تمام گناہوں کی جڑ ، تین امور: تکبر ، حرص اور حسد
عطاءاللہ کلیم، مربی سلسلہ ، جرمنی
اللہ تعالیٰ نے جب آنحضرتﷺ کے اخلاق عالیہ کی تعریف میں ’’اِنّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم‘‘ فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں فرمایا: ’’بُعِثْتُ لاُتْمِم مَکَارِمَ الاَخلاَق‘‘ کہ میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اخلاق عالیہ کی تکمیل کروں ۔ چنانچہ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے جہاں آپ نے اپنے اسوہ حسنہ اور نیک نمونہ سے اخلاق فاضلہ قوم میں پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی وہاں آپ نے ان بنیادی امور کی بھی نشان دہی کی جو انسان کو گناہوں کے اتھاہ سمندر میں دھکیل دیتے ہیں او ر اخلاق فاسدہ سے بچاؤ کے لئے دعائیں بھی سکھائیں تا ان دعاؤں کے ذریعہ لوگ اللہ کی رحمت کو جوش میں لا کر اپنی پیدائش کے مقصد کو پورا کر سکیں۔
اخلاق حسنہ کے حصول کے لئے یہ دعا سکھلائی: ’اَللّٰھُمّ إنّی أَسْئَلُکَ الِصّحَّّۃ وَ العِفَّّۃَ وَالاَمَانَۃَ وَ حُسْنَ الْخُلقِ وَالرِضی بِالقَدَر(مشکوٰۃ کتاب الدعوات)۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے صحت اور پاکدامنی اور امانت اور اخلاق حسنہ اور قضاو قدر پر راضی رہنے کی دعا کرتا ہوں۔
تو ساتھ ہی اخلاق فاسدہ سے نجات کے لئے یہ دعا سکھائی : ’اللّٰھُمّ إنّی اَعُوذُبِکَ مِن مُنکَرات الاخلاق والاَعمَالِ و الاَھْوَائِ ‘(مشکوٰۃ کتاب الدعوات) یعنی اے اللہ میں تیری پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں بر ے اخلاق، برے ا عمال اور بری خواہشات سے ۔ لہذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان دونوں دعاؤں کو باقاعدگی سے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی عادت بنا لے۔
تاہم محض دعاؤں پر اکتفا کرنا اور رسول خدا ﷺ کے ارشادات کو پس پشت ڈالنے سے نہ ہم اخلاق فاسدہ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اخلاق حسنہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔
قرآن کریم نے ہمیں ایک اصول بتا دیا ہے جو نہ صرف ماد ی امور میں ہماری رہنمائی کرتا ہے بلکہ روحانی امور میں بھی ہمیں کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (وَ اَن لَیْسَ لِلاِنسَانِ اِلّا مَا سَعیٰ۔ وَاَنّ سَعْیَہ سَوفَ یُریٰ ثُمَ یُجْزٰہُ الجَزائَ الاَوْفیٰ)(سورۃ النجم:۴۰۔۴۲) یعنی انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور انسان اپنی کوشش کا نتیجہ ضرور دیکھ لے گا اور اس کو پوری جزاء مل جائے گی۔
عنوان مضمون کے مطابق اب آنحضرتﷺ کی وہ حدیث درج کی جاتی ہے جس میں آپ نے تین امور کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا ہے۔
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال ان النبی ﷺ قال ثلاث ھن اصل کل خطیئۃ فاتقوھن واحذروھن۔ ایاکم والکبر فان ابلیس حملہ الکبر علی أن لا یسجد لاٰدم۔ وایاکم والحرص فان اٰدم حملہ الحرص علی ان أکل من الشجرۃ۔ وایاکم والحسد فان بنی آدم انما قتل احدھما صاحبہ حسدا‘‘۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین امور یا تین چیزیں وہ ہیں جو تمام گناہوں کی جڑ ہیں۔ پس ان تینوں سے بچو اور ان تینوں سے ہوشیار رہو۔ دیکھو تکبر سے بچو کیونکہ ابلیس کو تکبر ہی نے اس بات پر انگیخت کیا کہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فرمانبرداری سے انکار کر دیا ۔ اور حرص سے بچو کیونکہ یہ حرص او رلالچ ہی تھا جس نے آدم علیہ السلام کو درخت ممنوعہ کا پھل کھانے پر اکسایا۔ اور حسد سے بچو کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں میں سے ایک کو حسد نے ہی اس بات پرآمادہ کیا کہ ا س نے اپنے ساتھی کو قتل کر دیا۔
اس حدیث نبوی میں مذکور تین امور جن کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے ان کی وضاحت اور تشریح آیات قرآنی ، احادیث نبوی اور تحریرات و ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درج کی جاتی ہے۔
پہلا امر جس کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے وہ تکبر ہے کیونکہ ابلیس نے تکبر کی وجہ ہی سے حضرت آدم علیہ السلام کی فرمانبرداری سے انکار کر دیا۔
چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیات اس حقیقت کو یوں واضح کرتی ہیں:
(ولقد خلقنا کم ثم صورنٰکم ثم قلنا للملٰئکۃ اسجدوا لاٰدم فسجدوا الا ابلیس ۔ لم یکن من السٰجدین۔ قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک۔ قال اناخیر منہ ۔ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین)(سورۃ الاعراف )
اور ہم نے تمہیں پہلے مبہم شکل میں پیدا کیاتھا جس کے بعد تم کو تمہارے مناسب حال صورتیں بخشی تھیں پھر ملائکہ سے کہا تھا کہ آدم کی اطاعت کرو اس پر فرشتوں نے تو آدم کی اطاعت کی مگر ابلیس نے نہ کی ۔ وہ اطاعت گزاروں میں سے نہیں تھا۔ اس پر خدا نے اس سے کہا کہ میرے حکم کے باوجود تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو اس آدم سے بہتر ہوں ۔ تو نے میری فطرت میں آگ رکھی ہے اوراس کی فطرت میں گیلی مٹی کی صفت رکھی ہے۔
اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’یاد رکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس سے دور نہ ہو یہ قبول حق اورفیضان الوہیت کی راہ میں روک بن جاتاہے۔ کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ نہ علم کے لحاظ سے ، نہ دولت کے لحاظ سے ، نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اورحسب نسب کی وجہ سے۔ کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پید ا ہوتا ہے ا ور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک و ہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا۔ اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ردیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے ۔ اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا اور کہہ دیا کہ’’انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین‘‘۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور مردود ہو گیا۔ اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا‘‘۔(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۲۷۵،۲۷۶)
اسی مضمون کو آپ اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’میں سچ سچ کہتاہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبرجیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہانوں میں انسان کو رسوا کرتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا رحم ہرایک مؤحد کا تدارک کرتاہے مگر متکبر کا نہیں۔ شیطان بھی مؤحد ہونے کا دم مارتاہے مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خداتعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا۔ اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا۔ سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کے لئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا‘‘۔(آئینہ کمالات اسلام )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی گہری نظر سے ان باتوں اور ان امور کو بھی تکبر میں شامل فرمایا ہے جن کے متعلق عام انسان کبھی وہم بھی نہیں کر سکتا کہ انہیں بھی تکبر میں شمار کیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں ۔’’۔۔۔وہ شخص بھی جو اپنی طاقتوں پر بھروسہ کر کے دعا مانگنے میں سست ہے وہ بھی متکبر ہے کیونکہ قوتوں اور قدرتوں کے سرچشمہ کو اس نے شناخت نہیں کیا اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھا ہے ۔ سو تم اے عزیزو! ان تمام باتوں کو یاد رکھو ۔ ایسانہ ہو کہ تم کسی پہلو سے خدا تعالیٰ کی نظر میں متکبرٹھہر جاؤ اور تم کو خبر نہ ہو۔ ایک شخص جو اپنے ایک بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے نہیں سننا چاہتا اورمنہ پھیر لیتاہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے ۔ ایک غریب بھائی جو اس کے پاس بیٹھا ہے اور وہ کراہت کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ ایک شخص جو دعا کرنے والے کو ٹھٹھے او رہنسی سے دیکھتا ہے اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی پورے طور پر اطاعت کرنا نہیں چاہتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ اور وہ جو خدا کے ماموراورمرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پا ؤ۔۔۔‘‘۔( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۲،۴۰۳)
پھر آپ کس درد بھرے دل سے فرماتے ہیں:
’’خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دور کر دیں۔ میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی و ہ بھی دن ہو کہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہریک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے۔۔۔‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۴۴۵)
حضرت مسیح موعود ؑ نے جو تکبر کو تمام شرارتوں کی جڑ قرار دیا اور تکبر کی باریکیوں سے بھی اجتناب کی نصیحت فرمائی ہے تو وہ بھی اپنے آقا اورمطاع حضرت محمد مصطفیؓ ﷺ کی احادیث کی روشنی میں ہی فرمایا ہے کیونکہ حدیث نبوی ہے ’’لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من الکبر ‘‘ یعنی جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(مشکوٰۃ کتاب الادب)
*۔۔۔*۔۔۔*
دوسرا امر جس کو آنحضرت ﷺ نے تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا ہے وہ حرص اور لالچ ہے۔ آنحضرت ﷺ ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: اگر ابن آدم (انسان ) کو دو وادیاں مال کی بھری ہوئی بھی مل جائیں پھر بھی چاہے گا کہ تیسری وادی مال کی بھری ہوئی مل جائے۔ اور ابن آدم (انسان) کا پیٹ صرف (قبر کی) مٹی بھرے گی ۔ اور اللہ تعالیٰ اس پر رجوع برحمت ہوتا ہے جو اس کے حضور توبہ کرتا ہے۔
حقیقتاً اللہ تعالیٰ کے راستے میں مالی قربانیوں سے دریغ اوردعوۃ الی اللہ کے لئے وقت کی قربانی دینے میں کوتاہی کی وجہ بھی مال کی حرص ہی ہوتی ہے کہ انسان کی ضروریات ختم ہونے میں نہیں آتیں اور دنیاوی عیش و آرام کے حصول کے لئے رات دن کوشاں رہتا ہے۔ اورپھر جب یہ حرص بڑھتی ہے تو پھر ایسا انسان اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ یہ مال حلال طریق سے آ رہا ہے یا حرام اورناجائز طریق سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اوراس طرح یہ مال کی حرص انسان کو گناہوں پر مجبور کر دیتی ہے۔ تبھی تو آنحضرتﷺ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:
’’دو بھوکے بھیڑئے جن کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا خرابی اور فساد کا باعث نہیں بنتے جتنا ایک شخص کا مال کا حرص کرنا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ۔اس کے دین کی خرابی اور فساد کا موجب ہے۔(مشکوٰۃ کتاب الرقاق)
*۔۔۔*۔۔۔*
تیسرا امر جس کو آنحضرتﷺ نے تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا وہ حسد ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں کہ حسد سے بچو کیونکہ حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں میں سے ایک کو حسد نے ہی اس بات پر آمادہ کیا کہ اس نے اپنے ساتھی کو قتل کر دیا۔
عیدالاضحیہ یا بڑی عید پر مسلمان بھیڑ، بکرے ، بچھڑے، گائے ، دنبے یا اونٹ کی قربانی کرتے ہیں توکیا ان قربانی کے جانوروں کا گوشت خدا تعالیٰ تک پہنچتاہے یاان جانوروں کا خون خدا تعالیٰ تک پہنچتاہے؟۔ اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ سورہ الحج میں بیان فرماتا ہے:’’لَن یَنَالَ اللّٰہ لحُومُھَا وَ لا دمَائُھا وَلٰکِن یّنَالہٗ التّقویٰ مِنکم‘‘ یعنی یاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اورخون ہرگز اللہ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کو پہنچتاہے۔
آنحضرت ﷺ نے اس خطرناک بیماری کا ان الفاظ میں ذکر فرمایاہے۔’’ایاکم والحسد فان الحسد یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الادب)۔یعنی حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتاہے جیسے کہ آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔
حضر ت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ’’حسد انسان میں ایک بہت برا خلق ہے جو چاہتاہے کہ ایک شخص سے ایک نعمت زائل ہوکر اسکومل جائے ۔ لیکن اصل کیفیت حسد کی صرف اس قدرہے کہ انسان اپنے کسی کمال کے حصول میں یہ روا نہیں رکھتا کہ اس کمال میں اس کا کوئی شریک بھی ہو ۔ پس درحقیقت یہ صفت خدا تعالیٰ کی ہے جو اپنے تئیں ہمیشہ وحدہ لاشریک دیکھنا چاہتاہے‘‘۔(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۹۰)
الغرض ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت کو جہاں تمام گناہوں کی جڑ ان تین امور سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہئے وہاں ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ان تینوں امور سے بچاکر رکھے اور مکارم اخلاق سے متصف کرے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۹؍اپریل ۱۹۹۸ء)