کیا حضرت عیسیٰ ؑ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّتی ہوسکتے ہیں؟
غیر احمدی علماءکی طرف سے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ ایک نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی کی حیثیت سے نازل ہوں گے اور دینِ اسلام کے مطابق خود بھی عمل کریں گے اور دوسروں سے بھی اسی شریعت پر عمل کروائیں گے۔ اس بارے میں قرآنِ کریم کی آیات اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہماری رہنمائی کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی کا امّتی تو بن سکتا ہے لیکن اپنے سے بعد میں آنے والے نبی کا امّتی نہیں بن سکتا، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ سے ظاہر ہے۔
حضرت ابراہیمؑ ۔۔ یہودی یا عیسائی؟
اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل نہیں اتاری گئیں مگر اس کے بعد۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟ (آل عمران3:66)
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو توجہ دلاتے ہوئے ایک اصول بیان فرماتا ہے کہ امّتیں کتاب کے نزول کے بعد قائم ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہودی اور عیسائی امّتیں تورات اور انجیل کے نازل ہونے کے بعد وجود میں آئیں۔ جبکہ حضرت ابراہیم ؑ اُن دونوں کتابوں کے نزول یا بالفاظِ دیگر یہودی و عیسائی امّتوں کے قائم ہونے سے پہلے آچکے تھے۔ لہٰذا وہ ان دونوں امّتوں میں سے کسی ایک کے فرد بھی قرار نہیں دئیے جاسکتے۔
حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ کے امّتی
اور یقینًا اسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا(الصّٰفٰت37:84)
چونکہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام حضرت ابراہیم ؑکے بعد آئے تھے لہٰذا حضرت ابراہیم ؑ ان کی امتوں کے فرد نہیں بن سکتے لیکن مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ حضرت نوح ؑ کے گروہ میں شامل قرار دئیے گئے ہیں کیونکہ حضرت نوح ؑ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے تھے۔
حضرت موسیٰؑ کی خواہش
مندرجہ ذیل حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کی امّتِ محمدیہ میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اسی بنیاد پر رد فرمادیا کہ وہ پہلے ہوچکے ہیں اور امّت محمدیہ حضرت موسیٰ ؑ کے تقریبًا دو ہزار سال بعد قرآن کے نزول کے ذریعے قائم ہونے والی تھی۔ غور کرنا چاہئے کہ یہی روک جو حضرت موسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے، وہی روک حضرت عیسیٰ ؑ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امّتی بننے میں ہے۔
ابونعیم نے ”حلیہ“ میں حضرت انسؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجتبیٰ کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کرونگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے رب! احمد کون ہیں؟ فرمایا:۔ ”میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا۔ اور میں نے ان کا نام تخلیق زمین و آسمان سے پہلے عرش پر لکھا۔ بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ ان کی امت میں داخل نہ ہو۔“ …موسیٰ ؑنے عرض کیا اس امت کا نبی مجھے بنادے! فرمایا اس امت کا نبی انہیں میں سے ہوگا۔ عرض کیا مجھے اس امت میں سے بنادے! فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں، لیکن بہت جلد میں تم کو اور ان کو دارالجلال میں جمع کردونگا۔“ (علامہ جلال الدین سیوطیؒ الخصائص الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۱۲، اشرف علی تھانوی النشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب)