیار کرواؤ اور پروگرام کی تیاری کرو۔ جماعت کا کوئی کام چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہیں رک جاتا‘‘۔
عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم ہنگامی صورتحال سمجھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، سب پریشان ہیں۔ مگر خلیفۂ وقت کا ہر ہر حرف، ہر عمل، ہر اشارہ زبانِ حال سے بتارہا ہے کہ خلیفہ خدا کا انتخاب ہوتا ہے۔تبھی تو اس کی نظر افق سے بھی آگے تک دیکھتی ہے۔ ہمیں افق پر آگ کا دھواں نظر آرہا ہے۔ اس سے آگے نظر دھندلا رہی ہے۔ گھبراہٹ طاری ہے۔ مگر خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کی نظر افق پر پھیلے دھویں کے بادلوں سے بہت آگے دیکھ رہی ہے۔ انگریزی میں smoke screen کی اصطلاح ایسے اعمال یا ایسی باتوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جس کے پیچھے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جائے۔ دنیا ہر طرح کی smoke screen کے ذریعہ، یہاں تک کہ لفظی و معنوی اعتبار سے بھی، ہماری نظر کو حقائق سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم کوتاہ بین اس سے آگے دیکھ بھی نہیں سکتے اگر وہ دیدۂ بینا میسر نہ ہو کہ جس کا نام قرآن کریم نے خلافت رکھا اور جسے آنحضرت ﷺ نے ڈھال قرار دیا اور جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں یہ بشارت دی کہ یہ نعمت ہمیشہ تم میں رہے گی کہ تمہاری حفاظت کرے، تمہیں وہاں کی خبر دے جہاں تک تمہاری آنکھ نہیں دیکھتی، تمہیں ہوش دےگی، عقل دےگی، شعور دے گی اور ہر وہ چیز دے جو خیر کے ضمرہ میں آتی ہے۔قرآن کریم نے تو حتمی فیصلہ فرما دیا ہے کہ تمہاری آنکھ خدا تک نہیں پہنچتی، مگر وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے۔ مگر خلافت تمہاری آنکھوں کو ایسا بنا دے گی کہ وہ خدا کی تجلی کو جذب کرنے کے قابل ہو سکیں۔
ایم ٹی اے پر وہ خبر بھی نشر ہو گئی۔ اس روز ’’راہِ ہدیٰ‘‘ بھی براہِ راست نشر ہو گیا۔ پروگرام میں لائیو کال کی سہولت ہوتی ہی ہے۔ اس روز تو ہر دوسرے کالر نے پروگرام میں نہ سہی مگر آف لائن آگ کے بارہ میں تشویش ظاہر کی۔ پروگرام کے آخر میں خبر کا متن دوبارہ سنا دیا گیا اور تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا۔
پروگرام کے اختتام پر خاکسار اوپر سٹوڈیو سے نیچے آیا کہ جاکر حضور کی خدمت میں اطلاع بھیج دوں کہ پروگرام بخیریت نشر ہوگیا اور کسی بھی قسم کی دقت نہیں ہوئی۔ مگر نیچے اتر ا تو معلوم ہوا کہ بیرون ملک سے آیا ہوا کوئی وفدحضور انور سے شرف ملاقات حاصل کر رہا ہے۔ یہ ملاقات محمود ہال میں ہو رہی تھی۔ مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ خاکسار محمود ہال کے اس دروازہ کے باہر کھڑا ہو گیا جہاں سے توقع تھی کہ حضور انور مسجد میں تشریف لے جائیں گے۔ آڈیو سسٹم پر حضور کی آواز اور سامعین کی آوازیں باہر تک آرہی تھیں۔ان اطفال اور خدام نے جی بھر کے حضور کی خدمت میں بیٹھنے کاموقع حاصل کیا۔ سوالات پوچھے۔ حضور نے جوابات عطا فرمائے۔ ان کے مسائل سنے، رہنمائی فرمائی، ہدایات سے نوازا۔ ان سے ہلکی پھلکی گفتگو بھی کی ۔ وہ سب حضور کی گفتگو سے مستفید بھی ہوتے رہے اور محظوظ بھی۔ کہیں مجلس پر افسردگی یا رنج وملال کا شائبہ تک محسوس نہ ہوا۔ یقیناً حضور کے دل میں یہ تڑپ تو ہو گی کہ جلد معلوم ہو کہ آگ کے حوالہ سے تازہ ترین صورتحال کیا ہے، مگر یہ وہی شخص تو تھا جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ساری خبر پڑھ کر یہ الفاظ درج کئے تھے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔۔۔‘‘۔ پس خدا کا خلیفہ تو اللہ کے فضلوں پر نظر رکھے ہوئے، مزید فضلوں کا امید وار تھا۔ بھلا توکل کے اسقدر بلند معیار پر فائز مردِ خدا کے پیچھے چلنے والی جماعت کیونکر کمزور ہو سکتی ہے۔ حضور کا یہ توکل ہمارے لئے ایک بے مثال نمونہ ہے۔ پھر اگلے خطبہ میں حضور نے پورے واقعہ پر روشنی ڈالی، جماعت کو تسلی دی اور اس توکل کی طرف کھینچ لائے جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما رکھا ہے۔ اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے کی تلقین فرمائی اور اپنی نگاہ ہمیشہ اونچی رکھنے کی تعلیم سے نوازا۔
ابھی کچھ روز قبل پاکستان کے قانون ’’نافذ‘‘ کرنے والے ادارے تحریک جدید انجمن احمدیہ کے دفاتر پر نہایت جارحانہ طرز پر حملہ آور ہوئے اور معصوم مربیان سلسلہ اور کارکنان کو بلا جواز قید کر کے لے گئے۔ اسی روز صبح خاکسار کی ملاقات تھی۔ خاکسار حاضر ہوا۔ تو پھر توکل کا اعلیٰ نمونہ دیکھا۔ فکر بھی ہے، پریشانی بھی ہے مگرایسا نہیں کہ بس پریشانی لے کر بیٹھے ہوں۔ نظر اور امید اللہ تعالیٰ کی ذات پر لگی ہوئی ہے۔ کچھ ہی دیر میں ایک صحافی حضور کا انٹر ویو کرنے کے لئے آنے والے تھے۔ انہیں انٹرویو دیا اور اس انٹرویو کا ہر لفظ بھی توکل علی اللہ کے مضمون کو اجاگر کرنے والا ہے۔ ظلم کرنے والے ظلم کرتے رہیں، مگر ہم نہ تو قانون کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہیں اور ظلم کا جواب ظلم سے دیتے ہیں ۔ ہم اپنی تمام التجائیں خدا تعالیٰ کےحضور ہی پیش کرتے ہیں۔ قلم اور میڈیا کے ذریعہ پر امن احتجاج ضرور کرتے ہیں کہ اگر یہ بھی نہ ہو تو ہم ظالم کا ساتھ دینے والے بن جائیں گے۔ یہ تھا خلاصہ اس انٹرویو کا۔
جماعت پر ہونے والے مظالم سے ایک اور واقعہ یاد آیا جو حضور انور کے عظیم الشان توکل، تشکر، بلند حوصلہ اور دوربینی کا پتہ دیتا ہے۔ یہ 2008 کی بات ہے کہ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ پرہونے مظالم کی ماہانہ رپورٹ ایم ٹی اے پر Persecution News کے نام سے نشر کی جایا کرے۔ فوری طور پر اس کی تیاری کی گئی اور جو پہلی رپورٹ تیار ہوئی وہ نشر کرنے سے قبل بغرضِ ملاحظہ حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی تا کہ معلوم ہو سکے کہ رپورٹ حضور انور کے منشا کے مطابق ہے یا نہیں۔ریکارڈنگ کے ساتھ حضور کی خدمت میں جو خط ارسال کیا گیا، اس پر حضور انور کی طرف سے نہایت ہی حوصلہ افزا نوٹ موصول ہوا۔حضور نے تحریر فرمایا تھا
’’اچھی کوشش ہے۔ اللہ اور بہتر کرنے کی توفیق دے۔ آئندہ پروگرام کب آئے گا؟‘‘
ہم سب کے لئے یہ بہت حوصلہ افزا بات تھی۔ حضور کے یہ الفاظ ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک گئے۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اگلے پروگرام کی تیاری شروع کر دی گئی۔ اس مرتبہ ہم نے جماعتی اداروں کے قومیائے جانے، اور ان کی شکست و ریخت کی حالت اور ربوہ میں عام شہری سہولیات کی عدم فراہمی کے موضوع پر پروگرام کی تیاری شروع کر دی۔ ٹی آئی کالج وغیرہ کی تصاویر منگوائی گئیں، ربوہ کی شہری سہولیات جو حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ مہیا کریں ان کے نظر انداز کئے جانے پر رپورٹیں جمع کی گئیں، ربوہ میں مختلف جماعتی عہدیداران کے انٹرویو ریکارڈ کئے گئے اور ہم نے بھرپور تیاری کے ساتھ دوسرا پروگرام تیار کر ڈالا۔ اس وقت خاکسار کے ساتھ اس پروگرام میں محترم عابد وحید خان صاحب اور محترم مشہود اقبال صاحب (انگریزی اور ار دو میں بالترتیب) شریک گفتگو ہوا کرتے تھے۔ پروگرام حضور انور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ و رہنمائی ارسال کیا گیا۔پیر کے روز پروگرام بھیجا اور انتظار شروع کر دیا کہ حضور کی طرف سے جواب آئے۔ اس روز شام کو کوئی جواب نہ آیا۔ اگلے روز بھی کوئی جواب نہ آیا۔ مگر رات کو، یعنی منگل کی رات محترم عابد خان صاحب کا فون آیا کہ ان کی شام کو حضور انور سے ملاقات تھی۔ اور پروگرام حضور کو پسند نہیں آیا۔ حضور نے فرمایا کہ خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر ہو۔ منگل کی رات کا وقت ہے۔ اگلے روز کی دفتری ملاقات لکھوائی نہیں جاسکتی کہ اس وقت تک اگلے روز کی ملاقاتوں کی منظوری آچکی ہے۔ بدھ کے روز ملاقات لکھوانے کے لئے حاضر ہوا۔ معلوم ہوا کہ جمعرات کو دفتری ملاقات نہیں ہوتی، اور نہ ہی جمعہ کے روز ہوتی ہے۔ لہذاملاقات کا امکان ہفتہ کی صبح سے پہلے نہیں ہے۔ ہفتہ کی صبح ملاقات کی درخواست داخل کر دی۔ مگر بدھ کا سارا دن، پھر جمعرات کا سارا دن اور پھر جمعہ کا سارا دن جس بے چینی اور پریشانی میں گزارا وہ بیان کرنا مشکل ہے۔ حضور نےاپنے قیمتی وقت میں سے نصف گھنٹہ نکالا ۔ اور ہمارا ایک کام حضور کی طبیعت پر بوجھ بنا۔ حضور کے لئے ناگواری کا باعث ہوا۔ اپنی خوش اعتمادی پر غصہ آتا رہا۔ یہ بھی خیال آتا رہا کہ جب پسندیدگی کا خط آیا تھا تو جشن منانے سے زیادہ توبہ اور استغفار کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔ ایسا تھوڑا ہی تھا کہ ہم نے کوئی معرکہ مار لیا تھا۔ یہ تو حضور کی شفقت تھی کہ پسند فرمایا۔ یہ تو ہمارے ظرف کا امتحان تھا۔ اگلی کوشش بہت احتیاط اور بہت زیادہ دعا کے ساتھ کرنا چاہیے تھی۔ یہ ہم کیا کر بیٹھے!! اسی بے قراری اور بے کلی میں یہ درمیانی شب و روز بسر ہوئے۔
ہفتہ کی صبح ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو دل کا عجیب حال تھا۔ انسان چاہےکتنی مرتبہ ہی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ہو، ہر بار اسی طرح محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہلا تجربہ ہے۔ اور میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ ہر ملاقات ہی پہلے تجربہ کی طرح ہوتی ہے کیونکہ ہر ملاقات میں انسان کوئی نئی بات سیکھ کر نکلتا ہے۔
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
معرفت کے ان نئے نئے موتیوں کو ہم اپنی جھولیوں میں کب تک سمیٹے رکھتے ہیں، ہم ان پر عمل کرتے ہیں یا نہیں، انہیں یاد رکھتے ہیں یا نہیں، انہیں اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں یا نہیں یہ اپنے اپنے نصیب اور کوشش کی بات ہوتی ہے۔ہر ملاقات میں ملنے والے سبق کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا یقیناً اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن میری تو واقعی پہلی دفتری ملاقات تھی۔ وہ بھی اس حال میں کہ میرا کوئی فعل حضور کی ناپسندیدگی کا باعث ہوا۔امی نے بچپن میں جتنی دعائیں یاد کرائی تھیں، سب پڑھ ڈالیں۔ بوکھلاہٹ میں سفر تک کی دعا پڑھ لی۔ خیر! انتظار کے یہ کٹھن لمحات صدیوں کی طرح گزرے۔ یاد فرمایا۔ خاکسار حاضر ہوا۔ اور خیال یہ کہ جاتے ساتھ سخت سرزنش ہوگی۔ یہ خیال بھی کہ اگرچکرا کر گر گیا تو کیا تماشہ کھڑا ہوگا۔
نظریں زمین پر گاڑے داخل ہوا تو نہایت ہی محبت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی
’’ہاں جی ! کیا کہتے ہو؟‘‘
خاموشی کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ حضور نے فرمایا
’’لگتا ہے بہت پریشان رہے ہو!‘‘
عرض کی کہ جی حضور، تینوں دن پریشانی اور ندامت میں ہی گزرے ہیں۔ فرمایا
’’تین دین؟ چاروں دن کیوں نہیں؟ میں نے تو چار دن پہلے پیغام بھجوایا تھا۔ پریشانی میں دعا بھی زیادہ ہوتی ہے‘‘
(یہ سبق بھی مل گیا کہ خلیفۂ وقت کے سامنے کبھی بھی اٹکل اور اندازوں سے بات نہیں کرنی چاہیے، خواہ محاورۃ ہی کیوں نہ ہو)
عرض کی کہ حضور وہ پروگرام غلط بن گیا۔ بہت معذرت چاہتا ہوں۔ فرمایا کہ ’’میں نے پہلے خط پر لکھا تھا کہ اللہ بہتر کرنے کی توفیق دے۔ میرا خیال تھا کہ آکر پوچھو گے کہ بہتر ی کی کوشش کے لئے کیا کرنا ہے؟‘‘
میں اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔ میں تو سرزنش کی توقع لئے ، خوف زدہ حالت میں حاضر ہوا تھا۔ یہاں تو محبت اور شفقت کا یہ حال ہے کہ ایک بحرِ بے کنار ہے۔ میں کیسے عرض کرتا کہ حضور اگر مجھے یہ اندازہ بھی ہو جاتا کہ اس ارشاد سے حضور کا منشا ٔ مبارک کیا ہے، تو میں سر کے بل چل کر حاضر ہوتا۔
اس کے بعد حضور انور نے بڑی محبت سے فرمایا کہ یہ پروگرام دوبارہ کیا جائے۔ حضور نے فرمایا کہ کبھی بھی جماعت پر ہونے والے مظالم کا ذکر اس طرح نہیں کرنا کہ جیسے یہ مظالم ہماری کمر ہمت کو توڑ گئے ہیں۔ ایسا کبھی خیال بھی نہیں کرنا کہ یہ مظالم ہمار اکچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ اور پھر ٹی وی پر کی گئی بات تو ہر احمدی تک پہنچتی ہے۔ اس لئے کسی بھی پروگرام کے ہر لفظ کو تول کر بولنا چاہیے، مبادا ناظرین بھی اللہ کے فضلوں کو یاد کرنے کی بجائے مظالم اور امتحانات پر صرف واویلا کر نا سیکھ لیں۔
اب اسی پروگرام کو دوبارہ کرو اور اس میں وہ سارے کاموں کا بھی ذکر کرو جو اربابِ حکومت کی دانستہ غفلت کے باوجود جماعت نے خود کئے ہیں ۔بتاؤ کہ کس طرح جماعت نےاللہ کےفضل سے اس چھوٹے سے قصبہ میں ہر وہ سہولت پیدا کر لی ہے جو پاکستان کے کسی بڑے شہر میں ہوتی ہے۔ اور ان سے زیادہ منظم اور کہیں زیادہ نافع الناس۔ فلاں سے رابطہ کرو، فلاں سے تصویریں منگواؤ، فلاں سے مکمل معلومات حاصل کرو۔
پریشانی، گھبراہٹ، خوف سب جاتا رہا۔ فکر تھی تو بس یہ کہ حضور کا فرمایا ہوا کوئی لفظ محفوظ کرنے سے رہ نہ جائے۔
ہونٹوں سے تیرے پھول گریں اور ہم چنیں
والی حالت میں میں اپنے قلم کو پوری رفتار سے چلا رہا تھا۔ میں نے اس قدر جامع گفتگو کبھی نہ سنی تھی۔ لفظ کم اور معنی بھرپور۔ حضور نے اتنی باریکی سے ہدایات دیں کہ کوئی پہلو بھی تشنہ نہ رہا۔ حضور نے گفتگو کا سلسلہ روکا۔ تھوڑا توقف فرمایا جو شاید اس لئے تھا کہ میں جو لکھ رہا ہوں وہ مکمل کرلوں۔ جونہی میں نے لکھنا ختم کیا تو فرمایا
’’بس؟ چلو پھر!‘‘
یوں یہ ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی۔ ملاقات کیا تھی نصابِ حیات کا ایک عظیم الشان باب تھی۔ persecution کو دیکھنے اور اسے سمجھنے کا ایک الگ، انوکھا اوراچھوتا زاویہ تھی۔ ہم تو ظلم کو صرف ظلم کے طور پر دیکھتے رہے۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ ظلم کس کھاد کا کام کر رہا ہے۔ یہ آزمائشیں ہمیں کس طرح اونچے سے اونچے مقام کی طرف مائلِ پرواز کرتی ہیں۔ ساری عمر ربوہ میں گزار دی۔ فضلِ عمر ہسپتال میں علاج معالجے کی زبردست سہولیات سے کئی بار فائدہ اٹھایا۔ خلافت لائبریری سے اس قدر استفادہ کیا کہ آج تک اس لائبریری کا ممنون احسان ہوں۔ نصرت جہاں اکیڈمی جیسے موقر ادارہ میں پڑھایا۔ ربوہ کی سرسبزی اور شادابی کو پھیلتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہاں کی علمی اور روحانی فضا سے لطف اٹھایا اور استفادہ بھی کیا۔ مگر توجہ کبھی اس طرف نہ گئی کہ ان میں ہر بات ایک نشان ہے۔ کہاں ایک بنجر ویرانہ اور کہاں یہ حال کہ اپنے رقبہ کے اعتبار سے ایک قصبہ ہونے کے باوجود اس میں ہر وہ سہولت موجود ہے جو کسی بڑےشہر میں ہونی چاہیے۔ اس ملاقات نے اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری یہ ملاقات آج تک میرے ذہن پر نقش ہےاور ہمیشہ رہے گی، کیونکہ میں نے اس ملاقات میں حضرت خلیفۃ المسیح کی عالی مرتبت شخصیت کا صرف ایک پہلو دیکھا، لیکن کیا ہی خوب دیکھا۔ اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس روز یہ احساس ہوا کہ میرے آگے جو شخص ڈھال کی طرح ہے، مجھے اس کی اقتدا میں کوئی خوف نہیں۔ شرمندگی کے ساتھ ہی سہی، مگر یہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ شاید اس روز پہلی مرتبہ حضور کے لئے اس طرح دعا نکلی جس طرح پہلے کبھی نہ نکلی تھی۔ میری جان آپ پر قربان ہو، میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہو۔ ہم کیسے کمزور سہاروں کو تلاش کرتے زندگی گزار دیتے ہیں، جب کہ ہمارے لئے خدا نے وہ عروۃ الوثقیٰ مہیا فرما رکھا ہے کہ اگر اسے تھامیں تو ہر طرح کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ یہ بھی اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ اس روز مجھے انگریزی کے لفظ inspiration کے اصل معانی سمجھ میں آئے۔ اور الحمد للہ یہ بھی سمجھ میں آیا کہ اگر دنیا میں کہیں inspiration مل سکتی ہے تو وہ کسی شاعر ادیب میں نہیں، کسی مصور میں نہیں، کسی نامور سے نامور سائنسدان میں نہیں، بلکہ صرف اس انسان کے ذریعہ سے مل سکتی ہے جسے خدا کے اذن سے، روح القدس سے مدد پا کر خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے۔خدا ہمیں اس بات کو سمجھنے اور سمجھتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے، کہ یہ ایک بت شکن نظریہ ہے۔خدا کی طرف بلانے والا یہ وجود ہمیں کتنے ہی قسم کے شرک سے محفوظ کر تا اور یہاں وہاں کئے جانے والے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔
بہر حال، ہم نے حضور کی ہدایات کے مطابق یہ پروگرام کیا۔ ربوہ کی سرسبزی و شادابی کا ذکر کیا۔ سیر گاہوں کا ذکر کیا۔ رہائشی سہولیات کا ذکر کیا۔ سومنگ پول، ناصر فائر برگیڈ سروس، ایمبولنس سروس، طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ، کھیل کے میدان اور کمپلیکس۔ غرض اختصار سے ہی سہی، مگر ان تمام سہولیات کا تحدیثِ نعمت کے طور پر ذکر کیا اور اس سب کے ساتھ اس persecution کا بھی جو جماعت پر روا رکھی جاتی ہے۔ مگر اس سب کے سامنے تو اس کا چراغ گل ہو گیا۔ الحمدللہ کے حضور نے پسند فرمایا۔ حضور نے پسند فرمایا تو دنیا بھر کے ناظرین میں بھی اس کی مقبولیت بڑھی۔ یہ بھی میرا تجربہ رہا ہے کہ ایم ٹی اے کے جس پروگرام کو حضور کی توجہ اور محبت کی نظر حاصل ہو جائے، اللہ اس کی مقبولیت کے لئے ایک ہوا چلا دیتا ہے۔ یہی پروگرام آگے چل کر ’’راہِ ہدیٰ‘‘ بنا اور غیر ازجماعت ناظرین کے لئے لائیو سوالات پوچھنے اور ان کے جوابات حاصل کرنے کا ذریعہ بنا۔ یہی پروگرام قادیان کی مقدس بستی سے لائیو نشر ہونے لگا اور آج بھی ہو رہا ہے۔ یہ بھی ایک آزمودہ حقیقت ہے کہ جس کوشش کو یہ توجہ نہ ملے، وہ کوشش runway پر چکر تو شاید کچھ دیر کاٹتی رہے، مگر پرواز کے قابل ہو ہی نہیں پاتی۔
اختتام پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ محمد اقبال ایک بہت متنازعہ شخصیت رہے۔ ان کا فکر کئی مغالطوں کا بھی شکار ہوا ہوگا۔ مگر ایک بات بڑی درست کہہ گئے کہ ’’اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ دیکھنا ہو تو قادیان میں دیکھو‘‘۔ ان الفاظ میں تھوڑی ترمیم کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ اسلامی تعلیمات کا ٹھیٹھ نمونہ آج اگر کہیں ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت خلیفۃ المسیح کی ذات ِ بابرکات میں ہے، اور کہیں نہیں۔ توکل علی اللہ کا معیار جو آنحضور ﷺ اور آپ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود ؑ ہم میں دیکھنا چاہتے تھے، اس کا عملی نمونہ آج صرف اور صرف ہمارے محبوب آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ میں مجسم ہے۔ اللہ ہمیں اسے سمجھنے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
(نوٹ: بیت الفتوح کی آگ سے ایم ٹی اے کے دفاتر اور سٹوڈیو والا حصہ محفوظ رہا۔ وہ خطوط بھی جن پر حضورانور کے دستِ مبارک سے تحریر فرمودہ ہدایات نصب تھیں بالکل محفوظ رہےجنہیں پہلی فرصت میں محفوظ کر لیا گیا)