وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۷)
آصف محمود باسط
جب اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کو اپنا ٹی وی چینل عطا فرمایا،یہ ہمارے ہوش کی بات ہے۔اسی لئے خود اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ دن بھی کیا ہی خوشی کا دن تھا۔ اس روز ساری دنیا نے بڑی شان سے یہ وعدہ پورا ہوتا ہوا دیکھا۔ یہ 1992 کی بات ہے۔ اس دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت اور اس کے مستقبل سے متعلق امکانات پر باتیں ہر احمدی گھرانے بالخصوص ربوہ کے گھرانوں اور مجالس میں ہوا کرتی تھیں۔ کچھ کہتے تھے کہ ربوہ دوبارہ خلافت کا مسکن بنے گا۔ کچھ کہتے کہ مذاہب کی تاریخ سے ایسا ثابت نہیں۔ مگر اس ہجرت کے کیسے کیسے شیریں ثمرات جماعت کو ملنے والے تھے ان کا اندازہ بہت سی اور باتوں سے بھی ہوتا ہےمگر ایم ٹی اے کے قیام نے تو ایسا شیریں ثمر عطا کیا کہ کیا ہی کہنے۔ان دنوں ربوہ کے ایک شاعر مبشر احمد محمود صاحب نے ایک شعر لکھا اور کیا ہی خوب لکھا
ہوا کے دوش پہ لاکھوں گھروں میں در آیا
جو شخص چھوڑ کے نکلا تھا گھر خدا کے لئے
خلافت صرف ربوہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کے ہر شہر کے ہر گھر میں جا پہنچی۔ اور پھر روزِ اوّل ہی سے پوری دنیا میں پھیلی جماعت احمدیہ اور اس جماعت کے نکتۂ مرکزی یعنی خلیفۃ المسیح کے درمیان ایم ٹی اے نے ایک مضبوط رابطہ کی صورت اختیار کر لی۔ امریکہ سے لے کر، یورپ سے ہوکر، ایشیا سے گزر کر شرقِ بعید تک تمام ممالک کے احمدی موتیوں کی طرح خلافت کی اس ڈور میں پرو دئیے گئے۔جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ نے جو یہ نوزائدہ انعام اتارا تھا، اس کی ابتدائی نگہداشت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی گود میں ہوئی۔
خلافتِ خامسہ کے بابرکت دور کا آغاز ہوا تو ایم ٹی اےجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔ پھرحضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور محبت جوانی میں قدم رکھتے ایم ٹی اے کو نصیب ہوئی تو یہ حال ہوا کہ
رنگ تھےاُس کے دیکھنے والے
جب بہاروں پہ وہ چمن آیا
ایم ٹی اے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی پہلی ملاقات جس روز ہوئی، اس روز ایم ٹی اے کو دیکھنے والوں کی تعداد کا ریکارڈ قائم ہوگیا۔ آسمان احمدیت پر نصف شب میں طلوعِ شمس کا یہ نظارہ کروڑوں آنکھوں نےمشاہدہ کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کا تاریخ ساز اعلان سننے اور اپنے امام کا پہلا دیدار حاصل کرنے کا شرف ساری دنیا نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے حاصل کیا۔
ایم ٹی اےکی اہمیت کا احساس ہر احمدی کے دل میں ایک نئے سرے سے مستحکم ہوا۔جماعت احمدیہ عالمگیر کی عالمگیریت کے سلسلہ کی اس بابرکت کڑی کو پہلے ہی روز سے حضرت خلفیۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ حاصل رہی۔ایم ٹی اے کے مختلف شعبہ جات سے متعلق ہدایات سے محاورہ میں نہیں حقیقت میں دفتروں کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔خاکسار کے سپرد ایم ٹی اے کے پروگراموں کی ذمہ داری ہے، سو میں جو عرض کروں گا وہ اپنے شعبہ کے حوالہ سے عرض کروں گا۔ جہاں شعبہ پروگرامنگ کی راہیں دوسرے شعبہ جات کی راہوں سے ملتی ہیں، وہاں ان شعبہ جات کا ذکر بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔
9 ؍ دسمبر 2004 کو خاکسار کو یہ مژدہ موصول ہوا کہ سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کی وقفِ زندگی کی درخواست منظور فرمالی ہے۔میری پوسٹنگ ایم ٹی اے کے آفس انچارج کے طور پر ہوئی۔ اس شعبہ میں زیادہ تر کام انتظامی نوعیت کی خط و کتابت وغیرہ سے متعلق تھا۔حضور کی ایم ٹی اے کے لئے توجہ اور شفقت کے نظارے اوّل اوّل اسی دفتر میں دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارا دفتر محمود کے اس مقام پر واقع ہے جہاں سے حضور انور نماز کے بعد رہائش گاہ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ حضور انور کسی نماز کے بعد دفتر میں تشریف لے آتے۔جو جو موجود ہوتا، اس سے اس کے کام کے متعلق دریافت فرما لیتے۔ہمارے حوصلے بلند ہوجاتے اور کام میں ایک نئی امنگ پیدا ہو جاتی۔ کبھی نمازوں کے اوقات کے علاوہ بھی حضور ایم ٹی اے میں تشریف لے آتے۔ اس دور میں ایم ٹی اے کے تمام شعبہ جات محمود ہال ہی کےمختلف کونوں میں سمائے ہوئے تھے۔یوں تمام شعبہ جات میں حضور کے بابرکت قدم پڑ جاتے اور حضور کی تشریف آوری سے سب شعبوں کے کارکنان فیض حاصل کر لیتے۔
بدھ کے روز میری ہفتہ وار چھٹی کا دن ہوتا تھا۔فروری 2005 کی ایسی ہی بدھ کی صبح بچوں کو سکول اتار کرخاکسار اہلیہ کے ساتھ بازار میں سودا سلف وغیرہ خرید رہا تھا کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے محترم ظہور احمد صاحب مربی سلسلہ کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ حضور نے یاد فرمایا ہے۔
’’مگر ظہور صاحب میں تو اس وقت بازار میں ہوں۔لیکن ابھی چل پڑتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں پہنچتا ہوں!‘‘
’’کتنی دیر میں آسکتے ہیں؟‘‘
’’کوئی پندرہ بیس منٹ میں‘‘
یہ کہتے کہتے میں گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔خواتین کی شاپنگ ادھوری رہ جائے تو ان کے جذبات کا اندازہ تو سب مرد حضرات کو ہے۔ مگر یہ تجربہ جہاں میرے لئے نیا تھا، وہاں میری اہلیہ کے لئے بھی نیا تھا۔ وہ بھی خاموشی اور صبر و رضا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی رہیں اور میں بھی نہایت خاموشی سے گاڑی کو ٹوٹنگ کے بے لگام ٹریفک میں سے نکالنے کی کوشش کرتا رہا۔ عموماً تو اس جگہ سے مسجد فضل تک پندرہ بیس منٹ کا وقت ہی لگا کرتا ہے۔مگر اس روز تو ایسا لگتا تھا کہ باقی سب ٹریفک نے میرے خلاف کوئی اتحاد کرلیا ہے۔ کچرا اٹھانے والے ٹرک بھی اسی روز بیچ سڑک تسلی سے کھڑے کچرے کے ڈھیروں کو نگل رہے تھے۔ کچرا اٹھانے والے بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر تمباکونوشی کا لطف یوں لےرہے تھے کہ جیسے آج کے بعد سگریٹ کبھی نصیب نہ ہوگا۔ ہر جگہ گاڑی سیکھنے والے بھی یوں خراماں خراماں چلے جارہے تھے کہ آج کثرتِ احتیاط کا نیا ریکارڈ قائم کرنا ہے۔ سارے لندن نے اسی روز ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنا تھا۔ کہیں مزدور راستہ بند کئے سڑک کھود کر بیٹھ گئے تھے۔ غرض سفر کیا تھا، ایک روک دوڑ تھی۔ اس روک دوڑ سے گزرکر مسجد فضل پہنچنے میں اس روز نصف گھنٹہ سے بھی کچھ زیادہ وقت لگ گیا۔ حاضرہوا تو ظہور صاحب نے کہا کہ اب تو حضور بلائیں گے تو ہی پوچھوں گا۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضور نے یاد فرمالیا۔ابھی ایک قدم دفتر کے اندر اور ایک باہر ہی تھا کہ ارشاد ہوا
’’ حضرت مصلح ِ موعودؓ کی جب اچھی کوالٹی کی تصویریں اور وڈیوز ہیں تو اتنی کم کوالٹی کی تصویریں کیوں دکھاتے ہو؟‘‘
عرض کرنے کی مجال نہیں تھی کہ حضور میں تو دفترمیں بیٹھتا ہوں، یہ کام کسی اور شعبہ کا ہے۔ مگر شکر ہے کہ کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ساتھ ہی اگلا ارشاد ہوگیا
’’یہ ساری کم کوالٹی کی تصویریں روکنی ہیں اور ان سے کہو کہ ساری تصویریں اور وڈیوز جوحضرت مصلح موعودؓ کی پڑی ہوئی ہیں مجھے دکھائیں، میں خود بتاؤں گا کہ کون سی دکھائی جائیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت تو بڑی شان و شوکت والی شخصیت تھی۔ تصویریوں میں بھی وہ شان و شوکت نظر آنی چاہیے۔‘‘
’’جی حضور‘‘
’’اور یہ فروری کا مہینہ ہے۔ چوہدری محمد علی صاحب کے انٹرویو جن میں حضرت مصلح موعود ؓ کا ذکر ہے وہ انٹرویو زیادہ چلانے ہیں آجکل۔ بتا دینا ‘‘
’’جی حضور‘‘
میں مکمل بوکھلاہٹ میں تھا۔ جزاک اللہ کہہ کر باہر نکلنے والا ہی تھا کہ ارشاد ہوا
’’کیسے بتاؤ گے؟‘‘
عرض کی کہ حضور ، مجھے معلوم نہیں۔مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کسی کو پہنچانے کا طریقِ کار کیا ہے۔
’’اب باہر جا کر میرے نام خط لکھو کہ میں نے بلاکر تمہیں یہ بتایا ہے۔ پھر میں اس کی توثیق کردوں گا۔ پھر وہ توثیق والا خط چئیرمین صاحب کو دے دینا‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ جماعتی خط و کتابت اور پھر اسے آگے پہنچانے کایہ پہلا سبق تھا۔پروگراموں کی ذمہ داری تو بہت بعد میں ملنی شروع ہوئی، مگر پروگراموں میں دکھائے جانے والے مواد کی حساسیت کا درس پہلی دفعہ اس ملاقات میں حاصل ہوا۔آج سوچتا ہوں تو اس سبق کی گہرائی اور بھی کھلتی جاتی ہے۔ ٹی وی کا تعلق صرف سماعت سے نہیں بلکہ بصارت سے بھی ہے۔ سو جو بات کہی جارہی ہے، اس کے ساتھ visuals اگر مناسبِ حال نہ ہوں تو بات کا اثر کم ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر حضرت مسیح موعود ؑ یا خلفا کی تصاویر کی بات ہو، تو اس میں باریکی سے احتیاط کی جائے کہ کہیں ہمارے ناقص انتخاب سے ان بزرگ ہستیوں کی شان میں گستاخی نہ ہو۔ پھر یہ کہ نئی نسل نے جن بزرگوں کو نہیں دیکھا، ان کے ذہن میں تو وہی تاثر بنے گا جو ہم ایم ٹی اے پر دکھائیں گے۔
بہت بعد میں ایک اور موقع پر بھی حضور نے اظہار فرمایا کہ ’’میں نے جب حضرت مصلح موعود ؓ کوآخری مرتبہ دیکھا، اس وقت میری عمر کوئی پندرہ سولہ سال کی تھی۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کی صحت بھی اچھی نہیں تھی۔ مگر اس وقت بھی جو بات ذہن پر نقش ہوگئی وہ آپ کی شخصیت کی شان و شوکت ہے۔ تصویروں اور وڈیوز کا انتخاب احتیاط سے ہونا چاہیے۔‘‘
ایک مرتبہ حضور کی طرف سےایم ٹی اے(اور نشر و اشاعت کےدیگر اداروں ) کے لئے ہدایت آئی کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفا ٔ کی تصاویر اور وڈیوزمیں کسی بھی طرح کا ردوبدل نہ کیا جائے۔ انگریزی الفاظ تھے
… should not be graphically tampered with
حضور کا انداز بات کو سمجھانے کا ہمیشہ یہی دیکھا۔ الفاظ کم مگر معانی کا ایک جہان۔ حضور کا ہر ارشاد ایسا ہے جیسے انسان آئینہ خانہ میں داخل ہو جائے اورہر طرف رنگارنگ نقش ونگار بنتے چلے چائیں۔یہاں بھی الفاظ اگرچہ کم تھے مگر ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق موجود تھا کہ ایم ٹی اے کے پاس جو بھی تصاویر اور وڈیوز موجود ہیں وہ جماعت کی امانت ہیں۔ انہیں جماعت تک پہنچانا ایم ٹی اے کی ذمہ داری قراردیا گیا ہے۔ انہیں پروگراموں میں دکھا کر صرف موجودہ نسلوں تک ہی نہیں پہنچانا بلکہ ان کو محفوظ کرنے کا بھی ایسا انتظام کرنا ہے کہ آئندہ نسلیں اس خزانہ کو بحفاظت حاصل کریں اور ان کی نشر و اشاعت کا کام جاری رہے۔ اگر آج ہم ان مقدس ہستیوں کی تصاویر کو گرافکس وغیرہ کے ذریعہ چھیڑنے کی کوشش کریں گےتو پھر حد کھینچنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر بات رنگ بھرنے اور نقش و نگار بنانے اور پھر خاکوں تک جا پہنچنے کا احتمال ہے۔ پھر یہ بھی کہ اللہ کی ان چنیدہ ہستیوں کے حُسن کو کسی اور زیب و زینت کا احتیاج نہیں۔ لوگ انہی چہروں پر اللہ کا نور دیکھتے رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔ انہیں دنیوی زیب و زینت کی ضرورت نہیں کہ ان چہروں کے نور کے آگے دنیا کی زیب و آرائش کے سب سامان ہیچ ہیں۔جنہیں خدا نے نور اور حسنِ صداقت سے مالامال کیا ہو، ان میں انسان کو دخل دینے کی کیا ضرورت؟
2005 میں ابھی میں دفتر ہی میں تعینات تھا کہ ایک روز ارشاد موصول ہوا کہ حضور انور نے ایم ٹی اے نیوز کی ذمہ داری خاکسار کے سپرد فرمائی ہے۔ تب نیوز کا سٹوڈیو بیت الفتوح میں منتقل ہوا ہی تھا۔ ریکارڈنگ رات کو ہوا کرتی۔ خاکسار دن کو دفتر کا کام کیا کرتا اور شام کو نیوز کی ریکارڈنگ کے سلسلہ میں بیت الفتوح حاضر ہو اکرتا۔ تب تک دنیا بھر کی جماعتی خبریں روزانہ کے عام بلیٹن ہی میں شامل کی جاتی تھیں۔ایک روز حضور انور کی خدمت میں تجویز پیش کی گئی کہ جماعتی خبروں کا الگ بلیٹن ریکارڈ ہواکرے۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت منظوری عطا فرمائی مگر ہمارے لئے اب مسئلہ یہ بن گیا کہ کبھی توجماعتی خبریں اتنی ہوتیں کہ ایک معقول دورانیہ کا بلیٹن بن جاتا، کبھی ایک بھی خبر نہ ہوتی۔ یہ مشکل حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضو ر انور نے ہدایت فرمائی کہ ایڈیشنل وکالتِ تبشیر کے ذریعہ دنیا بھر کی جماعتوں کو یہ سرکلر کروایا جائے کہ وہ اپنی کارگزاری کی رپوٹ ایم ٹی اے کو بھجوایا کریں تا کہ انہیں جماعتی خبروں میں شامل کر لیا جایا کرے۔
اس ایک ہدایت سے ہماری مشکل تو دورہو ہی گئی مگرساتھ یہ رہنمائی بھی مل گئی کہ جماعت احمدیہ کا نظام جس طرز پر خلفأ نے تعمیر کیا ہے، وہ بے سبب نہیں۔اس نظام کے تحت کام کیا جائے تو منزلِ مقصود حاصل ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ ایڈیشنل وکالتِ تبشیر کا کام ہی یہ ہے کہ بیرونی جماعتوں سے رابطہ رکھیں اور بیرونی جماعتیں بھی ان سے مستقل رابطہ میں رہتی ہیں۔ جب اس شعبہ کا کام ہی بیرونی مشنز سے رابطہ ہے تو کیوں اس سے استفادہ نہ کیا جائے۔ اور بہت سے معاملات میں بھی حضور کی ایسی ہدایات ایم ٹی اے کو حاصل رہیں جن سے نظامِ جماعت کو سمجھنےاور اس کے دائرہ میں رہ کر کام کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
جماعتی خبروں ہی کے سلسلہ میں حضور انور نے پرسیکیوشن نیوز شروع کرنے کی ہدایت فرمائی۔ یہ پروگرام کس طرح ارتقا سے گزر کر ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ کی شکل تک پہنچا، اس کی تفصیل ایک گزشتہ مضمون میں آچکی ہے۔مگر اس پروگرام کے حوالہ سے حضور انور کی ہدایات بھی ایک امانت ہیں جو قارئین تک پہنچ جائیں تو ان کے لئے بھی اسی طرح ایمان افروز ہوں گی جس طرح ان ہدایات کے براہِ راست مخاطب نے ان سے فیض پایا۔
جب پروگرام ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ کا آغاز ہوا تو یہ ایم ٹی اے کے لئے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ چونکہ لائیو کالز کی سہولت تھی سو ناظرین کی طرف سے فون کالز کثرت سے آیا کرتیں۔ احمدی اور غیر ازجماعت سبھی کی کالز ہوتیں جو پروگرام میں سنی جاتیں۔ لائیو کالز کی سہولت دیتے وقت یہ اندیشہ دامنگیر تھا کہ کہیں معاندین بد تہذیبی کا مظاہرہ نہ کریں۔ حضور انور سے رہنمائی کی درخواست کی گئی تو فرمایا’’کال سیدھی سٹوڈیو میں تو نہیں جائے گی ۔ پہلے تمہاری ٹیم اسے ریسیو کرے گی، ان سے کچھ بات کرے گی، پھر کال سٹوڈیو میں جائے گی۔ ایسا ہی ہے نا؟‘‘
عرض کی کہ جی حضور ایسا ہی ہے۔فرمایا’’تو بس۔۔۔جیسی بات چیت ان کے ساتھ تمہاری ٹیم فون اٹھاتے ساتھ کرے گی، اس سے ہی کالر کی بات چیت کے انداز کا فیصلہ ہو گا۔ پھر جب کال سٹوڈیو میں آئے تو جس انداز میں تم لوگ بات کرو گے، اس کا اثر ضرور کالر پر بھی ہوگا‘‘۔
لکھنے کو تو یہ ہدایت میں نے یہاں تین سطور میں درج کر دی ہے، مگر میرا ایمان ہے کہ اس ہدایت کے اندر (ہر فرمان کی طرح) دعا بھی تھی۔ ان دنوں پاکستانی ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کا دور دورہ تھا۔ کیا میزبان، کیا مہمان، کیا لائیو کال کرنے والے، سب بد تہذیبی کا مظاہرہ ایسے کرتے گویا بدتمیزی کا کوئی مقابلہ ہے اور سب سے زیادہ بدتہذیب اور غیر شائستہ گفتگو کرنے والے کو کوئی انعام ملے گا۔ مگر ہمارے امام نے ہماری جو رہنمائی فرمائی ، اس کا عملی رنگ خود آپ کے خطبات اور خطابات میں نظر آتا ہے۔ آج جب کہ پروگرام راہِ ہُدیٰ کو شروع ہوئے 8 سال کا عرصہ ہو گیا، مجھے یہ یہ اقرار ان سطور میں کرنے دیجیے کہ کوئی ایک بھی لائیو کال ایسی نہیں جس میں دشنام طرازی کی گئی ہو۔ بڑے بڑے گرما گرم فون بھی آتے رہے، تیز لہجے بھی سننے کو ملے مگر کوئی ایک کال ایسی نہیں جو تہذیب سے گری ہوئی گفتگو پر مبنی ہو۔یہ حضور انور کی اسی ہدایت کا کرشمہ تھا اور ہے ۔
ایک مرتبہ ہمارےپینل میں بیٹھے ہوئے کسی دوست کے لہجے میں درشتی کا رنگ غالب آگیا۔ اگلے روز ملاقات کے لئے حاضر ہواتو حضور نے اتفاق سے وہی حصہ ملاحظہ فرما رکھا تھا۔ فرمایا کہ ’’سب شرکا کو اچھی طرح بتادو کہ زبان اور لہجہ نرم ہونا چاہیے۔ جب میں درشت زبان استعمال نہیں کرتا تو اور کوئی کیوں کرے؟‘‘
بالکل آغاز کی بات ہے کہ پروگرام میں دیا گیا ایک جواب حضور کوغیر ضروری طور پر طویل لگا۔ اگلی مرتبہ حاضر ہوا تو فرمایا کہ :
’’سب کو بتادو کہ پروگرام کا مقصد پیاس لگانا ہے۔ پیاس بجھانا نہیں۔ ایک مرتبہ پیاس لگ گئی تو پھربجھانے کا انتظام اللہ خود ہی کردےگا‘‘۔
ایک موقع پر خاکسار نے عرض کی کہ حضور، جس طرح الحوارالمباشر میں کثرت سے لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہورہے ہیں، راہِ ہُدیٰ میں وہ صورت نہیں۔ ہر پروگرام میں ایک یا دولوگ ہی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ فرمایا ’’مجھے بیعتوں کی کوئی جلدی نہیں۔ تم لوگوں کا کام اتمامِ حجت کرنا ہے، وہ کردو۔ دلوں کو پھیرنا خدا کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ سبحان اللہ!خدا کی ذات پر ایسا یقین کامل ایسے آدمی ہی کو ہو سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلق ہو۔
حضور کو طویل جواب ہمیشہ ناپسندرہے۔ اور اس کے پیچھے کارفرما حکمت پر سے حضور نے خود پردہ بھی اٹھایا کہ بات مختصر ہو تو پیاس بھی بڑھتی ہے اور مزید جاننے کی خواہش بھی باقی رہتی ہے۔ مگر ایک دفعہ یوں ہوا کہ محترم مبشر احمد کاہلوں صاحب پاکستان سے ٹیلی فون کے ذریعہ پروگرام میں شامل تھے۔ محترم کاہلوں صاحب جواب اپنی مرضی کے طویل دیتے ہیں مگر اس بارہ میں انہیں کبھی توجہ دلانے کی مجال نہ ہوئی۔ وہ اس لئے کہ ایک مرتبہ پروگرام راہِ ہُدیٰ کے آغاز کے زمانہ میں حضور نے فرمایا کہ’’ کل میں نے پروگرام کا کچھ حصہ دیکھا تھا۔ کاہلوں صاحب کا جواب بہت لمبا تھا، لیکن ٹھیک ہے، انہیں تو حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں حفظ ہیں۔ انہی میں سے باتیں بیان کررہے تھے‘‘۔یعنی یہ توجہ بھی دلا دی کہ اپنے ذوقی نکات بیان کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ قرآن ، حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپ ؑ کے خلفأ کے ارشادات پر مبنی گفتگو ہو۔ یہ بات حضور نے ویسے بھی کئی مواقع پر بیان فرمائی کہ اگر قرآن ، حدیث اور حضرت مسیحِ موعودؑ اور آپؑ کے خلفأ کو اپنا دائرہ سمجھ لیا جائے جو اس سے بہتر کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔
اس سے ایک اور بات یاد آگئی۔محرم کا مہینہ تھااور یومِ عاشور میں ایک آدھ دن کا وقت رہتا تھا۔ ہمارا پروگرام ہوا اور کسی ایک بھی غیر احمدی نے کال نہ کی۔ سب کالر احمدی ہی تھے، وہ بھی بہت کم۔ میں اگلے روز ملاقات کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ طبیعت پروگرام کی ویرانی کے باعث اداس تھی۔ مجھے یہ اندیشہ کھائے جارہا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ بس کچھ ماہ لوگوں نے نیا پروگرام پسند کیا اور اب دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ حاضرہوا تو اپنی افسردگی کا اظہار کیا۔ خیال نہ رہا کہ افسردگی کا اظہار اس ہستی کے سامنے کررہا ہوں کہ افسردگی اور مایوسی جس کے پاس سے بھی نہیں گزرتی۔
فرمایا’’کوئی بات نہیں۔ ابھی محرم کا مہینہ ہے۔ پاکستان میں تو اس مہینہ میں لوگ مصروف ہوتے ہیں۔ اب یہ دن گزرجائیں گے تو ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
اگلا پروگرام ہوا تو اس روز جتنے غیر احمدیوں کے فون آئے، پہلے کبھی بھی نہ آئے تھے۔ اس روز تمام کالز غیر ازجماعت احباب ہی کی سنی گئیں۔ احمدی کالرناراحت بھی ہوئے کہ ہماری کالز بالکل نہیں لی گئیں۔ مگر ہم کیا کرتے کہ پہلا حق تو انہی کالرز کا تھا جو جماعت احمدیہ کے عقائد سے تعارف حاصل کرنا چاہتے تھے۔اس پروگرام کے بعد جب حاضرِ خدمت ہوا تو میں نے بہت جوش اور جذبہ سے بتایا کہ حضور، اس پروگرام میں تو اتنے غیر از جماعت کالر آئے کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ بلکہ بہت سے تو رہ بھی گئے جن کی کالز وقت کی کمی کے باعث لی ہی نہ جاسکیں۔حضور نے اس بات کو اس طرح سنا جس طرح حضور کو معلوم ہی تھا کہ ایسا ہوگا۔ میں نے یہ بھی عرض کردی کہ احمدی کالرز تو نالاں رہے کہ ان کی کالز نہیں لی جاسکیں۔ اس روز ایک اور ہدایت ارشاد ہوئی جس سے ایک نیا زاویہ روشن ہوا۔ فرمایا:
’’احمدی کالرز کی بھی کالز لے لیا کرو۔ وہ سنیں گے ، سمجھیں گے تو تبلیغ کرتے ہوئے انہی باتوں کو سمجھائیں گے۔ دوسروں کا پہلا حق ہے، مگر جہاں ہوسکے وہاں احمدی کالر کی کال بھی ضرور لو‘‘۔
یعنی ایک پروگرام ہے، اس سے ایک ہی مقصد کیوں حاصل ہو۔ جہاں ایک ہی چیز ایک سے زیادہ مقاصد حاصل ہوتے ہوں، وہاں زیادہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔ جہاں تبلیغ ہو وہاں تبلیغ کے لئے تیاری کا کام بھی ہوتا رہے۔ پھر یہ بھی کہ گھر والوں کا بھی تو حق ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ پاکستان کے احمدی کالرز کا ذکر تھا۔ عرض یہ کی کہ بعض کالر ایسے بھی ہیں کہ کال کر کے صرف اظہار خیال کرتے ہیں، سوال نہیں پوچھنا ہوتا۔ فرمایا
’’ٹھیک ہے۔ پھر کیا ہوا۔ پاکستان میں تو ان کی زبان پر ویسے ہی پابندی ہے۔ کسی کی بات اچھی ہو اور اس کا شوق پورا ہوتا ہو تو کرنے دو‘‘۔
دیکھئے تو! حضور مکانی اعتبار سے پاکستان سے دور سہی مگر دل اپنے ان مظلوم بچوں سے کسقدر قریب ہے۔ ان کے درد کا احساس سب سے زیادہ، ان سے بھی زیادہ حضور انور کے دل میں ہے۔ایسی محبت دنیا کے کس رہنما کواپنے لوگوں سے ہوگی۔ سبھی کا درد حضور کے دل میں تو ہے۔ غالب نے تو اپنے لئے مصرع کہا تھا، مگر ہم تو حضور کے لئے اللہ کے حضور فریاد کرتے ہیں کہ
’’اِن کی‘‘ قسمت میں غم گراتنا تھا
دل بھی یارب کئی دئیے ہوتے
آغاز میں جب بھی حضور سے پروگرام کے شرکاء کے سلسلہ میں رہنمائی کی درخواست کی گئی، ایسا لگا کہ حضورکی نظر کے سامنے اپنے تمام علماء موجود ہوتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے علماء کے نام ارشاد فرماتے۔ کوئی تجویز ہوتی تومنظور بھی فرمالیتے مگر بعض اوقات ساتھ فرماتے کہ فلاں صاحب اس موضوع پر اچھی بات کر لیں گے۔ بعض علماء کو پروگرام میں آئے کچھ وقت گزرجاتا تو یہ بھی حضور کو یاد ہوتا۔ فرماتے کہ ’’۔۔۔صاحب بڑی دیر سے نہیں آئے۔ کوئی پروگرام عیسائیت پر ہو توان کو بلالینا‘‘۔
جب عرض کی کہ مثلاً سیرت حضرت مسیح موعودؑ پر پروگرام ہے۔ تو صرف یہاں لندن ہی کے نہیں بلکہ پاکستان کے علماء بھی مستحضر ہوتے کہ سیرت کو کون اچھا بیان کرسکتا ہے۔
پاکستان کے علماء کو پروگرام میں شامل کرنے کا جس روز حضور انور نے فیصلہ فرمایا، اس روز ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ’’پاکستان میں انہیں روزمرہ غیر احمدی مسلمانوں سے واسطہ رہتا ہے۔ انہیں بہتر معلوم ہے کہ آج کل کون سے سوال زیادہ پوچھے جاتے ہیں ۔ پھر پاکستانی لوگوں کے رحجان کا بھی انہیں بہتر پتہ ہے کہ کیسے جواب سے مطمئن ہوتے ہیں‘‘۔
حضور کے سامنے علماء کے نام بطور تجویز پیش ہوتے ۔ تین یا چار نام لکھ کر عرض کر دیتا کہ حضور ان میں سے یا جن کو حضور مناسب خیال فرمائیں، کوئی سے دو علماء کی منظوری عنایت فرمائیں۔حضور کوئی سے دوناموں کے ساتھ نشان لگا کر ان کی منظوری عنایت فرمادیتے۔ یا کوئی اور نام تحریر فرمادیتے۔ ایک صاحب کا نام تھا جس کے ساتھ کبھی منظوری کا نشان لگا ہوا نہ آیا۔ میں نے خیال کیا کہ ان کی منظور ی نہیں آتی لہذا اُن کا نام لکھنا چھوڑ دیا۔ بعد میں ایک اور پروگرام شروع ہوا جس کی نوعیت مختلف تھی۔ اس کے لئے انہی صاحب کا نام حضور انور نے ازخود ارشاد فرمایا کہ ان کو بلالو۔ تو یہ بات ایک مرتبہ پھر معلوم ہوگئی کہ حضور کو صرف علماء کے نام ہی نہیں مستحضر ہوتے بلکہ ان کی قابلیت اور ان کے علمی رحجان کا بھی خوب علم ہوتا ہے کہ کب، کون ، کہاں پر مناسب ہے۔
ایک بار عرض کی کہ راہِ ہُدیٰ میں ایک غیر از جماعت کالر نے شکوہ کیا ہے کہ جب ہم ان کے لئے ’’غیر احمدی کالر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو انہیں اس سے ’غیریت‘ کا احساس ہوتا ہے۔ فرمایا ’’تو نہ کہا کرو غیر احمدی۔Non Ahmadiکہہ لیا کرو‘‘۔ عادتاً کبھی زبان سے نکل ہو گیا تو الگ بات ورنہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں غیر احمدی نہ کہا جائے۔
کرسچن مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اردو میں ’’عیسائی‘‘ کی اصطلاح عام ہےاور کبھی بھی یہ اصطلاح ہتک آمیز خیال نہیں کی گئی۔ ایک کرسچن خاتون جرمنی سے بڑی باقاعدگی سے فون کرتیں اور سوالات پوچھتیں۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ جس طرح آپ اپنے لئے ’’قادیانی‘‘ کی اصطلاح پسند نہیں کرتے ، میں بھی عیسائی کہلوانا پسند نہیں کرتی۔ ہم مسیحی ہیں اور ہمیں اسی نام سے پکارا جائے۔حضور نے فرمایا کہ انہیں مسیحی ہی کہا جائے مگر ساتھ یہ وضاحت بھی دے دینا کہ ہم قادیان سے منسوب ہوناباعثِ فخر سمجھتے ہیں مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا نام جماعت کے بانی(علیہ السلام) نے جماعت احمدیہ رکھا تھا، لہذا من حیث الجماعت ہمارا حوالہ یہی نام ہے۔ یعنی حضور انور کو اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی تڑپ تو سب سے زیادہ ہے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال رکھنا بھی سکھا دیا کہ ہماری کسی بھی بات سے ناظرین کی دل آزاری نہ ہو۔
پروگرام میں غیر مبائعین کا ذکر تھا۔عادتاً انہیں پروگرام میں ’لاہوری‘ احمدی کہہ کر ذکر کیا گیا۔ ایک صاحب کا فون آیا کہ ہم نہیں پسند کرتے کہ ہمیں ’لاہوری‘ کہا جائے۔ ہدایت کی درخواست کی تو فرمایا کہ’’ جو وہ پسند کرتے ہیں وہ کہہ لیا کرو۔خود بھی بہت سے لاہوری احمدی خود کو لاہوری ہی کہتے ہیں۔ انہی کو کہو کہ بتا دیں۔ جو کہیں وہ کہہ لیا کرو‘‘۔ ان سے رابطہ کر کے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا حوالہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے طور پر دیا جائے۔ سو آئندہ سے اس بات کی بھی احتیاط کی گئی۔
مقصد یہ کہ حضور انور نے ہمیں قدم قدم پر سمجھایا کہ محبت کو عام کرنا ہے، نفرت کو نہیں۔ جو کام محبت سے ہوتا ہے وہ دل دکھا کر نہیں ہو تا، بلکہ اُلٹابُعد اورفاصلے بڑھتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک سوال کے جواب میں ہمارے ایک عالمِ دین نے ایسی بات بیان کردی جو جماعتی موقف کو درست پر بیان نہیں کرتی تھی۔ ملاقات کے لئے حاضرہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ میں نے خود بھی محسوس کیا تھا اور پھر ربوہ سے سلسلہ کے ایک عالم نے بھی بڑا زوردار خط لکھا ہے کہ یہ بات درست نہیں تھی۔ حضور نے فرمایا کہ آئندہ پروگرام میں درست موقف بیان ہو۔ جب اگلے پروگرام کے لئے شرکا کے بارہ میں پوچھا تو میرا خیال تھا کہ جن سے غلطی ہوئی ہے، حضور انہیں شامل نہیں فرمائیں گے۔ مگر فرمایا کہ انہی کو بلاؤ اور کہو کہ بات کو درست طور پر بیان کردیں۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے اور واقعات سے معلوم ہوا کہ حضورربِّ غفور و رحیم کی محبت میں ہماری خطائیں معاف کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں۔مگر وہاں تک جہاں تک سلسلہ کے کام پر آنچ نہ آتی ہو۔
غالباً ۲۰۰۸ کا جلسہ سالانہ تھا۔ جلسہ سے کچھ روز پہلے ارشاد موصول ہوا کہ خاکسار ایک پروگرام کرے جس کا سلسلہ تینوں دنوں پر محیط ہو۔اس کے لئے ربوہ سے آئے ہوئے کچھ بزرگان کے نام بھی حضور نے پیغام میں ارشاد فرمائے تھے کہ پروگرام ان سب کے ساتھ ہو۔نیز یہ بھی حکم تھا کہ حاضر ہوکر مزید ہدایات لوں۔ حاضر ہواتو فرمایا کہ ان بزرگوں کے پاس جو معلومات ہیں وہ دنیا تک بھی پہنچیں، اس لئے ان بزرگان کے ساتھ پروگرام کر لینا۔ میں نے تجویزکے طور پر عرض کی کہ یہ دو صاحب ایک پروگرام میں، اور یہ دو دوسرے میں اور یہ دو تیسرے پروگرام میں رکھ لئے جائیں۔ فرمایا کہ پہلے پروگرام میں جن دو بزرگوں کو ایک ساتھ رکھ لیا ہے، ان میں سے ایک ہی بولے گا دوسرے صاحب تو بیٹھ کر سنتے رہیں گے اورتم سے ناراض ہوں گے کہ مجھے ویسے ہی بٹھا لیا۔ لیکن ٹھیک ہے، اسی طرح کر لو۔
اب جب یہ پروگرام کیا گیا توتقریباً وہی صورتحال بنتے بنتے بچی۔ مگر بچی بھی کیا، ایک صاحب کی بات اسقدر لمبی ہو گئی کہ دوسرے بزرگ چپ چاپ ان کی بات سنتے رہے۔ پھر میں نے کسی مناسب وقفہ کا انتظار کیا کہ جب بھی توقف ہو، میں دوسرے بزرگ سے سوال پوچھ لوں۔ میں بدقت ایسا کرنے میں کامیاب تو ہوگیا مگر پروگرام کے بعددونوں بزرگ تشنگی کی شکایت لے کر سٹوڈیو سے نکلے ۔پھر اگلے روز کے پروگرام میں کچھ ترمیم کی اور جو صاحب کم بول پائے تھے، انہیں مزید وقت دیا گیا۔جلسہ کے بعد ساری صورتحال عرض کی تو فرمایا کہ میں نے تو بتا دیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا، لیکن پھر میں نے سوچا تمہیں تجربہ بھی ہو جائے۔اب بظاہر یہ معمولی بات نظر آتی ہے، مگر اس میں بھی مجھ ناتجربہ کار کو ایک ایسا سبق دیا جس کا خیال میں نے اس دن کے بعد سے ہمیشہ رکھا۔ کیونکہ سبق یہ تھا کہ پروگرام کے میزبان کو اپنے مہمانوں کی طبائع کا بھی کچھ علم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ پروگرام اس کے قابو سے نکل جاتا ہے اور مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے بعد سے خود میں نے بھی یہ اہتمام کیااور کرتا ہوں اور اپنے رفقأ کار میں سے جس کے سپرد بھی کسی پروگرام کی میزبانی کی ذمہ داری ہوئی، ان کے لئے بھی اہتمام کیا ہےکہ وہ اپنے شرکأ گفتگو سے پہلے مل کر شناسائی حاصل کر لیں اور اس موضوع پر پہلے گفتگو بھی کر لیں تاکہ اندازہ ہو کہ کون کتنی گفتگو کر ے گا۔
راہِ ہُدیٰ جب ’’پرسیکیوشن نیوز‘‘ اور پھر ’’پرسیکیوشن‘‘ کی منازل سے گزرتا ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ تک پہنچا تو اس پروگرام کاset وہی رہا۔ چہرے بھی کم و بیش وہی تھے جو پروگرام کے نام اور نوعیت کی تبدیلی سے پہلے آیا کرتے تھے۔ اس کے باعث تاثر پرانے پروگرام کا ہی رہا جو کہ لائیو نہیں ہوا کرتے تھے۔ایک روز حضور انور نے فرمایا کہ ’’تمہارا سیٹ تو وہی پرانا ہے، وہ نہیں بدلنا؟‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ یہ سوال ہاں یا نہ کا متقاضی توتھا نہیں۔ منشأ مبارک معلوم ہوگیا تھا سو جو میز کرسیاں میسر تھیں انہی کو ملا جلا کر نئے سیٹ کی شکل دے دی۔ اس کے کچھ روز بعد حضور انور بیت الفتوح میں کسی جلسہ سالانہ سے بذریعہ ایم ٹی اے خطاب فرما کر ازراہِ شفقت ایم ٹی اے میں تشریف لائے۔ سٹوڈیو میں تشریف لے جاکر دریافت فرمایا کہ راہِ ہدیٰ کہاں ہوتا ہے؟ وہاں پروگرام کے نئے سیٹ کی ادنیٰ سی کوشش رکھی تھی۔ حضور انور نے معین طور پر ہدایات ارشاد فرمائیں کہ اس پروگرام کا سیٹ یوں ہو۔ پھر کاغذ اور قلم منگوا کر نقشہ بنا کر دکھایا کہ کچھ یوں ہو۔ارشاد کی تعمیل میں پروگرام کا سیٹ حضور انور کے منشا کے مطابق بنانے کی کوشش کی گئی اور آج تک لندن سٹوڈیوز کا سیٹ وہی ہے جو حضور کے ارشاد پر بنایا گیا تھا۔اس باریکی سے حضور کی توجہ دیکھ کر دل میں ایم ٹی اے کے پروگراموں کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی، اور دل سے حضور کے لئے دعا بھی نکلی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس توجہ اور محبت کا حق ادا کرنے والا بنائے۔آمین۔
دسمبر 2009 میں راہِ ہُدیٰ کو لائیو نشر ہوتے کوئی چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ حضور کی شفقت اور نگرانی میں پروگرام مستحکم ہو چکا تھا اور اس سے متعلق ابتدائی مسائل جنہیں انگریزی میں teething problems کہتے ہیں، حل ہو چکے تھے۔ پروگرام سے متعلق معاملات ایک معمول پر آچکے تھے۔ایک روز راہِ ہُدیٰ میں جماعت احمدیہ کی تاریخ سے متعلق سوال آیا تو پروگرام کا رُخ جماعت کی تاریخ کی طرف مُڑ گیا۔ ایک روز ملاقات میں حضور انور نے پروگرام کا احوال سنتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی تاریخ پر ایک الگ پروگرام شروع ہونا چاہیے۔ نوجوان نسل کو جماعت کی تاریخ سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نئےپروگراموں کی تیاری کے تعلق میں بھی حضور کی رہنمائی حاصل رہی۔ جس طرح ایک ماہر طبیب کو معلوم ہوتا ہے کہ میری دی ہوئی دوا سے جسم میں کیسے عمل اور ردِ عمل ہوسکتے ہیں، حضور کو بھی بڑا معین طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جس کو حضور کی طرف سے حوصلہ افزائی مل رہی ہے، اس کی امنگیں آسمان پر جا پہنچتی ہیں۔ وہ طرح طرح کے خواب سجاتا ہے اور دل کرتا ہے کہ سب کچھ ابھی اور اسی وقت ہو جائے۔ ایسے میں اس سے غلطیاں بھی سرزدہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ سو حضور نے آغاز ہی سے یہ بھی سکھا دیا کہ کام جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کرنا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ حضور کو کسی کام میں غیر ضروری عجلت ہرگز پسند نہیں۔ اس لئے جب بھی جوش اور جذبہ سے کوئی تجویز پیش کی گئی، حضور کی طرف سے ہمیشہ اس پر غور و خوض کی تلقین ہوئی۔ اور کون کون سے شعبے اس کام میں شامل ہوں گے، ان سے بھی پوچھو۔ جہاں ٹیکنیکل معاملات ہیں وہاں ٹیکنیکل شعبوں سے رابطہ کرو۔ کس دن یہ پروگرام کرنا مناسب ہے، شرکا ٔ سے پہلے پوچھ لو وغیرہ۔ یہ اور ایسے انگنت ارشادات ہیں جنہوں نے ایک تڑپتے، پھڑکتے ، اچھلتے، کودتے نوجوان کو آرام ، سکون ، غور، تدبر، تفکر ، صبر اور تحمل کا درس دیا۔ اس سے فائدہ میں کسقدر کرسکا، یہ معاملہ خدائے ستّار کے سپرد کرتے ہوئے اتنا عرض کردیتا ہوں کہ یہ ادنیٰ غلام اپنے آقا کا اس احسان پر بے حد ممنون ہے۔ ورنہ ہمیں یہ سبق کہاں سے ملتا کہ ہر بار عشق کا بے خطر کود جانا ہی برمحل نہیں ہوتا، بلکہ عقل کی طرح کچھ دیر لبِ بام رک کر صورتحال کو سمجھ لینا بھی مفید ہوتا ہے۔ یہی متوسط راہیں ہیں جو آنحضرت ﷺ نے ہمارے لئے پسند فرمائیں اور یہی راہیں آج ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں دیکھ رہے ہیں۔
اب واپس آتے ہیں اس نئے پروگرام کی طرف جو جماعت احمدیہ کی تاریخ پر شروع کرنے کا ارشاد تھا۔ خاکسارنے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ سے مشورہ کیا۔ شرکا ٔ کے نام تجویز کرنے سے پہلے شرکا سے متعلق معلومات حاصل کیں۔میزبان کی تلاش کی اور پھر حضور انور کی خدمت میں جب اگلی دفعہ حاضر ہوا، پروگرام کا خاکہ پیش کیا۔حضور انور نے ازراہِ شفقت رہنمائی فرماتے ہوئے اسے منظور فرمایا اور یہ پروگرام بھی شروع ہو گیا۔ اس پروگرام کا نام ’’تاریخی حقائق‘‘ حضور انور ہی کی عطا تھا۔ آغاز میں یہ پروگرام عزیزم شاہد محمود صاحب (واقفِ نو) ، برادرم اعجاز احمد طاہر صاحب اور برادرم مشہود اقبال صاحب وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے۔بعد کے کچھ پروگرام محترم عزیز بلال صاحب نے بھی پیش کئے۔ منشا حضور انور کا یہ تھا کہ زیادہ لوگ پیش کریں تاکہ ہمارے پاس ہر وقت اردو پروگراموں کے میزبان تیار ہوں اور جب ضرورت پڑے، ان سے پروگرام پیش کروا لیا جائے۔ ابتدائی پروگراموں میں محترم منور احمد خورشید صاحب اور محترم نصیر احمد حبیب صاحب مہمان کے طورپر شامل ہوئے۔
یہ پروگرام جاری تھا اور ہر ہفتہ اس کی ریکارڈنگ نشر ہوتی تھی۔ جب گفتگو حضرت مصلح موعودؓ کے دور تک پہنچی تو میرے دل میں تو آیا کہ اپنے والد محترم عبدالباسط شاہد صاحب کا نام پیش کروں کہ انہیں سوانح فضل عمر کی آخری تین جلدیں مرتب کرنے کے توفیق ملی تھی، مگر اپنے والد کا نام پیش کرنے میں انقباض تھا کہ کہیں نامناسب نہ لگے۔ لیکن ایک روز ملاقات میں حضور انور نے فرمایا کہ ’’اپنے ابّا کو کیوں نہیں بلاتے۔ انہوں نے تو سوانح فضل عمر پر بھی کام کیا ہوا ہے اور حضرت مصلح موعودؓ سے متعلق اپنی ذاتی یادداشتیں بھی ہوں گی‘‘۔ میرے والد کو ریٹائر ہوئےاس وقت دس برس کا عرصہ بیت چکا تھا۔ مگر حضور انور کو نہ صرف وہ خود یاد تھے بلکہ ان کا کیا ہوا کام بھی اچھی طرح یاد تھا۔ اور بات صرف میرے والد ہی کی نہیں۔پروگرام ’’تاریخی حقائق‘‘ کے لئے حضور انور نے وقتاً فوقتاًمحترم بشیر احمد خان رفیق صاحب مرحوم کے بارہ میں بھی فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ پھر ایک مرتبہ محترم کمال یوسف صاحب کےبارہ میں اجازت مرحمت فرمائی کہ انہیں ناروے سے بلا لیاجائے ۔ وہ جب آئے تو ہم نے ان کے ساتھ ایک سے زیادہ پروگرام ریکارڈ کئے۔مجھے یہ دیکھ کر معلوم ہوا کہ حضور کو صرف اپنے ’’حاضرسروس‘‘ ہی نہیں، بلکہ وہ علما بھی یاد ہیں جو قواعد کی رُو سے تو ریٹائر ہوچکے ہیں،مگر موجود ہیں۔حضور نے ان کی خدمات کا پاس بھی رکھ لیا اورہمارے پروگرام کے لئے بہت اچھے علمأ بھی میسر آگئے۔
اس پروگرام کو جاری ہوئے کچھ وقت گزر گیا اور پروگرام معمول کے مطابق ریکارڈ ہونے اور چلنے لگا، توحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور پروگرام کی بنیاد نصب فرمائی۔یہ غالباً 2010 کی بات ہے۔ مغربی ممالک میں بہت سے چینل شروع ہو چکے تھے جواسلامی چینل کہلاتے تھے۔ ان میں سے بعض لائیو کال کی سہولت بھی دیتے تھے۔ اس وقت اگرچہ راہِ ہُدیٰ ایم ٹی اے پر شروع ہو چکاتھا اور لائیو کالز کی سہولت بھی میسر تھی مگر چونکہ پروگرام کا مقصد اختلافی مسائل پربحث کرنا تھا، سو فقہی نوعیت کے سوالات پوچھنے والوں سے معذرت کرنا پڑتی ۔ خدشہ یہ ہوتا کہ جونہی موضوع سے ہٹا ہوا سوال لیں گے، بات اصل موضوع سے ہٹ کر کہیں کی کہیں نکل کھڑی ہوگی اور پھر دوبارہ پروگرام کی شیرازہ بندی کرتے کرتے وقت بہت لگ جائے گا۔
اب ہو یہ رہا تھا کہ غیر ازجماعت چینلز پر بیشتر سوالات فقہی نوعیت کے پوچھے جا رہے تھے۔ حضور انور کے علم میں جب یہ بات آئی کہ بعض احمدی حضرات غیر ازجماعت نام نہاد مسلم چینلز سے فقہی نوعیت کے مسائل سن رہے ہیں اور احتمال ہے کہ وہ وہاں بتائی جانے والی طرح طرح کی باتوں کو اپنا لیں گے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فوری طور اجازت مرحمت فرمائی کہ فقہی مسائل پر ایک پروگرام کا آغاز کیا جائے۔ اس پروگرام کا نام بھی ’’فقہی مسائل‘‘ ہی طے پایا۔ برادرم محترم وسیم احمد فضل صاحب اس پروگرام کے میزبان قرار پائےاور ساتھ لندن سٹوڈیو سے برادرم محترم ظہیر احمد خان صاحب اور پاکستان سٹوڈیو سے مکرم ومحترم مبشر احمد کاہلوں صاحب(مفتیٔ سلسلہ) شریک گفتگو ہوتے ۔ ناظرین بذریعہ ای میل اپنے سوالات ارسال کرنے لگے اور ان کے جوابات دئیے جانے لگے۔یوں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ سے دنیا بھر کے احمدی ناظرین کو فقہ احمدیہ کی روشنی میں مسائل کو سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ قارئین جانتے ہی ہوں گے کہ فقہ ایک پیچیدہ نوعیت کا علم ہے۔ اس میں بحث کی گنجائش تو رہتی ہی ہے، مگر کج بحثی کا دامن بھی اس علم کے لئے خاصا وسیع ہے۔
اب یہاں ان چینلز کا احوال بھی سنتے چلیں جو خود کو اسلامی چینلز کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ وہاں فقہی نوعیت کے مسائل پر گفتگو ہوتی اور دن رات ہوتی کہ یہ عامۃ الناس کا من پسند موضوع ہے۔ اگر نماز کی پہلی رکعت جماعت کے ساتھ نہ ملے تو کیا کرنا ہے، روزہ میں تیزابی ڈکار آجائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا قائم رہتا ہے، اگر پاؤں کی چھنگلی پہ چوٹ لگی ہو تو وضو کرتے ہوئے پاؤں دھونا ہوگا یا نہیں، اور دونوں دھونے ہوں گے یا صرف مجروح انگلی والاپاؤں نہ دھویا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اب ان چینلز پر بیٹھے علمأ میں سے کوئی ایک جواب دیتا تو دوسراوہیں اختلاف کرتا، کبھی تیسرا کہتا کہ دونوں موقف ہی درست نہیں، اصل بات یہ ہے جو میں پیش کرنے لگاہوں۔ کبھی ایک چینل دوسرے چینل پر الزام لگاتا کہ انہوں نے فلاں مسئلہ کا جواب درست نہ دیا اور اصل بات یہ ہے جو آج ہمارے علما یہاں پیش کریں گے اور وہاں بھی علمأ باہم الجھ جاتے۔
تو یہاں ایم ٹی اے پر جب پروگرام فقہی مسائل شروع ہوا تو خلافت کی اہمیت اور برکات کا ایک اورپہلو بھی روشن ہو کر سامنے آیا۔ اگر کہیں محسوس ہوتا کہ ہمارا موقف اتنا واضح اور تسلی بخش نہیں جتنا ہونا چاہیے تو اس مسئلہ کو لے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضرہوتا۔ یا تو حضور اسی وقت رہنمائی فرما دیتے یا پھر فرماتے کہ اس پر دارالافتا کو کہوکہ مجھے رپورٹ بھیجیں۔ دارالافتا کی طرف سے رپورٹ پیش ہوتی۔ کبھی حضور اس کی بنا پر فیصلہ فرماتے کبھی ملاحظہ فرما کر فرماتے کہ یوں نہیں بلکہ بات کو یوں بیان کیا جائے۔بعض مسائل پروگرام میں بیان ہوئے اور ناظرین میں سے کسی نے حضور انور کی خدمت میں خط لکھ دیا کہ بات واضح نہیں ہوسکی۔ حضور انور نے اس پر ازخود نوٹِس لے کر مسئلہ کا حل بیان فرمایا اور ہمیں عطا کیا کہ اسے اس طرح پروگرام میں بیان کر دیا جائے۔
اس پروگرام کے مسائل حضور کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے بڑے ایمان افروز تجربات بھی ہوئے جن سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور انورکوفقہ کے علم کا بھی ایک خاص درک عطافرما رکھا ہے۔ خلافت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل حضور انور کو قضا کے معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ پھر ایک طویل عرصہ فقہ احمدیہ کا ارتقا خلافت سے بھی پہلےحضور کے سامنے ہوتا رہا ہے۔ قرآن، حدیث، فرمودات حضرت مسیح موعودؑ اور ارشادات خلفأ حضرت مسیح موعودؑ آپ کے سامنے یا تو مستحضر ہوتے ہیں یا پھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کہاں اس کا سراغ مل سکتا ہے۔ مگر جو ادارہ یا شعبہ جس مقصد کے لئے قائم ہے، اسے حضور خدمت کا موقع ضرور عطا فرماتے ہیں اور ان کی طرف سے تجاویز منگوانے کا اہتمام بھی دیکھا اور اس اہتمام کے ذریعہ ان ادارہ جات اور شعبہ جات کی تربیت ، پرورش اور نشو و نما کا کا م ہوتا بھی دیکھا۔
اب اس پروگرام کو شروع ہوئے کچھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ماہِ رمضان آگیا۔اب یہاں یہ دلچسپ بات بھی بیان کرتا چلوں کہ اس وقت تک میرا خیال یہی رہا کہ پروگرام فقہی مسائل کا آغاز اس دن ہوا جس دن اس نام سے پہلا پروگرام نشر ہوا۔ مگر جونہی ماہِ رمضان آیا تو مجھے یاد آیا کہ اس پروگرام کا سنگِ بنیاد تو حضور پہلے نصب فرماچکے تھے۔ ہوا یوں تھا کہ گزشتہ رمضان میں حضور انور کی اجازت سے ناظرین کے سوالات کے جوابات دینے کے لئے ایک لائیو پروگرام ’’الصیام‘‘ کے نام سے نشر کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام صرف رمضان کے مہینہ کے لئے ہفتہ وار تھا اور اس میں ناظرین کو رمضان سے متعلق مسائل دریافت کرنے کا موقع ملا تھا۔ یہ پروگرام برادرم محترم ظہیر احمد خان صاحب نے پیش کیا تھا اور ساتھ ان دنوں محترم مبشر کاہلوں صاحب تشریف لائے ہوئے تھے، وہ بطور مہمان شامل ہوئے۔
تو اب کے جب رمضان آیا تو حضورانورکی خدمت میں درخواست کی گئی کہ’’فقہی مسائل‘‘ کو لائیو نشر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ حضور کی اجازت سے تب سے یہ پروگرام ہر رمضان میں لائیو نشر ہونے لگا اور لوگ ماہِ رمضان سے متعلق اپنے مسائل پوچھ کر جوابات حاصل کرنے لگے۔
ہر پروگرام کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ اس پروگرام میں بھی کچھ سال بعد محسوس ہونے لگا کہ اب سوالات میں یکسانیت سی آرہی ہے۔ معاملہ حضور انور کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضور کی رہنمائی سے اس پروگرام کا scope بڑھایا اور اس کانام ’’دینی و فقہی مسائل‘‘ کردیا گیا، اس گنجائش کے ساتھ کہ لوگ عام دینی نوعیت کے سوالات بھی پوچھ سکیں۔ یوں پروگرام کی نئی شکل بنی جو آج کل آپ ایم ٹی اے پر ملاحظہ فرماتے ہیں۔اس نئی شکل میں برادرم محترم داؤد احمد عابد صاحب، برادرم منصور احمد ضیأ صاحب اور ربوہ سے محترم انتصار احمد نذر صاحب بھی شامل ہونے لگے۔
تو 2010 میں یہ پروگرام شروع ہوکر مستحکم ہوچکا تھا۔ معمول کے مطابق اس کی ریکارڈنگ ہوتی اور بدھ کے روز نشر ہوجاتا۔ اب تک جن تین پروگراموں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ تمام اردو زبان کے پروگرام تھے۔ جب بھی پروگراموں کی بات ہوئی، حضور کے ارشادات سے ہمیشہ نوجوان نسل کے لئے توجہ اور فکر نظرآئی۔ اس وقت تک برادرم عمر سفیر صاحب Real Talk کے نام سے پروگرام شروع کر چکے تھے۔ اس پروگرام میں سماجی مسائل اور ان پر جماعت احمدیہ مسلمہ کے نکتہ نظر پر گفتگو ہوتی۔ اس پروگرام کی معراج وہ اقساط تھیں جن میں سیدنا حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کے قیام غانا پر تیار کی گئیں۔ غانا سیریز نے وہ پذیرائی حاصل کی کہ کم کسی پروگرام کو حاصل ہوئی ہوگی۔ پھر پروگرام Faith Matters کا ظہوربھی ہوچکا تھا جس میں ہمارے علمأ دنیا بھر سے آئے ہوئے سوالات کے جوابات انگریزی میں پیش کرتے تھے۔ یہ پروگرام بھی بہت مقبول تھا اور آج بھی ہے۔
مگر ایسا انگریزی پروگرام جس میں جماعت احمدیہ کے عقائد پر نوجوانوں کے سوالات کے جوابات نوجوان ہی دیں، موجود نہیں تھا۔ اور یہی سبب Beacon of Truth نامی پروگرام کے ظہور میں آنے کا باعث بنا۔ اس کی کچھ تفصیل گزشتہ مضمون میں آچکی ہے۔
تاہم،یہ پروگرام حضور انور کی رہنمائی میں یوں شروع ہوا کہ اس میں شرکأ گفتگو صرف جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبأ ہوں۔ پروگرام انگریزی میں ہو ،تاکہ مغربی ممالک میں سکونت رکھنے والے احمدی نوجوان اپنی زبان میں اپنی طرز پر سوالات کے جوابات حاصل کر سکیں۔پہلا پروگرام ریکارڈ ہو کر حضور انور کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور انور نے بڑی شفقت فرمائی اور پروگرام کو پسند فرمایا۔ یہ نوجوان جو حضور کی گود میں مثلِ طفلِ شیر خوار پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے، اپنی نسل کو جماعت احمدیہ مسلمہ کے عقائد سے روشناس کروانے لگے۔ ان کے ساتھ ساتھ سوالات کو ای میل وغیرہ سے یکجا کرنے کا کام بھی طلبا جامعہ کے سپرد ہوا۔ پروگرام آغاز میں ریکارڈکر کے پیش کیا جاتا تھا اور اس میں حاضرین یعنی سٹوڈیو آڈئینس بھی ہوتی تھی۔ اس آڈئینس کے لئے حضور انور نے رہنمائی فرمائی کہ مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے تعاون سے مختلف مجالس کو دعوت دی جائے۔یوں مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے تعاون سے سٹوڈیو آڈئینس میں ایک تنوع آیا اور پروگرام نے بہت دلچسپ رنگ اختیار کر لیا۔
حضور انور کی رہنمائی سے ایک تدبیر یہ بھی کی گئی کہ اس آڈئینس کو موقع دیا جاتا کہ وہ پروگرام کے دوران اپنے سوالات پینل میں شامل نوجوانوں سے براہِ راست پوچھیں۔ خاکسار آڈئینس سے الگ میٹنگ کرتا اور انہیں بتاتا کہ پروگرام کا موضوع کیا ہے تا کہ وہ سوالات اس کے مطابق تیار کرلیں۔ مگر ان سوالات سے پینل کو آگاہی نہ دی جاتی تاکہ وہ اسی وقت سوال سن کر فی البدیہہ اس کا جواب پیش کریں۔ یوں پروگرام میں نیچرل رنگ اور ناظرین کی دلچسپی برقرار رہتی۔
خدا کے فضل سےمیرا ہمیشہ سے یہ ایمان رہا ہے کہ خلیفۂ وقت کی نظر بھی اپنے اندر ایک کرشماتی فیض رکھتی ہے۔ اس نظر سے ہی دلوں کی بہت سی میل اتر جاتی اور زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی ہے۔اگر انسان اپنے کام میں بہتری چاہتا ہے تو اپنے رفقأ کار کا تعلق حضرت خلیفۃ المسیح سے استوار کروانے کے لئے اسے خود بھی کوشش کرنی چاہیے اور انہیں بھی اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہیے۔ اگر ایسانہیں ہوگا تو آپ کے رفقأ کار اس چشمۂ فیض سے محروم رہیں گے اور کام آپ کا اپنا ہی متاثر ہوگا۔ اس لئے ان کے لئے بھی اور اپنے کام کی بہتری کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں بھی اس نور سے حصہ دلایا جائے جس کی نرم اوردلگیر روشنی میں ہم سب راستہ دیکھنے اور اس پر چلنے کے قابل ہیں۔بیکن آف ٹروتھ کی اس ٹیم کے لئے خاکسارنے حضور انور سے درخواست کی کہ میں انہیں لے کر حضورکی خدمت میں حاضرہونا چاہتا ہوں۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی اورملاقات کا شرف بخشا۔ یہ نوجوان حضور انور سے براہِ راست رہنمائی حاصل کر کے پھولے نہیں سماتے تھے۔ اس ایک ملاقات کے بعد ان سب نوجوانوں کےکام میں اللہ نے بہت برکت عطا فرمائی۔ یہ سب اس وقت جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبا تھے، مگر اس پروگرام کے باعث کبھی ان کے معمول اوران کے حصولِ تعلیم میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔
یہی پروگرام حضور انور کی شفقت کے نتیجہ میں لائیو پیش ہونے لگا۔ جس روز پہلی مرتبہ یہ پروگرام لائیو پیش ہونا تھا، اس سے ایک روز پہلے پروگرام کے میزبان کی طبیعت شدید خراب ہو گئی۔ پیٹ خراب اور تیز بخار۔اگلے دن لائیو پروگرام کی تیاری تھی اور ادھر یہ مشکل آن کھڑی ہوئی۔ اگلے روز صبح ملاقات تھی۔ اس وقت تک بھی طبیعت بہتر نہ ہوئی تھی۔ میں نے ملاقات میں عرض کردی کہ میزبان صاحب تو اسہال سے نڈھال ہوئے بیٹھے ہیں، اگر اجازت ہو تو کسی متبادل پریزینٹر سے پروگرام پیش کروا لیا جائے۔
حضور انور نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ اب اس وقت متبادل پریزینٹر کہاں ڈھونڈو گے۔ تیاری کا بھی وقت نہیں۔ اُس کو کہنا یہ ہومیو پیتھی کی دوائی استعمال کرے، ٹھیک ہو جائے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جس طرح امتحانوں کی گھبراہٹ سے لوگوں کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے، اسی طرح اس نے بھی پریشر لے لیا ہے۔ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ملاقات سے نکلا اور دوائی لے کر میزبان صاحب کو پہنچائی۔ ساتھ حضور انور کا پیغام بھی۔ دونوں چیزوں نے اللہ کے خاص فضل سے ایسا رنگ دکھایا کہ ہمارا میزبان شام کو ریکارڈنگ تک بالکل تندرست ہوچکا تھا۔عزیزم قاصد معین احمد صاحب نے صرف اُسی روز ہی نہیں، بلکہ ایک لمبے عرصہ تک پروگرام پیش کیا اور بہت اچھا پیش کرنے کی توفیق پائی۔ یوں اس پروگرام کی لائیو سیریز کے آغاز کے ساتھ ہی حضور کی توجہ اور دعا کا ایک ایسا رنگ وابستہ ہو کر رہ گیا، کہ آج تک ہر پروگرام سے پہلے مجھے یہ بات ضرور یاد آتی ہے اور دل سے حضور کے لئے دعا نکلتی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت کا اما م جس کے شب و روز کا ہر ہرلمحہ طرح طرح کی مصروفیات سے معمور ہے، وہ ایم ٹی اے کے پروگراموں کے لئے اس قدر توجہ اور محبت سے وقت نکالتا ہے۔اللھم اید امامنا بروح القدس۔
ابتدا میں اس پروگرام کو منصور احمد کلارک پیش کرتے، پھر یہ ذمہ داری قاصد معین صاحب کے سپرد ہوئی ، پھر اس کے بعد کچھ دیر رضا احمد ، پھر عطأ الفاطر طاہر صاحب (حال متعلم جامعہ احمدیہ یوکے)اور اب اس پروگرام کی میزبانی دانیال کاہلوں صاحب (حال متعلم جامعہ احمدیہ یوکے) کے سپردہے۔
راہِ ہدیٰ کو چلتے ہوئے جب کچھ سال کا عرصہ ہو گیا تو ایک روز حضور نے فرمایا کہ ’’راہِ ہُدیٰ وہاں سے کیوں نہیں کرتے جہاں سے راہِ ہُدیٰ کا آغاز ہواتھا۔ قادیان جاؤ اور وہاں سے کرو‘‘۔ اس ارشاد سے محترم فاتح احمد ڈاہری صاحب وکیلِ تعمیل و تنفیذ (بھارت، نیپال، بھوٹان) کو مطلع کیا گیا(تب یہ وکالت نہیں بنی تھی بلکہ انڈیا ڈیسک کے نام سے یہ شعبہ کام کررہا تھا اور محترم فاتح صاحب انچارج انڈیا ڈیسک تھے)۔ قادیان میں پروگرام کی تیاری شروع ہو گئی اور یہاں ویزا کی کارروائی۔ پاکستان سے وابستگی یوں بھی کئی مواقع پر یاد آتی رہتی ہے مگر انڈیا کے ویزے کے حصول کے وقت ہر پاکستانی کو اپنی پاکستانیت ویزافارم پُر کرنے سے لے کراس کارروائی کے ہر مرحلہ پر یوں یاد آتی ہے کہ ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ ویزا کے حصول کا مرحلہ طول پکڑتا گیا، ادھر قادیان میں پروگرام کی تیاری مکمل تھی۔ یہ تیاری محترم فاتح صاحب کی نگرانی میں قادیان کے شعبہ ایم ٹی اے نے بڑی سرعت کے ساتھ مکمل کر لی۔ وہاں سے پروگرام ویب سٹریم کے ذریعہ سے لائیو نشر ہونا تھا۔ سو حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ پروگرام شروع کر لیا جائے۔ یوں اس پروگرام نے ایک تاریخ ساز مرحلہ دیکھا کہ یہ پروگرام حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ کے ارشاد پر حضرت مسیح موعودؑ کے مولد و مسکن سے لائیو نشر ہونے لگا۔ وہاں سے محترم کے طارق صاحب اسے پیش کرتے اور ساتھ قادیان کے علمأ پروگرام میں شریک ہوتے اور آج بھی ہوتے ہیں۔ یوں ایم ٹی اے کی سکرین کو علمأ کرام کی ایک نئی کھیپ میسر آئی۔ قادیان میں مقیم جماعت احمدیہ کے علمأ کی قابلیت بھی دنیا کے سامنے آئی اور پروگرام نے ایک نیا رنگ اختیار کرلیا۔ ابتدا میں حضور انور کے ارشاد پر قادیان سے چار پروگرام نشر ہوتے، پھر لندن سے چھ پروگرام پیش کئے جاتے۔ پھر چھ وہاں سے چھ یہاں سے، اور اب آٹھ وہاں سے اور چار پروگرام یہاں لندن سے پیش کئے جاتے ہیں۔
یہاں لندن میں اس پروگرام کی میزبانی خاکسار کے سپرد تھی، پھر محترم راجا برہان احمد صاحب اور محترم حافظ محمد ظفراللہ صاحب ،سلمان قمر صاحب اور محترم ظافرمحمود ملک صاحب نے بھی اس پروگرام کو پیش کیا۔ ان دنوں محترم ایاز محمود خان صاحب اس پروگرام کی میزبانی کےفرائض ادا کرتے ہیں۔
یہاں ایک اور حیرت انگیز بات کا ذکر ضروری ہے۔ ایم ٹی اے کے بیرونِ ملک سٹوڈیوز امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہیں۔ مگر حضور انور کے ارشاد کی برکت دیکھئے کہ لندن کے علاوہ کہیں اور سے باقاعدہ لائیو پروگرام پیش کرنے کی سعادت قادیان کے حصہ میں آئی۔یہ پروگرام ہفتہ وار ویب سٹریم یعنی انٹرنیٹ کے ذریعہ قادیان سے نشر ہوتا ہے، اس کا signal یہاں لندن میں موصول ہوتا ہے، اور پھر یہاں سے ایم ٹی اے کا مواصلاتی نظام اس سگنل کو سیٹیلائیٹس تک بھیج دیتا ہے، اور یوں قادیان دارالامان سے نشر ہونے والا یہ پروگرام براہِ راست دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔انٹرنیٹ پر سگنل کے موصول ہونے کے باوجودتصویر اور آواز کا معیار بہت عمدہ ہے۔ سیٹیلائٹ سے بھیجے گئے سگنل سے ذرہ بھی مختلف نہیں۔میرا ایمان ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی مقدس بستی سے نشر ہونے والے اس پروگرام کے سگنل قادیان کی مقدس بستی سے ایم ٹی اےکے مواصلاتی نظام کے لئے خیر و برکت لے کرآتے ہیں۔ کیسے نہیں لاتے ہوں گے؟حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ کے الفاظ میں یہ وہ زمین ہے جسے مسیحؑ کے قدم حرم بنا چکے ہیں۔ اس کی پہرہ داری پر فرشتہ نازکرتے ہیں،جو لوگ سکرین پر نظر آتے ہیں اور جو کنٹرول روم سے اس پروگرام کو ممکن بناتے ہیں، انہیں ’’الدار‘‘ کی نگہبانی کا کام بھی سپرد ہے۔ یوں حضور انور کے ارشاد پر راہِ ہُدیٰ وہاں سے نشر ہونے لگا جو جماعت احمدیہ کا نکتۂ آغاز ہے۔ اور حضور کے اس ارشاد کی برکت سے قادیان کی خوشبو ہر ہفتہ ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر میں پہنچنے لگی۔
اور بہت سے پروگرام ہیں۔ آپ جو ان سطور کے قارئین ہیں، ایم ٹی اے کے ناظرین بھی ہیں۔ اس قدر عرض کردیتا ہوں کہ آپ کو ایم ٹی اے کے وسیع canvas پر پھیلے ہوئے جو رنگا رنگ پروگرام نظر آتے ہیں، ان میں جو بھی خیر کا پہلو ہے وہ حضور ہی کی رہنمائی کا مرہونِ منت ہے۔جو چیز آپ کوکہیں پسند نہ آتی ہو، وہ ہماری کوتاہی ہے اور اس کے لئے میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے معذرت بھی کرتا ہوں اور دعا کی درخواست بھی۔
آج موقع ہے تو کچھ ایسے امور بھی بتاتا چلوں جو قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔حضور کی نظر پروگراموں کے مواد پر تو رہتی ہی ہے، مگر یہ سبق بھی حضور ہی سے حاصل ہوا کہ جو آدمی ایم ٹی اے پر بیٹھا ہے، وہ جماعت کا نمائندہ ہے۔ اس کا حلیہ بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جماعتی وقار پر کوئی آنچ نہ آئے۔
محترم شہزاد احمد صاحب ، جو اب مربی بن چکے ہیں رویوآف ریلیجنز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں حضور کی خدمت میں اپنی فیملی کی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے۔ کچھ روز پہلے وہ بیکن آف ٹروتھ میں شریکِ گفتگو ہوئے تھے۔ وہ خاصے خوش لباس بھی ہیں۔ مگر ملاقات میں حضور نے انہیں فرمایا کہ پروگرام لگا ہوا تھا تو میری نظر اتفاقاً ٹی وی پر پڑی۔ تم نے بغیر کالر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اگرچہ اوپر blazer بھی تھا مگر بغیر کالر کے آدمی informal لگتا ہے۔ اگر ٹائی نہ بھی لگانی ہو تو قمیص کالر والی ہونی چاہیے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر ٹائی کے بغیر کالر والی شرٹ ہو تو اس میں بھی یہ احتیاط ہو کہ چھاتی کے بال نہ نظر آتے ہوں۔انہوں نے یہ بات ہمیں آکر بتائی تو ہم نے تمام شرکأ پروگرام، بلکہ تمام پروگراموں کے لئے یہ پالیسی بنا لی کہ اگر پتلون قمیص پہننی ہو تو یا تو ٹائی استعمال ہو، یا پھر قمیص کالر والی ہو۔
محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب مفتیٔ سلسلہ ہیں۔ مگر مجال ہے کہ ان کے حلیہ سے کوئی بتا سکے کہ بلندپایہ عالمِ دین ہیں۔ عام زبان میں اسے سادگی کہتے ہیں ، سو مولانا کمال درجہ کے سادہ آدمی ہیں۔ نہ لباس میں کوئی تکلف نہ بول چال کے انداز میں۔بول چال کا اپنا ہی ایک انداز ہے، اچانک رسمی اختتامیہ کے بغیر بات کو ختم کرکے فیض کا مصرعہ یاد دلاتے ہیں کہ ’’۔۔۔ جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم‘‘۔ایک مرتبہ آپ لندن آئے ہوئے تھے تو اپنی تمام تر سادگی کے ساتھ راہِ ہُدیٰ کے سٹوڈیو گیسٹ بنے۔انہوں نے ایک پھولدار سا، مگر نہایت سادہ سویٹر پہن رکھا تھا۔ اگلے ہفتہ جب سٹوڈیو میں پروگرام کے لئے تشریف لائے تو آتے ساتھ وہ سویٹر اتار کر سائڈ پر رکھ دیا۔ مجھے تو نہ تب اعتراض کرنے کی مجال تھی اور نہ اب یہ پوچھنے کی ہمت کہ آج یہ سویٹر اتارکر رکھنے کے پیچھے کیا حکمت ہے۔ خود ہی بتانے لگے کہ پروگرام کے کچھ دن بعد میری ملاقات تھی۔ میں گیا ہی ہوں تو حضور نے فرمایا کہ’ ’تُسی بڑا پُھل دار سویٹر پا کے بیٹھے سی‘‘(آپ بڑا پھول دار سویٹر پہن کر بیٹھے ہوئے تھے)۔ کہنے لگے کہ حضور نے منع تو نہیں فرمایا، مگر شاید اس میں اشارہ ہو کہ لباس پروگرام کے لئے مناسب نہ تھا۔ اللہ انہیں صحت والی زندگی دے۔ ہمارے ایسے بزرگوں کے طفیل ہمیں وہ سبق قول و فعل دونوں سے ملتا ہے کہ خلیفۂ وقت کے اشارہ کو بھی یونہی خیال نہ کرو۔ ہر اشارہ ہمارے لئے واجب الاطاعت ہے۔ اگر کسی اشارہ میں بظاہرکوئی حکم نہیں بھی ہے تو اس میں سے ممکنات کو تلاش کرو اور ان پرعمل کرو۔
پروگرام ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ ہفتہ کی شام نشر ہوتا ہے۔ ایک روز ہفتہ کی صبح خط بنانے اور داڑھی کو تراشنے لگا تو مشین کی کنگھی ایسی تھی کہ ذرا زور سے دباؤ تو دب کر چھوٹے نمبر پر چلی جاتی تھی۔ میں نے بڑے اعتماد سے ٹھوڑی کے بالکل درمیان میں جو مشین چلائی تو کنگھی کا نمبر بالکل آخری نمبر چلا گیا۔ عجیب حادثہ تھا۔ داڑھی بالکل بیچ میں سے تقریباً غائب ہو گئی تھی ۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ کبھی مشین کو کوستا کبھی اپنی حماقت کو۔ اب پروگرام یوں تو نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ڈاکوؤں جیسی لمبی لمبی قلمیں رکھ کرپروگرام میں بیٹھ جاؤں۔ واحد حل یہی تھا کہ تمام داڑھی کو برابر کر لیا جائے، سو یہی کیا۔ مگر اب داڑھی بہت چھوٹی ہوجانے کے باعث مونچھیں بھی اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے ہوئے لگتی تھیں۔ پروگرام ہوگیا۔ اگلے روز جب حاضر ہوا تواندر جاتے ہی بڑی محبت سے ارشاد فرمایا کہ’’ میں نے پروگرام کا تھوڑا سا حصہ دیکھ لیا تھا، اور یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مشین کچھ زیادہ چل گئی ہے‘‘۔ شرمندگی اور ندامت کے ساتھ پورا قصہ بیان کردیا۔ حضور تبسم فرماتے رہے، مگر میں سخت شرمندہ ہوتا رہا کہ حضور نے سب سے پہلے اس بات کا ذکر فرمایا ہے تو یہ عام نہیں خاص بات ہے۔ یعنی جو لوگ ایم ٹی اے پر آئیں،ان کے حلیہ ایسے نہ ہوں کہ جماعتی وقار کے خلاف دکھائی دیں۔ اگرچہ داڑھی بالکل غائب تو نہ ہوئی تھی مگر اچانک اتنی نمایاں تبدیلی سے لوگ چونک ضرور گئے ہوں گے۔
ایک مرتبہ حضور انور کی طرف سے کچھ تحقیق کا کام سپرد ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام میں ایسے جیسے غیب سے مدد فرمائی۔ حکم ملنے کے اگلے ہی روز نکل کھڑا ہوا اور چند گھنٹوں میں جس مواد کی تلاش تھی، حاصل ہو گیا۔میں نے لائبریری ہی سے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فون کر کے درخواست کی کہ اگر موقع مناسب ہو تو حضور انور سے پوچھ لیں کہ میں شام کی ملاقاتوں کے وقت حاضر ہو جاؤں اور یہ مواد پیش کردوں۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی کہ شام کی آخری ملاقات کے بعد حاضر ہو جاؤں۔ حاضر ہوا۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی اور حضور اپنی کرسی پر سے اٹھنے ہی والے تھے۔ میرے ہاتھ میں کاغذات دیکھ کر فرمایا ’‘کیا لائے ہو؟‘‘ اور اپنے پاس یعنی جدھر حضور کی کرسی ہوتی ہے، ادھر بلالیا۔ میں پاس کھڑا ہوکر حضور کو تحقیق کے بارہ میں بتاتا رہا، حضور سنتے رہے۔ حضور نے پوری بات سن کر میری حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ پھر اچانک میں نے دیکھا کہ حضور میرے جوتوں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ میں گھبرا سا گیا تو فرمایا’’یہ جوتے کہاں سے لئے ہیں؟‘‘ ۔ میں نے عرض کر دی۔ بات یہ تھی کہ جوتے سادہ سے ہی تھے مگر ان کا ڈیزائن کچھ نامانوس قسم کا تھا۔ فرمایا’’یہ جوتے پروگرام میں تو نہیں پہن کر بیٹھتے؟‘‘۔ عرض کی کہ جی نہیں حضور۔ اس کے بعد آپ نے کچھ نہ فرمایا اوردفتر سے تشریف لے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ساتھ میری گھبراہٹ دیکھ کر مسکراتے اور ہنستے بھی جاتے۔ میں باہر آکر بھی اس بات سے لطف لیتا رہا کہ حضور کس باریکی سے مشاہدہ فرماتے ہیں۔ میں عرض تو نہ کر سکا کہ حضور میں تو آپ سے ملاقات کے لئے بھی کبھی یہ جوتے پہن کر حاضر نہ ہوتا اگر بسوں ٹرینوں میں سفر کرتا سیدھانہ آرہا ہوتا، مگر یہ عرض بھی کس لئے کرتا۔ حضورکے در سے ایک اور سبق اٹھا لانے اور اپنے رفقأ کار تک بھی پہنچانے کا سبب اللہ نے پیدا فرمایاتھا۔یعنی یہ کہ پروگرام میں ایسی باتوں کا بھی خیال کیا جائے جو عام طور پر نظر انداز ہوجاتی ہیں۔ حضور ہماری ہی نہیں ناظرین کی نفسیات کا بھی خوب علم رکھتے ہیں۔ نفسیات میں پڑھ رکھا تھا کہ اچھے ادارے جب ملازمت کے لئے امیدواروں کا انٹرویو لیتے ہیں تو ایک ماہرِ نفسیات کو بھی بلاتے ہیں۔ وہ ماہرِ نفسیات باہر جاکر اگلے امیدوار کا نام پکارتا ہے اور اسے انٹرویو کے کمرہ تک چلنے کا کہتا ہے۔ امیدوار آگے چلتاہے اور ماہرِ نفسیات پیچھےپیچھے۔ مگر پیچھے چلتے وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ امیدوار نے بال صرف سامنے سے سنوارے ہیں یا پیچھے سے بھی۔ جوتے صرف سامنے سے چمکا لئے ہیں یا پیچھے سے بھی صاف کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سےمعلوم ہوجاتا ہے کہ امید وار صرف ظاہرداری کا قائل ہے یا کام میں گہرائی بھی ہوگی۔ ہمارے پیارے امام نے اس باریکی سے ان باتوں کا خیال رکھا تاکہ ناظرین پر کسی بھی طرح کا کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو۔
یہ تو تھے سلسلہ وار پروگرام جن میں ہمیں حضور انور کی طرف سے بڑی باریکی، بڑی گہرائی کے ساتھ توجہ اور رہنمائی حاصل رہی۔ حضور کی توجہ ایم ٹی اے کے دیگر پروگراموں پربھی کس طرح حاصل رہتی ہے، اس پر بات انشا اللہ آئندہ۔