کرونا وائرس کے حوالہ سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے تازہ ترین ارشادات
۲۱ مارچ ۲۰۲۰ء
آصف محمود باسط
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20 مارچ 2020 کو جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، اس کےآخر میں کورونا وائریس کے حوالہ سے ہدایات ارشاد فرمائیں۔
آج صبح (مورخہ 21 مارچ 2020) خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو حضور انور نے اس حوالہ سے دنیا کی صورتحال، ماہرین کے تبصرے اور عوام الناس کے احساسات کے حوالہ سے نہایت بصیرت افروز گفتگو فرمائی۔
احمدیوں کے تبصروں کا ذکر تھا۔ فرمایا:
’’بعض احمدیوں نے اس بیماری کو طاعون قرار دیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ بھی طاعون کی طرح ایک نشان ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جس زمانہ میں طاعون کی وبا پھوٹی، اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی خبر دی۔ یوں وہ طاعون کی وبا ایک نشان بن گئی۔ پھراسی وبا کے پھوٹنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ خبر بھی دی کہ حضور علیہ السلام پر ایمان لانے والے محفوظ رکھے جائیں گے۔ یوں بھی وہ طاعون کی وبا ایک نشان بن گئی۔ گواُس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایک آدھ آدمی قادیان میں بھی بیمار پڑ جائے۔کچھ اس سے بیمار ہوئے بھی، مگر طاعون کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے خود خبر دی تھی کہ کس وقت پھیلے گی اور کیسے پھیلے گی، اس لئے اس کا پھیلنا تو ایک نشان تھا۔ اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت عمومی طور پر دنیا کے اِس عذاب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس کی رحمت کے طلب گار تھے۔
’’کورونا وائریس کے لئے نہ تو کوئی ایسی خبر ہے، نہ کہیں میں نے یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کوئی نشان ہے جو ظاہر ہو گیا۔‘‘
اس کے بعد کچھ دیر کا توقف تھا۔ خاکسار اگلی بات عرض کرنے ہی والا تھا کہ حضور نے فرمایا:
’’اب دیکھو یہ 1918 یا 1919 میں جو انفلوئنزا پھیلا تھا، وہ قادیان تک بھی پہنچا۔ بے شمار لوگ جاں بحق ہوئے۔ احتیاطی تدابیر جو حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمائی وہ بھی ملتی ہیں، جس طرح دارچینی والے پانی کا استعمال وغیرہ۔ بلکہ خود حضرت مصلح موعودؓ کو انفلوئنزا کا حملہ ہوا۔ بلکہ بہت شدید ہوا تھا۔‘‘
اس کے بعد حضور انور اپنے پاس رکھے کتابوں کے شیلف تک تشریف لے گئے اور تاریخ احمدیت کی چوتھی جلد نکالی۔ ایک لمحے ہی میں حضور کو مطلوبہ مقام مل گیا۔ فرمایا:
’’حضرت مصلح موعودؓ نے تو وصیت تک تحریر فرمادی تھی کہ اگر فلو کے اُس حملہ میں کچھ ہوجاتا تو کیا کرنا ہے۔‘‘
اس کے بعد حضور نے اس دور کے حوالہ سےوہ تین صفحات پڑھ کر سنائے۔ ان کا متن ذیل میں درج کیا جاتاہے:
’’انفلوئنزا کی عالمگیر وبا میں جماعت کی بے لوث خدمت:
1918ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوئنزا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلا دی جو میدان جنگ میں پھیلائی تھی۔ ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہوگیا۔ ان ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں۔ اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گاؤں بہ گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی۔اور عام رضا کاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غرباء کی امداد کےلئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خوردو نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا۔۔۔ان ایام میں احمدی والنٹیر (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے)صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہوگئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضا کار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضا کار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہوگئے۔انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا۔اور تقریروتحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نےبڑی تندہی و جانفشانی سے کام کرکے بہت اچھا نمونہ قائم کردیا ہے۔(ازتاریخ احمدیت، جلد چہارم،صفحہ208-209)
اس کے بعد حضور نے فرمایا:
’’یہ وبائیں تو آنی ہیں۔ اب ہر وبا کو نشان قرار دے دینا اور یہ قیاس آرائی شروع کردینا کہ احمدیوں کو کچھ نہیں ہوگا، یا یہ جوبعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ مخلص احمدیوں کو کچھ نہیں ہوگا، بالکل غلط بات ہے۔ ان وباؤں کو کسی کے ایمان کا پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اور جو وصیت حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمائی اس کا آغاز یوں فرمایا کہ ’میں، مرزا بشیرالدین محمود احمدولد حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔۔۔‘
تو حضرت مصلح موعودؓ وصیت تحریر کررہے ہیں اور ولدیت بھی تحریر کررہے ہیں یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے بھی ہیں۔ اس کے باوجود بیماری کا حملہ ہوا اور بڑا شدید ہوا۔ تو بیماری کا حملہ ہو جانا کسی بھی طرح کسی کے ایمان کا پیمانہ نہیں۔‘‘
اس کے بعد پھر کچھ توقف تھا۔ مگر محسوس ہوتا تھا کہ حضور ابھی اس بات کو جاری رکھیں گے۔ ایک ثانیہ کے وقفے کے بعد حضور نے فرمایا:
’’یہ حوالہ نکال کرالحکم میں چھاپ دو تا کہ سب پڑھ لیں اور سب کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔ اگر یہ نشان ہوتا تو سب سے پہلے میں اعلان کرتا کہ یہ ایک نشان ہے۔ میں نے تو بہت شروع سے احتیاطی تدابیر اور حفاظتی دوائیاں بتانا شروع کر دی تھیں۔ اُس وقت سے بتانا شروع کر دی تھیں جب ابھی اس بیماری نے چین سےباہر زور بھی نہیں پکڑا تھا۔ اگر میں اسے کسی قسم کا نشان سمجھتا تو احتیاطی تدبیر سے روکتا۔
’’میں نے تو پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ جو ماہرین کی طرف سے حکومتی سطح پر احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں، لوگ ان پر عمل کریں۔
’’میں نے یہاں امیر صاحب کو بھی کہہ دیا ہے۔ صدر خدام الاحمدیہ کو بھی کہہ دیا ہے۔ ہیومنٹی فرسٹ کو بھی کہہ دیا ہے کہ ان دنوں میں لوگوں کی امداد اور فلاح و بہبود کے لئے جو ممکن ہو سکتا ہے کریں۔ تاریخ احمدیت سے یہ حوالہ چھاپ دو گے تو باقی ملکوں میں بھی پتہ چل جائے گا اور وہاں کے امرا اور صدران وغیرہ بھی اس کے مطابق امدادی کاموں کا منصوبہ بنا لیں گے۔‘‘
اس گفتگو کا اختتام ان الفاظ پر ہوا:
’’احمدیوں کو چاہیے کہ اس وقت بجائے نشان تلاش کرنے کے اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے اور مسجدوں میں جواحتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں، ان پر عمل کریں۔ اور اپنے ارد گرد اگر ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس کسی کی مدد کرسکتے ہیں کریں۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہےکہ اس کی مخلوق کا خیال کیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے لئے اور انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس کا رحم مانگیں۔‘‘