پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام (مرحوم)
تحریر: پرویز ہود بھائی ۔ ترجمہ :سید قمر سلیمان
نومبر۱۹۹۷ء میں مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یاد میں ٹریسٹ میں جو میٹنگ ہوئی اور جس میں اس انسٹی ٹیوٹ کا نام ڈاکٹر سلام کے نا م پر رکھا گیا۔ اس میں پاکستان کے ایک فزکس کے پروفیسر جناب پرویز ہود بھائی نے بھی ایک مقالہ پڑھا تھا ۔جس کا خاکسار نے ترجمہ کیاہے اور ان سے اشاعت کی اجازت حاصل کر لی ہے۔ چنانچہ اس کی اشاعت کی اجازت دیتے ہوئے مکر م پرویز ہود بھائی صاحب لکھتے ہیں:
’’۱۹ نومبر تا ۲۲ نومبر میں ٹریسٹ سلام میموریل میٹنگ میں شمولیت کے لئے گیاہوا تھا ۔ پہلے روز تو String Theory اور Cosmology پر بہترین مواد سننے کو ملا ۔Sciama, Veneziano, Green, Seiberg ۔۔۔تیرا دن سلام صاحب کی یادوں کے لئے منسوب تھا ۔ میرا مضمون درج ذیل ہے جو باقی مضامین سے ذرا مختلف ہے۔ اتنا مختلف کہ اس مضمون کو پڑھنے سے ایک گھنٹہ قبل مجھے خیال ہوا کہ اسے نہ پڑھوں مگر پھر میں نے ارادہ تبدیل کردیا۔ میر ے بعض ہم وطن اس پر بہت جز بز ہوئے۔ چلو ہوتے رہیں۔ اس ڈھانچے کو الماری سے کسی نہ کسی روز تو باہر نکلنا ہی ہے ۔ ابھی مجھے پتہ نہیں کہ میں اسے چھپواؤں گابھی یا نہیں لیکن آپ کو اجازت ہے کہ جسے مرضی اس سے مستفیض کروائیں۔ پرویز‘‘۔(سید قمر سلیمان)
یہ میموریل میٹنگ پروفیسر عبدالسلام کی یاد میں منعقد ہوئی ہے اور اس سنٹر کا نام عبدالسلام سنٹر آف فزکس رکھا جا رہاہے ۔ اور ا س صدی میں میرے علم کے مطابق کوئی ایسا Physicist نہیں جسے اس طور پر سراہا گیا ہو ۔ بجا طور پر آج پروفیسرسلام کی تعریف میں بہت کچھ کہاگیا ہے۔ لیکن میں نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میں یہاں ڈاکٹر سلام صاحب کی شاندار کامیابیوں کی بجائے ان کی ایک بڑی ناکامی کا ذکر کروں گا۔ اس سے میری مراد ان کی پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں سائنس کو فروغ دینے کی موہوم تمنا ہے ۔ گزشتہ تین روز میں یہاں جن شاندار موضوعات پر گفتگو ہوئی ہے اس میں میری کڑوی کسیلی گفتگو کی تین وجوہات ہیں۔
پہلی تو یہ کہ سلام صاحب بڑی شدت سے اس بات کے قائل تھے کہ آج کل کے معاشرے میں مادی اور ثقافتی ترقی کا انحصار موجودہ سائنس پرہے۔ اور ان کی تمنا تھی کہ تمام دنیا کے ممالک عموماً اور ان کااپناوطن خصوصاً اس سے استفادہ کرے۔ چنانچہ اس موہوم خواہش کو پورا نہ کرسکنے کا یہاں ذکر نہ کرنا بہت زیادتی ہوگی۔
دوسرے سلا م صاحب کی اس ناکامی سے ان کی شخصیت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ مگر یہ ناکامی ہمیں وجوہات معلوم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ خاص طور پر ہم پاکستانیوں کو اس با ت کے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیوں سائنسی ترقی ہم سے دامن بچارہی ہے ۔ اور کیوں ہم ا س مطمح نظر سے تیس سال قبل کی نسبت زیادہ دور ہو چکے ہیں۔ میرے نزدیک اب بھی نیک نیتی سے ان کا جواب تلاش کرنا خواہ و ہ کتناہی تلخ کیوں نہ ہو ، مستقبل میں پیش آمدہ خطرات سے بچنے کے لئے از حد ضروری ہے۔
تیسرے ، میری ڈاکٹر سلام صاحب سے واقفیت تیسری دنیا کے ممالک کی سائنسی ترقی کے حوالے سے ہی ہوئی۔ گزشتہ کئی سالوں سے میرا ان سے گفتگو اور خط وکتابت کے ذریعہ رابطہ رہا ہے۔ میری ان سے سب سے پہلی ملاقات ۱۹۷۲ء میں MIT میں انڈر گریجوئیٹ طالب علم کے طور پر ہوئی اور پھر۱۹۷۸ء میں اس سنٹر کے دورہ کے دوران ہوئی ۔ مگر یہ قابل ذکر ملاقاتیں نہیں تھیں۔ وہ اس وقت مجھے نہیں جانتے تھے اور ان کے پاس مجھے جاننے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔
۱۹۸۵ء میں اچانک مجھے ان کی طر ف سے اسلام آباد میں جہاں میں پڑھاتا ہوں ایک خط ملا جس میں انہو ں نے تحریر فرمایا تھا کہ انہوں نے میرا ایک مضمون جو اسلامی ممالک میں ’’اسلامی سائنس‘‘ کے قیام کی کوشش اور مذہبی تنگ نظری کے نتیجہ میں صدیوں پہلے کے دانشور مسلمانوں کی اعلیٰ دماغی صلاحیتوں کو برباد کرنے کے بارہ میں تھا ، پڑھا ہے اور مجھے فرمایا کہ جب کبھی میں اس سنٹر میں آؤں تو ان سے ضرور ملوں۔ چنانچہ اس طرح ۱۹۸۵ء کے گرما میں میر ا ان سے رابطہ شروع ہوا۔ اگلے سال انہوں نے مجھے فرمایا کہ وہ اور میں مل کر Michel Moravacsik کی کتاب “On the road to Worldwide Science” کا پیش لفظ لکھیں۔ یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات تھی ۔ دو سال بعد سلام صاحب نے میری کتاب “Islam & Science religious orthoduxy and the battle for rationality” کا دیباچہ تحریر کیا ۔ اس میں انہوں نے وضاحت سے بتایا کہ سائنسی حقائق کا صر ف سائنسی نقطۂ نظر سے ہی جائزہ لیا جا سکتا ہے نہ کہ کسی مذہبی ، ماورائی اور ذوقی نقطۂ نظر سے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری اس کتاب کے ذریعہ سلام صاحب کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع مل گیا۔ اس سے قبل ان کی مذہب اور سائنس کے سوال پر پوزیشن لوگوں پر واضح نہیں تھی۔ مجھ سے قبل کے ایک مقرر نے سلام صاحب کا اپنی توانائیاں وقت اور مرتبہ پاکستان میں سائنس کی ترقی کی سطح بلند کرنے کے لئے خرچ کرنے کی تفصیل بیان کی ہے ۔ صدر پاکستان کے سائنسی مشیر ہونے کے ناطے سلام صاحب نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قیام میں بنیادی کام کیا۔ سیم اور تھور کے مسئلہ پر تحقیقات کا آغاز کروایا اور زرعی تحقیقات پر کام شروع کروایا۔ اور وہ سائنس پڑھنے والے افراد کے لئے ایک نمونہ تھے۔ میں اس پر صرف اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ وہ سخاوت میں بھی اپنی مثال آپ تھے ۔ انہوں نے بہت سے غریب طلباء کو تعلیم دلوائی۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں سکولوں ، کالجوں کے لئے اپنے ذاتی اخراجات میں سے سامان سائنس خریدنے میں مدد دیتے رہے۔اپنی نوبل انعام کی آمد میں سے ایک حصہ آپ نے کسی سائنسی میدان میں بہترین تحقیق کرنے والے محقق کے لئے سالانہ انعام عطاکرنے کے لئے مختص کیا اور ان کے مداحوں اور مختلف طلباء کی طر ف سے ان کی میز پر ڈھیروں خطوط کا میں عینی شاہد ہوں۔ کسی بھی مصروف اور تخلیقی انسان کے لئے وقت سب سے قیمتی متاع ہے۔ لیکن سلام صاحب ہر خط کا حتیٰ کہ سادہ ترین خطوط کا بھی جواب دیتے تھے۔ چنانچہ آپ کا خیال ہوگا کہ (ان سب باتوں کی وجہ سے ) سلام صاحب کا درجہ پاکستان میں ایک ہیرو کا سا ہوگا۔
اس جگہ دنیا کی نظریاتی فزکس کی سب سے بڑی درسگاہ ہے جسے پروفیسر سلام کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے لیکن ان کے وطن میں کسی سائنسی یاکسی قسم کی درسگاہ ، عمارت حتیٰ کہ سڑک کا نا م بھی ان کے نام پر نہیں رکھا گیا۔ سکول کی درسی کتب میں ان کا ذکر نہیں اور اساتذہ بچوں کو ان کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ جعلی ہیروز کی ہر جگہ تعریف ہوتی ہے لیکن سلام صاحب کاکہیں بھی نام و نشان نہیں ملتا۔ پاکستانی دانشوروں کی اس بارہ میں نفرت اس ایک مثال سے واضح ہو جاتی ہے کہ میری یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر نے تحقیر آمیز لہجے میں ایک میٹنگ میں کہا کہ ’’ کون سلام ؟، اس نے پاکستان کے لئے کیا کیا ہے؟‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ پروفیسر سلام کی دنیا کے راہنماؤ ں سے رسم و راہ تھی ۔ اقوام متحد ہ کے اعلیٰ عہدیداروں ، پوپ اور دیگر کئی جگہ کے ۔ مگر اپنے ملک کے لیڈروں سے ملنا ان کے لئے کاردارد تھا۔ میں ۸۸ء میں اسلام آباد میں پروفیسر سلام کے ہوٹل کے کمرہ میں ان سے ملا جہاں وہ صبر کے ساتھ دو دن سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا انتظار کر رہے تھے۔اس موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے میں نے ان سے ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کی درخواست کی جسے میں تعلیمی مسائل کے بارہ میں تیار کررہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس عظمت کے حامل انسان کو جو بیمار بھی ہو خواہ مخواہ یوں انتظار کرانا مناسب نہیں۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور سلام صاحب کا چہرہ عارضی طور پر کھل اٹھا ۔ مگر بی بی کے سیکرٹری نے بتایا کہ میٹنگ منسوخ ہو گئی ہے ۔
ہاں مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم نوا ز شریف نے اس میٹنگ کے لئے مبارک باد کا پیغام ارسال کیا ہے ہمیں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ مگر کس قیمت پر ۔ مجھے یاد ہے کہ پانچ سال قبل انہی نوا ز شریف نے گورنمنٹ کالج لاہورکے ایک کانووکیشن میں تقریر کے دوران اس کالج کے فارغ التحصیل ہونے والی تما م اعلیٰ شخصیات کے نام لئے تھے مگر سلام صاحب کا نام اس قابل نہیں سمجھا گیا۔ دس سال قبل پروفیسر سلام صاحب Unesco کے ڈائریکٹر جنرل کا انتخاب لڑنا چاہتے تھے مگر عجیب بات ہے کہ پاکستان نے انہیں اپنی نمائندگی دینے سے انکار کر دیا حالانکہ اردن اور کویت نے بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن چونکہ سلام صاحب نے اپنی پاکستانی شہریت تبدیل نہیں کی تھی اس لئے ان کے اپنے وطن کے انکار پر ان کا نمائندگی کا حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ سرکار کی طرف سے بے مروتی اور بے توجہی کا شکار ہونے کے علاوہ سلام صاحب پر بے جا حملے اور طعن بھی کئے گئے۔ دائیں بازو کے رسائل نے ایٹمی پروگراموں کی جاسوسی کے من گھڑت الزام لگائے ۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے نیوکلیائی راز ہندوستان کو فراہم کر دئے ہیں۔ انتہا پسند طلباء کے گروپس نے ان کی کسی یونیورسٹی کیمپس میں آمد ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دی۔ مجھے اس بات کے کہنے میں شرم محسوس ہوتی ہے کہ سلام صاحب میری یونیورسٹی تشریف نہ لا سکے باوجود اس کے کہ یہاں فزکس ڈیپارٹمنٹ بہت سی باتوں میں ان کا مرہون منت ہے اور شاید یہ سارے ملک میں واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جہا ں ان کی تقاریر سمجھی جاسکتی تھیں۔ یہ تو پاکستان کا حال تھا۔ مگر ا ن مسلمان ممالک میں کیا صورت حال تھی جہاں تیس سال تک سلام صاحب باربار جا کر انہیں توجہ دلاتے رہے اور سائنسی ترقی کے راستہ پر چلنے کے سلسلہ میں تلقین و ترغیب کے ذریعہ آمادہ کرتے رہے ۔ ان کے ذہن میں بہت سے منصوبے تھے خصوصاً ایک عظیم الشان سکیم یہ تھی کہ انہیں اکٹھا کر کے ایک اسلامک سائنس فاؤنڈیشن بنائی جائے ۔ جس کے ابتدائی اخراجات کے لئے ایک ارب ڈالر ز کا فنڈ قائم کیا جائے جو اسلامی ممالک سے مشترکہ طور پر حاصل کیا جائے ۔
یہ منصوبہ اس وقت ناکامی کا شکار ہو گیاجب سعودی عرب نے اس میں اپنی شمولیت ختم کردی اور سلام صاحب اور ان کے فرقہ کے لوگوں کا وہاں داخلہ بند کر دیا گیا۔ پروفیسر سلام نے پبلک میں اس کا اعلان تو نہیں کیا لیکن اپنے دوستوں کے حلقہ میں وہ بڑی مایوسی سے اس کا اظہار کرتے تھے کہ صرف کویت اور ایران ہی اس کا م کے لئے سنجیدگی سے تیار تھے ۔ مجھے یقین ہے کہ حاضرین میں سے بہت سے اس بات پر حیران ہونگے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ ۔
آئیے میں تفصیلاً اس بارہ میں کچھ عرض کروں۔ ۱۹۷۴ء سے قبل سلام صاحب پاکستان میں قانونی طورپر مسلمان شمار ہوتے تھے مگرآخر کار وہ ایک ایسے ملک میں غیرمسلم قرا ر دے دئے گئے جہاں غیر مسلم دوسرے درجہ کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی قومی اسمبلی کے اس فیصلہ کی وجہ سے سلام صاحب صدرکے مشیر کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے سائنسی ادارہ جات اور مختلف افراد سے غیر سرکاری مراسم تو رکھے لیکن سرکاری حیثیت میں بے اختیار ہو گئے۔
پروفیسر سلام نے اپنی یہ جداگانہ حیثیت کبھی بھی تسلیم نہیں کی اور اس وجہ سے وہ مذہب کی طرف زیادہ مائل ہو گئے۔ بعض کے خیال میں یہ قابل افسوس بات تھی مگر مجھے اس پر را ئے دینے کا حق نہیں ہے۔ بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے ماضی سے شدید لگاؤ ہو گیا اور پھر انہوں نے وہ کام کیا جو کسی مسلمان یا غیر مسلم نے نہیں کیا تھا۔انہوں نے تاریخ کی بوسیدہ اور گرد آلود کتب میں سے ہزار سال کے عظیم مسلمان دانشوروں کی کامیابیاں ماضی کے عظیم الشان ورثے میں سے تلاش کر کے قابل فخر مثالوں کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیں۔ اس میں سب سے زیادہ زور انہوں نے اس بات پر دیا کہ یہ کامیابیاں حقیقت پسندانہ سوچ کے نتیجہ میں تھیں۔ مثلاً مجھے سلام صاحب ہی کے ایک مضمون سے بارہویں صدی کے عرب عالم دین ہیزم کے بارہ میں جسے سوائے تاریخ کے طلباء کے کوئی نہیں جانتا، علم ہوا کہ اس نے روشنی کے کسی واسطے میں موجودگی پر “Fermats principle of least action” معلوم کر لیا تھا ۔ اس طرح سلام صاحب نے نوبل پرائز حاصل کرنے کی تقریب میں جو تقریر کی اس کا آغاز ایک سکاٹ مائیکل کے طلیطلہ سپین میں سفر کے ذکر سے ہوتا ہے جو وہاں تحصیل علم کے لئے پہنچا تھا کیونکہ اس زمانہ میں علم و ادب اسلامی ممالک میں خاص طور پر زوروں پرتھا۔ سلام صاحب کا مقصد ان لوگوں میں فخر اور امید کی کرن پیدا کرناتھا جن میں یہ سب مفقود ہو چکا تھا۔ اس میں انہیں کامیابیاں نصیب توہوئیں لیکن یہ تھوڑی اور عارضی تھیں۔ کوئی فانی انسان تاریخ کی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا خصوصاً جب ان کا رخ مستقبل کی بجائے ماضی کی طرف ہو۔
میرے نزدیک سلام صاحب دیومالائی سیفس کے انسانی صورت میں دنیا میں آمد کی مثال تھے ۔ شاید آپ کو یاد ہو سیفس سزا کے طور پر اولمپس کی چوٹی پر ایک بھاری پتھر لے جانے کی کوشش کرتا رہتاتھا اور جب بھی وہ چوٹی کے قریب پہنچتا تھاوہ پتھر نیچے لڑھک جاتا تھا اور وہ دوبارہ یہ مشقت شروع کر دیتا تھا۔
ایک لمبی اور تکلیف دہ بیماری سے قبل سلام صاحب بھی مسلسل اور تکلیف دہ حالات میں سائنسی ترقیات پر اپنے منصوبے مذہبی انتہا پسندوں کی پر مغرور چوٹیوں کے بالمقابل پیش کرتے رہے اور یہ حقیقت بڑ ی خوفناک ہے کہ سلام صاحب کو اسی رخ نے شکست فاش دی جس کی مضبوطی کے لئے وہ ہمہ تن مصروف رہے۔ ۱۹۷۴ء کے فیصلہ پر مزید گفتگو کی ضرورت ہے۔ احمدیہ جماعت اور دیگر مسلمانوں میں عقائد کے اختلاف سے ہم میں سے یہاں حاضر لوگوں کو کوئی سروکار نہیں۔ ان کا حل اتنا ہی مشکل ہے جتنا مثلاً کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں یا اینابپٹسٹ اور کالوینسٹ میں اختلاف کا ۔ یہ اختلاف متحارب گروہوں کے مابین بنیادی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ جبکہ باہر والوں کے لئے بے حیثیت۔ مگر عام طور پر جیسا کہ ازمنہ وسطی کے یورپ میں بھی ہوا دینی جھگڑوں میں طاقتور گروہ کمزور کو بزورطاقت ختم کرنے یا خوفزدہ کر کے بھگا دینے کی کوشش کرتاہے ۔ یہ روایت ہے جو ہر مذہب کی تاریخ میں انسانوں پر دہرائی گئی ہے۔ اکثریت کو اقلیت کو تہہ تیغ کرنے سے روکنے کے لئے ہی یورپ میں سیکولرازم چلا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے دوسرا راستہ اختیار کر لیا اور مذہبی عقائد کے ایک ایسے جھگڑے میں فریق بن بیٹھی جو کئی سال سے پک رہا تھا ۔ بعد میں یہ ظاہرہوا کہ ۱۹۷۴ء کا فیصلہ وہ پہلا قدم تھا جس سے ایک ایسی خطرناک ڈھلوان میں پھسلنے کا آغازہوا جس کا کوئی سرا نہیں۔ بہت سے اسلامی فرقے اب اپنے خلاف ظلم و ستم اور محاذآرائی کا خدشہ محسو س کر رہے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں یقیناًایک فرد پر جو گزرتی ہے اس کی تو کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اس لئے پاکستان میں جو سلام صاحب پر گزری اس کی یا کسی فرقہ کے خلاف ظلم و ستم کی بہت زیادہ اہمیت تونہیں مگر یہ پاکستانی معاشرہ کے انحطاط کا آغازہے۔
آخر میں میں یہ کہوں گا کہ فقیدالمثال سخاوت اور وسعت قلبی سے سلام صاحب نے بھول جانے اور معاف کرنے کارستہ اپنایا ۔ وہ بآسانی تلخ ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ راستہ نہیں اپنایا ۔ ہمیں اس کا احساس کرناچاہئے اور اس کو عزت کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ سلام صاحب خود کبھی بھی بہت آزاد خیال نہیں رہے مگر انہیں یقین تھا کہ صرف ایک آزاد قوت برداشت رکھنے والے اور کثیر العقیدہ معاشرے میں ہی سائنس پنپ سکتی ہے۔ چنانچہ ان کی خدمت میں بہترین خراج تحسین اس طرح پیش کیا جا سکتاہے کہ ہم اپنے اپنے دائرے میں ایک ایسے عالمی معاشرے کے قیام کی کوشش کریں جہاں زمین پر رہنے والے تمام افراد کویکساں مواقع میسر ہوں، جہاں اختلافی اور تخلیقی قوتوں کی قدر کی جائے اور اپنے اپنے مذہبی عقائد پر بلا خوف عملدرآمد کیا جا سکے ۔
(الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جولائی ۱۹۹۸ء تا۱۳؍اگست ۱۹۹۸ء)