پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر، اہمیت اور مصداق
تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں
غلام مصباح بلوچ، استاذ جامعہ احمدیہ کینیڈا
خدائے ذوالمنن و المجد نے اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کے جو نشان عطا فرمائے ان میں ایک بہت بڑا نشان پیشگوئی مصلح موعود ہے۔ اس پیشگوئی کا پس منظر کیا تھا؟ اس کی کتنی اہمیت اور عظمت ہے؟ اور اس پیشگوئی سے کون مراد ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات اور تفصیل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں موجود ہیں ۔
پیشگوئی کا پس منظر
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی عظیم الشان کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے منظر عام پر آنے سے ایک طرف عالم اسلام خوشیوں کی لہروں میں تھا اور دوسری طرف مخالفین اسلام میں ایک کھلبلی مچ گئی تھی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی کتاب میں دنیا کو مخاطب کر کے یہ خوشخبری دی:
’’ پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صد ہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے ….. اور ہریک مخالف اپنے مغلوب اور لا جواب ہونے کا آپ گواہ ہوجائے۔‘‘ (براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 596,597 حاشیہ در حاشیہ)
اس نوید کا اعلان آپؑ نے نہ صرف ہندوستان میں کیا بلکہ مکتوبات کے ذریعے بیرون از ہندوستان بھی اس پیغام کو پہنچایا اور اپنی طاقت کے مطابق جہاں تک ہو سکا مخالفین اسلام پر اتمام حجت قائم کی۔ اب جبکہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کا ڈنکا اطراف عالم میں بج رہا تھا اور ہر ایک مخالف کو اس کے زندہ نشانات دیکھنے کی دعوت عام تھی کہ اسی دوران 1885ء میں ساہوکاران و دیگر ہندو صاحبان قادیان کا ایک خط حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں موصول ہوا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا
’’جس حالت میں آپ نے لنڈن اور امریکہ تک اس مضمون کے رجسٹری شدہ خط بھیجے ہیں کہ جو طالب صادق ہو اور ایک سال تک ہمارے پاس آکر قادیان میں ٹھہرے تو خدائے تعالیٰ اس کو ایسے نشان دربارۂ اثبات حقیقت اسلام ضرور دکھائے گا کہ جو طاقت انسانی سے بالا تر ہوں۔ سو ہم لوگ جو آپ کے ہمسایہ اور ہمشہری ہیں، لندن اور امریکہ والوں سے زیادہ تر حق دار ہیں….. لیکن ہم لوگ ایسے نشانوں پر کفایت کرتے ہیں جن میں زمین و آسمان کے زیر و زبر کرنے کی حاجت نہیں اور نہ قوانین قدرتیہ کے توڑنے کی کچھ ضرورت ۔ ہاں ایسے نشان ضرور چاہئیں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ سچا اور پاک پرمیشر بوجہ آپ کی راست بازی دینی کے عین محبت اور کرپا کی راہ سے آپ کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے اور قبولیت دعا سے قبل از وقوع اطلاع بخشتا ہے یا آپ کو اپنے بعض اسرار خاصہ پر مطلع کرتا ہے اور بطور پیشگوئی ان پوشیدہ بھیدوں کی خبر آپ کو دیتا ہے یا ایسے عجیب طور سے آپ کی مدد اور حمایت کرتا ہے جیسے وہ قدیم سے اپنے برگزیدوں اور مقربوں اور بھگتوں اور خاص بندوں سے کرتا آیا ہے….. اور سال جو نشانوں کے دکھانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ ابتدائے ستمبر 1885ء سے شمار کیا جاوے گا جس کا اختتام ستمبر1886ء کے اخیر تک ہو جائے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 92-94)
اس خط کے آخر پر دس ہندو صاحبان کے نام درج ہیں۔ اس خط کے موصول ہونے پر حضرت اقدس علیہ السلام نے جوابًا تحریر فرمایا:
’’….. صاحبان ارسال کنندگان درخواست مشاہدہ خوارق۔بعد ما وجب۔ آپ صاحبوں کا عنایت نامہ جس میں آپ نے آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے درخواست کی ہے، مجھ کو ملا۔ چونکہ یہ خط سراسر انصاف و حق جوئی پر مبنی ہے اور ایک جماعت طالب حق نے جو عشرہ کاملہ ہے اس کو لکھا ہے اس لئے بہ تمام تر شکر گذاری اس کے مضمون کو قبول منظور کرتا ہوں اور آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ صاحبان ان عہود کے پابند رہیں گے کہ جو اپنے خط میں آپ لوگ کر چکے ہیں تو ضرور خدائے قادر مطلق جل شانہ کی تائید و نصرت سے ایک سال تک کوئی ایسا نشان آپ کو دکھلایا جائے گا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہو۔ یہ عاجز آپ صاحبوں کے پُر انصاف خط کے پڑھنے سے بہت خوش ہوا…..‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 95)
جیسا کہ حضرت اقدسؑ کے اس اشتہار سے ظاہر ہے آپؑ اُن ہندوؤں کے اس خط سے خوش تھے کہ اسلام کی صداقت میں نشان کا مطالبہ کیا گیا ہے چنانچہ حضور علیہ السلام نے اس مطالبہ کو لے کر اُسی واحد و لا شریک خدا کی طرف توجہ کی جس کی تائید و نصرت کے یقینی وعدوں سے اطلاع پاکر آپؑ نے اسلام کی سچائی کا اس دور میں اعلان کیا تھا، اور نہایت الحاح اور تضرع اور عجز سے اس نشان کے لیے دعائیں کیں۔ آپؑ نے کسی بھی قسم کے خلل سے بچنے اور دعاؤں میں مزید یکسوئی اور انہماک پیدا کرنے کے لیے خلوت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لیے اپنے گھر بار اور رشتہ داروں سے دور ہوشیارپور میں اعتکاف فرمایا اور پورے تبتل اور انقطاع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں۔ خدائے رحیم و کریم نے آپؑ کی اس تڑپ اور اسلام کی صداقت کے لیے اضطراب کو دیکھ کر آپ کو تسلی دی اور آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ایک عظیم الشان نشان کی خوشخبری دی جس کا اعلان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے اپنے اشتہار 20 فروری 1886ء میں فرمایا:
’’مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے، فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام! خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انھیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔
سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا، ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا، وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمھارا مہمان آتا ہے اس کا نام عمانوایل اور بشیر بھی ہے، اُس کو مقدس رُوح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے، اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا، وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مظہر الاول و الآخر، مظہر الحق و العلاء کَاَنّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 100-102)
اسی اشتہار میں حضور علیہ السلام نے اپنی نسل اور خاندان کے پھلنے اور پھولنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہوجائے گی ، اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ، ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں ارد گرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی و نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ مَیں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انھیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تو مجھے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو، اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو۔ اور اگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے۔ فقط‘‘
اس اشتہار کے اگلے ہی ماہ حضور علیہ السلام نے ایک اور اشتہار 22مارچ 1886ء میں اس پیشگوئی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ایک اور وعدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’…. ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی9 برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے، بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 113)
اس پیشگوئی پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے بعض حلقوں کی طرف سے اعتراض بھی کیے گئے لیکن حضور علیہ السلام نے بذریعہ اشتہار و مکاتیب ان کے جوابات دیے۔ حضرت اقدسؑ کی اس پیشگوئی کے فورًا بعد جو پیدائش ہوئی وہ ایک لڑکی صاحبزادی عصمت صاحبہ تھیں چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام پر اعتراضات کی نوعیت یہی تھی کہ پیشگوئی لڑکے کی تھی اور پیدا لڑکی ہوئی۔ لیکن اس سے زیادہ اس بات کا شور ڈالا گیا کہ گھر میں لڑکا پیدا ہوجانا کیا نشان ہوا؟ شادی کے بعد بچے ہونا یہی قانون قدرت ہے وغیرہ۔ لیکن پیشگوئی پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نو سال کی میعاد کے اندر اندر ایک عظیم الشان بیٹے کی پیدائش کی خبر دی تھی اس کے علاوہ دیگر اولاد کی پیدائش کی نفی نہیں تھی کہ موعود بیٹے کے علاوہ اور کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا، نیز شادی کے بعد اولاد ہونا قانون قدرت ضرور ہے لیکن کوئی بھی فرد اپنے متعلق قبل از وقت اس کا حتمی دعویٰ نہیں کر سکتا یہاں تو نہ صرف بیٹے کی پیدائش کے الٰہی وعدے کا حتمی اعلان تھا بلکہ اولوالعزم اور عظیم المرتبت اور بے شمار خوبیوں والے بیٹے کا اعلان تھا جس کے ذریعے حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی کے بعد دین اسلام کی عظیم خدمت اور اُس کے دنیا میں پھیلنے کا بھی ذکر تھا۔ اور ’’وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا‘‘ کے الفاظ منہ بولے بیٹے یا روحانی فرزند جیسے ہر قسم کے شائبہ اور وسوسے کو دور کرنے والے ہیں۔
بشیر اول کی پیدائش اور حضرت اقدسؑ کی وضاحت
پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد 7 اگست 1887ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کے گھر میں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بشیر رکھا گیا۔ صاحبزادہ بشیر اول کے جنم سے قبل اس کے حمل کے دوران ہی حضور علیہ السلام نے اپنے ایک اشتہار8؍ اپریل 1886ء میں اس بات کا اعادہ کیا کہ:
’’ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ انھوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 117)
پھر صاحبزادہ بشیر اوّل کی پیدائش پر مولوی محمد حسین بٹالوی کے یہ پوچھنے پر کہ کیا یہ نو مولود وہی ہے جس کا پیشگوئی میں وعدہ ہے؟ حضور علیہ السلام نے جوابًا فرمایا:
’’طفل نو زاد کی نسبت میں نے کسی اخبار میں یہ مضمون نہیں چھپوایا کہ یہ وہی لڑکا ہے جس کی تعریف 20؍ فروری 1886ء کے اشتہارات میں مندرج ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 306 نیو ایڈیشن2008ء ۔قادیان)
مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام ہی ایک اور مکتوب میں حضرت اقدس علیہ السلام اُن کی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے پھر فرماتے ہیں:
’’اور پھر آپ اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ گویا مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ وہ لڑکا بہت قریب ہونے والا ہے آپ میرے اشتہار 8؍ اپریل 86ء کو دیکھ لیں ا س میں ’’وہ‘‘ کا لفظ نہیں بلکہ ایک کا لفظ ہے ۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 308 نیو ایڈیشن 2008ئ۔ قادیان)
حضرت اقدسؑ کی نظر میں پیشگوئی کی اہمیت و عظمت
اُسی زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور پیشگوئیوں پر مشتمل ایک رسالہ بنام ’’سراج منیر‘‘ لکھنے کا ارادہ فرمایا جس میں علاوہ اور پیشگوئیوں کے مولود بیٹے کی پیشگوئی کا ذکر کرنا بھی مقصود تھا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضور علیہ السلام کے نام ایک خط میں یہ تجویز دی کہ اس موعود بیٹے کی پیشگوئی کو رسالہ سراج منیر میں درج نہ کیا جائے ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے جوابًا تحریر فرمایا:
’’اور جو آں مخدوم نے پہلے خط میں ذکر فرمایا تھا کہ پیشگوئی فرزند کو رسالہ میں درج کرنا مناسب نہیں۔ میں نے اب تک آپ کی خدمت میں اس وجہ سے اُس کا جواب نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے اس معاملہ میں میری رائے کو آپ کی رائے سے متفق نہیں کیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مجھ کو منجانب اللہ اس بارے میں اعلان و اشاعت کا حکم ہے اور جیسا کہ میرے آقا محسن نے مجھے ارشاد فرمایا ہے میں وہی کام کرنے کے لئے مجبور ہوں۔ مجھے اس سے کچھ کام نہیں کہ دنیوی مصلحت کا کیا تقاضا ہے اور نہ مجھے دنیا کی عزت و ذلّت سے کچھ سروکار ہے اور نہ اس کی کچھ پروا اور نہ اُس کا کچھ اندیشہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جن باتوں کے شائع کرنے کے لئے میں مامور ہوں ہر چند یہ بدظنی سے بھرا ہوا زمانہ اُن کو کیسی ہی تحقیر کی نگاہ سے دیکھے لیکن آنے والا زمانہ اُس سے بہت سا فائدہ اٹھائے گا۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 304,305 نیو ایڈیشن )
حضرت اقدس علیہ السلام کی اس استقامت اور استقلال کو دیکھ کر اور یہ جان کر کہ آپؑ اس پیشگوئی کو نکالنے پر راضی نہیں ، مولوی صاحب نے ایک اور خط ارسال کیا اور لکھا کہ ایسی پیشگوئیوں سے اسلام کو نفع نہیں اور مسلمانوں کی ہتک ہوگی۔ اور مولوی صاحب نے اس ہتک سے بچنے کے لیے اس دفعہ یہ مشورہ دیا کہ سراج منیر چھپوانے کا ارادہ ہی فی الوقت چھوڑ دیا جائے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے جوابًا فرمایا:
’’آپ فرماتے ہیں کہ سراج منیر میں اسی طور کی پیشگوئیاں ہیں تو میری رائے ہے کہ سراجِ منیر کا طبع کرانا موقوف رکھا جائے کیونکہ ایسی کتاب سے مسلمانوں کا کمال ہتک ہوگا۔ اس کی جواب میں عرض کرتا ہوں کہ بیشک سراجِ منیر میں اسی طرح کی پیشگوئیاں ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر یہی پیشگوئی ہے مگر دوسرا فقرہ آپ کا کہ ایسی پیشگوئیوں سے مسلمانوں کا کمال ہتک ہوگا، فراست صحیحہ پر مبنی نہیں ہے اور آپ کا یہ قول کہ ’’مجھے صرف یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کا زیادہ ہتک نہ ہو اور ان کا مال ناحق برباد نہ ہو۔‘‘ آپ کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹا پیدا ہونے سے مسلمانوں کا کسی قدر ہتک ہوگیا ہے اور آیندہ سراج منیر کے چھپنے سے اس سے زیادہ ہوگا۔ سو میں کہتا ہوں کہ اگر پیشگوئیوں کا سچائی سے ظہور میں آجانا مسلمانوں کے لئے موجب ہتک ہے تو جس قدر یہ ہتک ہو اتنا ہی تھوڑا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 308,309 نیو ایڈیشن 2008ئ۔ قادیان)
پھر حضور علیہ السلام اپنے اشتہار محررہ 22 مارچ 1886ء میں بعض معترضین کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک نادان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مفہوم پیشگوئی کا اگر بنظر یکجائی دیکھا جاوے تو ایسا بشری طاقتوں سے بالا تر ہے جس کے نشان الٰہی ہونے میں کسی کو شک نہیں رہ سکتا اور اگر شک ہو تو ایسی قسم کی پیشگوئی جو ایسے ہی نشان پر مشتمل ہو پیش کرے۔ اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیئے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد ﷺ کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے…… اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی…..‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 114,115)
بشیر اول کی وفات اور حضرت اقدسؑ کی حقّانی تقریر
مورخہ 4 نومبر 1888ء کو صاحبزادہ بشیر اول نے بقضائے الٰہی وفات پائی اور مخالفین کی طرف سے ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا گیا۔ اس موقع پر حضرت اقدس علیہ السلام نے تمام نکتہ چینیوں کا جواب دیتے ہوئے ایک رسالہ ’’حقانی تقریر بر واقعہ وفات بشیر‘‘ شائع فرمایا جو سبز رنگ کے کاغذ پر شائع ہونے کہ وجہ سے بعد ازاں ’’سبز اشتہار‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہوگیا۔ اس اشتہار میں حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
’’جس قدر اس عاجز کی طرف سے اشتہار چھپے ہیں …. اُن میں سے کوئی شخص ایک ایسا حرف بھی پیش نہیں کر سکتا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا تھا جو فوت ہوگیا ہے۔‘‘ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 448)
آپؑ مزید فرماتے ہیں:
’’یہ بھی یاد رہے کہ اگر ہم اس خیال کی بناء پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسر متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مبشر اور بشیر اور نور اللہ، صیب اور چراغ دین وغیرہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اور روشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں کوئی مفصل و مبسوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ اُن ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا ہوگا۔ تب بھی صاحبانِ بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابل اعتراض نہ ٹھہرتا….. ‘‘۔ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 450,451)
اسی سبز اشتہار میں حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دو عظیم الشان طریقے بیان فرمائے ہیں، حضرت اقدسؑ کی یہ تحریر نہایت ہی فیصلہ کُن ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ کی انزال رحمت اور روحانی برکت کے بخشنے کے لئے بڑے عظیم الشان دو طریقے ہیں۔
(1) اول یہ کہ کوئی مصیبت اور غم و اندوہ نازل کر کے صبر کرنے والوں پر بخشش اور رحمت کے دروازے کھولے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اُوْلٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ۔ وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُہْتَدُوْن۔ (سورۃ البقرہ : 155)
یعنی ہمارا یہی قانون قدرت ہے کہ ہم مومنوں پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈالا کرتے تھے اور صبر کرنے والوں پر ہماری رحمت نازل ہوتی ہے اور کامیابی کی راہیں اُنھیں پر کھولی جاتی ہیں جو صبر کرتے ہیں۔
(2) دوسرا طریق انزال رحمت کا ارسال مرسلین و نبیین و ائمہ و اولیاء و خلفاء ہے تا اُن کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہ راست پر آ جائیں اور ان کے نمونہ پر اپنے تئیں بنا کر نجات پا جائیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آ جائیں۔ پس اوّل اس نے قسم اول کے انزال رحمت کے لئے بشیر کو بھیجا تا بَشِّرِ الصَّابِرِیْن کا سامان مومنوں کے لئے طیار کر کے اپنی بشیریت کا مفہوم پورا کرے …..
اور دوسری قسم رحمت کی جو ابھی ہم نے بیان کی ہے اُس کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ دوسرا بشیر بھیجے گا جیسا کہ بشیر اول کی موت سے پہلے 10؍ جولائی 1888ء کے اشتہار میں اس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمھیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا یخلق اللّٰہ ما یشائ۔‘‘ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 461-463حاشیہ)
یہ سبز اشتہار پیشگوئی مصلح موعود کو سمجھنے کے لیے ایک کنجی ہے، اسی سبز اشتہار میں اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی رحمتوں کا ذکر کر کے حضورؑ کا یہ فرمانا کہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شق ظہور میں آ جائیں واضح بتاتا ہے کہ مصلح موعود کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی جسمانی اولاد سے ہی آنا تھا نہ کہ آئندہ کسی زمانے میں روحانی اولاد کے طور پر۔ اور آنے والے بشیر کے متعلق حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرما دیا کہ وہ مرسلین و نبیین و ائمہ و اولیاء و خلفاء کے مقام پر فائز ہوگا۔ اب مرسلین اور نبیین کے مقام پر تو خود حضرت اقدسؑ تھے لہذا اس موعود بیٹے نے ائمہ و اولیاء و خلفاء کے مقام پر ہونا تھا اور اسی کی پیروی کو حضور نے نجات پانا اور راہ راست پر آنا بتایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد
پیشگوئی مصلح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے دعویٰٔ مسیح موعود و مہدی معہود سے قبل کی ہے یعنی اُس زمانے کی ہے جبکہ ابھی حضور علیہ السلام نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اپنے اشتہار مورخہ 8اپریل 1886ء میں حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’یہ عاجز ایک بندہ ضعیف مولیٰ کریم جل شانہٗ کا ہے اس لئے اسی قدر ظاہر کرتا ہے جو منجانب اللہ ظاہر کیا گیا۔ آئندہ جو اس سے زیادہ منکشف ہوگا وہ بھی شایع کیا جاوے گا۔ والسَّلام علیٰ من اتَّبَعَ الھُدیٰ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 117) چنانچہ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپؑ کو مسیح و مہدی کے درجے پر فائز فرمایا تو اس پیشگوئی کی کڑیاں گزشتہ نوشتوں میں بھی موجود ہونے کا انکشاف ہوا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق بیان کردہ علامات میں ایک بہت بڑی علامت اُس کی شادی اور اولاد ہونا بھی بیان فرمائی ہے چنانچہ روایت میں آتا ہے:یَنْزِلُ عِیسَی ابنُ مَرْیَمَ اِلَی الأَرْضِ، فَیَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہٗ۔ (مشکاۃ المصابیح کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ علیہ السلام الفصل الثالث)
یعنی جب عیسیٰ بن مریم زمین پر نازل ہوں گے تو وہ شادی کریں گے اور اُن کی اولاد بھی ہوگی۔
انسان کا شادی کرنا اور اولاد ہونا یہ ایک قدرتی امر ہے لیکن آنحضرت ﷺ کا آنے والے مسیح کی شادی اور اولاد کے بارے میں بالخصوص پیشگوئی کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مسیح موعود کی شادی اور اولاد غیر معمولی اور بے شمار برکتوں اور فضائل کی حامل ہوگی اور یہ پیشگوئی بالکل اسی طرح ہی پوری ہوئی، ہر بچہ جو حضرت اقدس علیہ السلام کی حرم محترم حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوا الٰہی بشارتوں کے تحت پیدا ہوا۔ حضرت اقدس علیہ السلام اپنی ایک نظم میں اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد
بشارت تُونے دی اور پھر یہ اولاد
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد
بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد
خبر مجھ کو یہ تُونے بارہا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِی
مری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیدہ ہے
یہی ہیں پنج تن جِن پر بنا ہے
یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِی
دیے تُو نے مجھے یہ مہر و مہتاب
یہ سب ہیں میرے پیارے تیرے اسباب
دکھایا تُونے وہ اے ربِّ ارباب
کہ کم ایسا دکھا سکتا کوئی خواب
یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِی
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دُور اُس مَہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا کہ اک عالَم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِی
مری ہر بات کو تُونے جِلا دی
مِری ہر روک بھی تُونے اٹھادی
مری ہر پیش گوئی خود بنادی
تَریٰ نَسْلًا بَعِیْدًا بھی دکھا دی
جو دی ہے مُجھ کو وہ کس کو عطا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِی اَخْزَی الْاَعَادِی
اسی طرح اور جگہوں پر بھی حضور علیہ السلام نے اپنی صداقت کے نشانوں میں اپنی مبشر اولاد کو بھی رکھا ہے لیکن ہر جگہ پر آپؑ نے اُس موعود بیٹے کی الگ تخصیص فرمائی ہے جیسا کہ اوپر کی نظم سے بھی ظاہر ہے، پہلے اپنی ساری اولاد کا عمومی ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیدہ ہے
یہی ہیں پنج تن جِن پر بنا ہے
اور پھر اُس موعود بیٹے کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ؎
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
پیشگوئی کا مصداق
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں مختلف جگہوں پر اپنی مبشر اولاد کا ذکر فرمایا ہے اور ہر بیٹے یا بیٹی کے متعلق اس کی ولادت سے قبل اس کی ولادت کے متعلق کتاب یا اشتہار کا حوالہ دیا ہے لیکن سبز اشتہار میں جس بیٹے کی ولادت کی خبر کا ذکر ہے اُس کا مصداق ہمیشہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے۔ اس کے ثبوت میں درج ذیل حوالے پیش ہیں:
حضور علیہ السلام اپنی کتاب ’’سراج منیر‘‘ میں اپنی سچی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اَب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے۔‘‘ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 36 )
کتاب سراج منیر کی اسی تحریر کے حاشیہ میں حضورؑ مزید فرماتے ہیں: ’’….. سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا، سو محمود پیدا ہوگیا۔ کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو!‘‘
اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں بھی اپنے نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں:
’’پھر ایک اور نشان یہ ہے جو یہ تین لڑکے جو موجود ہیں، ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے آنے کی خبر دی گئی ہے چنانچہ محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے۔ اور بشیر جو درمیانی لڑکا ہے اس کی خبر ایک سفید اشتہار میں موجود ہے جو سبز اشتہار کے تین سال بعد شائع کیا گیا تھا اور شریف جو سب سے چھوٹا لڑکا ہے اس کے تولد کی نسبت پیشگوئی ضیاء الحق اور انوار الاسلام میں موجود ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 299 )
اسی طرح حضرت اقدسؑ اپنی کتاب ’’سر الخلافہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: اور میں تیرے سامنے ایک عجیب و غریب قصہ اور حکایت بیان کرتا ہوں کہ میرا ایک چھوٹا بیٹا تھا جس کا نام بشیر تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے شیر خواری میں ہی وفات دے دی…. تب اللہ تعالیٰ نے مجھے الہامًا بتایا کہ ہم اسے از راہ احسان تمہارے پاس واپس بھیج دیں گے۔ ایسا ہی اس بچے کی والدہ نے رؤیا میں دیکھا کہ بشیر آگیا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ سے نہایت محبت کے ساتھ ملوں گا اور جلد جدا نہ ہوں گا۔ اس الہام و رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسرا فرزند عطا فرمایا تب میں نے جان لیا کہ یہ وہی بشیر ہے اور خدا تعالیٰ اپنی خبر میں سچا ہے چنانچہ میں نے اس بچے کا نام بشیر ہی رکھا اور مجھے اس کے جسم میں بشیر اول کا حلیہ دکھائی دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی سنت رؤیا کے ذریعہ ثابت ہوگئی کہ وہ دو بندوں کو ایک ہی نام کا شریک بناتا ہے۔ (سرالخلافہ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381)
سبز اشتہار کے حوالے سے ہی اپنے بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ولادت کا ذکر کرتے ہوئے حضور اقدسؑ اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود۔ تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر1888ء ہے۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 214)
تریاق القلوب میں ہی حضورؑ نے ایک اور جگہ فرمایا:
’’محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی 1888ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار محمود کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا۔ چنانچہ اب تک ہمارے مخالفوں کے گھروں میں صدہا یہ سبز رنگ اشتہار پڑے ہوئے ہوں گے اور ایسا ہی دہم جولائی 1888ء کے اشتہار بھی ہر ایک کے گھر میں موجود ہوں گے۔ پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں میں سے کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12؍ جنوری 1889ء کو مطابق 9؍ جمادی الاوّل 1306ھ میں بروز شنبہ محمود پیدا ہوا۔‘‘ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 219)
اپنی تصنیف لطیف حقیقۃ الوحی میں بھی سبز اشتہار کے مصداق کو بیان فرمایا ہے، حضورؑ فرماتے ہیں:
’’ایسا ہی جب میرا پہلا لڑکا فوت ہوگیا تو نادان مولویوں اور اُن کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اُس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار بار اُن کو کہا گیا کہ 20؍ فروری 1886ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے۔ پس ضرور تھا کہ کوئی خوردسالی میں فوت ہو جاتا تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے لڑکے کی مجھے بشارت دی چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اُس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگرچہ اب تک جو یکم ستمبر 1888ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اُس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 373, 374 )
کتاب حقیقۃ الوحی میں ہی حضور علیہ السلام نے چونتیسویں (34) نشان میں سبز اشتہار کا حوالہ دے کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی پیدائش کا ذکر یوں فرمایا ہے:
’’….. میں نے ایک سبز رنگ اشتہار میں ہزارہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ابھی ستر دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہوگیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 227)
شروع میں یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سبز اشتہار میں اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی رحمتوں کا ذکر فرمایا ہے، قسم اول کا مصداق بشیر اول مرحوم کو قرار دیا اور رحمت الٰہی کی دوسری قسم (یعنی ارسال مرسلین و نبیین و ائمہ و اولیاء و خلفاء )کے لیے دوسرے بشیر دیے جانے کا اعلان فرمایا جس کا دوسرا نام محمود بتایا۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنے ایک ہی بیٹے کا نام بشیر اور محمود رکھا اور کسی بیٹے کا نام محمود نہیں رکھا۔ پس سبز اشتہار میں اسی بشیر اور محمود کو حضورؑ نے اولوالعزم قرار دیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی موعود بیٹے کے ضمن میں بعض اور جگہوں پر بھی اس کا ذکر فرمایا ہے`مثلًا حضور علیہ السلام اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں اسی مصلح موعود والی پیشگوئی کا ذکر کر کے نیچے حاشیے میں تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ خبر دے چکے ہیں کہ جب مسیح موعود آئے گا تو وہ شادی کرے گا اور اُس کے ہاں اولاد بھی ہوگی۔ اس میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس (مسیح موعود) کو ایک ایسا صالح بیٹا دے گا جو اپنے باپ کے مشابہ ہوگا اور اپنے باپ کے خلاف نہیں کرے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہوگا۔ اور اس میں راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو جب بھی ذریت یا نسل کی بشارت دیتا ہے تو صرف تبھی دیتا ہے جب اُس خدا نے نیک اولاد دینا مقدر کر لیا ہوتا ہے۔ اور یہ (موعود بیٹے کی) بشارت وہ ہے جس کی خوشخبری مجھے کئی سال پہلے دے دی گئی تھی اور اپنے دعویٰ (مسیح و مہدی) سے بھی پہلے۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 578حاشیہ)
پھر حضورعلیہ السلام اپنی کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘ میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: اور جب ہم (مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ ناقل) اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو پھر ہمارے بعد قیامت تک کوئی اور مسیح نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی آسمان سے اُترے گا اور نہ ہی کوئی غار سے نکلے گا سوائے اُس موعود لڑکے کے جس کے بارہ میں پہلے سے میرے رب کے کلام میں ذکر آ چکا ہے۔ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 73)
اور اس کے حاشیہ میں حضور ؑ نے پھر فَیَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہ والی حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
حضور علیہ السلام کا اپنے موعود بیٹے والی پیشگوئی کو آنحضرت ﷺ کی حدیث فَیَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہ سے جوڑنا ثابت کرتا ہے کہ یہ بیٹا جسمانی اولاد میں سے ہونا مقدر تھا `اگر آئندہ کسی زمانے میں روحانی طور پر کسی اور بیٹے کا ذکر ہوتا تو پھر اس پیشگوئی کو اس حدیث سے جوڑنے کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں قدرت ثانیہ یعنی خلافت کی پیشگوئی کر کے فرمایا ہے کہ ’’اور چاہیے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306)اسی تحریر کے حاشیے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں):
’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مَیں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اُس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے سو اُن دنوں کے منتظر رہو اور تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اُس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے یا بعض دھوکہ دینے والے خیالات کی وجہ سے قابل اعتراض ٹھہرے جیسا کہ قبل از وقت ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 حاشیہ)
جیسا کہ سبز اشتہار میں حضور علیہ السلام نے اس بشیرؔ ثانی اور محمودؔ کو ’’مرسلین و نبیین و ائمہ و اولیاء و خلفائ‘‘ کی رحمت کا وارث قرار دیا تھا ایسا ہی رسالہ الوصیت میں اس بات کا ذکر کر کے کہ ’’میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے‘‘ قدرت ثانیہ کے مظہر اُن وجودوں میں اپنے اُس موعود بیٹے کو بھی شامل فرمایا چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس ؑ کی ذریّت سے اُس موعود بیٹے یعنی بشیر ثانی کو ہی قدرت ثانیہ کے مظہر ثانی کے طور پر منتخب فرمایا۔ اور جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا ’’ ہر ایک کی شناخت اُس کے وقت میں ہوتی ہے‘‘ چنانچہ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ وہی مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی المصلح الموعود ہے اور جو جو علامتیں پیشگوئی مصلح موعود میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی تھیں وہ ایک ایک کرکے سب کی سب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی ذات میں پوری ہوئیں۔
1906ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المصلح الموعود رضی اللہ عنہ ایک خانگی معاملے کے سلسلے میں لاہور تشریف لے گئے، اس موقع پر منشی محبوب عالم ایڈیٹر اخبار ’’پیسہ‘‘ نے صاحبزادہ صاحب کی لاہور آمد کے متعلق خبر دیتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھا:
’’بڑا لڑکا باوجود یکہ صاحب اولاد ہے مگر معلوم ہوا ہے کہ مڈل فیل ہوچکا ہے اگر مرزا جی کے بعد یہی لڑکے ان کے گدی کے وارث بنے تو خوب مذہب چلائیں گے۔‘‘ (بحوالہ اخبار الحکم 17جولائی 1906ء صفحہ 2 کالم4)
پیسہ اخبار کی اس اخبار نویسی کا جواب اُسی وقت ایڈیٹر اخبار الحکم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے اخبار میں دے دیا تھا۔ لیکن ایک جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جانا ابھی باقی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسی لڑکے کو جس کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ ’’ اگر مرزا جی کے بعد یہی لڑکے ان کے گدی کے وارث بنے تو خوب مذہب چلائیں گے‘‘ جماعت احمدیہ کا دوسرا خلیفہ بنا کے دنیا کو دکھا دیا کہ اُسی کے ذریعے احمدیت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا ۔ اُسی کے وجود سے قوموں نے برکت پائی۔ اُسی کے وجود سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوا۔ اُسی کے مسیحی نفس اور روح القدس کی برکت سے بہتوں نے بیماریوں سے نجات پائی۔ اُسی کی سخت ذہانت و فہم سے ایک عالم نے فائدہ اٹھایا اور بہت سے اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوا۔ وہ لڑکا معاندین اور متعصبین کی مخالفت، بد دعاؤں، بد زبانیوں، تعصبات اور فتنوں کے باوجود جلد جلد بڑھا اور زمین کے کناروں تک شہرت پاگیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ بات کتنی صفائی سے پوری ہوئی کہ
’’مَیں جانتا ہوں کہ جن باتوں کے شائع کرنے کے لئے میں مامور ہوں ہر چند یہ بدظنی سے بھرا ہوا زمانہ اُن کو کیسی ہی تحقیر کی نگاہ سے دیکھے لیکن آنے والا زمانہ اُس سے بہت سا فائدہ اٹھائے گا۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 304,305 نیو ایڈیشن )
اے خدا کے برگزیدہ مسیح اور مہدی! تجھ پر ہزاروں رحمتیں اور ہزاروں سلام کہ ہم نے تیری بتائی ہوئی علامات کے مطابق اُس مصلح موعود کو پہچانا اور اُس کی ذات بابرکات سے بہت سا فائدہ اٹھایا اور نجات اور فلاح کی راہوں پر اطلاع پائی۔