وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۸)
آصف محمود باسط
بات چل رہی تھی ایم ٹی اے کے پروگراموں کے سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے قدم قدم پر ملنے والی ہدایات کی۔کچھ سلسلہ وار پروگراموں کا ذکر ہو گیا۔ مگر ایم ٹی اے پر بہت سے پروگرام ایسے ہیں جو وقتاً فوقتاً ایم ٹی اے پر نشر ہوتے رہے اور ان کے لئے بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ازراہِ شفقت و محبت ہدایات حاصل ہوتی ہیں اور ہماری رہنمائی کا سبب بنتی ہیں۔
ایک بات جو حضور نے متعدد مرتبہ پروگراموں کے ضمن میں فرمائی وہ یہ ہے کہ ’’ایم ٹی اے کے ہر پروگرام کا مقصد اسلام کی تعلیم کو دنیا تک پہنچانا ہونا چاہیے‘‘۔
یہ سبق بھی حضور ہی سے حاصل ہوا کہ اسلام کو پھیلانے کا کام تب تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم یہ نہ دیکھتے رہیں کہ خلیفۂ وقت کی نگاہ کس طرف ہے۔اور یہاں یہ دلچسپ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خلیفۂ وقت کی نگاہ تو 360 ڈگری کے زاویہ پر دیکھنے کی خداداد صلاحیت رکھتی ہے۔ خطبات ِ جمعہ ہی کو لیں تو کون سا موضوع ہے جس کی طرف توجہ نہیں ۔ مذہب پر ہونے والے حملے، اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ، لامذہبی کا بڑھتا ہوا رحجان، احمدیت پر اٹھائے جانے والےسوالات، تبلیغی مساعی کی سمت، تربیتی امور، نوجوان نسل کی تعلیم و تدریس، اور سب سے بڑھ کر وہ مقاصد جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی بعثت کے بیان فرمائے، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد۔
کوشش یہ کی جاتی ہے کہ حضور انور کی نگاہِ مبارک جس وقت جس طرف ہو، اس کے مطابق ایم ٹی اے کے پروگراموں کو ڈھالا جائے۔خاکسار خود بھی کوشش کرتا ہے کہ یاد رکھے اور اپنے رفقأ کار کو بھی یاد دلاتا رہتا ہے کہ ایم ٹی اے کے اصل پروگرام تو حضور انور کے خطبات اور خطابات ہیں، باقی جو کچھ ہم بناتے ہیں ان کی حیثیت fillers سے زیادہ نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ ان فلرز کی سمت بھی حضور انور کی نگاہِ مبارک سے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہو ۔ ہم لاکھ کوشش کر لیں، یہ حضور انور کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہمیں معین طور پر معلوم ہو بھی جائے کہ حضور کا منشأ مبارک کیا ہے، اسے کسی پروگرام کا جامہ پہنانے سے قبل حضور سے رہنمائی کی درخواست اس ارادہ میں خیر و برکت کا باعث ہوجاتی ہے، بلکہ اگر کچھ اصلاح طلب امر ہو تو وہ بھی حضور کی شفقت سے درست سمت پر آجاتا ہے۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی کس کو خبر نہیں۔ اور اس بات کی بھی کس کو خبر نہیں کہ پاکستانی حکومت جماعت احمدیہ کو طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی۔ دو سال قبل حکومتی اہلکاروں اور قانون نافذ (بلکہ لاقانونیت نافذ کرنے والے) اداروں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی اشاعت اور ترسیل پر پابندی عائد کر دی۔ پریس بند کر دیا گیا۔ جہاں جہاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب موجود تھیں، وہاں چھاپے مار کر ان کتب کو قبضہ میں بھی لے لیا اور ان کی کہیں بھی موجودگی کو قانون شکنی قرار دے دیا۔ کیا لائبریریاں، کیا اشاعتی ادارے، کیا تعلیمی ادارے، ہر جگہ سے کتب کو اٹھانا پڑا۔
انہی دنوں حضورانور نے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ اگرچہ پاکستانی حکومت کوشش کررہی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب تک دنیا کی رسائی کو روک دے، مگر وہ ایسا نہ کر سکیں گے کیونکہ اب تو یہ کتب انٹرنیٹ کے ذریعہ جماعت کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں اور دنیا بھر میں شائع بھی ہو رہی ہیں۔ ساتھ حضور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے کو بھی ان کتب کے درس نشر کرنے کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔
اس ارشاد کے سنتے ہی اس کی تیاری شروع کر دی گئی۔ اگرچہ ایم ٹی اے پر درسِ ملفوظات و تحریرات حضرت مسیح موعودؑ نشر ہوتا تھا، مگر شیڈولنگ کے شعبہ سے درخواست کی گئی کہ ان دروس کو دن میں زیادہ مرتبہ نشر کیا جائے۔ ساتھ ہی تین نوجوان مربیان کو تیار کردیا کہ بامید منظوری ہم انگریزی میں بھی درس کی طرز پر پروگرام شروع کریں گے۔سو تیاری پکڑو! پہلی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی ہوگی، طرز گفتگو کی ہوگی مگر ذاتی آرأ سے زیادہ کتب سے اقتباسات پڑھ کر سنائے جائیں گے۔یہ تینوں مربیان جو حضور انور ہی کے تیارکردہ مربیان ہیں، فوراً راضی ہو کر اس تیاری میں لگ گئے۔ پروگرام کا ایک مجوزہ خاکہ تیار کر کے خاکسار اسی روز شام کو مسجد فضل حاضر ہوا۔ حضور انور مغرب کی نماز پڑھا کر مسجد سے باہر تشریف لائے تو اختصار سے تجویز پیش کردی۔ حضور نے چلتے چلتے بات سنی اور منظوری مرحمت فرمائی۔ ساتھ فرمایا ’’انگریزی میں یہاں سے کرلو، ربوہ والوں سے کہو اردو میں بنا کر بھیجیں، جرمنی والے جرمن زبان میں اسی طرز پر پروگرام کریں‘‘۔
ارشاد کی تعمیل میں مذکورہ سٹوڈیوز کو بھی ہدایت بھجوا دی گئی اور یہاں انگریزی زبان میں پروگرام کی تیاری شروع ہوئی۔ پروگرام میں وقتاً فوقتاً وہ مربیان شامل ہونے لگے جو جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل ہیں۔ شعبہ پروڈکشن نے بھی حضور انور کے خطبہ جمعہ میں فرمودہ ارشاد کو سُن کر بھرپور تعاون کیا اور پروگرام ریکارڈ ہو کر نشر ہونے لگے۔پروگرام کا نام حضور کی منظوری سے In His Own Words رکھا گیا ۔ پھر یہی پروگرام حسبِ ارشاد مذکورہ زبانوں میں تیار ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
یوں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں ایک پروگرام شروع ہوا جو حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب سے اقتباسات دنیا تک پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔
مختلف پروگراموں میں بعض موضوعات ایسے تھے جن پر محسوس ہوتا کہ غیر ازجماعت احباب کی رائے بھی لینا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے انقباض تھا کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو ایم ٹی اے کے لئے مناسب نہ ہو اور اصل موقف پہنچانے کی بجائےمطمحِ نظر ہی تبدیل ہو جائے۔ یا کوئی بات ہو جو بدمزگی کا باعث ہو۔ حضور انور کی خدمت میں بغرضِ رہنمائی درخواست کی گئی تو حضور نے رہنمائی فرمائی۔ فرمایا کہ جس کو بھی بلانا ہے اس سے میل ملاقات ایسی ہو کہ اس کے مزاج اور طبیعت سے واقفیت حاصل ہو چکی ہو۔پھر یہ بھی کہ عام طور پر تعلیم یافتہ لوگ اپنی گفتگو میں محتاط ہوتے ہیں۔ دیکھ بھال کے بلا لو۔
اب ہم نے پروگرام کی تیاری شروع کر دی اور تعلیم یافتہ لوگ جو جماعت کے بارہ میں گفتگوکر سکتے ہوں، انہیں ہم پروگراموں میں دعوت دینے لگے۔
مگر اس تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف جانے سے پہلے ایم ٹی اے پر اوّل اوّل غیروں کے آنے کا احوال بھی ضروری ہے۔ جب 2010 میں جماعت احمدیہ کی مساجد پر حملے ہوئے اور کچھ کم ایک صد کے قریب معصوم احمدیوں نے اپنی جانیں راہِ مولا میں قربان کر دیں، تو راہِ ہُدیٰ میں پاکستانی حکومت کےنام نہاد اعلیٰ طبقہ کے اربابِ اختیار کے انٹرویو کرنے کا ایک موقع میسر آگیا۔ مختصر ذکر پہلے کسی مضمون میں آچکا ہے۔آج اس کی کچھ تفصیل عرض کرتا ہوں۔
حضور انور سے خاکسار نے اجازت چاہی کہ کچھ روشن خیال دانشوروں سے انٹرویو کر کے پروگرام میں شامل کر لئے جائیں جو اس ظلم اور بربریت کی مذمت کریں اور عامۃ الناس کے دل پر مثبت اثر ہو۔ حضور انور کی اجازت سے عابد حسن منٹو، آئی اے رحمٰن، منیزہ ہاشمی، بیرسٹر حامد خان، روئیداد خان، شیری رحمان، سرتاج عزیز، اقبال اخند، اشرف لیاقت علی (ولد لیاقت علی خان)، اقبال حیدر ، امتیاز عالم اور بعض اور مشاہیر کے انٹرویو اسی دور میں ریکارڈ اور نشر کئے گئے۔
ان سب نے اپنے انٹرویوز میں جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے والے مظالم پر کھل کر مذمت کی اور احمدیوں اور دوسرے ناظرین ، سبھی نے ان کی باتوں کو بہت سراہا۔ انہیں خوشی ہوتی کہ اب بھی معاشرہ میں ایسے لوگ ہیں جو ظلم کو ظلم کہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔اس دوران میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ ان میں سے جس کے بارہ میں بھی حضور سے اجازت چاہی، حضور نے نہ صرف اجازت مرحمت فرمائی بلکہ ان میں سے اکثر کے مزاج اور رحجان کے بارہ میں رہنمائی سے نوازتے رہے۔ یہ رہنمائی بھی حضور سے حاصل ہوتی رہی کہ کس سے کیسا سوال پوچھا جائے۔ بحیثیت احمدی میرا ایمان تو ہمیشہ سے ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ خلیفۂ وقت کو اپنی جناب سے نورِ فراست و ذکاوت عطا فرماتا ہے، مگر اس کا تجربہ مجھے ان ایام میں ہوا۔ ان سطور میں مجھے یہ اقرار کرنے دیجیے کہ مجھے پہلی مرتبہ اس بات کا بلاواسطہ تجربہ حاصل ہوا۔ حضور نے جس طرح ان کے مزاجوں کے بارہ میں رہنمائی فرمائی، جس طرح سوالات میں رہنمائی فرمائی، جس طرح یہ سمجھایا کہ تم یہ پوچھو گے تو وہ یوں بچ نکلنے کی کوشش کرے گا،وہ سب میرے لئے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ ان راہوں پر چل کر مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ جنہیں دنیا دانشور کے طورپر جانتی ہے، اور بجا طور پر جانتی ہے، ان سب کی عقل و دانش حضرت خلیفۃ المسیح کے مینارۂ فراست کے سامنے ہیچ ہے۔ کیسے نہ ہو؟ وہاں علومِ دنیا کا دعویٰ ہے، یہاں علوم ِ لدنیہ کا ثبوت۔ایک ایسے ہی سابق بیوروکریٹ و سیاست دان نے گفتگو کرنے کی حامی بھری جو بڑے روشن خیال بھی ہیں اور جماعت کی حمایت میں بھی رائے دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ابھی یہ عرض کی ہی تھی کہ ان سے کل بات ہوگی، تو فرمایا کہ ’’وہ بولے گا تواچھا مگر کوئی منفعت بھی چاہے گا‘‘۔ میں نے خیال کیا کہ شایدیہ ان صاحب کے ایک مخصوص قوم سے ہونے کے باعث ایک جملہ معترضہ تھا، کیونکہ ان کی قوم، جو ہجرت کے بعد کراچی میں آکر آباد ہوئی اپنی مالی منفعت پرستی کے باعث مشہور ہے۔ مگر اگلے روز ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے انٹرویو تو ریکارڈ کروا ہی دیا مگر ساتھ ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ٹکٹ بھیجو تو لندن آکر یہ سب باتیں ریکارڈ کروادوں۔ مجھے اس بات کا بہت لطف آیا ۔ میں نے جب ٹیلی فون انٹرویو کا احوال بیان کیا تو پوچھ بھی لیا کہ حضور، آپ کو کبھی ان سے واسطہ رہاہے؟ فرمایا کہ براہِ راست تو کبھی نہیں واسطہ پڑا لیکن ان کے مزاج کا اندازہ تھا۔
اس سلسلہ میں حضور انور کی ہدایت ہمیشہ یہ رہی کہ ہر شخص جس کا انٹرویو کیا جانا ہو اسے پہلے واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جماعت احمدیہ کے ٹی وی چینل ایم ٹی اے کے لئے انٹرویو ریکارڈ کروارہے ہیں ۔حضور کو معلوم تھا کہ پاکستان کا روشن خیال طبقہ بھی پاکستان کےشدت پسند گروہ کے دباؤ میں کھل کر رائے نہیں دینا چاہتا۔ لہذا انہیں کسی بھی طرح کا دھوکہ نہ ہو بلکہ واضح طور پر معلوم ہو کہ ان کی گفتگو ایم ٹی اے پر نشر ہوگی۔سو اس بات کی ہمیشہ احتیاط کی گئی کہ انہیں بہت واضح الفاظ میں بتا دیا جائے کہ ان کی گفتگو جماعت احمدیہ کے چینل کے لئے ریکارڈ کی جارہی ہے اور یہ کہ یہ نشر بھی ہوگی۔اللہ کے فضل سے چند ایک کے سواکسی کو انقباض نہ ہوا۔
جنہیں انقباض ہواان کے نام لینا مناسب نہیں کہ ہمیں ان کی تحقیر ہر گز مقصود نہیں۔ یہاں صرف ایک صاحب کا ذکر کر دیتا ہوں کیونکہ یہ بھی حضور انور کی ذاتِ بابرکات کے ایک بہت ایمان افروز زاویہ کو اجاگر کرے گا۔ یہ صاحب 1974 میں وزیرِ قانون تھے۔ انہی کے ہاتھوں پاکستان کے آئین میں وہ بدنامِ زمانہ ، ظالمانہ ترمیم رقم کی گئی جسے دوسری ترمیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ان سےٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ واضح طور پر بتائیں کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ بتایا کہ جناب آپ سے ہم اسی ترمیم کے بارہ میں پوچھنا چاہتے ہیں جس میں احمدیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ کہنے لگے کہ میں اس بارہ میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ دیکھیں آپ کا یہ گریز بھی ریکارڈ ہو رہا ہے۔ آپ ایک صاحبِ علم ، تجربہ کار ماہرِ قانون کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ کے بھٹو صاحب (اور ان کے اہلِ خانہ سے بھی) تعلقات کا دنیا بھر کو اچھی طرح علم ہے۔ یہ فیصلہ بھٹو صاحب کے زمانہ میں ہوا۔ آپ ان کے دستِ راست تھے۔ آپ اس مسئلہ پر بات سے گریز کریں گے تو آپ کی قانونی مہارت کا بھانڈا دنیا کے سامنےپھوٹ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ بس بات نہیں کرنی تو نہیں کرنی۔ یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
حضور کی خدمت میں احوال پیش کیا ۔ میں نے کھل کر اظہار تو نہ کیا مگر حضور کو معلوم ہو گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کی یہ گفتگو نشر کر دی جائے۔ حضور نے فرمایا کہ جب وہ بات نہیں کرناچاہتا تو رہنے دو۔ کیا فائدہ۔ پھر ہم میں اور دوسرے چینلز میں کیا فرق رہ جائے گا۔ دوسرے چینل تو بلیک میل کرتے ہیں، مگرہم ان کی خواہش کا احترم کریں گے۔ پس حضور انور سے یہ سبق حاصل کر کے ہمیشہ اس پر عمل کیا کہ کسی بھی دانشور کا انٹرویو یا اس کے انکار پر مبنی گفتگو نشر نہ کی گئی۔
ان دانشوروں کے انٹرویو ریکارڈ ہوتے رہے۔ نشر ہوتے رہے۔ لوگ بہت پسند بھی کرتے۔ اسی دوران حضور سے اجازت چاہی کہ جو ہمارے مخالف نام نہاد علما اور صحافی ہیں، ان کے انٹرویو بھی کئے جائیں۔ اجازت ملتے ہی ایسے علما اور صحافیوں سے رابطہ شروع کر دیا گیا۔ان میں سے صفِ اوّل کے مخالف اورتن و توش کے اعتبار سے سب سے بھاری عالم کی گفتگو آج بھی محفوظ ہے۔ جس قدر گندی زبان ان صاحب نے استعمال کی، کیا ہی کوئی تھڑے باز بدمعاش کرتا ہوگا۔مگر اسے نشر نہ کیا گیا۔وہ تو خیر اس قابل بھی نہ تھی کہ کسی شریف مجلس میں سنی جائے، نشر کیا کرتے۔
ان کے بارہ میں بھی حضور فرما چکےتھے کہ بات کر ضرور لو، مگر شاید وہ نشر کرنے کے لائق ہی نہ ہو۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔
ایک صاحب جو ایک مفتی کی حیثیت سے پاکستان بھر کے چینلز پرنظر آتے ہیں ان سے بھی بات ہوئی۔ انہیں چاند اور سورج کی گواہی نظر آئے نہ آئے ، عید کا چاند ضرور دکھائی دے جاتا ہے۔ انہوں نےاپنا ٹی وی والا ٹھہرا ٹھہرا ، باوقار اندازِ گفتگو بالائے طاق رکھا اور وہ دریدہ دہنی کی کہ حیران کر کے رکھ دیا۔ بہت کہا بھی کہ جناب مفتی صاحب، یہ آپ کی زبان کو کیا ہوگیا، مگر وہ تو جیسے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ ان کی یہ بدزبانیاں بھی محفوظ ہیں مگر حضور کے ارشاد کی تعمیل میں کبھی نشر نہ کی گئیں ۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جب ان نام نہاد علمأ کے انٹرویو کی اجازت کی درخواست کی گئی تو حضور نے ایک بہت ہی پیاری بات ارشاد فرمائی۔ حضور نے فرمایا کہ’’ اچھی بات ہے، مخالفین کا نکتہ نظر بھی سامنے آجائے گا اور انہیں بھی کچھ کہنے کا موقع مل جائے گا‘‘۔ اب دیکھئے، غیر ہمارے نکتہ نظر اور ہمارے موقف کو بیان کرنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتے۔ مگر حضور کو اس بات کا بھی خیال تھا کہ ان کا موقف بھی اگر آسکے تو آجائے تا کہ بحث کا بنیادی اصول برقرار رہے۔ انہیں یہ عزت کہاں راس آتی، البتہ ہمیں ایک عظیم تعلیم ضرور ہاتھ آگیا۔
پھر سیاست دانوں سے انٹرویو بھی ایک عجیب یادگار بن کر رہ گئے ہیں۔ حالات کے پیش نظر اندیشہ یہ تھا کہ یہ اربابِ اختیار گفتگو سے گریز کریں گے۔ جماعت احمدیہ پر ظلم کی داستان دنیا کے ہر چینل نے دکھا دی تھی اورحکومت کی طرف سے اس ظلم کی پشت پناہی پر بھی بات ہورہی تھی۔حکومت کے پتلے اس ظلم پر کیا بات کرتے۔پھر یہ کہ ان سے رابطہ کیسے ممکن ہوگا۔
حضور کی خدمت میں صورتحال عرض کی۔ فرمایا ’’کرو۔۔ضرور کرو۔۔۔پکڑو انہیں اور پوچھو!‘‘
اب تویہ حکم بن گیا تھا۔ اب تو ان کو پکڑنا ہی تھا۔ سو کوشش شروع کر دی گئی۔ حکومتی محکموں اور وزارتوں کی ویب سائٹس پر جاکروہاں درج ٹیلی فون نمبر وں پر کوشش کی گئی۔ مگر پاکستان کے سرکاری دفاتر کا احوال کس سے پوشیدہ ہے۔ اگر پوشیدہ ہے توان دفاتر کے احوال میں بس اسقدر عرض کردیتا ہوں کہ
ایسی بستی سے تو بہتر ہے بیاباں ہونا
کہیں وزیر سارا سال آتا ہی نہیں۔ کہیں سٹاف کو ہدایت ہے کہ وزیر کسی سے بات نہیں کرے گا۔ کہیں سٹاف کو خود یہ لالچ ہےکہ کوئی بھی معاملہ ہو، ہم اس میں سے رشوت کی سبیل نکال لیں۔ یا رشوت کی نہیں تو کوئی اور سبیل ہی ہوجائے۔ مثلاً، بغیرکسی مبالغہ کے عرض ہے کہ ایک وزیر صاحب کے دفتر میں کئی مرتبہ فون کیا۔ ان سے بات نہ ہوپاتی۔ جو صاحب فون اٹھانے کی ڈیوٹی پر تعینات تھے، ایک روز کہنے لگے کہ آپ روزانہ لندن سے فون کرتے ہیں، آپ لندن ہی میں رہتے ہیں یا یہاں سے گئے ہوئے ہیں؟ بتایا کہ یہیں رہتا ہوں، کیوں، کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ آپ کے پاس وہاں کی نیشنلٹی ہے؟ کوفت تو ہوئی مگر بتایا کہ ہاں ہے تو سہی۔ کیوں؟ کہنے لگے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی طرح مجھے وہاں پر بلا لیں ، میں سرکاری نوکری سے تنگ آچکا ہوں۔ان صاحب سے بڑی مشکل جان چھڑائی۔
مگر حضور کی دعا ساتھ تھی۔ ذہن میں خیال آیا کہ آخر ان سے رابطہ کا کوئی تو ذریعہ ہوگا ، آخر یہی لوگ روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی شو میں فون پر شریکِ گفتگو (بلکہ شریکِ خرافات) ہوتے رہتے ہیں۔ اس خیال کا آنا تھا کہ پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کو فون کیا۔ وہاں ایک نہایت شریف آدمی نے فون اٹھایا۔ میں نے تعارف میں اپنا نام بتایا اور یہ بھی بتایا کہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل سے کال کررہا ہوں، اور مجھے فلاں وزیر کا نمبر درکار ہے۔ اس شریف آدمی نے اتنی جلدی مجھے نمبر لکھوا دیا کہ میں توقع بھی نہیں کررہا تھا۔ اسے روک کر کہنا پڑا کہ بندۂ خدا، قلم کاغذ تو لینے دو۔ میں تو ہرگز توقع نہیں کررہاتھا کہ نمبر اتنی جلدی اور اتنی سہولت سے مل جائے گا۔
خیر ان وزیر صاحب کو فون کیا۔ ان سےبات بھی ہو گئی اور اس کی ریکارڈنگ ان کی اجازت سے ایم ٹی اے پر نشر بھی ہو گئی۔
اب جو کسی اور کے نمبر کی ضرورت پڑی تو پھر اسی نجی چینل کے دفتر میں فون کیا۔ اس روز ان صاحب کی شفٹ نہیں تھی۔ دوسرے صاحب جو ڈیوٹی پر تھے نمبر تلاش نہ کر پا رہے تھے۔ ویسے بھی انقباض ظاہر کر رہے تھے۔ کچھ روز بعد فون کیا تو پہلے والے شریف النفس آدمی سے بات ہو گئی۔ ان کو بتایا کہ میں نے فون کیا تھا مگر آپ ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ کہنے لگے میرا موبائل نمبر لے لیں۔ جب ضرورت ہو مجھے موبائل پر کر لیا کریں۔ میرے پاس نمبر محفوظ ہیں، میں بتا دیا کروں گا۔یوں ان سے دو تین مرتبہ مختلف نمبر حاصل کئے۔ ایک روز میں نے انہیں بتایا کہ میں آپ کا تہہِ دل سے مشکور ہوں، مگر ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں احمدی ہوں۔ کہنے لگے کہ پتہ تو نہیں تھا مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پھر پوچھا کہ کیا آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کا ادارہ اس بات پر ایکشن لے سکتا ہے کہ آپ ان کی ڈائریکٹری سے مجھے نمبر مہیا کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ مجھے پتہ ہے لیکن یہ انگلستان میں ہوتا ہوگا۔ ہمیں یہاں ایسی کوئی ہدایت نہیں۔ ہم سب چینل آپس میں اس طرح مہمان شرکا کے نمبر لیتے رہتے ہیں۔ میں نے جب جب آپ کو کہا ہے کہ کچھ دیر بعد فون کر لیں تو میں نے کسی اور چینل سے لے کر آپ کو نمبر دیا ہے۔میں نے پوچھا کہ بھئی میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔ کہنے لگے ’’کوئی ایسی بات نہیں۔ آپ شرمندہ کررہے ہیں‘‘۔ایک مدت سے ان سے رابطہ نہیں۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
ملنے والے احباب اُس دور میں بھی پوچھتے تھے اور آج بھی جب یہ انٹرویوز twitter یا whatssapپر گردش کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ ان سے رابطہ کس طرح ممکن ہو گیا۔ آپ کے کوئی خاص تعلقات ہیں؟ انہیں آج ان سطور کے ذریعہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے کوئی خاص تعلقات نہ تب تھے نہ اب ہیں۔ حضور نے اجازت مرحمت فرمائی تھی، حوصلہ اور اعتماد دیا تھا،سو اللہ نے خاص فضل سے انتظام فرما دیا۔
بعض دفعہ تو کال اتنی جلدی وزیر سے ملا دی گئی کہ مجھے چنداں امید نہ تھی کہ جو فون اٹھائے گا ،وہ سیدھا کال ٹرانسفر کردے گا۔بعض اوقات یہ بھی ہوا کہ فون اٹھانے والے نے پوچھا کون صاحب؟ بتایاکہ میرا نام آصف ہے۔ پھر پوچھا کہاں سے تو بتایا کہ لندن سے۔ یہ تعارف ظاہر ہے نامکمل تھا۔ مگر اللہ کےخاص فضل سے کوئی نہ کوئی وسیلہ پیدا ہوجاتا۔ وزیر صاحب سے بات ہوئی تو انہیں جماعت احمدیہ کے حوالہ سے مکمل تعارف کروایا۔ جھوٹ کا ایک بھی لفظ کبھی بھی نہیں بولا گیا اور ہر سطح پر جماعت احمدیہ کے حوالہ سے تعارف کروایا اور انہیں یہ بتایا کہ ان کی گفتگو جماعت احمدیہ کے ٹی وی چینل پر نشر کی جائے گی۔ گفتگو کا یہ حصہ بھی ریکارڈ کیا جاتا تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ ہو تو ہمارے پاس ثبوت ہو کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ کس سے بات کررہے ہیں۔راہِ ہُدیٰ کا وہ سارا زمانہ جب یہ انٹرویوز ریکارڈ ہو کر نشر ہوتے رہے،ان حکومتی کارندوں کی بے بضاعتی دنیا کے سامنے آتی رہی، وہ سارا زمانہ حضور کی دعا اور توجہ کا مرہونِ منت ہے۔
ایم ٹی اے کے سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ حضور انور اس کے مالکِ مختار، ملجا و ماویٰ، آقاو مطاع، ہادی و رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ناظر بھی ہے۔گزشتہ مضامین میں سے ایک میں یہ ذکر آچکا ہے کہ حضور انور کے شب و روز کس قدر معمور الاوقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس لمحہ پر ایم ٹی اے پر حضور کی نظر مبارک ٹھہرا دیتا ہے جہاں اکثر کوئی نہ کوئی اصلاح طلب بات ہوتی ہے۔
اس بات کا ثبوت کئی واقعات سے ملتا ہے۔ مثلاًایک نظم کی فٹیج میں خانۂ کعبہ کے گرد طواف کا منظر اس طرح تھا کہ عازمینِ حج ایک بھنور کی طرح تیز کر کے دکھائے گئے ہیں۔ ’’یہ نا مناسب ہے، اسے تبدیل کیا جائے‘‘۔یوں کعبہ کے بارہ میں ہمارا قبلہ درست کروادیا کہ صرف خانۂ کعبہ ہی نہیں اس کے گردونواح میں بھی کوئی ایسی بات نہ ہو جو شعائراللہ کے تقدس کو پامال کرتی یا اس طرف لے جانے کا باعث بھی ہو سکتی ہو۔
’’کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولا سے گندوں کو‘‘۔ ’’نظم میں اس مصرعہ کے ساتھ جو وڈیو ہے وہ نمازیوں کی ہے۔ مناسب نہیں۔تبدیل کیا جائے‘‘۔
ایک روز میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا۔ بس اتنا کہا کہ ’’ہولڈ کریں‘‘ اور فون پر انتظار کے دوران جو ٹون آتی ہے، وہ آنے لگی۔ چند ثانیوں بعد حضور انور کی آواز آئی۔ ٹیلی فون پر کسی کی بھی آواز قدرے مختلف لگا کرتی ہے، مگر حضور کی آواز تو ہر احمدی لاکھوں میں بھی پہچان لیتا ہے۔میں چونک کر، اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ارشاد تھا:
’’ یہ جو پرومو چل رہا ہے۔ اسے کچھ دن اور چلا کر بند کروادینا‘‘
انسان حیران رہ جاتا ہے کہ حضور کو کس طرح باریکی سے ایم ٹی اے پر چلنے والے پرومو تک کی افادیت، اس کی ضرورت اور اس کی عدم ضرورت کا احساس رہتا ہے۔
اسی طرح ایک روز کار چلاتا ہوا کہیں جارہا تھا کہ موبائل پر فون آیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ حضور بات فرمائیں گے۔ میں نے گاڑی سائڈ پر روک لی۔ گاڑی میں کھڑا ہوا جاسکتا تو کھڑا ہوجاتا۔حضور نےایک بیرونِ ملک سٹوڈیو سے بن کر آنے والے ایک پروگرام کے بارہ میں استفسار فرمایا کہ کب بن کر آیا ہے۔ پریزینٹر نے ٹوپی کیوں نہیں پہنی؟ پریزینٹر جس طرح بیٹھا ہوا ہے وہ نامناسب ہے۔ ابھی رکوادو اور انہیں کہو کہ ٹھیک کر کے بھیجیں۔
پھر فرمایا ’’سمجھ آگئی ہے؟‘‘ عرض کی کہ جی حضور سمجھ آگئی ہے۔فرمایا’’میرے سامنے تمہاری شکل ہے۔ سمجھ کوئی نہیں آئی۔ بوکھلائے ہوئے زیادہ ہو‘‘۔ اس کے بعد پوری ہدایت مکرر ارشاد فرمائی۔وہ جو غالب نے کہا تھا کہ
بہرہ ہوں میں تو چاہیے دُونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
تو حضور انور کو علم تھا کہ اس طرح فون پر حضور کی آواز سن کر یہ غلام کس کیفیت میں ہوگا۔ مکرر ارشاد کی درخواست کرنے کی بھی ہمت کہاں ہوگی، سو ازراہِ شفقت ازخود ارشاد مکرر عطا فرمادیا۔
حضور کسی ملک کے دورہ پر ہوں تواس ملک کے واقفین نو اور طلبا و طالبات کے ساتھ کلاسیں حضور کے شیڈول کا حصہ ہوتی ہیں۔ بعض اوقات دورہ پر سے ہی حضور انور کا پیغام موصول ہوتا ہے کہ فلاں پروگرام جلدی دکھانا ہے یا یہ کہ فلاں پروگرام یا کلاس دکھانے کی ابھی جلدی نہیں ۔اسی طرح کا ایک ارشاد دو سال قبل جرمنی سے موصول ہوا۔ جب خاکسار جلسہ سالانہ جرمنی پر ڈیوٹی کے لئے جرمنی حاضر ہوا تو میرے پر نظر پڑتے ہی دریافت فرمایا’’پیغام مل گیا تھا؟کتنے پروگرام چل گئے ہیں، کتنے رہ گئے ہیں؟‘‘
جلسہ سالانہ یوکے جماعت احمدیہ کے سالانہ کیلنڈر کا تو ایک اہم سنگِ میل ہوتا ہی ہے، مگر یہ موقع ایم ٹی اے کی مساعی کا بھی نکتۂ عروج ہوتا ہے۔ انگریزی کی اصطلاح High Noon اس کیفیت کو بہتر بیان کرتی ہے۔ حضور کے معمول میں ہر دن کے چوبیس گھنٹے یوں بھی مصروفیات سے پُر ہوتے ہیں۔ پھر جلسہ سالانہ یوکے تو اپنے ساتھ کئی گونا زیادہ مصروفیات لے کر آتا ہے۔ انہی چوبیس گھنٹوں میں مزید کام کیونکر سماجاتا ہے، عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ مگر اعجازی رنگ میں ہی حضور ان تمام مصروفیات کے ساتھ شب و روز بسر کرتے ہیں۔ جلسہ سالانہ کی انتظامیہ حضور انور سے رہنمائی لے رہی ہے، جلسہ گاہ والے اپنے مسائل لے کر حاضر ہیں۔انتظار گاہیں دنیا بھر سے آنے والے ملاقات کے متمنی احباب و خواتین سے بھری پڑی ہیں۔ ایسے میں حضور ان خطابات پر بھی غور و فکر فرماتے ہوں گے جو جلسہ میں دنیا بھر کے سامنے ارشاد فرمانے ہیں۔مگر ایسے میں ایم ٹی اے کو بھی حضور انور کی توجہ اور شفقت میسر آتی ہے۔ ہم کارکنان شاید کھل کر تو کبھی اظہار حضور کے روبہ رو نہ کرسکیں، مگر آج کہنے دیجیے کہ حضور کی شفقتیں ہماری رگ رگ میں ہماری استطاعتوں سے بڑھ کر ہمت اور طاقت پیدا فرماتی ہیں۔ایم ٹی اے میں کام کرنے والا ہر کارکن حضور انور کا اس بات پر تہہِ دل سے ممنون ہے اور اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ حضور کی دعا، توجہ اور رہنمائی کے بغیر ہماری کوششیں بے کار اور بے سود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس برکت کا مورد بناتا رہے جو حضور انور کی شفقت اور رہنمائی سے ہمیں حاصل ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایسا بھی نہیں کہ حضور کی خدمت میں بالمشافہ حاضر ہو کرجذباتِ تشکر کا اظہار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کی ہے اور اس کا احوال بھی سنتے چلیں۔ بہت مختصر ہے:
’’حضور، شکریہ ادا کرنا تھا کہ۔۔۔۔‘‘مگر ساتھ ہی ارشاد ہوگیا، ’’اچھا ٹھیک ہے! اب آگے بتاؤ۔۔۔ کیا کہتے ہو؟‘‘
قارئین اندازہ کر ہی سکتے ہیں کہ بات مکمل کرنے کی خواہش حدِ ادب کی دہلیزپر کس طرح سرنِگوں ہو جاتی ہو گی۔
تو بات چل رہی تھی جلسہ سالانہ کے موقع پر ایم ٹی اے پر ہونے والی شفقتوں کی۔ جلسہ سالانہ یوکے کی نشریات تینوں دن مسلسل لائیو نشر ہوتی ہیں۔ تمام اجالاسات کی کارروائی دنیا بھر تک پہنچتی ہے۔ مگر اجلاسات کے درمیانی وقفوں میں دکھانے کے لئے پروگرام تیار کرنا ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں کا ایک theme رکھا جاتا ہے تاکہ پروگرام اس موضوع کے گرد تیار کئے جائیں ۔ خاکسار جنوری میں اس موضوع کی تجاویز لے کر حاضر ہوتا ہے اور حضور تجاویز میں سے کوئی ایک منظور فرمادیتے ہیں یا پھر کوئی موضوع خود عطا فرماتے ہیں۔ منظوری ہوتے ہی ان پروگراموں پر کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ پروگراموں کی تجویز حضور کی خدمت میں پیش ہوتی ہے۔ حضور ازراہِ شفقت منظوری عطا فرماتے ہیں اور ساتھ رہنمائی اور اصلاح فرماتے ہیں۔
اس کے بعد کے مہینوں میں کوشش ہوتی ہے کہ ساتھ ساتھ پروگراموں کی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی جاتی رہے۔ مگرایسا بھی ہوتا ہے کہ حضورخود فرماتے ہیں کہ ’’تمہارے جلسہ کے پروگرام کیسے جارہے ہیں؟‘‘
خاکسار عرض کردیتا ہے مگرحضور کا ارشاد فرمودہ یہ جملہ سوال کم اور ہمت اور طاقت کی ایک بھرپور dose زیادہ ہوتاہے۔یہی ارشاد مبارک جب میں ملاقات سے واپس آکر اپنے رفقأ کار کو سناتا ہوں تو کام میں ایک نئی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ ہماری استطاعت بڑھ جاتی ہے۔ ہم کیا اور ہماری استطاعت کیا! اصل میں تو سلسلہ کا کام ہے جس کے لئے حضور کا ہر ارشاد ایک عمل انگیز(catalyst) کی تاثیر رکھتا ہے۔
پھر ان پروگراموں میں کون شامل ہوگا ، ان کی نوعیت، ان کا فارمیٹ،ان معاملات پر ہر جلسہ کے موقع پر حضور کی طرف سے ایسی رہنمائی حاصل ہوتی رہی جو ریکارڈ میں موجود ہے اور صرف ہم کارکنان لئے ہی نہیں، بلکہ آئندہ آنے والے کارکنان کے لئےبھی مشعلِ راہ کا درجہ رکھتی ہے۔
کوشش ہوتی ہے کہ پروگرام جلد تیار ہو جائیں تاکہ جلسہ کے بہت قریب جاکر یہ پروگرام ملاحظہ سے محروم نہ رہ جائیں۔ اگر کوئی پروگرام حضور کی نظر سے نہ گزرا ہو، طبیعت بے چین رہتی ہے۔ مگر ایم ٹی اے کا اکثر سٹاف رضاکارانہ طور پر کام کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ ہوتے ہوتے جلسہ کے بہت قریب جاکر اکثر مواد تیار ہوتا ہے۔ مصروفیت اور بے چینی کے ان ایام میں اللہ کے فضل سے ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے رفقأ کار کے لئے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست لکھ کر بھیجنی ہے۔ ان خطوط پر حضور کی طرف سے ’’اللہ فضل کرے‘‘، ’’جزاک اللہ‘‘ اور ’’دعا‘‘ جیسے کلمات ہم کوتاہیوں کے مارے ہوئے کارکنان کی کمرِ ہمت کس دیتے ہیں۔ اللہ ایسا فضل کرتا ہے کہ ایم ٹی اے میں کام کرنے والا معمر سے معمر اور کم عمر سے کم عمر، ہر کارکن دن اور رات کی تمیز مٹا دیتا ہے۔ کوئی نوجوان رات کو کسی پراجیکٹ پر کام کررہا تھا۔ صبح اپنی کرسی پر سویا ہوا ملتا ہے۔ کوئی رات بھر کام کرتا رہا ہے اور اب صبح نہا دھو کر دوبارہ اپنے کام پر جُت گیا ہے۔ کوئی ساری رات گاڑی میں تین چکر جلسہ گاہ کے لگا چکا ہے تاکہ سامان بروقت وہاں پہنچ جائے۔ کسی نوجوان کے والد فون کر کے تسلی کررہے ہیں کہ کئی دن سے گھر نہیں آیا، ہوتا تو ایم ٹی اے میں ہی ہے نا؟ انہیں بتایا جارہا ہے کہ جناب! آپ کا بچہ توباکمال بچہ ہے!اتنے سارے دنوں سے یہاں اپنے آقا کی طرف سے سپرد کئے ہوئے کام میں مصروف ہے۔ہر کارکن اس شعر کی عملی تصویر بن جاتا ہے کہ
وہ قافلہ سالار جدھر آنکھ اٹھا دے
ہم قافلہ در قافلہ اُس سمت رواں ہیں
یوں ہوتے ہوتے جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیوں کے افتتاح کا دن آپہنچتا ہے۔ہمارے لئے پروگراموں کی تیاری کا یہ آخری دن ہوتا ہے۔ اس روز ہم اپنی ادنیٰ کوششوں سے تیار کیا گیا مواد مختلف کمپیوٹرز پر بغرضِ ملاحظہ تیار رکھتے ہیں۔اور چشم براہ ہوتے ہیں اور یہ آس دلوں میں سمائے اپنے آقا کا انتظارکرتے ہیں کہ حدیقۃ المہدی کے مختلف مقامات سے ہوتا ہوا رنگ اور نور کا یہ پیکر ادھر بھی آنکلے، اور ہماری عید ہو جائے۔
ہمارا استحقاق نہیں۔ ہم اس قابل بھی نہیں۔ مگر حضور اس روز اس کمپاؤنڈ میں تشریف لاتے ہیں جہاں ایم ٹی اے عارضی سٹیشن نصب کرکے مصروفِ کار ہوتا ہے۔ہر کارکن اپنے آقا کے استقبال کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔کچھ پر حضور انور کی نظرِ مبارک پڑجاتی ہے، کچھ کو مصافحہ کا شرف حاصل ہو جاتا ہے، کسی سےحضور کوئی بات دریافت فرما لیتے ہیں، کوئی فرطِ جذبات میں دعا کے لئے کہہ اٹھتا ہے۔ حضوراکثر شفقت فرماتے ہیں اورہماراتیار کردہ مواد ملاحظہ فرما لیتے ہیں۔یا اس کا کچھ حصہ۔
جو لوگ ڈیٹیوں کے افتتاح پر موجود ہوتے ہیں، انہیں بھی صحیح طور پرمعلوم نہیں ہوتا، تو ناظرین ایم ٹی اے کے سامنے جو مختصر پروگرام معائنہ کا پیش کیا جاتا ہے، اس سے تو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ حدیقۃ المہدی کا رقبہ بہت وسیع و عریض ہے۔ میلوں پر پھیلا ہوا۔ اورہر گزرتے سال کے ساتھ جلسہ کا انتظام پھیلتا چلا جارہا ہے۔ اس روز حضور کئی میل پیدل چلتے ہیں۔ہر شعبہ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ سب کی دلجوئی فرماتے ہیں۔ باورچی خانہ میں کچھ کھانا دیکھ لیا۔ کچھ چکھ بھی لیا۔ سکیننگ، سیکورٹی، ٹرانسپورٹ، رہائش، ٹیلی کمیونیکیشن، رہائش کی مارکی، رہائش کے لئے نصب پرائیویٹ خیمے۔ہمارے حضور ہر جگہ تشریف لے جاتے ہیں۔ کسی کارکن کی خواہش کی شدت نظر آئے تو سیڑھیوں سے اس کے کیبن کو دیکھنے اندر تشریف لے جاتے ہیں۔ کئی میل کا پیدل سفر ،مگر حال یہ ہے کہ جس کے پاس سب سے آخر میں بھی گئے، اسے بھی اسی محبت اور سکون سے ملے جو پہلے شعبہ کے کارکنان کو نصیب ہوا تھا۔
ایسی ہی ایک تقریب کے بعد حضور سٹیج پر تشریف فرما ہوئے ۔تلاوت اور نظم ہو رہی تھی۔میں نے کنٹرول روم میں سکرین پر دیکھا کہ حضور اپنے گھٹنے کو اپنے ہاتھ سے دبا رہے ہیں۔ دل چھلنی ہو کر رہ گیا۔میں نے بعد میں عرض کر دی کہ میں نے نوٹ کیا ہے، لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا۔ فرمایا ’’چلو، سب نے دیکھا ہوگا تو دعا بھی کر دی ہوگی‘‘۔
ہم سب حضور کو اپنے لئے ، اپنے بچوں کے لئے ، اپنے والدین کے لئے دعا کی درخواست تو کرتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ ہمیں حضور کے لئے دعا کرنا بھی یاد رہ جایا کرے۔آج کے اس جدید دور میں لوگ وڈیو کے ذریعہ بھی انتظامات کا معائنہ کر لیتے ہیں۔ جتنا بڑا لیڈر ہو، وہ اتنی ہی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ معائنہ کرلیتا ہے۔ مگر دنیا کے سب لیڈروں سے زیادہ بڑا، زیادہ مصروف، زیادہ ٹیکنالوجی تک رسائی رکھنے والا یہ عظیم قائد ہماری دلجوئی کے لئے جلسہ سالانہ کے انتظامات کو خود ملاحظہ فرمانے کےلئے تشریف لاتا ہے۔کہیں یہ فکر اور پریشانی ہے کہ لوگ ٹھیک سے سو بھی پائیں گے یا نہیں۔ سردی زیادہ تو نہیں۔ بستر آرام دہ اور موسم کے اعتبار سے مناسب ہیں یا نہیں۔ کہیں ٹرانسپورٹ کے انتظامات کی فکر ہے۔ لوگوں کی آمد و رفت کیسے ہوگی۔ اگر پارکنگ کافی نہیں تو متبادل انتظام کیا ہے اور کہاں ہے۔ اگر متبادل انتظام دور ہے تو وہاں سے شٹل سروس موجود ہے یا نہیں۔اور پھر یہ سب تو جلسہ کے انتظامی پہلو ہیں۔ اصل پہلو تو وہ روحانی پہلو ہے جوجلسہ سالانہ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کی فکر۔ اور یہ سارے انتظامات اس طرح مکمل ہیں کہ لوگ اس روحانی مائدہ سےزیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے، یا نہیں۔اصل فکر تو یہ ہے!
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کو صحت والی فعال عمر سے نوازے اور جماعت کے ہر فرد کو یہ توفیق دےکہ اپنی دعاؤں میں اپنے اس عظیم امام کو یاد رکھیں۔
اب واپس ایم ٹی اے کے کمپاؤنڈ میں چلتے ہیں۔ یہاں حضو رتشریف لائے، ہماری کوششوں کا معائنہ فرمایا۔ ایم ٹی اے کے مواصلاتی نظام کا معائنہ فرمایا، سب کی دلجوئ فرمائی، اور یہ لمحات ایک خواب کی طرح جلد جلد گزرگئے۔ اب اس کے بعدکی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔
ایم ٹی اے کے کارکنان کئی ہفتوں سے دن اور رات کو ایک کر کے کام کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ہماری ڈیڈلائن معائنہ کا دن ہوتا ہے۔ اس روز اگر تیاری مکمل نہیں تو حضور کو کیسے بتائیں گے کہ تیاری کہاں تک پہنچی ۔ سو سبھی کارکنان اس ڈیڈلائن تک پہنچ کر تھکے ماندے اپنے آقا کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔مگر اس معائنہ کے بعد ہر کارکن کا energy level ایسا بلند ہوتا ہے کہ جیسے ابھی سو کر بیدار ہوئے ہیں۔ کئی روز آرام کیا ہے۔ اور اب اصل کام شروع کرنا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ معائنہ کے دوران حضور کی توجہ اور شفقت ہم سب کے لئے ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اگر حضور کی دعا، توجہ اور محبت نہ ہو تو جلسہ کے تین دن کی مسلسل نشریات جیسی اعصاب شکن ذمہ داری کبھی ادا نہ ہوسکے۔ مگر ہمیں اس ہستی کی دعا اور توجہ مل جاتی ہے، جس کے اعصاب کو اللہ تعالیٰ نے تھکنا نہیں سکھایا۔ آپ کی ایک نظر ہم میں ایک نئی روح پھونک جاتی ہے اور ہم دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر میں رہنے والے قارئین سے یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا۔ آپ جو گھروں میں بیٹھے جلسہ سالانہ یوکے کی تینوں دن کی کارروائی دیکھتے ہیں، یہ حضور انور کی قوتِ قدسی کا نتیجہ ہے ورنہ یہ سب کبھی آپ کی خدمت میں پیش نہ کیا جاسکے۔اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہماری دعاؤں میں ہمارا یہ پیارا امام کبھی فراموش نہ ہو۔
ایک مرتبہ جلسہ کی شدید مصروفیت کے بعد حضور اختتامی خطاب فرما کر حدیقۃ المہدی میں اپنے دفتر تشریف لے کر گئے ہی تھے۔مجھے کسی معاملہ پر ہدایت لینے کے لئے حاضرہونے کا موقع ملا۔ ابھی پہنچے ہی تھے۔ میرے داخل ہوتے ساتھ فرمایا’’ابھی ایک پروگرام چل رہا تھا۔ اس میں جو footage دکھائی ہے، وہ کہاں سے لی ہے؟‘‘
میرے جواب سے پہلے فرمایا ’’اچھا ٹھیک ہے! یاد آگیا۔فلاں موقع ہی ہے؟‘‘
میرے لئے یہ عجیب حیران کن بات تھی۔ وہ وڈیو واقعی نایاب تھی۔ کبھی پہلے نہ چلی تھی۔ مگر حضور نے اسے ملاحظہ بھی فرما لیا، اس کے بارہ میں استفسار بھی فرمایا اور پھر آپ کو یہ بھی مستحضرتھا کہ وہ وڈیو کس موقع پر ریکارڈ کی گئی ہوگی۔ یہ وڈیوحضور نے بھی پہلی مرتبہ دیکھی تھی۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک خطاب کے بعد حاضرِ خدمت ہونے کا موقع ملا۔ کسی بات کے ضمن میں فرمایا کہ میں نے آج کا خطاب کل شام لکھنا شروع کیا تھا، اور آج ظہر کے بعد مکمل کیا ہے۔ یہ بات ذہن کو سنسنا کر رکھ گئی۔ اس روز تک میرا خیال تھا کہ حضور اپنے خطابات ہفتوں پہلے تحریر فرمانا شروع کرتے ہوں گے۔ مجھے کبھی خواب وخیال میں بھی یہ گمان تک نہیں گزرا تھا کہ حضور اپنے خطابات کو اس طرح مصروف ترین ایام میں تحریر فرماتے ہیں۔
جیسا کہ ذکر گزرا، میری بہت تمنا ہوتی ہے کہ جو پروگرام تیار ہو جائیں وہ حضور جلسہ سے پہلے ملاحظہ فرمالیں۔ ورنہ طبیعت بے چین رہتی ہے۔ مگر بہت سے پروگرام جلسہ کے قریب پہنچ کر تیار ہوتے ہیں۔
ایک جلسہ سے کوئی ہفتہ بھر پہلے پروگراموں کی ریکارڈنگز حضور کی ڈاک میں بھیجیں۔جواب آیا’’اب مصروفیت۔ خود ہی دیکھ لیں‘‘۔
خود میں دیکھ چکا تھا مگر تعمیل ارشاد میں ایک مرتبہ پھر بغور دیکھ لیا۔ مگر طبیعت کی بے چینی قائم رہی۔ تمام جلسہ گزر گیا۔ جس وقت وہ پروگرام نشر ہو رہے تھے، تب بھی اضطراب تھا کہ خدا خیر کرے، یہ پروگرام حضور کی نظرِ مبارک سے نہیں گزرے۔
جلسہ کے بعد میں ان پروگراموں کی ریکارڈنگ لے کر حاضر ہوا۔ دل چاہتا تھاکہ حضور کسی طرح ضرور ملاحظہ فرمالیں۔ فرمایا کہ میں نے فلاں فلاں تو دیکھ لیا تھا، باقی رکھ جاؤ، دیکھ سکا تو دیکھ لوں گا۔ پھر ان پروگراموں کے بارہ میں فرمایا کہ یہ وہی ہے نا جس میں یہ بات ہوئی تھی، اور یہ وہی ہے جس میں فلاں نے یہ بات کی تھی۔میں آج بھی پوچھنا چاہتا ہوں مگر پوچھ نہیں سکتا کہ مصروفیات سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ایام میں حضور نے یہ سب کب ملاحظہ فرمالئے؟ میں پوچھ تو نہیں سکتا مگر قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ میری اس حیرت میں شامل ہوں اور اس محیرالعقول مشاہدہ سے فیض حاصل کریں۔ جسے خدا چنتا ہے، اس کے وقت، اس کے ہر کام، اس کی ہر حرکت وسکون میں خود برکت عطا فرماتا ہے۔ اے اللہ تو ہمارے امام کی صحت اور عمر میں بھی بہت برکت عطا فرما۔ہمارا سب کچھ انہیں کے دم سے تو ہے!