چراغِ طُور جلاؤ
نصیر احمد قمر
صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکرالدجال میں حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث نبوی درج ہے جس میں حضرت نبی اکرم ﷺ نے آخری زمانہ میں دجال کے خروج، اس کی سحر کاریوں اور فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بشارت بھی دی ہے کہ اس کے مقابلہ کے لئے اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم ؑ کو مبعوث فرمائے گا۔ جن کے مسیحی انفاس سے کافر مریں گے اور وہ باب لُدّ پر دجال کو قتل کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس موعود مسیح اور عیسیٰ ؑ کو وحی کے ذریعہ خبر دے گا کہ میں نے کچھ ایسے لوگ بھی برپا کئے ہیں جن سے قتال کی کسی میں طاقت نہیں۔ فحرّز عبادی الی الطور۔ اس لئے تم میرے بندوں کو محفوظ طریق پرً طُور پر لے جاؤ۔ چنانچہ ا س حدیث میں ذکر ہے کہ جب حالات بہت بگڑ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں سمیت محصور ہو جائیں گے تو ہر ایسے موقع پر جب بھی اللہ تعالیٰ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اوران کے ساتھی اللہ تعالیٰ کے حضور غیر معمولی رغبت اور انہماک کے ساتھ خصوصی دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کوقبول فرماتے ہوئے ان کی نصرت و حفاظت فرمائے گا اور یاجوج ماجوج کو قسما قسم کی ہولناک بیماریوں اور آفات سے ہلاک اور تباہ و برباد کر دے گا۔
یہ دور جس میں سے ہم یعنی مسیح موعود ؑ کی جماعت اِس وقت گزر رہے ہیں ایسا ہی پُرفتن دور ہے۔ ہزارہاقسم کی ظلمتوں نے دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ہر شخص انفرادی طورپر بھی اپنے نفس کا گہری نظر سے تجزیہ کر کے معلوم کر سکتا ہے کہ اس کے اندر کتنے اندھیرے ہیں۔ ہر کمزوری، ہر بداخلاقی، ہرگناہ ، ہر ظلم، ہر زیادتی، ہر دکھ اور ہر تکلیف ایک اندھیرا ہی تو ہے اور ان اندھیروں سے نجات کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ انسان اللہ سے استعانت طلب کرے، اس سے مدد کا طالب ہو جو نورالسمٰوات والارض ہے۔ حدیث نبوی میں جو خدا کے بندوں کو طُور پر لے جانے کا ارشاد ہے اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں کو شیوہ بناؤ تا کہ الٰہی تجلیات تم پر ظاہر ہوں اور خدا کے نور کی کرنیں تم پر نازل ہو کر تمہیں ہر قسم کے اندھیروں سے ، ہر قسم کی مشکلات ومصائب سے نجات بخشیں اور تمہاری راہیں نورانی اور کشادہ ہو جائیں۔ سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ مسیح موعود کے متعلق ۔۔۔ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا۔۔۔ دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا‘‘۔
اسی طرح فرمایا:
’’ اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خیریت سے رہو اور تمہارے گھروں میں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائیں بہت کرو اور جس گھر میں ہمیشہ دعا ہوتی ہے خدا تعالیٰ اسے برباد نہیں کیا کرتا‘‘۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ سال(۱۹۹۷ء) تمام مکذبین و معاندین کومباہلہ کی دعوت دی تھی یعنی دعا کے ذریعہ خدا سے سچے اور جھوٹے کے درمیان فیصلہ چاہنے کی طرف بلایا تھا اوراس سال کے متعلق بھی آپ نے فرمایا ہے کہ یہ سال بھی اس مباہلہ کے سال کے ساتھ ملا ہوا ہے اوراس میں شامل ہے۔ چنانچہ آپ نے احباب جماعت کو خصوصیت سے دعائیں جاری رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہ وہی حَرِّزْ عِبَادِی اِلَی الطُّور کا ہی مضمون ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم کے ساتھ پہلے بھی مومنین کی عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلا م کی اس جماعت کے حق میں بڑے بڑے نشانات دکھائے ہیں اور دشمنوں کو تباہ اور ذلیل وخوار کیا ہے۔ رمضان کا یہ مبارک مہینہ دعاؤں اور ان کی قبولیت سے گہرا تعلق رکھتاہے۔ اس میں خصوصیت سے جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور کثرت سے ملائکہ کا نزول ہوتاہے ۔ روزہ خود تجلّی قلب کا ایک ذریعہ ہے اور اس کے نتیجہ میں انوار الٰہیہ اترتے اور انسان کے اندھیرے دورہوتے ہیں۔ پھر خصوصیت سے اس ماہ مقدس کے آخری عشرہ میں وہ لیلۃالقدر بھی آتی ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی مضطربانہ دعاؤں اور فریادوں کو سنتے ہوئے ایسانورعطا فرماتاہے جو اس رات کی تاریکی کوکافور کر کے انہیں نور سے بھر دیتا ہے۔ ان کی زندگیاں سنورنے لگتی ہیں ۔ ان کی آنکھیں روشن اور دل نورانی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کا نور ان کے آگے آگے چلتاہے اور وہ دوسروں کے لئے بھی اندھیروں سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ پس آئیے رمضان کے ان مبارک ایام میں خصوصیت کے ساتھ نہایت عاجزی و زاری اورتضرع وابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے اس کے فضل او ررحم کو طلب کریں۔ جہاں انفرادی طور پر دعائیں کریں وہاں خا ص طورپر معاندین ومکذّبین مسیح موعود ؑ اور شریر و فتنہ پرور دشمنان اسلام واحمدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ یہ لوگ شرارت میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔
’’یَا رَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِی وَمَزِّقْ اَعْدَائَکَ وَاَعْدَائِی وَ اَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَااَیَّامَکَ وَ شَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَاتَذَرْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۵۰۹)
یعنی اے میرے رب میری دعا کو سن اوراپنے اورمیرے دشمنوں کوٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما۔ اورہمیں اپنے(وعدوں کے ) دن دکھا اور اپنی تلوار ہمارے حق میں سونت لے اورشریر کافروں میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍جنوری ۱۹۹۸ء تا ۲۹؍جنوری۱۹۹۸ء)