پاکستان میں دہشت گردی کا بانی
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
داخلی اور خارجی سیاست کے اعتبار سے آج ہمارے محبوب وطن، پاکستان، کے لئے سب سے بڑا مسئلہ انسداد دہشت گردی ہے ۔اس ہوش ربا اور تشویش انگیز مسئلہ سے نپٹنے کے لئے اولین مرحلہ پر یہ کھوج لگانا ضروری ہے کہ باطل کے سیاہ پوش دستوں کا ’’قافلہ سالار‘‘ کون تھا؟
آئیے اس سلسلہ میں پاکستان کے شیعہ محقق اور ماہنامہ’ خیرالعمل‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر عسکری بن احمد کے افکار و تاثرات کا انہی کے الفاظ میں مطالعہ کریں ۔ آپ مذکورہ رسالہ کے شمارہ ستمبر ۱۹۹۷ء (صفحہ ۲۲ تا ۲۵) میں تحریر فرماتے ہیں:
’’موجودہ فرقہ وارانہ منافرت اور بین الفرق الاسلامیہ دہشت گردی کا آغاز جرنل ضیاء الحق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے دور سے ہوا۔ دور بین نگاہیں یہ بھی دیکھ سکتی ہیں کہ اسی زمانہ میں بھارت میں دارالعلوم دیوبند کا جشن صدسالہ ہوا جس کی صدارت بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی آنجہانی نے کی۔ اور اس دارالعلوم کو بہت بڑی گرانٹ عطا کی۔ اس جشن میں شرکت کے لئے پاکستان سے بھی کئی دیوبندی اور اہل حدیث علماء کے وفود وہاں گئے۔ اور اندرا گاندھی جو پاکستا ن کو دولخت کرنے کا باعث بنی تھی اورمشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں جس کے ہیلی کوپٹرز اور چھاتہ بردار فوج نے کام کیا اسی اندراگاندھی کے منتر نے دیوبند کے جشن میں جانے والے علماء کی پھڑکی گھما دی۔ اور مغربی پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال دیا۔
*۔۔۔ جرنیل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے ہر ہر مرحلے پر سعودی عرب کے علماء اور زعماء یہاں پاکستان تشریف لاتے رہے اور ہدایت کاری کرتے رہے۔ انہی دنوں مسجد کعبہ کے امام جماعت محمد بن عبداللہ بن سبیل نے پاکستان میں آ کر ارشاد فرمایا کہ جو کچھ ہم سعود ی عرب میں کر رہے ہیں وہی کچھ پاکستان میں اہل حدیث کر رہے ہیں۔
*۔۔۔عہد ضیاء الحق میں پاکستان میں پہلی مرتبہ محمد بن عبدالوہاب ڈے منایا گیا اور فلیٹیز ہوٹل کے سابقہ بال روم یعنی ناچ ہال میں منایا گیا جس میں ہم بھی بطور صحافی موجود تھے۔
*۔۔۔اسی زمانے میں سعودی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک بغاوت ہوئی اور باغیوں نے حرم کعبہ میں پناہ لے لی۔ اوروہاں مورچہ بند ہو گئے۔ مشہور یہ کیا گیا کہ (جعلی) امام مہدی آ گیا ہے ۔جرنل ضیاء الحق نے پاکستانی فوج سعودیہ کی مدد کے لئے بھیجی۔ گولہ بارود کے استعمال سے باغیوں کو حرم خدا سے نکالا گیا۔ لہذا سعودی حکمرانوں کی نوازشات اور بھی زیادہ ہو گئیں۔
*۔۔۔جرنیل ضیاء الحق آنجہانی نے جو پاکستانی قوانین زکات و صدقات و عشر نافذ کئے ان پرحنبلی فقہ کی چھاپ تھی جسے ہم نے اپنی کتاب فقہ جعفریہ اور زکوٰۃ میں بیان کیاہے۔
*۔۔۔ جرنل ضیاء الحق نے ملٹری کمانڈو ز کے نعرہ علی علی کو بدل کر حق حق کر دیا۔ یاد رہے کہ علی بھی اللہ کا ایک نام ہے۔ حق پتہ نہیں کہ یہ ضیاء الحق کا مخفف ہو۔
*۔۔۔ افغان جہاد میں جرنل ضیاء الحق کا حصہ دار ہونا الم نشرح ہے۔ افغان مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آئے جو اب تک یہاں خیمہ بستیوں میں آباد ہیں۔ افغان بچے جوان ہوگئے ۔ اکھوڑہ خٹک وغیرہ کے مدارس اہل حدیث کے طالبان ہوئے۔ انہیں دنوں سے مذہبی تنظیم کانام سپاہ Militant Group ہو گیا۔ مجاہدین اوراب طالبان وغیرہ وہاں جاتے رہے ۔ اگلے دن جمعیت علماء اسلام کے دونوں دھڑوں س اور ف مولانا سمیع الحق شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور سابق سینیٹر پاکستان اور مولانا فضل الرحمن کا فخریہ بیان تھا کہ طالبان ان کے مدارس کے ہیں۔ (فوجی ٹریننگ اور گوریلا جنگ اورکمانڈو ایکشن اور آتشیں اسلحہ چلانے میں ماہرہیں)۔ جمعیت العلماء اسلام اور جماعت اسلامی کے جلسوں کی رونق افغان مہاجرین ہی ہوتے رہے۔
*۔۔۔جرنل ضیاء الحق کے زمانہ اقتدار ہی کی باتیں ہیں کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر آنجہانی نے کتاب الشیعۃ والسنۃ اور کتاب البریلویۃ والسنۃ وغیرہ شائع کروائیں۔ ا ول الذکر مذہب شیعہ کی مخالفت میں اور موخرالذکر بریلوی اہلسنت کی مخالفت میں اور یہ دونوں عربی میں تھیں۔ پاکستان میں کم مشہور ہوئیں مگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں زیادہ مقبول ہوئیں۔ انہیں دنوں میں اہلحدیث کمپلیکس چائنہ چوک لاہور کی تعمیر شروع ہوئی۔ بدقسمتی سے بم حادثہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر سخت زخمی ہو گئے۔ سعودی حکومت ان کو اٹھا کر سعودیہ لے گئی۔ علاج معالجہ کیا مگر وفات پاگئے اور پھر سرزمین عرب میں انہیں دفن کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ کیا کیا غمازیاں کرتے ہیں۔
*۔۔۔انہی دنوں سعودی عرب سے ایسا لٹریچر پاکستان آتا رہا اورماڈل ٹاؤن کی ایک اکادمی اسے مفت تقسیم کرتی رہی۔ سعودی عرب کے منسٹر انفارمیشن دارالافتاء و الدعوۃ والرشاد عبدالعزیز بن باز صاحب کے لکھے کئی پمفلٹ پاکستان میں مفت تقسیم ہوئے۔ جو مخالفت شیعہ میں ہوئے۔ الدعوۃ والرشاد کی کئی برانچیں آج بھی پاکستان میں کام کر رہی ہیں جو Militant ہیں۔
*۔۔۔عازمین حج کے سامان سے ہر قسم کی کتب حتی کہ دعاؤں اورمناجات کی کتب بلکہ پاکستان میں چھپا ہوا قرآن (مصحف عثمان) بھی سعودی کسٹم والے ضبط کر لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ فرقہ وارانہ نہیں ہوتے ۔ جب پاکستانی لٹریچر سعودیہ میں نہیں جا سکتا تھا تو وہاں سے فرقہ وارانہ لٹریچر دھڑا دھڑ آتا رہا جو اب بھی آ رہا ہے۔
*۔۔۔۱۹۸۴ء یا ۱۴۰۵ھ میں مولانا محمد منظور نعمانی کی کتاب ایرانی انقلاب ، امام خمینیؒ او ر شیعیت لاہور سے شائع ہوئی جس میں شیعیت ، مرجع شیعیت خمینی اور ایرانی انقلاب کے خلاف زہر بھرا ہے۔
اوراسی کتاب کا اثر تھاکہ پاکستان میں ایرانی سفیر مسٹر گنجی کا سفاکانہ قتل لاہو ر میں ہوا اور ملتان کے ایرانی سفارت خانہ کو بے دردانہ غارت کیا گیا۔ اور کلچرل ڈائریکٹر کو قتل کر دیا گیا اور لاہور میں ایرانی ثقافتی مرکز اور لائبریری کو لوٹا گیا اور جلایا گیا۔
اور حال ہی میں اسلام آباد میں ہوائی جہازوں کی مرمت اور صفائی کی ٹریننگ لینے والے پانچ ایرانیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا گیااور پانچ ٹیکنیشنز کے جنازے بیک وقت دوست ملک ایران بھیجے گئے۔ تا کہ رنگ میں بھنگ پڑے۔
اس کتاب کا مقدمہ مولانا سید ابو الحسن ندوی نے لکھا ہے جو شیعہ دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
علماء کے علمی بورڈ نے اس کتاب کو ضبط کرنے کی سفارش نہیں کی ہے۔ کیوں؟ شیعہ ممبران بورڈ ہشیار باش۔
*جرنیل ضیاء الحق کے دور کی دو یادگاریں یہ بھی ہیں:
۱۔۔۔ شاہ فیصل نے کتاب التوحید کا اردو ترجمہ پاکستان میں مفت تقسیم فرمایا۔ جس پر لکھاہے کہ کتاب التوحید مجدد الدعوۃ الاسلامیہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی تصنیف ہے۔ ان کے پوتے عبدالرحمن بن حسن کی شرح مسمی بہ فتح المجید ساتھ ہے۔ ان دونوں کا ترجمہ اور تفہیم عطاء اللہ ثاقب نے کی جس کانام ہدایت المستفید رکھا۔ اس پرلکھاہے کہ طبع بامر حضرت صاحب الجلالۃ الملک المعظم فیصل بن عبدالعزیز آل سعود و علیٰ نفقتہ الخاصۃ الناشرانصارالسنۃالمحمدیہ بیڈن روڈ لاہور پاکستان۔
اس کتاب کی تقدیم میں عطاء اللہ ثاقب نے لکھا ہے کہ پاکستان کے نامور عالم دین ، صاحب لوائے توحید، ناصر السنۃ قامع البدعۃ العلامہ شیخ السید بدیع الدین الشاہ السندی الراشدی نے مقدمہ لکھا ہے اور مقدمہ پر آپ کے القابات یہ لکھے ہیں۔ مقدمہ من ناصر السنۃ النبویۃ ناصر العقیدۃ السلفیہ ، قامع البدعۃ، المجاہد لاعلائے کلمۃ اللہ، الصلب فی السنۃ الملازم للعبادۃ العالم، الفاضل المحدث الفقیہہ رئیس المحققین العلامہ الشیخ السید بدیع الدین الشاہ السندی الراشدی۔ اس مقدمہ کے صفحہ نمبر ۳۰ پر لکھاہے۔
امام سید جعفر صادق بن محمد بن الباقر بن علی ابن زین العابدین بن الحسین الشہید بن علی ابن ابی طالب سے (سب سے پہلی۔ عسکری) کتاب التو حید (المسمی بہ الادلۃ علی الحکمۃ والتدبیر و الرد علی القائلین بالاہمال و منکری العمل) مروی ہے۔
مقدمہ لکھنے والے کے القابات دیکھئے اوراس کا یہ مبلغ علم ملاحظہ فرمائیے کہ ائمہ اطہار آل رسول کا نسب نامہ کیا کا کیا کردیا؟ اللہ اسے پوچھے ۔ اگرجان بوجھ کرکیا تو مجرم بنا اور اگر نادانستہ ہو ا تو معافی مانگناہوگی۔ صحیح یوں ہے امام جعفر الصادق بن محمدالباقر بن علی زین العابدین ۔۔۔الخ۔
یہ بھی یاد رہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی کتاب التوحید اور ہے مگر محمد بن عبدالوہاب کی کتاب التوحید اور ہے۔ یہ بھی ثابت ہو ا کہ سلفیوں کے سلف میں محمد بن عبدالوہاب ہے۔ امام جعفر الصادق علیہ السلام نہیں ہیں۔
ماہنامہ خیرالعمل میں ہم نے اس پر اسی زمانہ میں ایک مضمون لکھا ۔مگرکسی کونے سے اس عبارت کے لئے معافی نہ مانگی گئی اور نہ اگلے ایڈیشن میں صحیح کرنے کا ارادہ ظاہرکیا گیا۔
علماء کے موجودہ علمی بورڈ میں کیا کوئی رجل رشید ایسا ہے جو اس کتاب کو ضبط کروائے۔ اور شاہ فیصل کے وارثان سے اس کے لئے معافی نامہ لکھوائیں۔ جنہوں نے اس بات پر اپنی جیب خاص خالی کردی۔
۲۔۔۔ القرآن الکریم و ترجمۃ معانیہ و تفسیرہ الی اللغۃ الاردیہ کے سرنامہ پہ لکھا ہے ۔ ھذا المصحف الشریف و ترجمۃ و تفسیرہ ھدیۃ من خادم الحرمین الشریفین الملک فھد بن عبدالعزیز آل سعود۔
اس میں ترجمہ شیخ الہند حضرت مولانا محمودالحسن اور تفسیر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ہے ۔ (اول الذکر بھارتی دیوبندی جبکہ موخر الذکر پاکستانی دیوبندی ہے)
یہ قرآن شریف مع ترجمہ و تفسیر خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز ملک سعودیہ آل سعود کی طرف سے ہدیہ ہے جو ہر بھارتی اور پاکستانی کو مفت عطا ہوتاہے ۔ دو چارسال سے ہوتا آٰرہا ہے۔
یہ شاہ فہد قرآن شریف پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ میں زیر نگرانی وزارت اوقاف سعودی عرب ۱۹۹۳ء بمطابق ۱۴۱۳ھ طبع ہوا۔ یہ اردو ترجمہ اسلامی جمہوریہ پاکستان (بزمانہ جرنل ضیاء الحق) کے وزارت مذہبی امور کے حضرت مولانا ابوالحسن علی الندوی کی طرف سے معتمد و مصدق ہے۔ اس کی ضروری تصحیحات کا مراجعہ رابطہ عالم اسلامی (ادارہ القرآن الکریم) کی طرف سے فضیلۃ الشیخ عنایت اللہ شاہ نے کیا ہے۔ (مذکورہ بالا مولانا محمد منظور نعمانی کی کتاب ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت کا مقدمہ بھی انہیں مولانا سید ابوالحسن ندوی صاحب کاہے)
الغرض اس ترجمۃ اور تفسیر کی سفارش جرنل ضیاء الحق کے عہد میں ندوی صاحب کے ذریعہ سے کی گئی ۔ ہماری گزارش تو صرف یہ ہے کہ یہ یک طرفہ تبلیغ نجدیت و سعودیت ، اہل حدیثیت اور دیوبندیت کیوں روا رکھی گئی ہے؟ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہر حاجی کی زبان پر ہے کہ ہر عازم حرمین شریفین کے سامان سے سعودیہ کے کسٹم حکام ہر قسم کی دعاؤں و مناجات کی کتب، قرآن مجید کے ہر قسم کے غیرملکی مگر ممالک اسلامی کے نسخے اور قرآن کے تراجم و تفاسیر کو نکال پھینکتے ہیں۔
گویا غیر ملکی اسلامی لٹریچر کو مملکت سعودیہ میں جانے نہیں دیا جاتا۔ بریلوی اہلسنت کا ترجمہ و تفسیر کنزالایمان و نور العرفان وہاں ضبط ہیں اور وہاں کسی غیر ملکی اسلامی مذہب کو اپنا لٹریچر ، اپنی مسجد ، اپنا دینی مدرسہ بنانے اور اپنے مذہبی رسوم کو بجا لانے کی قطعاً ممانعت ہے۔ حالانکہ سعودی عرب میں وہاں کے مقامی شیعہ مومنین کوکسی قسم کی مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے، حالانکہ ملک معظم سعودی عرب شاہ فیصل نے پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد(خیمہ مسجد) تعمیر کروائی۔ جو واقعی نجدیت اور سعودیت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اور وہابیت کا ماحول اسلامی قائد اعظم بین الاقوامی یونیوسٹی اور تحقیقات اسلامیہ میں چھایا ہوا ہے۔
*۔۔۔گوادر کی بندرگاہ کی باتیں ہوتی رہتی ہیں جہاں سے دراصل عرب امارات اور سعودیہ سے نزدیک ترین راستہ ہے۔ گوادر مکران کا ہی حصہ ہے جہاں پر وہابی یلغار ہونے کا بھرپور خطرہ ہے۔
*۔۔۔اللہ تعالیٰ کا کرناایسا ہوا کہ سانحہ بہاولپور میں اللہ تعالیٰ نے صدر مملکت ضیاء الحق کو اٹھا لیا۔ جہاز میں آگ لگ گئی۔ وقنا عذاب النار کی راہ کوئی نہ رہی ۔ کچھ بھی نہ بچا۔ عینک اورجلی کٹی ایک ٹانگ کو ملبہ سے اٹھا کر شاہ فیصل خیمہ مسجد اسلام آباد کے احاطہ میں دفن کر دیا گیا کہ یہ مردِ حق کا لاشہ ہے۔ سعودی عرب نے اس قبر و قبہ کو کیونکر برداشت کیا؟ ذرا بھی احتجاج نہ کیا۔ آخرکیوں؟
سعودیہ میں جنت البقیع کی قبروں اور قبوں کو سعودیوں نے مسمار کر دیا ہوا ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کے اعزاء و اقارب، آل و عترت رسول، اصحاب رسولؐ، امہات المومنین کی قبور کے نشانات تک مٹا دئے گئے ہیں کہ یہ قبر پرستی اور شرک ہے۔ فیصل مسجد کے احاطہ میں جرنل ضیاء الحق کی قبر او ر قبہ (چھتہ) کو برداشت کرناکیا کیا غمازیاں کرتاہے۔
*۔۔۔ اسی دور میں شیعہ وہابی کے مابین ہونے والے وہ مناظرے جو ۱۹۲۰ء اور ۱۹۴۰ء کے دوران ہوئے ان کی روئیداد یں جب تو چھپائی نہ گئیں مگر عہد ضیاء الحق میں غلط ملط روئیدادیں وہابیوں ، اہلحدیثوں اور دیوبندیوں نے شائع کیں۔ مثلاً مناظرہ مکیریاں جو مابین ضیغم اسلام علامہ مرزا احمد علی اعلی اللہ مقامہ اور مولوی کرم دین بھین کے درمیان پچاسوں سال پہلے ہواتھا۔ آج ان دونوں میں کوئی بھی زندہ نہیں ہے ۔ اس زمانے میں مشہور ہوا تھا
کرم دین بھیاں دا
نہ سنیاں دا نہ شیعاں دا
*۔۔۔ضیاء الحق آنجہانی کی ہر برسی کے موقع پر اس قبر اوراحاطہ فیصل مسجد میں ہر سال کا فر کافر، شیعہ کافر کے نعرے لگائے جاتے رہے اور صاحبان اقتدار اورجرنیل ضیاء الحق کی مارشل لاء کی باقیات جلسہ کی صدارت کرتے ہوتے۔سپاہ صحابہ کے ان فرقہ وارانہ منافرتی نعروں کی حوصلہ شکنی کبھی نہ کی گئی۔ آج نو برس کی برسیوں میں یہی ہوتا رہا۔ کیونکہ حزب اقتدار کی یہ سپاہ دم چھلہ پارٹی ہے۔
*۔۔۔۱۷؍ اگست ۱۹۹۷ء کو فیصل مسجد کے احاطہ میں جرنیل ضیاء الحق کی برسی کے موقع پر بہت بڑے اجتماع سے موجودہ وزیر اعظم پاکستان نے تقریر کرتے برملا کہاکہ وہ جرنل ضیاء الحق کے مشن کو پورا کریں گے۔
جولائی ۱۹۷۷ء میں ضیائی مارشل لاء لگا اورآمریت نے خوب خوب جوہر دکھلائے۔
کلاشنکوف کلچر اسی عہد کی یادگار ہے۔ اور اداروں میں کرپشن بڑھی،سیاچین کا معرکہ اب تک گرم ہے ۔اگرچہ وہاں گھاس نہیں ہوتی مگر شاہراہ ریشم پر جنگی نوعیت کا مقام ہے۔اسی عہد میں دینی مدارس کو غیر ضروری مالی امداد اور تحفظات مہیاکئے گئے ۔ زکات فنڈ سے ان کو نوازا گیا۔وہابیت اور دیوبندیت اور اہلحدیثیت والوں کو خوب رجایا گیا۔ سرکاری محکمے اوقاف اور تحقیقات اسلامیہ اور دینی یونیورسٹیوں پر انہیں علماء کو قابض کر دیا گیا۔
غرضیکہ ان کے لئے طاقت کا مظاہرہ اور مذہبی منافرت پھیلانے کے مواقع مہیا کئے گئے۔ اوراسی کے نتیجے میں مسجدوں میں نمازیوں،دینی مدارس میں طالبعلموں اور امام بارگاہوں میں عزاداروں کا قتل و خون روا رکھاگیا۔ آج کی مذہبی انتہا پسندی اوردہشت گردی کے بیج اسی عہد میں بوئے گئے۔ یاد کرئے کہ اسی عہد میں لاہور کے پچاسوں امام باڑوں کو ایک رات میں جلا کر راکھ کر دیا گیا مگر حکومت کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ یہ سب یکطرفہ تھا۔ رفتہ رفتہ پھر دو طرفہ دہشت گردی ہونے لگی۔
ہمیں افسوس ہے کہ انسداد دہشت گردی بل و ایکٹ ۱۹۹۷ء میں موجودہ دہشت گردی کی ان بنیادی وجوہات کو روکنے کی قطعاً کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔ جب تک جڑ ناس نہ کی جائے فتنہ پروری کا ستیاناس نہ ہوگا‘‘۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍مارچ ۱۹۹۸ء تا۲؍اپریل ۱۹۹۸ء)