وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۴)
آصف محمود باسط
گزشتہ مضامین میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات بابرکات کے حوالہ سے کچھ مشاہدات کو ضبطِ تحریر میں لانے کا موقع ملا۔ ان میں عام طور پر حوالہ وہ دفتری ملاقاتیں تھیں جو حضور انور کی شفقت کے نتیجہ میں خاکسار کو میسر آئیں۔ اس مضمون کا آغاز کرنے سے پہلے ایک وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ جب دفتری ملاقات کہا جاتا ہے تو ذہن میں تاثر یہ ابھرتا ہے کہ کسی بڑے افسر سے انتظامی معاملات کے بارہ میں میٹنگ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ حقیقت یوں ہے کہ دفتری ملاقات انفرادی ملاقات سے یوں تو مختلف ضرور ہوتی ہے کہ ایسی ملاقات میں حضور انور کی خدمت میں اپنی ذمہ داریوں کے حوالہ سے رہنمائی کی درخواست کی جاتی ہے۔ ذاتی بات سے احتراز کیا جاتا ہے تا وقتیکہ حضورخود کچھ دریافت فرمالیں یا کوئی ایسی مجبوری ہو کہ وہ بات پیش کرنا ناگزیر ہو۔ مگر ان دفتری ملاقاتوں میں بھی حضور انور کی روحانیت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ بالکل جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے ریاستی امور بھی بیان فرمائے تو وہ بھی روحانیت اور الہیات کے نور سے منور تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی آخری جماعت کا یہ امام جب انتظامی امور میں بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے، تو بھی ہمیشہ مقدم قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہی رہتا ہے۔ چند واقعات جو میرے اپنے مشاہدہ بلکہ تجربہ میں آئے وہ آج پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
انتظامی معاملات میں شعبہ جات کے مابین بلکہ اپنے شعبہ کے اندر ہی دو لوگوں کی رائے میں اختلاف ہوجانا بڑی قدرتی سی بات ہے۔ مگر اختلافِ رائے طول پکڑ جائے اور اس میں جماعتی وقت کا ضیاع ہونے لگےتو یہ بہر حال پسندیدہ نہیں۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے خاکسارکے شعبہ سے متعلق شکایت کے رنگ میں ایک خط حضور انور کی خدمت میں تحریر کیا۔ حضور انور نے سوالیہ نشان کے ساتھ اسے خاکسار کو ارسال فرمایا۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا کہ کوئی خلیفۂ وقت کو میرے بارہ میں شکایتی رنگ میں خط لکھے اور حضور سوالیہ نشان کے ساتھ مجھے مارک فرمائیں۔ حد درجہ کوفت اور بے چینی ہوئی۔شکایت کی کوفت اپنی جگہ تھی مگر یہ کہ حضور کےسوالیہ نشان کا کیا مطلب ہے، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو میرا خیال تھا کہ حضور مجھ سے سب سے پہلے اس خط کےبارہ میں دریافت فرمائیں گے۔ اور معلوم نہیں کہ اگر خدانخواستہ ناراض ہوں گے تو میں یہ سب کیسے دیکھ اور سن سکوں گا۔ مگر حاضر ہوا تو کہیں خفگی کے کوئی آثار نہ تھے۔ میں نے معاملات اسی ترتیب سے خدمتِ اقدس میں پیش کرنا شروع کئے جس ترتیب سے اپنی نوٹ بک میں لکھ رکھے تھے۔ حضور بڑی محبت سے رہنمائی فرماتے رہے۔ آخر پر عرض کی کہ حضور، وہ خط تھا فلاں صاحب کا جو حضور نے سوالیہ نشان کے ساتھ مجھے ارسال فرمایا ہے۔ حضور مجھے اس پر کیا کرنا ہے؟ حضور کو جواب لکھوں یا ان صاحب کو؟
حضور نے فرمایا کہ ان کو جواب لکھو۔ تعمیلِ ارشاد میں باہر آتے ساتھ ان صاحب کی شکایت کا جواب لکھا، اور چونکہ معاملہ حضور کی طرف سے آیا تھا، نقل حضور انور کی خدمت میں بھی ارسال کر دی۔ اس کے بعد ایک عجیب تکلیف دہ سلسلہ شروع ہوا اور کئی دن تک جاری رہا۔ وہ جواب لکھتے اور حضور کو نقل ارسال کرتے پھر میں جواب دیتا اور حضور کو نقل ارسال کرتا۔ کچھ روز کے بعد پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا پیغام موصول ہوا کہ حضور نے ہم دونوں کو ایک ساتھ حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا ہے۔ اب صورتحال کچھ اور بھی سنگین معلوم ہونے لگی۔دل میں یہ بات کئی مرتبہ آتی کہ مجھے شاید حضور کی خدمت میں نقل نہیں بھیجنی چاہیے تھی۔ مگرانسان اپنی ہر غلطی کو درست ثابت کرنے اور اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کے لئے ہزار بہانے تلاش کر لیتا ہے۔ سو میں بھی دل کو تسلی دیتا رہا کہ انہوں نے پہل کی تھی، میں تومجبوراً نقل بھیجتا رہا۔ مگر اب جب حضور انور نے یاد فرمایا ہے تو کیا یہ معاملہ عدالت کے رنگ میں پیش ہوگا، جرح کی مجال تو وہاں کسی کو بھی نہیں، وہاں کٹھ حجتی بھی ناممکن ہے۔ پھر مقامِ ادب۔ بہت غور و فکر کر کے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ جو بھی ہوگا، معذرت کر لوں گا اور آئندہ ایسی خط و کتابت میں نہیں پڑوں گا۔
خیر، ہم ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ جاتے ساتھ حضور نے بہت مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’ کیا آپ دونوں نے آپس میں خط و کتابت شروع کی ہوئی ہے‘‘۔ اس کے بعد حضور نے پورے معاملہ کے بارہ میں بتایا کہ مسئلہ صرف اتنا سا ہے۔ تم لوگ خواہ مخواہ بات کو طول دے رہے ہو۔ اس طرح کرو، اور اس طرح کرو اور اس طرح بھی کرلو، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہم دونوں نے حضور کا شکریہ ادا کیا، معذرت کی کہ ہماری وجہ سے حضور کا وقت بھی ضائع ہوا اور اٹھ کر باہر آنے لگے۔ ابھی دروازہ تک ہی پہنچے تھے کہ فرمایا وہ پیچھےجو تھیلا پڑا ہے وہ اٹھاؤ۔ میں نے بڑھ کر اٹھایا۔ حکم ہوا کہ اس میں کیا ہے، نکالو۔ نکالا تو طاہر ہارٹ فاؤنڈیشن کی طرف سے تیار کئے گئے دل کی شکل کے دو cushion تھے۔مسکراتے ہوئے فرمایا بس یہ دونوں ایک ایک لے لو اور دل پر رکھ سکون سے کام کرو۔ہم کیا سوچ کر گئے تھے اورہوا کیا۔ حیرت، شرمندگی، شکر گزاری۔ بات بھی چھوٹی سی تھی، وقت بھی بہت ضائع ہو گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس چھوٹی سی بات کے لئے حضور کا وقت ضائع ہوا۔
اگلی ملاقات میں حاضر ہوا تو دریافت فرمایا ’’پھر! مسئلہ حل ہو گیا تھا؟‘‘ عرض کی کہ جی حضور، حل بھی ہو گیا تھا اور بہت معذرت بھی کہ ہماری وجہ سے حضور کو تکلیف ہوئی۔ فرمایا ’’ایسی خط و کتابت میں بالعموم اصل بات پیچھے رہ جاتی ہے اور یہ مقابلہ شروع ہو جاتا ہے کہ اپنی بات کو دوسرے سے اونچا دکھاؤں۔ مل بیٹھ کے بات کر لو تو وہی بات چند منٹ میں حل ہو جائے‘‘۔حضورکی اس بات میں بہت گہرا سبق تھا۔ غور کیا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ کہیں نہ کہیں یہ خیال ضرور لکھنے پر اکساتا ہے کہ اب اس بات کو یوں جواب دیا جائے کہ میں سچا لگوں۔ میں غلطی پر نہ نظر آؤں اور فیصلہ میرےہی حق میں ہو۔ یہ بات کہیں کھو جاتی ہے کہ جو بھی انتظامی معاملہ ہے، وہ جماعت ہی کا معاملہ ہے۔ جو فیصلہ بھی ہوگا، وہ اگر خلیفۂ وقت کی طرف سے ہوگا تو یقیناً جماعت کے لئے بہتر ہوگا۔ اس میں کسی فرد کی ہار جیت کا کیا سوال۔ پھر یہ کہ مل بیٹھنے میں جو چیز آڑے آتی رہی، وہ بھی توصرف انا ہی تھی۔ اگر ہم مل بیٹھتے اور’’حُسنِ تحریر‘‘ کے بدنمامقابلہ میں نہ پڑ جاتے تو مسئلہ کب کا حل ہو گیا ہوتا۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضور نے فرمایا کہ فلاں صاحب تم سے بہت نالاں ہیں۔ عرض کی کہ جی حضور، معلوم ہے۔ کوشش بھی بہت کرتا ہوں مگر ان کا دل صاف نہیں ہوتا۔عام آدمی ہوتا تو یہاں دو طرح کے جواب دے سکتا تھا۔ یا تو مجھ سے ہمدردی ظاہر کرنے والا جواب، یا دوسرے صاحب سے ہمدردی ظاہر کرنے والا ۔ مجھے تو ظاہر ہے یہی امید تھی کہ ہمدردی کا مستحق میں ہی ہوں۔ مگر حضور نے جو جواب عنایت فرمایا، وہ کہیں گہرا، اور توقعات سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھا۔فرمایا:
’’ ہو سکتا ہے تمہاری کوشش کافی نہ لگتی ہو ان کو۔ تم جھک جاؤ‘‘
عرض کی کہ حضور جھکتا ہوں۔ فرمایا ’’اور جھک جاؤ۔ اگر اگلا تمہارے اتنا جھکنے سے راضی نہیں تو اور زیادہ جھک جاؤ۔ اتنا جھک جاؤ کہ اگلے کو خود شرم آجائے اور اس کا دل نرم ہو جائے‘‘۔
حضور نے زندگی کا ایک رہنما اصول بھی سمجھا دیا اور ہمدردی کسی سے بھی نہیں ظاہر کی۔ آخر ہم دونوں حضور کی اولاد ہی کی طرح توہیں۔ کیوں مجھ سے ہمدردی ظاہر کرتے اور دوسرے کو غلط ٹھہراتے۔ میرے لئے اس قدر ارشاد تھا کہ جھکتے جاؤ، اور جھکو، اور جھکو۔ اب ظاہر ہے کہ حضورکو معلوم تھا کہ یہ کام آسان نہیں۔ تو اس کام کو بھی یوں آسان فرمادیا:
’’حضرت مسیح موعود ؑ نے جو فرمایا ہے کہ بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں۔ یہ ذہن میں رکھو گے تو جھکنا آسان ہوگا۔ دوسروں کو بد تر سمجھو گے تو جھکنا ایک مشکل ہی بنا رہے گا‘‘۔ کیا ہی زبردست بات ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے بیان فرما دی اور ہمیں آپ ؑ کے خلیفہ نے سمجھا دی۔
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے مصرع کو اپنے لئے اس طرح پڑھا کرو کہ میں ’ہوں‘ غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر۔
ایک اور موقع پر فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں، تو یہ یاد رکھا کرو کہ اللہ تعالیٰ صرف عاجزانہ راہوں پر چلنے والوں کوہی پسند فرماتا ہے۔
اب دیکھیں کہ یہ سب باتیں دفتری ملاقات کے دوران ہوئیں۔ مگر قرآن کریم، حدیث اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی روشنی میں انسان کی رہنمائی کرنے والی باتیں۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانے والی باتیں۔ ہم نہ سیکھیں تو ہماری بدنصیبی، سیکھ جائیں تو کیا ہی بات۔
کسی دفتری معاملہ میں ایک صاحب نے خاکسار کو طویل خط لکھا۔ زیادہ حصہ شکوہ پر مبنی تھا۔ نقل حضور انور کو بھیجی ہوئی تھی۔ خاکسار کے ذہن میں یہ بات تھی کہ حضور انور نے فرما رکھا ہے کہ ایسی خط و کتابت کو طول نہ دیا جائے۔ خاکسار نے اسی حساب سے ان صاحب کی تمام باتوں کو نمبر وار جواب لکھا تاکہ ایک ہی خط میں معاملہ حل ہو اور خط و کتابت طول نہ پکڑے۔ ان صاحب کو حضور کی طرف سے کیا جواب گیا، میرے علم میں نہیں۔ مجھے جو جواب آیا وہ یہ تھا:
’’ آپ کا جواب تین سطروں سے زیادہ نہ ہو‘‘
یعنی طول سے مراد صرف خطوط کی تعداد نہیں بلکہ متن کا بھی طویل و عریض ہونا ہے۔دوبارہ جواب تحریر کیااور اب اس سے جو سبق حاصل ہوا ، اس کے بعد ان صاحب کے کسی بھی خط کے جواب میں اس کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا کہ :
’’جناب! آپ کا خط موصول ہوا۔
خاکسار کی رائے میں معاملہ یوں نہیں یوں تھا۔
اگر مجھ سے غلطی ہوئی ہو تو خاکسار معذرت خواہ ہے‘‘۔
پس جو جھکنے اور جھکتے چلے جانے کی بات تھی، اس کا عملی انداز بھی سمجھا دیا۔انا جیسی دیو قامت بلا تین سطروں میں بھلا کہاں سماتی ہے۔ تین سطروں میں تو جو کچھ آئے گو وہ عاجزی سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
ایک مرتبہ کسی بیرونِ ملک سٹوڈیو کا کوئی مسئلہ تھا۔ حضور انور کی خدمت میں بغرضِ رہنمائی پیش کیا گیا ۔حضور نے بڑی تفصیل سے رہنمائی سے نوازا اور فرمایا کہ انہیں یہ سب باتیں خط میں لکھ دو۔ میں نے خط لکھ تو لیا مگر خیال آیا کہ چونکہ حضور انور نے ازراہِ شفقت خود مفصل ہدایات ارشاد فرمائی تھیں،لہذا بھیجنے سے پہلے حضور کو دکھا لیا جائے۔ ملاقات میں حضور کی خدمت میں پیش کیا۔حضور نے فرمایا کہ یہاں یہ بات جو تم نے لکھی ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوگا اور وہ پھر پوچھیں گے، پھر تم جواب لکھو گے۔ جو بات لکھو یہ سوچ کر لکھا کرو کہ اس سے مزید کیا سوالات پیدا ہو سکتے ہیں اور اپنے جملوں کو اس طرح جامع رکھا کرو کہ متوقع سوال کا جواب بھی آجائے۔ ورنہ یونہی خط اور پھر اس کا جواب اور پھر جواب الجواب چلتے رہتے ہیں۔وقت ضائع ہوتا ہے۔
ہمارے انتظامی معاملات میں حضور کی نگاہِ مبارک کہاں تک جاتی ہے، اس کے ان گنت واقعات کے مشاہدہ کا موقع محض خدا تعالیٰ کے فضل سے میسر آیا۔ چند واقعات پیش ہیں:
خاکسار کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے رفقائے کار کے کام کا ذکر حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کے ساتھ کرتا رہوں۔ اور تو ہم ان کے لئے کچھ کر نہیں سکتے، اتنا تو کریں کہ ان کی کاوشوں کا ذکر حضور کی خدمت میں کرتے رہیں تاکہ ان کے لئے دعا کا موقع پیدا ہو۔جلسہ سالانہ یوکے کے تینوں دن ایم ٹی اے کی نشریات مسلسل جاری رہتی ہے۔ جلسہ کے اجلاسات کے دوران گفتگو کے پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کے میزبان حضرات کے نام جلسہ سے بہت قبل حضور انور کی خدمت میں پیش کئے گئے جو حضور نے ازراہِ شفقت منظور فرمائے۔ جلسہ کی نشریات اللہ کے فضل سے بہت کامیاب رہی۔ اتوار کو جلسہ ختم ہوا تو اگلی صبح جلدی جلدی حضور کی خدمت میں خط لکھا اور بتایا کہ الحمدللہ جلسہ نشریات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ سب پروگرام بہت کامیاب رہے اور ناظرین نے پسندبھی کئے۔ نیز یہ کہ ان پروگراموں کے میزبان حضرات کی فہرست ذیل میں درج ہے، حضور سے ان سب کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
حضور کاخوشنودی والا جواب آیا۔ ’’الحمد للہ۔ دعا۔۔۔ اگر (فلاں) کا نام بھی لکھ دیتے تو کوئی ہرج نہیں تھا‘‘
خط کو دیکھ کر ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں ان صاحب کا نام کس طرح بھول گیا۔ وہ تو ہمارے بڑے اچھے پریزینٹر ہیں، کام بہت محنت سے کیا ہے۔ چونکہ دعائیہ فہرست بغیر اصل فہرست کو دیکھے تیار کی تھی اور عجلت میں خط ارسال کر دیا تھا، لہذا اس عزیز دوست کا نام لکھنے سے رہ گیا۔ دکھ ، افسوس اور ندامت اورایسے دیگر جذبات دل میں پیدا ہوئے۔ مگر سب سے بڑھ کر حیرت کہ میں یہ نام کس طرح بھول گیا ، مگر اس سے بھی زیادہ حیرت کہ ایک نام جو رہ گیا و ہ حضور کو یاد تھا۔ بغیر کسی فہرست کو دیکھے۔ حضور کی خدمت میں دوبارہ خط تحریر کیا۔معذرت کی اور ان صاحب کی دن رات کی محنت کا ذکر کرکے ان کے لئے الگ دعا کی درخواست کی۔
اگرچہ یہ نام سہواً رہ گیا تھا، مگر یہ پورا واقعہ ایک بھرپور سبق تھا۔ ایک تو یہ کہ کبھی خلیفۂ وقت کی خدمت میں کچھ بھی لکھتے ہوئے ہمیشہ تمام میسر معلومات سامنے ہونی چاہییں۔ حافظہ پر پھروسہ کافی نہیں۔ دوسرا یہ کہ حضور کو خط بھیجتے وقت کبھی عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ جو کچھ میں لکھ رہا تھا، وہ نہایت نیک نیتی سے ایک درخواستِ دعا تھی۔ کوئی ہنگامی منظوری یا رہنمائی نہیں مانگ رہا تھا۔ کیا حرج تھا کہ منظوری والے خط سے سب نام درج کرتا اور پھر خط پیش کرتا۔کیونکہ جہاں خط بھیجا جا رہا ہے، وہاں یا تو سب مستحضر رہتا ہے یا پھر خدا عین اس مقام پر لاکر خلیفۂ وقت کی نظر کو ٹھہرا دیتا ہے جہاں کچھ کمی ہوتی ہے۔
یہ تجربہ تو ’’گلشنِ وقفِ نو‘‘ کی کلاسوں میں ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ ہوا۔ حضور کے سامنے محمود ہال میں ایک نہیں، دو نہیں ایک صد یا اس سے بھی زائد واقفین نو بیٹھے ہیں۔ دور کونے میں بیٹھے ایک بچہ کو مخاطب کر کے فرمایا ’’تمہارا نام ظافر تو ظ سے نہیں لکھتے؟ انتظامیہ نے ض سے لکھ دیا ہے‘‘۔ ہم حیران کہ اتنے سب میں سے صرف ایک بچہ کے کارڈ پر اس کے نام میں املا کی غلطی ہوئی۔ مگر حضور نے اسی کو مخاطب کیا ، اسی کے کارڈ پر اتنی دور سے نظر بھی پڑ گئی اور اس باریکی سے پڑ گئی کہ اس کے نام کی املا تک نظر آگئی ۔
کلاس کے دوران بچوں نے جو کچھ پڑھنا ہوتا ہے، وہ مواد حضور کے سامنے بھی رکھا ہوتا ہے تاکہ حضور کچھ دیکھنا چاہیں اور اصلاح فرمانا چاہیں تو سہولت ہو۔ یہ مواد خاکسار بھی اپنے پاس رکھتا تھا اور جوں جوں بچہ اسے پڑھتا جاتا، خاکسار اپنے پاس صفحات پلٹتا جاتا تا کہ کہیں حضور کچھ دریافت فرما لیں تو اس وقت ڈھنڈیا نہ مچے بلکہ متعلقہ حصہ سامنے ہو۔یہ مواد عموماً جوں کا توں پڑا رہتا ہے۔ مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ پڑھنے والے نے ابھی پڑھنا شروع کیاہے۔ میری نظر پڑ گئی کہ آگے جاکر ایک جگہ پر ٹائپ کرنے میں غلطی ہو گئی ہے یا کوئی اور غلطی ہے۔ ابھی پڑھنے والا بچہ وہاں نہیں پہنچا۔ مگر حضور انور نے اسی لمحہ وہ مواد اٹھایا۔ ایک، دو ، تین، چار صفحات پلٹے اور عین اس جگہ پر پہنچ کر نظر اٹھائی، مسکرائے ، میری طرف دیکھا اور کاغذات واپس رکھ دئیے۔ اسی وقت یا بعد میں اس کی اصلاح بھی فرما دی۔
سب جانتے ہیں کہ حضور انور کے شب وروز کس قدر مصروف اور معمور الاوقات ہیں۔ حضور نے خود بھی کئی مواقع پر فرمایا کہ ٹی وی دیکھنے کا وقت کم کم ملتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خبریں سن لیتا ہوں۔ مگر بلامبالغہ درجنوں مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کبھی ملاقات میں ، کبھی پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ذریعہ پیغام بھجوا کر اور کبھی پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر سے فون ملوا کر خودفون پر حضور نے فرمایا کہ ابھی میں نے ایم ٹی اے لگایا، یا یہ کہ کل رات ایم ٹی اے اتفاقاً لگایا تو فلاں پروگرام چل رہا تھا اور فلاں بات بیان ہو رہی تھی۔ فلاں صاحب نے یہ بات کی ۔یہ یوں نہیں یوں ہونی چاہیے تھی۔ اسے درست کرواؤ۔حضور کی روٹین تو سب کے سامنے ہے۔جو یہاں لندن میں نہیں رہتے یا جنہیں کسی بھی وجہ سے یہ معلوم نہیں، عابد وحید خان صاحب کی ڈائری اور پرائیویٹ سیکرٹری کا صاحب کا ایم ٹی اے پر نشر ہونے والا انٹرویو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ حضور کے معمولات کس قدر بھرپور ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ یہ حصے جن کی اصلاح حضور نے متعدد مواقع پر کروائی، وہ اسی وقت نشر ہونا مقدر تھے جب حضور انور کی نگاہِ مبارک ٹی وی پر پڑی۔ غالب نے تو شاعرانہ تعلی میں کہہ دیا کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔ اصل میں تو غیب سے آنے والے مضامیں کا نظارہ ہمارے یہاں نظر آتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضور انور کے ذریعہ ہماری اصلاح کے سامان پیدا فرماتا ہے۔
بیت الفتوح میں ایم ٹی اے کے دفاتر آنے سے قبل دسمبر 2004 سے اگست 2009 تک خاکسار ایم ٹی اے کے دفتر واقع مسجد فضل لندن میں تعینات تھا۔ یہاں سب سے بڑی نعمت تو یہ میسر تھی کہ تمام نمازیں حضور انور کی اقتدا میں ادا کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ ایک اور پر لطف بات یہ تھی کہ حضور انور کچھ ماہ کے وقفہ سے کسی بھی وقت ایم ٹی اے میں تشریف لے آتے۔ ایسے مواقع پر ہماری تو عید ہو جاتی۔ جو چند لمحات حضور انور ایم ٹی اے میں گزارتے وہ آج تک ہم سب کارکنان کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ باہمی گفتگو میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی بڑا لطف لیتے ہوئے کسی ایسے ہی موقع پر ارشاد فرمودہ حضور کی کسی بات کا تذکرہ کردیتا ہے۔ جونہی ہمیں کسی بھی طرح معلوم ہو جاتا کہ حضو ر انور ایم ٹی اے تشریف لا رہے ہیں، تو ہم سب اپنے دفتروں اورمیزوں کی شکل صورت سنوارنے میں لگ جاتے۔ ایسے میں جو ہوتا ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ یعنی وہ جو کیفیت ہے کہ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔ جیسے کسی غریب کے گھر کوئی بہت عالی مرتبت مہمان آنکلے تو وہ اپنا تمام اسباب چارپائیوں کے نیچے اور الماری میں گھسا کر ظاہری صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنے لگتا ہے، وہی حالت ہماری ہوتی۔تمام کاغذ سمیٹ کر کسی ایک فائل میں رکھ لئے۔ جلدی جلدی جھاڑ پونچھ شروع کر دی۔ اتنے میں حضور سے پہلے حضور کی خوشبو آجاتی اور پھر حضور انور کے مبارک قدم ہمارے دفتر میں تشریف لاتے۔ ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا کہ ساتھ کچھ پرشفقت گفتگو فرماتے اور ساتھ ہی چلتے ہوئے دفتر کی اس الماری کے سامنے پہنچ جاتے جہاں ہم غریبوں نے تمام اسباب ٹھونس رکھا تھا۔ اسے کھولا، حالت دیکھی اور پھر الماری بند کر دی۔ ساتھ ہدایت فرما دی کہ چیزیں ایسی بے ترتیب نہیں ہونی چاہییں۔ ’’میں تو خود اپنے دفتر کی صفائی کرتا ہوں۔ ایک برش رکھا ہوا ہے، خود ہی صبح آکر اس سے دفتر کی جھاڑ پونچھ کر لیتا ہوں۔ میں کر لیتا ہوں تو تم لوگ کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘
بجز ندامت جواب میں پیش کرنے کو کچھ نہیں۔ مگر دل میں آئندہ کے لئے عہد کر لیا کہ روزانہ دفتر کی جھاڑ پونچھ ضرور کرنی ہے۔ اور یہ کہ اب بس آئندہ ہر چیز ترتیب سے اپنی جگہ پر رکھنی ہے۔ آئندہ ایسی صورتحال نہ ہو گی۔
اب ہوا یہ کہ ہم روزانہ یہ اہتمام کرنے لگے کہ ہر چیز ترتیب سے پڑی ہو۔ مگر حضور تشریف ہی نہیں لائے۔ کئی ماہ یوں ہی گزر گئے۔ روزانہ انتظار کہ شاید آج، شاید کل، شاید پرسوں، مگر انتظار لمبا ہوتا گیا۔
پھر ایک روز ہماری قسمت جاگی اور حضور انور اچانک ایم ٹی اے میں تشریف لے آئے۔ دل میں یہ اعتماد کہ آج تو کچھ بھی بے ترتیب نہیں۔ تشریف لائے۔ بڑی محبت سے کچھ دیر دفتر میں قیام فرمایا۔ کچھ باتیں دریافت فرمائیں۔ یہاں کون بیٹھتاہے، یہ کس کا میز ہے، یہ کس چیز کی فائل ہے وغیرہ۔ اور میں دل میں بہت خوش کہ آج سب اچھا رہا۔ اچانک حضور مڑے اس چھوٹی سی الماری کا دروازہ کھولا جس میں کھانے کے کی پلیٹیں اور پرچیں پیالیاں رکھی تھیں۔ہمارے ایک رفیق کار نے لنگر سے آنے والے کھانے کے گُلوں میں رنگ بھرنے کے لئے اندر اچار کا ایک ڈبا رکھ چھوڑا تھا۔ اگرچہ وہ اس کا ڈھکن خوب زور سے بند کر کے رکھتے، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اچار اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے، اور عشق اور مشک کی طرح اپنی موجودگی کا خود احساس دلاتا ہے۔ اسے دیکھا اور فرمایا کہ ایسی چیزیں اگر کمرے میں پڑی رہیں تو کمرے میں بدبو پھیل جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عادی ہو جانے کے باعث ہمیں خود محسوس نہ ہو، مگر آنے جانے والے کو محسوس ہو جاتی ہے۔ یہ ایم ٹی اے کا دفتر ہے، یہاں تو باہر سے بھی مہمان آتے ہیں۔ ان پر کسی بھی طرح برا تاثر نہیں پڑنا چاہیے۔ جماعت سے منسوب ادارہ کو کس باریکی سے ہر بات کا خیال رکھنا چاہیے، یہ سبق حضور کی اس بات سے کس قدر ظاہر و باہر ہے۔
2008 میں خلافت جوبلی کے سلسلہ میں ایم ٹی اے نے عالمی مشاعرہ کا اہتمام کیا۔ پاکستان، امریکہ ، کینیڈا سے مہمان شعرا کو دعوت دی گئی تھی۔ اس وقت تک خاکسار بھی مشاعرہ پڑھ لیا کرتا تھا۔ اس وقت کے چئیرمین سید نصیر شاہ صاحب نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور انور اس مجلس میں رونق افروز ہوں، تو حضور نے فرمایا کہ آپ لوگ کریں، میں آسکا تو آجاؤں گا۔ جلسہ کے ایام سے کچھ پہلے کی بات تھی۔ حضور کے دن کے چوبیس گھنٹے پہلے ہی معمور الاوقات ہوتے ہیں، جلسہ کے ایام میں کئی گونا زیادہ مصروفیت بھی انہی چوبیس گھنٹوں میں در انہ در چلی آتی ہے۔ حضور انور مشاعرہ میں تشریف نہ لائے۔ اگرچہ ہم سبھی سمجھتے تو تھے کہ حضور انور کی مصروفیت کا کیا عالم ہے، مگر امید موہوم ہی سی کیوں نہ ہو، اس کے پورا نہ ہونے کا رنج تو انسان کو ہوتا ہی ہے۔اور وہ بھی اگر بات ہو حضور انور کے دیدار اور آپ کی مبارک مجلس سے مستفیض ہونے کی۔
اگلے روز خاکسار ایم ٹی اے کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اچانک حضو رِ انور تشریف لے آئے۔ فرمایا کہ’’کل مشاعرہ میں تم نے بھی کچھ پڑھا تھا؟‘‘ عرض کی کہ جی حضور، کچھ اشعار پڑھے تھے۔ ’’کیا اشعار پڑھے تھے؟‘‘۔ یہ کہتے ہوئے حضور انور دفتر کی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر تشریف فرما ہو گئے۔
مجھے عام طور پر تو اپنے شعر یاد رہا کرتے ہیں مگر اس وقت ذہن بالکل خالی پایا۔ جیبیں ٹٹولنا شروع کیں وہ بھی خالی تھیں، درازیں کھول کھول کر ان میں جھانکتا رہا،پھر اپنے بیگ کی جیبیں دیکھیں تو وہاں وہ کاغذ مل گیا جس پر وہ اشعار درج تھے۔ فرمایا’’سناؤ کیا پڑھا تھا‘‘۔ خاکسار نے اشعار پیش کئے۔ فرمایا’’چلو کل مشاعرہ میں تو نہیں آیا، البتہ تمہارے شعر سن لئے ہیں‘‘۔ خوشی کا جو عالم تھا، وہ بیان کرنا مشکل ہے۔عام سے اشعار تھے، مگراللہ تعالیٰ نوازتا ہے تو بلاِ حساب نواز دیتا ہے۔ حضور کی شفقت کا بھی عجیب حال ہے۔ یہاں بھی وہی بِلا حساب نوازنے اور بے حساب نوازنے والی صورت ہی ہوتی ہے۔ ابھی اس خوشی کو سمیٹ رہا تھا کہ حضور کے سامنے ہمارے ایک رفیقِ کار کی میز تھی۔ حضور کی نگاہ اس میز کے نیچے کہیں مرکوز نظر آئی۔ میں نے بھی وہاں دیکھا تو وہاں ان کے پرنٹر کے پیچھے چائے کے کچھchronic قسم کے نشانات تھے۔ فرمایا ’’انہیں کہناچائے کے نشان تو صاف کر لیں‘‘۔
یعنی ایسے میں بھی حضور کی نگاہِ مبارک اس باریک گوشے میں پہنچی جو گویا عام نظر سے پوشیدہ تھا۔ شاید یہ دھبے رہ بھی اسی لئے گئے تھے مگرحضور کی نظر وہاں بھی پہنچی اور بڑی محبت سے اصلاح فرمادی۔ اگرچہ اس لئے کہ حضور انور کی آمد کا خیال رہتا تھا، مگر الحمدللہ ، یوں صفائی کا خیال رکھنے کی عادت پڑ گئی(اگرچہ ابھی بہت گنجائش باقی ہے)۔
حضور کے ایم ٹی اے میں تشریف لانے کی بات چل رہی ہے تو ایک اور واقعہ یاد آیا۔ ایک روز صبح دس بجے کے قریب دفتر پہنچا تو ٹرانسمیشن کے شعبہ میں خاصی گہما گہمی نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ آج صبح فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد حضور ایم ٹی اے تشریف لائے تھے۔ اس وقت ڈیوٹی پر ایک صاحب موجود تھے ۔ چونکہ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے تمام پروگرام شیڈول کے مطابق automated طریق پر چلتے رہتے ہیں۔ کمپیوٹر خود ہی ایک پروگرام ختم ہو جانے کے بعد اگلا پروگرام شروع کر دیتا ہے۔ یوں ڈیوٹی پر موجود صاحب اس اطمینان میں اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے کہ حضورانور تشریف لے آئے اور دریافت فرمایا کہ ابھی کچھ دیر پہلے کچھ سیکنڈز کے لئے ایم ٹی اے کی نشریات میں خلل آیا۔ خالی سکرین آرہی تھی اور کوئی آواز نہ تھی۔ کیا ہوا تھا؟ مگر ان صاحب نے لا علمی کا اظہار فرمایا۔ انہوں نے اس وقت وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر انہیں معلوم نہ ہو سکی۔ حضور تو تشریف لے گئے مگران صاحب نے اپنے شعبہ کے نگران کو فون کیا، شعبہ کے نگران نے چئیرمین صاحب کو فون کیا اور یوں ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی۔ کیا مسئلہ تھا، کیوں ہوا تھا، کیسے ہوا تھا سب معلومات حاصل کر کے حضور انور کی خدمت میں ارسال کی گئیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ شعبہ ٹرانسمیشن کے نگران کچھ روز صبح، شام، رات ایم ٹی اے میں بسر کریں گے۔ ایم ٹی اے ہی میں قیام ہوگا اور ہر وقت نظر رکھیں گے کہ نشریات میں اس طرح کا خلل واقع نہ ہو۔ ان کے قیام کا یہ عرصہ کوئی دو ماہ پر محیط ہو گیا اور اس چند ثانیوں کے خلل کے اندیشہ کا اچھی طرح تجزیہ کیا گیا اور آئندہ کے لئے ایسے خلل کا سد باب کیا گیا۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ ایم ٹی اے پر ہونے والے اس چند ثانیوں کے خلل کو صرف اور صرف حضور انور نے دیکھا اور اس پر سخت نوٹس لیا۔ جو ذمہ دار تھے وہ بھی بے خبر تھے۔مگرحضور انور نے اسی وقت ایم ٹی اے لگایا جس وقت یہ واقعہ پیش آنا تھا۔ اس سے حضور انور کی نظر میں ایم ٹی اے کی جو اہمیت ہے وہ بھی سمجھ آتی ہے۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اےکی صورت میں ایک لاجواب نعمت سے نوازا ہے جو ساری جماعت کو خلیفۂ وقت سے رابطہ میں رکھے ہوئے ہے۔ حضور کی ایم ٹی اے کے لئے یہ توجہ اور محبت در اصل اس محبت کی غماض ہے جو حضور کے دل میں جماعت کے لئے موجزن ہے۔خلیفۂ وقت کا رابطہ جماعت سے چند ثانیوں کے لئے بھی کیوں ٹوٹے؟اب اس رابطہ کا ٹوٹنا جماعت کے لئے قابل قبول ہے نہ خلیفۂ وقت کے لئے ۔
کچھ اور واقعات پیش ہیں جو انتظامی امور میں ہمارے لئے رہنما اصول کا درجہ رکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضور انور کی خدمت میں ایک تجویز پیش کی جس میں ہمارے شعبہ کو کسی دوسرے شعبہ کے ساتھ کام کرنا تھا۔ حضور نے تجویز سن کر فرمایا کہ ٹھیک ہے، ان سے بھی پوچھ لو۔ بلکہ اس طرح کرو کہ انہیں خط لکھو کہ میں آپ سے ملاقات کے لئے حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ براہ مہربانی کچھ وقت عنایت فرمائیں۔ پھرجو وہ وقت دیں، اس وقت پر جاؤ اور اپنی تجویز پیش کر کے ان سے بات کرلو۔ وہ بھی خوش ہو جائیں گے، تمہارا کام بھی ہو جائے گا۔
جن سے ملنے جانا تھا، وہ یوں بھی بہت شریف اور نجیب آدمی ہیں۔ حسبِ ارشاد ایسا ہی کیا۔ وہ بڑی محبت سے ملے۔ بڑی محبت سے بات سنی اور بلا تامل اس تجویز پر رضامندی ظاہر کر دی جو دونوں شعبہ جات کے باہمی الحاق سے ایک کام کرنے کی صورت میں تھی۔ یہاں بھی حضور نےیہ تعلیم دے دی کہ جس طرح بھی ہو سکے، خود کو دوسروں سے بہتر تو دور کی بات، برابر بھی نہ سمجھا جائے بلکہ خود کو نیچا اور کمتر سمجھ کر بات کی جائے،خواہ مخاطب کوئی بھی ہو۔
ایک مرتبہ فرمایا کہ لوگوں سے ملا کرو تو بہت خوش دلی سے ملا کرو۔ اتنی خوش دلی سے کہ دوسرا شخص تم سے مل کر بہت خوش ہو۔ عرض کی کہ حضور کوشش تویہی کرتا ہوں ، مگر حضور سے دعا کی درخواست ہے تا کہ کہیں کمی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے بھی دور فرمادے۔ بڑی محبت سے فرمایا کہ ہر آدمی کے خوش ہونے کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ جس بات پر تم خوش ہوتے ہو، دوسرا بھی اتنی بات پر خوش ہوتا ہو۔ ہوسکتا ہے اس کی خوشی کا معیار مختلف ہو۔ اس لئے تم اپنی طرف سے پورا زور لگا دیا کرو۔ اگر کسی کو یہ اچھا لگتاہے کہ تم سلام کرکے رک کر کچھ بات بھی کرو۔ یا ہاتھ ملاتے وقت تمہارے تھوڑا جھکنے سے خوش ہوتا ہو تو تھوڑا جھک کر مل لو۔ کیا حرج ہے اگر دوسرا آدمی تمہاری کسی حرکت سے خوش ہو جائے۔ مگر ساتھ ہی فرمایا کہ کسی کو خوش کرنے اور کسی کی خوشامد کرنے میں فرق ہے۔ بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ کسی سے خوش دلی سے بات کروں گا تو وہ خوشامد نہ سمجھ لے۔ خوشامد تو ناجائز کام کروانے کے لئےکسی کو خوش کرنے کا نام ہے۔ جب کہ کسی کو خوش کرنے کی کوشش ایک نیکی ہے۔حضور کے معیار پر تو شاید ہم میں سے کوئی بھی پورا نہیں اتر سکتا، مگر میرا تجربہ ہے کہ محبت سے ملنے کے بہت فوائد ہیں۔ لوگ بھی آپ کو خوشی سے ملنے لگتے ہیں کہ یوں وہ محبت فروغ پاتی ہے جواللہ تعالیٰ نے رحماء بینھم کے ذریعہ سے سکھائی، آنحضرتﷺنے یوں سکھائی کہ مومن ، مومن کا آئینہ ہوتا ہے، اور حضرت مسیح موعود ؑ نے یوں سکھائی کہ
دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے
ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار
ایک دوست جو ایک صیغہ کے افسر بھی ہیں مجھ سے اپنے ایک کارکن کا اکثر گلہ کیا کرتے کہ وہ عجیب ذہنی کیفیت میں ہے۔ آتا ہے تو مہینوں آتا رہتا ہے، غائب ہوتا ہے تو مہینوں اپنے ذہنی دباؤ میں گھرپڑا رہتا ہے۔ اس سے رابطہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ میں نے بہت برداشت کر لیا ہے، اب حضورسے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اسے فارغ کر دیا جائے۔ بظاہر بات میں کوئی برائی بھی نہ تھی کیونکہ سبھی اپنے اپنے شعبہ کی بہتری چاہتے ہیں اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی کارکن کی طرف سے ہمہ وقت بے یقینی کا شکار رہے۔ لہذا خاکسار نے تو کوئی مشورہ نہ دیا۔ ایک روز وہ دوست بتانے لگے کہ آج میں نے حضورسے ملاقات کے دوران عرض کر دی کہ حضور وہ کارکن کئی ہفتوں سے کام پر حاضر نہیں ہوا۔ الاؤنس بھی ہر ماہ مل رہا ہے۔ آنے جانے کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ درخواست ہے کہ انہیں فارغ کر دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی ذہنی کیفیت کا پتہ ہے۔ الاؤنس آپ کی جیب سے تو نہیں جاتا۔ جیسے آتا ہے جب آتا ہے، آلینے دو۔ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
خاکسار اس بات کا گواہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد ان کے وہ کارکن باقاعدگی سے آنے لگے، ان کی شادی کی باتیں چلنے لگیں، پھر شادی بھی ہو گئی اور وہ بڑی ہنسی خوشی کام پر بھی نہایت باقاعدگی سے حاضر ہونے لگے، اور آج تک ہو رہے ہیں۔
عجیب معاملات ہیں۔ یہی باتیں تو ہمیں بتاتی ہیں کہ خلیفۂ وقت کو کبھی محض کسی بڑے بین الاقوامی ادارہ کا محض ایک سربراہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کے سپرد اللہ نے جماعت کا انتظام اور انصرام کر رکھا ہے، مگر سب سے پہلے انہیں اپنے اذن سے چنا ہے، پھر روح القدس کے ذریعہ طاقت دے کر انہیں کھڑا کیا ہے، گویا اپنی روح پھونک دی ہے۔ وہ وجود تو مجسم دعا ہے۔ ہم دعا کی درخواست کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے، مگر یہ بھی کیا عجیب بات ہے کہ کسی کی شکایت بھی کی گئی ہو تو وہ دعا بن جائے اور بغیر دوسرے شخص کے علم میں آئے وہ دعا اس کے لئے اکسیر کا کام کر جائے۔ پس ہم کیسے نہ مانیں کہ وہ وجود دعا ہی دعا ہے۔جو رابطہ اس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے، وہ ہمارے ادراک سے باہر ہے۔ ہم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، لہذابجائے اس کا احاطہ کرنے کی کوششوں میں سرگرداں رہنے کے، کیوں نہ اس کی دعاؤں کو جذب کرنے کی کوشش کی جائے۔
دنیاکی دانش گاہوں میں organisational behaviour کا مضمون ترقی کرتا کرتا اس مقام تک جا پہنچا ہے جہاں اس میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ مگر کوئی دانش گاہ انتظامی صلاحیتوں کی تعلیم دیتے ہوئے تقویٰ کا سبق نہیں دیتی۔ یہ سبق اس دور میں اگرکسی دانش گاہ میں ہے، تو وہ اسی دانش گاہ میں ہے جسےہم خلافتِ احمدیہ حقہ اسلامیہ کے نام سے جانتے ہیں۔
اس مضمون کو پڑھ کر میرے دوست احباب ضرور کہیں گے (کچھ برملا، کچھ دل میں)کہ اصلاح کے اس قدر مواقع کے با وجود اسے دیکھو کہ کچھ فرق نہیں پڑا ۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس مضمون کا مقصد ہر گز یہ دعویٰ کرنا نہیں کہ ان امور میں میری اصلاح ہو گئی۔ مقصدصرف اسقدر ہے کہ حضور نے ایسے باریک امور کی طرف توجہ دلائی کہ حضور کی توجہ نہ ہوتی تو شاید اس طرف نگاہ بھی نہ جاتی۔ حضور ہمارے رہنما ہیں، ہماری رہنمائی فرماتے ہیں، ہم ان راہوں کے سالک ہیں ۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہمارے قدم ان راہوں پر اٹھتے چلے جائیں جن پر حضور ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔