وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۵)
آصف محمود باسط
مضامین کے اس سلسلہ میں کہیں بیان ہو چکا ہے کہ عام آدمی کی اور خلیفۃ المسیح کے ذہن اور فکر کی wave length میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ہمارے ذہن زمین پر لوٹیں لگاتے ہیں تو خلیفۃ المسیح کا فکر آسمان پر پرواز کرتا ہے۔پھر ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنے ذہن کے مطابق تمام معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ خلیفۃ المسیح کی فراست ہمارے 3Dمیں مقید اذہان سے بالاتر کسی اور جہت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بات کا متعدد مرتبہ تجربہ یوں ہوا کہ خاکسار جس روز یہ سوچ کر ملاقات کرنے گیا کہ آج چو چار پوائنٹ میرے پاس لکھے ہیں، ان پر بہت وقت لگ جائے گا کیونکہ ان میں سے کچھ مسائل پیچیدہ ہیں، تو اس روز حضورنے ہر معاملہ پر ایک ایک ثانیہ میں جواب عنایت فرمایا اور چاروں باتوں پر رہنمائی چند منٹ میں حاصل ہو گئی۔ جس روز خیال تھا کہ آج تو دو ہی باتیں پوچھنے والی ہیں، معمولی سی باتیں ہیں جلد طے ہو جائیں گی، اس روز ہر بات پر دس دس، پندرہ پندرہ منٹ حضور انور نے عنایت فرمائے اور ان سے متعلق اور دیگر باتیں بھی دریافت فرمائیں، ان پر بھی تفصیل سے رہنمائی سے نوازا۔ کبھی یوں ہوا کہ چند منٹ کا مختصر filler بنایا جو ایم ٹی اے پر چلنا ہے۔ خواہش ہے کہ حضور دیکھیں مگر ارشاد ہو ا کہ ’’یہاں رکھ دو، دیکھ سکا تو دیکھ لوں گا‘‘۔لیکن پھر کبھی یہ کہ 45 منٹ کا پروگرام ہے ۔ ملاقات میں اس کی DVD پیش کی۔ فرمایا ’’لگاؤ‘‘۔
اٹھ کر حضور کے کمرے میں رکھے DVD پلئیر میں پروگرام چلایا۔ خود ایک طرف کھڑا ہو گیا۔پروگرام چل رہا ہے اور حضور اپنے کام میں مصروف ہیں۔ دفتری ڈاک، ذاتی ڈاک کے انبار ہیں جو حضور کے سامنے رکھے ہیں۔ اگر ۴۵ منٹ کا پروگرام ہے تو میرا مشاہدہ ہے کہ حضور کی نظرِمبارک ٹی وی کی سکرین پر جتنی دیر ٹھہری، وہ دورانیہ 45 سیکنڈ یا حد ہوئی تو ایک منٹ بنتا ہو گا۔ باقی کا سارا وقت حضور اپنے کام میں مصروف ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کہیں اچانک حضور نے روکا اور ہدایت ارشاد فرمائی۔ پہلے پہل تو یہ ہوتا کہ میں نے تو چونکہ بننے کے سارے مراحل دیکھ لئے ہوتے تھے، پھر پروگرام بن جانے کے بعد کئی دفعہ اسے review بھی کر لیا ہوتا تھا، اس لئے اُس وقت اتنی توجہ مرکوز نہیں رہتی تھی۔ بلکہ ایسے میں حضور انور کو نظر بھر کردیکھنے کا شوق پورا کیا کرتا تھا۔ مگر ایسے مواقع نے یہ سبق سکھا دیا کہ خود بھی توجہ برقرار رکھی جائے کیونکہ حضور نے اچانک اگر کچھ پوچھ لیا تو یہ نہ ہو کہ خود مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ کیا بات چل رہی ہے۔ مگر جہاں بھی حضور انور نے نظر اٹھا کر دیکھا، وہاں اکثر کچھ اصلاح طلب بات ہوتی ہے۔
ایک پروگرام تیار کیا گیا جس میں غیر احمدی مسلمانوں کے احتجاجی جلوس کے مناظر تھے۔ اچانک حضور کی نظرِ مبارک ٹی وی سکرین کی طرف اٹھی۔ حضور نے تصویر کو وہیں روکا اور دورپس منظر میں ایک آدمی کے چہرہ کے بارہ میں فرمایا کہ بالکل ہمارے فلاں احمدی کی طرح کا ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو بالکل وہی چہرہ۔ خود متعدد مرتبہ پروگرام کی تیاری کے دوران اس فوٹیج کو دیکھا تھا۔ ساتھ کام کرنے والے دوست بھی اس چہرہ سے اچھی طرح واقف تھے مگر کسی کی توجہ اس طرف نہ گئی تھی۔ واپس آکر اپنے رفقائے کار کو احوال سنایا تو سب نے دوبارہ وہ حصہ دیکھا۔ سب اس احمدی دوست سے خوب واقف تھے جن سے اس شخص کی مشابہت تھی، لہذا سب کہہ اٹھے کہ مشابہت تو صد فی صد ہے۔ یہ اگرچہ بظاہر ایک ضمنی بات تھی مگر اس میں بھی attention to detail کا گہرا سبق تھا۔ اگرچہ وہ صاحب وہ نہیں تھے جن سے ان کی مشابہت تھی مگر مجھے میرے شعبہ کے حوالہ سے یہ سبق ملا کہ کوئی بھی ایسا امر نظر انداز نہیں ہونا چاہیے ۔
بات چل رہی تھی کہ ہم کچھ سوچ کر جاتے ہیں، ہوتا کچھ اور ہے۔ ہم اپنی عقل کے مطابق سوچتے ہیں، وہاں فراست کا دھارا کسی اور سمت چل رہا ہوتا ہے۔ انسان اپنی کم عقلی کے باعث ہمیشہ اپنی توقعات کو درست خیال کرتا ہے۔ اور اگر دنیا کا کوئی کام اس کی توقعات کے مطابق نہ ہو تو وہ اپنی عقل کے محدود ہونے اور اپنی توقعات میں غلطی کے امکان کی گنجائش نکالنےکی بجائےنتیجہ میں نقص تلاش کرنے لگتا ہے جو اس کی توقع کے مطابق نہ نکلا ہو۔ اس بات میں سب سے زیادہ احتیاط حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ پیش آنے والے معاملات میں رکھنی چاہیے۔ یا تو اپنی توقعات اور خیالات کو اس کی فراست کے سامنے ہیچ مان لیں،یااگر ایسا کرنے میں دقت ہو تو بیعت کے الفاظ اور اپنی ذیلی تنظیم کے عہد کو دوبارہ پڑھ لیں اور اپنے ایمان کی فکر کریں۔ ہماری حالت تو وہ ہونی چاہیے جو میرے جواں مرگ مرحوم دوست سید ناصر احمد نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کی کہ
قدم بڑھا دیا ہم نے تیرے قدم کے ساتھ
ہمیں خبر بھی نہیں کون سے یہ زینے ہیں
اور پھر جب ایک صدی سے زائد عرصہ اس بات کا گواہ ہو کہ خلیفۃ المسیح کے ساتھ قدم بڑھانے ہی میں عافیت ہے، تو کون چاہے گا کہ اپنی عقل اور اپنی اٹکل کے بل بوتے پر جوا کھیلتا پھرے۔
حضور انور کی فراست کا دھارا جس سمت اورجس فراز پر چلتا ہے، اس کے ادراک کا مجھے ہی نہیں، کسی کو بھی دعویٰ نہیں کرنا چاہیے، کہ ہم سب ایک نشیب سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔ مگر جو کچھ مشاہدے میں آیا، اسے پیش کرتا ہوں۔
اصل مضمون کی طرف آنے سے قبل اوپر بیان ہونے والے واقعہ کی کچھ تفصیل عرض کر دینا ضروری ہے۔ یہ تو بتا دیا کہ حضور اپنے سامنے رکھے خطوط کے انبارسے گزر رہے ہوتے ہیں اور اس کے باوجودٹی وی پر چلنے والےپروگرام کی جزئیات تک سے واقف ہوتے ہیں، مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور خطوط میں سے سرسری نہیں گزرجاتے۔ یہ بھی نہیں کہ صرف دستخط فرما رہے ہوتے ہیں۔ حضو ر ساتھ بات سنتے جاتے ہیں ، پروگرام کوئی بغرضِ ملاحظہ پیش ہوا ہو تووہ بھی چلتا رہتا ہے،ساتھ خطوط ملاحظہ فرماتے رہتے ہیں۔خطوط کو ملاحظہ فرمانے کا جو احوال میں نے دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ خلاصوں کے علاوہ پیش ہونے والے خطوط کا نفسِ مضمون حضور خود پڑھتے اور ضرورت ہو تواس پر ہدایت رقم فرماتے ہیں۔ ذاتی خطوط میں سے جن کا خلاصہ پیش ہوتا ہے، اس پر حضور کے نوٹ کے مطابق جواب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری نے تیار کیا ہوتا ہے۔ مگر جب یہ ذاتی خط دستخط ہونے کے لئے حضور کے پاس آتا ہے، تو اصل خط اس کے ساتھ لف ہوتا ہے۔ان بابرکت لمحات میں جو حضور کے قدموں میں میسر آتے ہیں، ان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں خطوط میں سے گزرتے حضور کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اور ہزاروں مرتبہ کا مشاہدہ ہے کہ حضوربعض دفعہ اصل خط جو ساتھ لف ہوتا ہے، اسے دیکھتے اور پھر جواب کو دیکھ کر دستخط ثبت فرماتے ہیں ۔ اور یہ بھی سینکڑوں دفعہ دیکھا کہ جہاں کوئی تبدیلی درکار ہو، وہ خط پر تحریر فرماتے ہیں جس کے مطابق جواب میں تبدیلی ہو کر دوبارہ پیش ہوتا ہے۔ جو کچھ حضور اپنے دستخط کے ساتھ کسی بھی احمدی کو ، ذاتی یا انتظامی طور پر، تحریر فرماتے ہیں، وہ تاریخ کا حصہ بننے جا رہا ہوتا ہے۔ حضور ہر لفظ کو باریکی سے پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ دیگر کام جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ صلاحیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زمانہ میں ایک شخص ہی کو مل سکتی ہے، اور وہ ایک شخص اس زمانہ میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔اللہ کا ہزارہزار شکر کہ ہم نے یہ زمانہ پایا اور خدا کے چنیدہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔
اب واپس اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ہم کیا سوچتے ہیں اور وہاں فراست کادریا کن چوٹیوں کو سر کرتا ، کن میدانوں سے گزرتا کن سمندروں کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔
پروگرام الحوار المباشر ایم ٹی اے کا پہلا پروگرام تھا جس میں ناظرین کو لائیو سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔ احمدی ، غیر احمدی سبھی کو یہ موقع میسر آیا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد کو سمجھنے کے لئے لائیو سوال پوچھ لیں۔ یہ پروگرام ایم ٹی اے کی تاریخ کا ایک بہت بڑا break through تھا۔ حضور انور کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا تھا، سو اللہ تعالیٰ نے اس پروگرام کے لئے عرب دنیا کے دلوں میں بہت مقبولیت پیدا فرمائی۔
اس پروگرام کے شروع ہونے پر اور اس کے بابرکت نتائج دیکھنے پر ناظرین کی طرف سے اصرار ہونے لگا کہ اردو زبان میں بھی ایسا پروگرام پیش کیا جائے۔ ناظرین کی آراء ایم ٹی اے کے لئے ہمیشہ بہت اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ پس ان آراء کو جب بھی زیر غور لایا گیا، انتظامیہ کا یہی خیال رہا کہ اردو اور پنجابی مزاج کے حامل ناظرین جب کال کریں گے تو جانے کیا کہہ بیٹھیں اور لائیو ایسے سوالات کو سنبھالنا مشکل نہ بن جائے۔لہذا ایسے کسی پروگرام کو خارج از امکان خیال کیا جاتا رہا۔ناظرین کے اس اصرار سے حضور انور کو بھی آگاہی تھی۔
ان دنوں ایم ٹی اے پر خبریں تو پیش کی ہی جاتی تھیں مگر حضور انور نے خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ جماعت احمدیہ پرہونے والے مظالم پر ایک ماہوار رپورٹ خبروں کی شکل میں پیش کی جائے۔تعمیل ارشاد میں پرسیکیوشن نیوز کا اجرا کیا گیا (معاف کیجئے کہ اس لفظ persecution کا کوئی اردو مترادف نہیں، حالانکہ یہ ظلم سب سے زیادہ اس ملک میں رائج ہے جس کی قومی زبان اردو ہے) ۔ خاکسار کے ساتھ برادرم محترم عابد وحید خان صاحب اور برادرم محترم مشہود اقبال صاحب اور کبھی محترم داؤد خان صاحب شریک گفتگو ہوتے۔ ناظرین کی طرف سے اس پروگرام کو بہت سراہا گیا۔ ابھی اس پروگرام کو شروع ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ پاکستان کے ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر ایک نام نہاد عالم دین نےایک پروگرام پیش کیا اور اس میں مختلف فقہا سے جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں کو واجب القتل قرار دلوایا۔ پاکستان کے بالعموم بے حس معاشرہ میں اگر کوئی حس زندہ رہ گئی ہے تو وہ جماعت احمدیہ سے عناد اور اس سے وابستہ حساسیت ہے۔ عام عوام کو تو جیسے اس فتویٰ کا انتظار تھا۔ چند ہی دن میں سندھ میں دونہایت بزرگ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک جناب عبدالمنان صدیقی صاحب تھے جو بلحاظِ پیشہ ڈاکٹر تھے اور دن رات غریب مریضوں کے علاج میں صرف کرتے تھے۔ انہیں بھی اس فتویٰ کے نشر ہوتے ہی شہید کر دیا گیا۔
پرسیکیوشن نیوز میں اس پروگرام اور اس میں نشر ہونے والے غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی اور ان شہادتوں کا ذکر بھی کیا گیا جو اس پروگرام کے نتیجہ میں واقع ہوئی تھیں۔ہماری گفتگو کا بہت سا حصہ جماعت احمدیہ کے عقائد کی طرف جھک گیا اور کئی پروگراموں میں یہ جھکاؤ برقرار رہا۔حضور انور کے ارشاد پر ایک ای میل اکاؤنٹ بنایا گیا جس میں لوگ جماعت احمدیہ کے عقائد سے متعلق اپنے سوالات بھیجنے لگے۔ ہم اگلے پروگرام میں ان سوالات کے جوابات دیتے۔حضور کی اجازت سے پروگرام کا دورانیہ بھی بڑھانا پڑا اور ماہوار کی بجائے اسے پندرہ روزہ کر دیا گیا تاکہ ناظرین کو جواب کے لئے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ مگر اس دور میں یہ وقفہ بھی بہت زیادہ وقفہ تھا۔
حضور انور نے ایک روز ارشاد فرمایا کہ اس پروگرام سے نیوز کا لیبل اتار کر اسے ایک علیحدہ پروگرام کے طور پر نشر کیا جائےاور نام صرف persecution کر لیا جائے۔ چونکہ اب سوالات دینی نوعیت کے ہونے لگے تھے، لہذا حضور انور نے فرمایا کہ اب پروگرام میں ایک ماہِر قانون اور ایک عالم دین شامل ہوں۔ ابتدائی پروگراموں میں مولانا عطاء المجیب راشد صاحب اور مولانا لئیق احمد طاہر صاحب اور ساتھ کبھی محترم داؤد خان صاحب اور کبھی مشہود اقبال صاحب شامل ہوتے رہے۔ یہ پروگرام ریکارڈ ہوتا اور پھر اسے کچھ روز بعد نشر کیا جاتا۔اب حضور کی اجازت سے پروگرام میں سوال ریکارڈ کروانے کے لئے ایک ٹیلی فون نمبر بھی دے دیا گیاجہاں لوگ اپنے سوال ریکارڈ کروا دیتے اور ہم انہیں سن کر اگلے پروگرام کی ریکارڈنگ میں ان کا جواب پیش کر دیتے۔ ان ریکارڈ شدہ سوالات اور تبصروں کو سننا بھی ایک الگ کہانی تھی۔ پروگرام ریکارڈ شدہ ہوتا۔ جس روز نشر ہوتا اس روز یہ نمبر سکرین پر دکھایا جاتا اور اس کے اگلے روز خاکسار ٹیلی فون پر ریکارڈشدہ یہ سوالات سنتا۔ اگرچہ اکثریت معقول سوالات کی ہوتی، مگر بہت سے شریر طبع لوگ ایسی مغلظات ریکارڈ کرواتے کہ سنتے ہوئے ہوش اُڑ جاتے۔خیر، ان میں سے سوالات لئے جاتے اور اگلی ریکارڈنگ میں ان کا جواب شامل کر دیا جاتا۔ رفتہ رفتہ پروگرام کا نقشہ بالکل تبدیل ہو گیا۔سوالات اس کثرت سے آتے تھے کہ ان کے جواب دینے کے لئے بھی وقت کافی نہ لگتا کجا یہ کہ پرسیکیوشن کی بات کی جائے۔ہرپروگرام حضور انور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ پیش ہوتا اور رہنمائی کی درخواست کی جاتی۔ ہرہر قدم پر حضور انور رہنمائی فرماتے۔ شرکا کے لئے ارشادات ہوتے کہ فلاں سوال کا جواب یوں زیادہ بہتر تھا، یوں کہنا چاہیے تھا اور یوں نہیں کہنا چاہیے تھا۔ یہ ارشادات شرکا کو پہنچائے جاتے۔ خاکسار کے لئے بطور میزبان پروگرام کو بہتر بنانے کے لئے بہت سی ہدایات ہوتیں۔مجھے ایک لمبا عرصہ یہ گمان رہا کہ حضور مکمل پروگرام ملاحظہ فرماتے ہیں۔ مگر کس وقت؟ یہ سمجھ نہیں آتی تھی۔ پھر ایک روز حضور انور نے بتا کر ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ حضور کبھی کہیں کسی موقع پر اتفاق سے چند لمحوں کے لئے پروگرام دیکھتے ہیں۔خدا کے چنیدہ خلیفہ کے ایسے لمحات بھی کیسے چنیدہ ہوتے ہیں کہ وہاں وہ بات نظر آجائے جو اصلاح طلب ہے اور جہاں جماعت کی نمائندگی بہتر رنگ میں ہو سکتی ہے۔
ایک روز حضور نے فرمایا کہ ’’تم لوگ یہ پروگرام کتنے takes میں کرتے ہو؟‘‘
عرض کی کہ حضور بالعموم رکنا نہیں پڑتا۔ کہیں کسی کو کھانسی آجائے یا کوئی ٹیکنیکل مشکل پیش آجائے تو رک جاتے ہیں ورنہ پروگرام روانی سے ایک ہی ٹیک میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔فرمایا کہ ’’اگلا پروگرام صرف ایک takeمیں ریکارڈکرنا ہے‘‘۔
حسبِ ارشاد سب کو بتا دیا گیا کہ ریکارڈنگ کے دوران کہیں رکنا نہیں ہے، لہذاسب انتظامات پہلے دیکھ لئے جائیں۔ اگلی ملاقات میں عرض کی کہ حضور ، پروگرام ایک ٹیک میں روانی سے ریکارڈ ہوگیا تھا۔ فرمایا ’’اگلا بھی اسی طرح کرنا ہے‘‘۔ حسبِ ارشاد ایسا ہی کیا گیا۔ پھر تیسری دفعہ ایسا ہی کرنے کا ارشاد ہوا اور ایسا ہی کیا گیا۔جب تیسری مرتبہ عرض کی کہ حضور کل رات بھی پروگرام ایک ہی ٹیک میں ریکارڈ ہوا ہے تو فرمایا ’’پھر پروگرام لائیو کیوں نہیں کرتے؟‘‘
چونکہ ہم تو ایسے کسی بھی امکان کو خارج از قیاس سمجھ بیٹھے تھے، لہذا ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جب حضور نے تین مرتبہ پروگرام کو ایک ٹیک میں ریکارڈ کرنے کا ارشاد فرمایا تب بھی ذہن اسطرف نہیں گیا کہ یہ حضور ہمیں لائیو پروگرام کی تیاری کروا رہے ہیں۔
فوراً عرض کی کہ جی حضور، اگلا پروگرام لائیو کر لیتے ہیں۔ فرمایا ’’نہیں۔ اگلے ہفتہ کے دن تو نیشنل اجتماع ہو رہے ہیں۔ لوگ اس میں مصروف ہوں گے۔ لائیو پروگرام کے لئے تو تمہیں مضبوط ٹیم چاہیے۔ اجتماع ہو جائیں پھر ٹیم بنا کر پروگرام شروع کرو‘‘۔
دنیا کے سب سے مصروف آدمی کے سامنے جماعت احمدیہ کا کیلنڈر کس طرح مستحضر رہتا ہے؟ خدا جانے۔ لیکن دیکھیے تو سہی، ایک طرف لائیو پروگرام کی تیاری کروائی، پھر اس کا حکم بھی دے دیا،پھر یہ بھی خیال ہے کہ ٹیم بنانی ہے اور ٹیم بنانے میں کو ئی دقت نہ ہو۔اور سب سے بڑا سبق یہ کہ جوش کی بجائے ہوش کو مقدم رکھا جائے۔
پھر اس پروگرام کی نوعیت چونکہ تبدیل ہو چکی تھی، لہذا لائیو پروگرام کو ’’راہِ ہدیٰ‘‘ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت فرمائی۔ لائیو پروگرام میں ایک قباحت جو نظر آرہی تھی وہ یہ تھی کہ وائس میسج کی شکل میں جو پیغامات ریکارڈ ہوتے تھے، ان میں شریر طبع لوگ مغلظات بھی ریکارڈ کرواتے تھے۔ وہ سب اگر لائیو کا ل کرنے لگے اور بدزبانی کی تو ساری جماعت کے لئے تکلیف کا سامان پیدا ہوگا۔ یہ اندیشہ خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو ارشاد ہوا ’’کچھ نہیں ہوگا۔ شروع کرو‘‘۔ یوں حضور انور نے اس پروگرام کا پودا لگایا۔ ہم بے موسم بیج ڈالنے کی باتیں کرتے تھے اور فصل کےبدنتائج کے اندیشوں سے مایوس ہو جاتے تھے۔ بقول ِ شاعر
وہ شجر بوئے نہیں جن کے ثمر مانگتے ہیں
مگر حضور کو معلوم تھا کہ بیج ڈالنے کا موسم کب ہے، پودا بڑھنے کا وقت کب ہے، گرین ہاؤس میں اسے پروان کیسے چڑھانا ہے، اور پھر اسے کھلی ہواؤں، بارشوں اوردھوپ میں کب چھوڑنا ہے۔ مگر کھلی فضا میں جب چھوڑا تو حضور نے اس پودے کی خود نگہداشت فرمائی۔ ہر پروگرام سے پہلے، ہر پروگرام کے بعد حضور انور ہدایت اور رہنمائی سے نوازتے۔ کہیں جواب نا مکمل رہ جاتا تو حضور رہنمائی فرماتے اور اگلے پروگرام میں اس کی تصحیح کر دی جاتی۔
بات چل رہی ہے تو ایک اور بات بھی یاد آگئی۔ ایک مرتبہ کسی کالر نے پوچھا کہ اسلام میں تو صرف دو طرح کے سفر کو لازم قرار دیا گیا ہے، ایک حج کے لئے ،دوسرے جہاد کے لئے، یہ آپ لوگ جلسہ سالانہ کے لئے سفر اختیار کروانے والے کہاں سے آگئے؟
ہمارے علما نے اس کا جواب تو دے دیا۔ اگلے روز ملاقات میں جہاں تمام سوالات حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے، وہاں اس سوال کا ذکر بھی ہوا۔ حضور نے یہ سوال خاص توجہ سے سنا۔پھر دریافت فرمایا کہ کیا جواب دیا تھا۔ جواب عرض کیا گیا تو حضور نے اپنے پہلو میں پڑی حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کی طرف اپنی کرسی کا رُخ موڑا۔ مجموعہ اشتہارات کی ایک جلد اٹھائی۔ کچھ صفحات پلٹے اور فرمایا کہ اس کا جواب تو یہاں ہے۔ یہی اعتراض کسی نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کیا تھا۔ آپ نے اس کے جواب میں پور اایک اشتہار شائع فرمایا۔ پھر حضور انور نےوہ اشتہار پڑھنا شروع کیا۔ دو صفحات مسلسل پڑھتے جاتے اور جس رفتار سے پڑھتے، وہ غیر معمولی تھی۔ لیکن ہر لفظ صاف اور قابلِ فہم، ویسا نہیں جیسا ہم تیزی سے پڑھیں تو بہت سے الفاظ کو گڑبڑا دیتےہیں۔فرمایا ، یہ ہے اس کا جواب۔پوچھنا چاہا مگر پوچھ نہ سکا کہ اس سرعت سے اس جواب کا ذہن میں آجانا، پھر یہ بھی کہ اس کا جواب کہاں ہے، پھر وہیں سے کھولنا اور پڑھ کر سنانا، یہ سب کیسے ممکن ہوا۔میں جس تعجب کو لے کر ملاقات سے باہر آیا تھا، وہ تعجب اور حیرت آج بھی گویا جوں کی توں ہے،کیونکہ یہ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ کسی عربی قصیدہ کا ذکر تھا۔ حضور نے فوراً ’’قصائد الاحمدیہ‘‘ نامی کتاب اٹھائی،متعلقہ قصیدہ تلاش فرمایا اور اس میں وہ اشعار دکھائے کہ یہ یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حضور کی یہ سب کتب اپنی حالت سے کثرتِ استعمال کا پتہ دیتی ہیں۔خاص طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی کتب تو زبانِ حال سے گویا کہتی ہیں کہ یہ روزانہ اور کثرت سے استعمال ہونے والی کتب ہیں۔ حضور انور کے پاس پڑا قرآن کریم کا نسخہ بھی ایسی ہی کہانی سناتا ہے۔ ہزاروں نشانیاں جابجا لگی ہوئی، صفحات کے کنارے اور جلد کی حالت صاف بتاتی ہے کہ وہ جسے اس دور میں قرآن کا سب سے زیادہ علم اور فہم ہے، وہ اس کتاب کا سب سے بڑا عاشق بھی ہے۔پھر اس بات کا ثبوت توہر خطبہ، ہر خطاب، وقفِ نو کی ہر کلاس، جامعہ احمدیہ کے ساتھ ہونے والی ہر نشست سے بھی ہمیں روز ملتا ہے۔
تو یہ پروگرام ’’راہِ ہدیٰ‘‘ کی بنیاد اور اس کی نشو و نما اور تربیت کا انداز تھاجس سے اس تفہیم کی بنیاد پڑی کہ خلیفۂ وقت کے time and spaceکا اپنا الگ جہان ہوتا ہے۔ ہمارے ذہن دیواروں پہ لٹکی گھڑیوں اور کیلنڈرزمیں مقید ہوتے ہیں، مگر خلیفۂ وقت اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ ایک اور مدار میں ہوتا ہے۔ اگر ہمارا اور خلیفۂ وقت کا مدار ایک ہوتا تو نہ جماعت ہوتی، نہ خلافت ہوتی اور نہ اس للہی قیادت میں چلنے والی جماعت دوسرے لوگوں کے ہجوم سے ممیز و ممتاز ہو تی۔
یہ پروگرام ہر ہفتہ کے روز لائیو نشر ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا ہے۔ مئی ۲۰۰۹ میں یہ پروگرام لائیونشر ہونا شروع ہوا۔ پورے ایک سال کے بعد یعنی مئی 2010 میں لاہور کی احمدیہ مساجد پر بہیمانہ ظلم کا واقعہ پیش آیا جو جماعت احمدیہ ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ایک ہی دن میں اتنی بڑی تعداد میں احمدیوں کے شہید ہونے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ ایسے میں پروگرام ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ نے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام کی شکل اختیار کر لی۔ دنیا بھر کے احمدی فون کر کے اپنے جذبات کا اظہار کرتے اور اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے کئی وزراء اور سینئیر اہلکاروں اور دانشوروں سے رابطہ کیا گیا۔ ان کے انٹرویو ریکارڈ کرکے انہیں نشر کیا جاتا رہا۔ ہر انٹرویو سے قبل حضور سے دعا کی درخواست کی جاتی اور شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی حکومتی اہلکار نے انٹرویو سے گریز کیا ہو۔ خاکسار جب انہیں فون کرتا تو ان کے پاس ہی تین ہی راستے ہوتے۔ یا تو وہ ہم سے بات کریں، یا وہ بات کرنے سے انکار کر دیں یا پھر بدزبانی کرتے ہوئے فون کو بند کر دیں۔ تینوں صورتوں میں فتح جماعت احمدیہ کی ہوتی کیونکہ یا تو وہ اس سانحہ پر اظہار افسوس کرتے، یا پھر کہتے کہ ہاں یہ ظلم ہوا ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا، یا پھر بے بس ہو کر جماعت پر بدزبانی کرتے۔ تینوں صورتیں ان کے اس ظلم میں شریک ہونے کی گواہی دیتیں۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ معذرت کرتے وہ بڑی لجاجت سے معذرتخواہانہ انداز میں معذرت کرتے۔ مثلاً اس وقت کے وزیر اطلاعات ونشریات نے متعدد مرتبہ وقت دیا کہ فلاں دن ، فلاں وقت کال کر کے انٹرویو ریکارڈ کرلیں۔ مگر ہمیشہ ٹال مٹول کر جاتے ۔ بالآخر ایک روز مقررہ وقت پر فون کیا تو کہنے لگے کہ ’’یار، معاف کردو۔ میں یہ انٹرویو نہیں دے سکتا۔ میں نے یہ معاملہ ’’اوپر‘‘ پیش کیا تھا۔ مجھ کلئیرنس نہیں ملی‘‘۔ میں نےپوچھا کہ اوپر سے کیا مراد ہے؟ تو کہنے لگے کہ ایک وفاقی وزیر سے اوپر کون ہوتا ہے آپ جانتے ہی ہیں۔یہ تمام باتیں ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں اور یہ بات ان کے علم میں بھی لائی جاتی تھی کہ گفتگو ریکارڈ ہو رہی ہے، مگر ہم آپ کی اجازت کے بغیر نشر نہیں کریں گے۔ بہت سے نام نہاد علماء دین اور وزیروں کی گفتگو ریکارڈ میں موجود ہے جس میں ایسی زبان استعمال کی گئی جو کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتی۔ مگر حسبِ وعدہ، ہم نے ان کی اجازت کے بغیر کبھی ان کی گُل افشانیاں یا لجاجت سے کی گئی معذرتیں نشر نہیں کیں۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ پروگرام جو حضور نے مئی 2009 میں لائیو شروع کروایا، ایک سال پھلتا پھولتا رہا اور پھر لاہور کے واقعہ پر یہ ایک معروف پروگرام تھا جو اپنے غیر سبھی دیکھتے تھے۔ یوں ایک پروگرام حضور انور کی توجہ اور شفقت سے ایسا تیار تھا جس میں ہم حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے اور لوگوں تک بات پہنچنے کا سبب بن جاتا۔
یہی وہ پروگرام ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے مولد و مسکن قادیان دارالامان سے لائیو نشر ہونے لگا اور آج تک بڑی کامیابی سے ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے ارادہ کی کس طرح لاج رکھتا اور اسے کس طرح پروان چڑھاتا ہے، مذکورہ بالاواقعہ ان ہزاروں واقعات میں سے صرف ایک ہے، اور نہ جانے کتنے واقعات ہوں گے، جن میں سے کچھ ہم جانتے ہیں، اور ہزاروں ہیں جو ہمارے علم میں بھی نہیں۔ اور لاکھوں ہوں گے جو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے اس محبوب کے درمیان رازونیاز کی شکل میں محفوظ ہوں گے اور اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے۔
ایک اور واقعہ جو ذاتی مشاہدہ اور تجربہ میں آیا پیش کرتا ہوں۔
گزشتہ مضامین میں ذکر آچکا ہے کہ کس طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاص ہدایت اور رہنمائی و توجہ سے ایم ٹی اے کے پروگرام ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ کے لئے بعض موضوعات پر تحقیق کرنے کا موقع میسرآیا۔ پادری پگٹ، پادری مارٹن کلارک اور کرنل ڈگلس وغیرہ سے متعلق برطانیہ میں مدفون آرکائیوز محض حضور کی دعا اور توجہ سے حاصل ہوئے۔ جب East London مسجد والوں نے یہ پراپگینڈا شروع کیا کہ یہ لندن میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی تو ایک بار پھر حضور کی اجازت اور رہنمائی سے تمام آرکائیوز کھنگالے گئے اور بہت سے دستاویزی ثبوت میسر آئے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئےکافی سے زیادہ تھے کہ مسجد فضل ہی لندن میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے(اس پر مضمون ریویوآف ریلیجنز میں شائع ہو چکا ہے اور ان کی ویب سائٹ پر بسہولت تلاش کیا جا سکتا ہے۔ عنوان تھا London’s First Mosque: A study in history and mystery)۔
یہ کام راہِ ہُدیٰ پروگرام کے ساتھ وابستہ کوششوں کا حصہ تھے۔
ایک روز اسی طرح کی کسی تحقیق کا معاملہ حضور انور کی خدمت میں پیش کیا تو حضور انور نے دریافت فرمایا ’’یہ سارا مواد کہاں رکھتے ہو؟‘‘ ۔عرض کی گئی کہ بیت الفتوح میں اپنے دفتر ہی میں ایک الماری مخصوص کی ہوئی ہے، اسی میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔حضور کے چہرۂ مبارک پر تسلی نظر آئی۔
ان تحقیقی مساعی میں بہت سی کتب لندن کی یونیورسٹیوں کی لائبریریوں سے حاصل کرنا ہوتیں۔ یہ کتب خانے یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے لئے تو بلامعاوضہ کتب مستعار دیتے ہیں، مگر باہر کے آدمی کے لئے اوسط200 پاؤنڈ سالانہ ممبرشپ فیس ہوتی ہے۔ مجھے متعدد لائبریریوں اور اداروں کی ممبر شپ حاصل کرنا پڑتی جس کے لئے حضور انور نے ہمیشہ بہت خوشی اور محبت سے اجازت بھی مرحمت فرمائی اور دیگر تمام ذرائع بھی۔بہت سی کتب خریدنا پڑتیں جو کبھی انٹرنیٹ سے خریدی جاتیں کبھی کتب کی دکانوں سے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے اس وقت بھی میرا دل اپنے آقا کے لئے تشکر کے جذبات سے پُر ہے کہ میرے آقا نے اپنے اس نالائق غلام کی کتب خریدنے کی ہر درخواست منظور فرمائی۔ اکثر تو کتب پر ہونے والے خرچ کے تخمینہ کے ذکرتک بھی پہنچنے نہیں دیا اور اجازت مرحمت فرما دی۔یہ کتب رکھنے کے لئے بھی کوئی جگہ نہ تھی۔ وہ لوگ جو انگلستان میں رہتے ہیں انہیں تو معلوم ہی ہے مگر وہ جو نہیں رہتے انہیں بتانے کے لئے ضروری ہے کہ یہ ذکر کر دیا جائے کہ یہاں جگہ کی بہت شدید قلت ہے۔ 1984 میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ہجرت فرمائی تو اس ہجرتی حالت میں مرکز کا کام یہاں لندن سے شروع ہو گیا۔ کہیں کوئی کمرہ کسی وکالت کا دفتر بن گیا، کہیں کوئی عارضی کیبن نشر واشاعت کا دفتر مقرر ہوا۔وقت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت کشادگی پیدا کی مگر جو جماعت مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہو، اس کے لئے جو لباس بھی بناؤ، بہت جلد چھوٹا اور تنگ ہو جاتا ہے۔ سو یہاں جگہ کا تقاضا کرنا ویسا ہی ہے جیسا غالب نے کہا کہ
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں شرم آ پڑی ہے کہ تکرار کیا کریں
تو ایک تو یہ شرم تھی جس کے باعث کتب کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو بھی اسی چھوٹے سے کمرہ میں سمونا پڑا جو ہمیں بیت الفتوح میں دیا گیا تھا۔
دوسری بات جو ہمیشہ کسی تقاضہ سے مانع رہی، وہ محترم سید طاہر شاہ صاحب (ناظر اشاعت برائے ایم ٹی اے) کے سنائے ہوئے بعض واقعات تھے جن کا تعلق اس دور سے تھا جب انہیں حضور انور کے خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے قبل حضور کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ایک مرتبہ وہ جلسہ پر آئے ہوئے تھےتو انہوں نے بتایا کہ میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ہمیشہ یہ بتاتا ہوں کہ بے جا تقاضہ کبھی نہیں کرنا کیونکہ میں نے جس آدمی سے کام سیکھا ہے وہ کبھی تقاضہ نہیں کرتا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت مرزا منصور احمد صاحبؒ نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسروراحمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) کو ایک اہم کام سپرد کرکے لاہور بھیجا۔ اس کام کے لئے حضرت مرزا منصور احمد صاحبؓ نے انہیں دفتر کی کار دے کر روانہ فرمایا۔ جب لاہور پہنچ کر کام ہو گیا اور حضور انور اور سید طاہر شاہ صاحب نے واپسی کا قصد کیا تو ڈرائیور نے بتایا کہ اسے تو لاہور میں اور بھی کام کرنے کو کہا گیا ہے اور فی الحال واپس نہیں جارہا۔ محترم شاہ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو کہابھی کہ ربوہ فون کر کے کار منگوا لیں، مگر انہوں نے ایسا تقاضا کرنا مناسب خیال نہ کیا۔شاہ صاحب کہتے ہیں کہ دونوں نے وہاں سے سیدھا ریلوے سٹیشن کا رخ کیا اور ریل گاڑی پر سفر کر کے واپس روانہ ہوئے۔ چونکہ آخری لمحات میں گاڑی پر سوار ہوئے تھے، کوئی سیٹ بھی نہ تھی اور بیشتر سفر ریل گاڑی کے پائیدان پر کیا گیا۔
محترم شاہ صاحب نے ایسے ہی اور بھی واقعات سنائے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ بے جا مطالبے کرنا حضور کو پسند نہیں۔
تو یہ سب مستحضر رہتا اور کبھی خیال نہ آتا کہ جگہ کا مطالبہ کیا جائے۔ کبھی لگتا کہ جائز ضرورت ہے، مگر پھر خیال آتا کہ ضرورت جائز سہی، جگہ آئے گی کہاں سے، لہذا یہ مطالبہ کرنا نہایت نا مناسب لگے گا۔
پس ان کتب کے لئے اپنے چھوٹے سے کمرہ میں دیواروں پر بہت اوپر سے لے کر نیچے تک شیلف لگوائے اور ان پر کتب کو رکھنا شروع کر دیا۔ ایک روز حضور انور نے کتب کے ذکر پر فرمایا کہ اس لائبریری کا نام ’’راہِ ہدیٰ لائبریری ‘‘ رکھ لو۔ عرض کی گئی کہ حضور ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آنے جانے والے لوگ کتابوں کو عاریۃً لے جانے کا کہتے ہیں اور پھر کبھی واپس کرتے ہیں کبھی نہ انہیں یاد رہتا ہے نہ مجھے۔ اس پر فرمایا کہ اس کا حل تو بڑا آسان ہے۔ لائبریری کا نام ’’راہِ ہُدیٰ ریفرنس لائبریری‘‘ رکھ لو۔ یوں لوگوں کو خود معلوم ہو جائے گا کہ کتاب باہر نہیں لے جانی۔ زیادہ اصرار کریں تو بتا بھی دینا۔ حضور کے اس ارشاد کی برکت سے اوّل تو کبھی ایسے تقاضہ کا سامنا بہت ہی کم کرنا پڑا ۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے کتاب لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں بتا دیا کہ بھئی کتاب دفتر سے باہر نہیں جاسکتی، کیونکہ حضور کا ارشاد ہے کہ کتاب مستعار نہ دی جائے۔انہوں نے حضور کے ارشاد کا سن کر بظاہر برا تو نہیں منایا مگر ظاہر ہے کہ انہیں ضرورت تھی ۔ مجھے احساس ہوا کہ میں حضور کے ارشاد کی آڑ لے کر ان کی ضرورت(جو کہ جماعتی نوعیت ہی کی تھی) کی راہ میں روک بن رہا ہوں۔پھر خیال آیا کہ حضور شاید یہ کبھی بھی پسند نہ فرمائیں کہ ان کتب سے استفادہ کرنے سے کسی کو روک دیا گیا ۔ پس ان سے پوچھ کر کہ انہیں کون سے حصہ کی ضرورت ہے، خاکسار نے انہیں وہ تمام حصہ فوٹو کاپی کر کے مہیا کر دیا۔ یوں یہ لائبریری حضور کی توجہ کے طفیل بڑی حفاظت سے پھلتی پھولتی رہی۔
شیلف اتنے زیادہ بن گئے کہ وہ کتب جو بہت زیادہ لگتی تھیں کم لگنے لگیں اور یوں اور کتب کی گنجائش نکلتی چلی گئی۔ ایک روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ طاہر ہال میں جلسہ بنگلہ دیش 2010سے لائیو خطاب فرما کر ایم ٹی اے میں تشریف لائے۔ ہمارے کمرہ کی قسمت بھی جاگی اور حضور انور نے ہمارے دفتر میں بھی قدم رنجاں فرمایا۔ حضور نے دفتر میں آکرسب سے پہلے کتابوں کے شیلف کی طرف دیکھا اور کافی دیر تک نظرِ مبارک کتب پر ہی رہی۔ ساتھ کھڑے ہمارے ایم ٹی اے کے ایک عہدہ دار نے عرض کی کہ ’’انہوں نے اپنی لائبریری بہت اچھی بنا لی ہے‘‘۔حضورانور نے فوراً فرمایا’’میں نے بنوائی ہے تو بنا لی ہے، آپ لوگوں پر چھوڑا جاتا تو کبھی نہ بنتی‘‘ ۔ ساتھ ہی فرمایا کہ’’لائبریریاں تو بہت ہونی چاہئیں۔ آپ بھی بنائیں‘‘۔
ہم لوگ مغربی اداروں کی طرف رشک سے دیکھتے رہتے ہیں کہ ہر ادارہ کی اپنی لائبریری ہے۔ کثرت سے کتب خانے موجود ہیں۔ مگر ہمارا دھیان ادھر کیوں نہیں جاتا کہ ہمارے امام کا منشا تو اس سے بھی بڑھ کر ہے، یعنی یہ کہ ادارہ جات کے اندر بھی لائبریریاں ایک سے زیادہ ہوں۔ علم کی دولت عام ہو، خواہ شعبہ کوئی بھی ہو۔ ہر شعبہ میں علمی ترقی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ حضور انور کے وژن کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ مذہب علم کی راہ میں روک ہے۔ حضور تو خود علم کا سمندر ہیں اور اس سمندر سے ہم جیسی بنجر زمینوں کو سیراب فرمانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
ذکر چل رہا تھا کہ تاریخی دستاویزات اور کتب جمع ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ ابھی تک یہ سب کسی نہ کسی طرح ایم ٹی اے کے پروگراموں سے متعلق تھا۔ مگر پھر حضور انور کی طرف سے تحقیق سے متعلق ایسے ارشادات موصول ہونے شروع ہوئے جو براہِ راست ایم ٹی اے سے متعلق نہ تھے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک مکتوب بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ تحریر فرمایا کہ ایک انگریز دوست ایمان لائے ہیں ۔ مدراس پریزیڈنسی میں منصفی کے عہدہ پر جائز ہیں۔ اپنا نام جان ویٹ بتاتے ہیں۔ آپ کے پاس کشمیر بھی حاضرہوں گے۔حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ان کو تلاش کیا جائے کہ یہ کون تھے ۔
ارشاد موصول ہوتے ساتھ ان کی تلاش شروع کر دی گئی۔مکتوبِ مبارک میں ان کے شعبہ منصفی سے متعلق ہونے کا اشارہ تھا۔ سو اس قدر معلوم تھا کہ برطانوی ہندوستان کی جوڈیشل سروس میں تھے۔ بالکل خالی الذہن حالت میں اپنے امام کے ارشاد کو سر آنکھوں پر رکھے انڈیا آفس ریکارڈز کے سیکشن واقع برٹش لائبریری پہنچا۔ یہاں ایک مشکل اور اس کے حل ہونے کا ذکر ضروری ہے کہ اس سے معلوم ہوگا کہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں جو بھی نکلے، اللہ اس کی خاص مدد فرماتا ہے۔ ہم اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں۔ لیکن حضور انور کے ارشاد کی تعمیل کی نیت لے کر نکلیں تو اللہ تعالیٰ راستے کھولتا چلا جاتا ہے۔ مشکل یہ تھی کہ ’’جان‘‘ سے تو اندازہ ہو رہا تھا کہ انگریزی نام Johnاسی طرح لکھا جاتا ہے۔ مگر ’’ویٹ‘‘ جیسا نام تلاش کرنا مشکل بن گیا۔ اس تلفظ کے ساتھ انگریزی ناموں کی فہرستوں کو کھنگالا گیا تو کئی طرح کے نام سامنے آئے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا اور یہ تلاش بے سود نظر آئی۔ مگر ساتھ ہی ذہن میں آیا کہ انڈیا آفس کے اس زمانہ کے ، اس علاقہ میں تعینات جوڈیشل سٹاف کی فہرستوں کو دیکھا جائے تو اس نام سے ملتا جلتا نام کوئی تو ہوگا۔ اس سے ضرور اشارہ ملے گا۔ ان ریکارڈز میں ان سالوں میں اس سے ملتا جلتا نام تلاش کیا گیا تو ایک صاحب Ernest John Somber Whiteنامی ملے۔ جو منصفی کے عہدہ پر فائز تھے۔ ان کا نام متواتر کئی سال تک آتا رہا ۔ پھر جو سال ان کے قادیان جانے کاتھا، وہاں وہ چھٹی پر تھے۔ پھر مسیح پاک ؑ کے مکتوب کے مطابق ان کا تبادلہ جہاں ہونے والا تھا، ان کا نام اس مقام کی فہرستوں میں نظر آنے لگا۔ یوں یہ امر طے ہو گیا کہ یہ وہی صاحب تھے جن کا نام حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے مکتوبِ گرامی میں تحریر فرمایا تھا۔ یہ اور ایسے تمام معاملات اس وقت تک تصدیق کی منزل تک اس وقت تک نہیں پہنچتے جب تک کہ خلیفۂ وقت ان پر مہرِ تصدیق ثبت نہ فرمادے۔ لہذا ایسے تمام معاملات حضور کی خدمت میں پیش کئے جاتے اور حضور بڑی تفصیل سے حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ فرماتے اور پھر فیصلہ صادرفرماتے۔
اس کے بعد برطانوی ہندوستان کے کسی پادری، کسی اعلیٰ اہلکار کو تلاش کرنے کے ارشادات موصول ہوتے گئے۔ تلاش کر کے تفصیل حضور انور کی خدمت میں پیش کی جاتی، اور حضور سن کر اسے محفوظ کر لینے کا ارشاد فرماتے۔ پھر یہ ہوا کہ دنیا بھر سے کسی نے کوئی تاریخی دستاویز حضور انور کی خدمت میں ارسال کی تو اس ارشاد کے ساتھ خاکسار کو بھجوا دی جاتی ’’سنبھال کر رکھ لیں‘‘ یا یہ کہ ’’محفوظ کر لیں‘‘۔ اب اس کام کے لئے ایک مضبوط الماری اسی کمرہ میں گنجائش نکال کر رکھ لی گئی اور اس میں ان چیزوں کو محفوظ کر کے رکھ لیا جاتا۔
اوپر ذکر گزرا ہے کہ ایسٹ لندن مسجد والوں نے یہ پراپگینڈا شروع کر دیا کہ ان کی مسجد لندن کی پہلی مسجد ہے۔ اس کے جواب میں ایک مفصل تحقیقی مضمون لکھا گیا جس میں ثابت کیا گیا کہ مسجد فضل لندن ہی لندن کی پہلی مسجد ہے۔ اس دوران ایک پروفیسر صاحب سے ملنے کی ضرورت پیش آئی جو برطانیہ میں اسلام کی تاریخ پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا نام پروفیسر Ronald Geaves ہے ۔ وہ ان دنوں لورپول میں مقیم تھے۔ ان سے ملنے گیا تو انہوں نے اس بحث سے مطلق لاعلمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ جماعت احمدیہ بہت دیر سے برطانیہ میں ہے مگر پہلی مسجد کی اس بحث سے کوئی واقفیت نہیں۔
حضور انورکی اجازت سے موصوف کو لندن آنے کی دعوت دی گئی۔ انہیں مخزنِ تصاویر کی نمائش دکھائی گئی اور انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ جماعت احمدیہ کی مساجد دنیا بھر کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی شام ان کی ملاقات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ہوئی۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے جماعت احمدیہ کی ابتدائی حالات کا کچھ علم تو تھا مگر یہ ہر گز معلوم نہ تھا کہ جماعت احمدیہ کس قدر پھیل چکی ہے۔ نیز یہ کہ اب تک کا کل علم زیادہ تر لاہوری احمدیوں اور ووکنگ مسجد کے حوالہ سے تھا۔ مگر آج میں نے یہ مسجد دیکھی ہے، اس کے بارہ میں جو تحقیقی مواد جمع کیا گیا وہ بھی دیکھا ہے ، اور مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام کی کہانی کا ایک بہت اہم حصہ میری نظر سے پوشیدہ رہا ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا:
“Does that mean a new chapter in one of your books?”
کہنے لگے:
“No Your Holiness, that means a whole new book”
اس کے ساتھ ہی انہوں نے برطانیہ میں اسلام کی تاریخ میں جماعت احمدیہ کے عظیم الشان کردار پر تحقیق شروع کر دی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے ربوہ اور قادیان جا کر جماعتی آرکائیوز کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور اس خواہش کی تکمیل بہت جلد ہو گئی۔ حضور انور کے ارشاد پر محترم چوہدری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ نے ایک کمیٹی بنائی جو ربوہ میں انہیں ضروری مواد مہیا کرنے کی ذمہ دار تھی۔ وہاں وہ صبح سے شام تک مواد دیکھتے اور چونکہ بیشتر مواد انگریزی میں تھا، محترم مرزا عثمان احمد صاحب اور محترم اسفندیار منیب صاحب انہیں مواد تلاش کر کے دیتے رہے اور وہ مطلوبہ مواد جمع کر کے ساتھ لے آئے۔ قادیان میں بھی محترم محمد حمید کوثر صاحب نےاس سلسلہ میں ان کے ساتھ بہت تعاون کیا۔
واپس آکر انہوں نے حضور انور سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو وہ حضور کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ خاکسار پچھلی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے اپنے سفر اورتحقیق کا احوال بیان کیا اور بعض امور میں حضور انور سے رہنمائی کی درخواست کی۔مثلاً 1914 میں لاہوری جماعت کے الگ ہو جانے کے پس منظر وغیرہ پر حضور سے معلومات حاصل کیں۔ آخر پر کہنے لگے کہ میں اپنی ایک پریشانی کا اظہار حضور کے سامنے براہ راست کرنا چاہتا تھا، اور وہ یہ کہ ربوہ میں آپ کے آرکائیوز کے انبار لگے ہیں۔ مگر پاکستان کے حالات میں وہ غیر محفوظ ہیں۔ انہیں محفوظ کرنے کے لئے کچھ کیا جانا چاہیے، اور یہ صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔
حضور انور نے ان کی بات کو سنا اور خاکسار کو فرمایا ’’یہ نوٹ کر لو‘‘۔خاکسار اگلی ملاقات میں حاضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ وہ جو آرکائیوز والی بات کر رہے تھے، اس کا پورا پلان بنا کر لاؤ۔خاکسار نے ایک پلان تیار کیا اور اگلی ملاقات میں حضور انور کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ سارا پلان اس وقت کی صورتحال کے مطابق ہی تھا، یعنی جس طرح کام چل رہا تھا اسی طرز میں ان امور کا اضافہ کر دیا گیا کہ یہ مواد ربوہ اور قادیان سے کس طرح حاصل کیا جائے اور کس طرح اسے یہاں محفوظ کیا جائے۔ تب تک ایسے تمام کاموں کے لئے یاتو ایم ٹی اے کا بجٹ کافی ہوتا یا پھر اخراجات کے لئے رقوم ایڈیشنل وکالتِ مال لندن سے حاصل کی جاتیں۔ مگر جو پلان حضور انور کی خدمت میں پیش کیا گیا، اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اس میں بجٹ بھی شامل کیا جائے۔ بجٹ تیار کر کے حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ سب رکھو گے کہاں پر؟ پرنٹر کی ضرورت ہے، الماریوں کی ضرورت ہے اور دوسرا سامان ضروری ہے تو اس سب کے لئے تو تمہارا چھوٹا سا دفتر کافی نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی حضور نے اس خط پر تحریر فرمایا’’الگ شعبہ۔ الگ دفتر‘ ‘ اور خط الشرکۃ الاسلامیہ کے چئیرمین عبدالباقی ارشد صاحب کو مارک فرما دیاجن کے سپرد طاہر ہاؤس، ڈئیر پارک روڈ کی بلڈنگ کا انتظام و انصرام ہے۔
پس یوں حضور انور کے ارشاد کے مطابق یہ شعبہ قائم ہوا جس کا نام ’’احمدیہ آرکائیو اینڈ ریسرچ سنٹر ‘‘ رکھا گیا اور اس کا دفتر حضور کی خاص شفقت سے طاہر ہاؤس لندن ایک نئے بلاک میں بنایا گیا اور اللہ کے فضل سے اکتوبر 2014 سے یہ شعبہ حضور انور کی نگرانی میں کام کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی نظر جماعت کے تمام امور پر ہوتی ہے۔ خلیفۂ وقت سے زیادہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کسی بات کی زیادہ فکر یا کسی ضرورت کی زیادہ تفہیم حاصل ہو گئی ہے۔ بعض اوقات لوگ حضور انور کی خدمت میں تجویز پیش کر دیتے ہیں اور پھر اس بات پر پریشان نظر آتے ہیں کہ عرض تو کر دی تھی، معلوم نہیں حضور کو ملی بھی ہے یا نہیں۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ شاید حضور بھول گئے ہوں۔ اوپر تو صرف دو واقعات بیان ہوئے۔ مگربے شمار واقعات سے میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ حضور کبھی کوئی بھی بات نہیں بھولتے۔ ہر بات یاد ہوتی ہے، مگر اس کو عملی جامہ پہنانے یا نہ پہنانے کا فیصلہ حضور اس وقت کرتے ہیں جب اس کے لئے سب سے مناسب وقت ہوتا ہے۔ اکثر معاملات میں دیکھا ہے کہ حضور عجلت سے کام لینا پسند نہیں فرماتے۔ قانون قدرت ہی کی طرح حضور بھی پسند فرماتے ہیں کہ خیالات، تدابیر، فیصلے سب ارتقا سے گزریں اور پھر کوئی حتمی شکل اختیار کریں۔ پھر اس حتمیت پر پہنچ کر حضور فرمانِ الہی کے مطابق عزم فرماتے اور توکل علی اللہ پر بنیاد رکھ کر فیصلہ فرماتے ہیں۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے پہلے فورم منعقدہ بہار 2011 میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ میں ایم ٹی اے کے انتظامی ڈھانچہ میں کچھ تبدیلی کرنا چاہتا ہوں تا کہ کام زیادہ فعال اور منظم طور پر ہو سکے۔ ہم سب کارکنان اس تبدیلی کا انتظار کرنے لگے۔ حضور کےاس ارشاد میں جو وثوق تھا وہ عام آدمی کو حاصل ہوجاتا تو شاید تبدیلی چند روز میں ہو جاتی۔ ہم کارکنان جو عام لوگ ہی تھے، چند روز میں اس تبدیلی کو دیکھنے کے منتظر تھے۔ مگر دن گزر گئے، ہفتے گزر گئے کئی ماہ گزرے اور پھر دو سال کا عرصہ بیت گیا۔ یہ تبدیلی کہیں بہار 2013 میں جا کر ہوئی جس میں حضور انور نے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے انتظامی ڈھانچہ میں تبدیلیاں فرمائیں۔ پھر ہم کیسے یہ نہ مان لیں کہ ہماری سوچ کی لہریں اور خلیفۂ وقت کی سوچ اور شعور کی لہریں الگ دنیاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہم عجلت کا شکار لوگ ہیں، اور حضور اس خدا کے مقرب ترین آدمی ہیں جو تعجیل سے کام نہیں لیتا۔ جس نے انسان کو ارتقا سے گزارا۔ انسانی ذہن اور شعور کے ارتقا کی اس منزل کا انتظار کیا جہاں وہ خاتم النبیینﷺ کو قبول کرنے کے لائق ہو سکے۔ اس عظیم الشان نبی ﷺ کی امت بگڑی تو 14 صدیوں تک خدا نے انتظار کیا کہ اس موعود مسیح کو بھیجا جائے جس سے امت کی اصلاح مقدر ہے۔ پس ہم اپنی دنیا میں اس دنیا کا ادراک کیسے حاصل کر سکتے ہیں جہاں فیصلے عالمِ روحانی میں اُس خدا کے اذن سے ہوتے ہیں جس کے بارہ میں مسیح پاک ؑ نے فرمایا کہ
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے