حضرت ھِلَال بن امیہ واقفیؓ
حضرت ھِلَال بن امیہ واقفیؓ ان کا پورا نام ہے۔ یہ انصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو واقف سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام امیہ بن عامر اور والدہ کا نام انیسہ بنت ھِدْم تھا جو حضرت کلثوم بن ھِدْمؓ کی بہن تھیں۔ کلثوم بن ھِدْمؓ وہی صحابی ہیں جن کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر قبا میں قیام فرمایا تھا۔ (اُسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد5 صفحہ380-381 ھِلَالْ بِنْ اُمَیَّہْ دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (معرفۃ الصحابہ جلد4 صفحہ 383حدیث: 2995، ھِلَالْ بِنْ اُمَیَّہْ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت ھِلَال بن امیہ کی دو شادیوں کا ذکر ملتا ہے ایک فُرَیْعَہْ بنت مَالِک بن دُخْشُم سے جبکہ دوسری مُلَیْکَہْ بنت عبداللّٰہ کے ساتھ۔ حضرت ھِلَالؓ کی دونوں بیویوں کو اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 282و285 وَمِنْ نِسَاءِ الْقَوَاقَلَہْ، اَلْفُرِیْعَہْ بِنْت مَالِکْ/ مُلِیْکَہْ بِنْت عَبْدُاللہْ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
حضرت ھِلَال بن امیہؓ قدیمی اسلام قبول کرنے والے تھے اور انہوں نے قبیلہ بنو واقف کے بت توڑے تھے اور فتح مکہ کے دن ان کی قوم کا جھنڈا ان کے پاس تھا۔ (اُسدالغابۃ فی معرفة الصحابة جلد5 صفحہ381 ھِلَالْ بِنْ اُمَیَّہْ دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
حضرت ھِلَال بن امیہؓ کو غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور اسی طرح بعد کے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تھی تاہم غزوۂ تبوک میں یہ شامل نہ ہو سکے تھے۔ ابن ہشام نے بدری صحابہ کی جو فہرست اپنی کتاب میں درج کی ہے اس میں حضرت ھِلَالؓ کا نام شامل نہیں ہے تاہم بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں انہیں بدری صحابہ میں شمار کیا ہے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ الجزاء السادس صفحہ 428 ھِلَالْ بِنْ اُمَیَّہْ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2005ء) (اُسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد5 صفحہ381 ھِلَالْ بِنْ اُمَیَّہْ دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء) (صحیح البخاری کتاب المغازی باب تسمیة من سمی من اھل بدر)
حضرت ھِلَال بن امیہؓ ان تین انصار صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ تبوک میں بغیر کسی عذر کے شامل نہ ہو سکے تھے۔ دوسرے دو صحابہ کعب بن مالکؓ اور مُرَارَة بن رَبِیعؓ تھے۔ ان کے بارے میں قرآن کریم میں یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی کہ
وَعَلَى الثَّلَاثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (التوبۃ: 118)
اور ان تینوں پر بھی اللہ توبہ قبول کرتے ہوئے جھکا جو پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی اور ان کی جانیں تنگی محسوس کرنے لگیں اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ نہیں مگر اسی کی طرف۔ پھر وہ ان پر قبولیت کی طرف مائل ہوتے ہوئے جھک گیا تا کہ وہ توبہ کر سکیں اور یقینا ًاللہ ہی بار بار توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (اُسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد5 صفحہ381 ھِلَالْ بِنْ اُمَیَّہْ دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
غزوۂ تبوک 9؍ہجری میں ہوا تھا اور صحیح بخاری میں اس کے بارے میں ایک تفصیلی روایت بھی ہے جس میں ان تینوں صحابہ کے پیچھے رہ جانے کا تذکرہ بیان ہوا ہے۔
حضرت ھِلَالؓ ان تین پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھے جو اس غزوے میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوے سے واپسی پر ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کچھ سزا دی جس پر یہ تینوں بڑے بے چین تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے استغفار اور توبہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان تین صحابہ کی گریہ و زاری جن میں حضرت ھِلَالؓ بھی شامل تھے اللہ تعالیٰ کے حضور قبول ہوئی اور ان کی معافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ بہرحال اس بارے میں یہ بھی بیان ہوا تھا کہ صحابہؓ نے اس غزوے کی تیاری کے لیے کس قدر قربانیاں دی تھیں اور یہ بھی ذکر تھا کہ بعض اَور لوگ جن کے دلوں میں نِفاق تھا اس میں شامل نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جھوٹے عذر پیش کیے۔ بعض نے شروع میں جانے سے انکار کیا اور آپؐ نے ایسے منافقوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑا۔ اس تسلسل میں کچھ اَور باتیں ہیں جو مَیں اس وقت پیش کروں گا۔
وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ جانے کو ترجیح دے رہے تھے ان میں ایک شخص جدّ بن قیس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم رومیوں سے جنگ کے لیے ہمارے ساتھ نہیں چلو گے؟ اس نے یہ بہانہ بنایا کہ وہ عورتوں کی وجہ سے فتنے میں پڑ سکتا ہے اس لیے اسے آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا اور اسے اجازت دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی کہ وَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلَا تَفْتِنِّیْ أَلَا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بِالْکَافِرِیْنَ۔ (التوبۃ: 49) اور ان میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈال۔ خبردار وہ فتنہ میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً جہنم کافروں کو ہر طرف سے گھیر لینے والی ہے۔
مدینے کے ایک یہودی کا نام سُوَیْلَمْ تھا۔ وہ مدینہ کے علاقے جَاسُومْ میں مقیم تھا جس کو بِئرِ جَاسِمْ بھی کہتے ہیں۔ یہ مدینے میں شام کی سمت اَبُوالْہَیْثَم بن تَیِّھَان کا کنواں تھا۔ اس کا پانی بہت عمدہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پانی کو پیا اور پسند فرمایا۔
اس یہودی کا گھر منافقوں کا گڑھ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ منافقین وہاں اکٹھے ہو رہے ہیں اور وہ لوگوں کو غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانے سے روک رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسرؓ کو فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے جا کر ان باتوں کے بارے میں پوچھو جو انہوں نے کہی ہیں۔ اگر وہ ان سے انکار کریں تو انہیں بتا دینا کہ مجھے خبر پہنچی ہےتم نے یہ یہ کہا ہے۔ جب حضرت عَمّارؓ وہاں پہنچے اور انہوں نے وہ سب کہا تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر معذرتیں کرنے لگے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 597 غزوۃ تبوک، دار ابن حزم بیروت 2009ء) (السیرۃ الحلبیۃجلد3صفحہ 186، ذکر مغازیہﷺ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (الطبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 390 ذکر البئار التی شرب منھا رسول اللہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (فرہنگ سیرت صفحہ84 مطبوعہ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)
ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ یَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَیۡہِمۡ سُوۡرَۃٌ تُنَبِّئُہُمۡ بِمَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلِ اسۡتَہۡزِءُوۡا ۚ اِنَّ اللّٰہَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ۔ وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَ نَلۡعَبُ ؕ قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ۔ لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ ؕ اِنۡ نَّعۡفُ عَنۡ طَآئِفَۃٍ مِّنۡکُمۡ نُعَذِّبۡ طَآئِفَۃًۢ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا مُجۡرِمِیۡنَ۔ (التوبہ: 64تا66) کہ منافق ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی سورت نازل نہ کر دی جائے جو ان کو اس سے مطلع کر دے جو ان کے دلوں میں ہے۔ تُو کہہ دے کہ بے شک تمسخر کرتے رہو۔ یہ ڈرنے کا ذکر بھی تمسخرانہ انداز میں کرتے ہیں۔ اللہ تو یقیناً ظاہر کر کے رہے گا جس کا تمہیں خوف ہے اور اگر تُو ان سے پوچھے تو ضرور کہیں گے کہ ہم تو محض گپ شپ میں محو تھے اور کھیلیں کھیل رہے تھے۔ تُو پوچھ کیا اللہ اور اس کے نشانات اور اس کے رسول سے تم استہزا کر رہے تھے؟ کوئی عذر پیش نہ کرو یقیناً تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے کسی ایک گروہ سے درگزر کریں تو کسی دوسرے گروہ کو عذاب بھی دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ یقینا ًمجرم ہیں۔ بہرحال اس وقت یہ حالات تھے۔ کچھ جانے سے پہلے منصوبے بن رہے تھے کہ نہ جایا جائے۔ منافقین ان میں شامل تھے یہودی ان کو ابھار رہے تھے۔ کچھ ویسے بہانے بناتے رہے اور بعد میں واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہانے بنائے۔ بہرحال آپؐ نے ان کا معاملہ اللہ پہ چھوڑا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس لوٹے اور مدینے کے قریب پہنچے تو آپؐ نے فرمایا مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہر سفر اور ہر وادی میں تمہارے ساتھ تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! جبکہ وہ مدینے میں ہیں تو پھر کس طرح ساتھ ہو گئے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ مدینہ میں ہی ہیں مگر انہیں کسی عذر نے یا کسی مرض نے روک لیا تھا۔ (مسند الامام احمد بن حنبل جلد4صفحہ263 مسند انس بن مالکؓ حدیث 12032 مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء) (مسند الامام احمد بن حنبل جلد5صفحہ132 مسندجابر بن عبد اللّٰہؓ حدیث 14731 مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء) یہ لوگ ایسے تھے جن کا عذر بھی جائز تھا اور ان کا مرض تھا یا کوئی وجہ بن گئی جس کی وجہ سے باوجود خواہش کے وہ نہیں جا سکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ساتھ ہی رکھا۔
تبوک سے واپسی کے سفر میں ایک موقعےپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلدی جارہا ہوں۔ پس تم میں سے جو چاہے میرے ساتھ جلدی چلے اور جو چاہے ٹھہر جائے یعنی آرام سےپیچھے آتا رہے۔ راوی کہتے ہیں پھر ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہمیں مدینہ دکھائی دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طَابَہْ ہے یعنی پاکیزہ اور خوشگوار اور یہ احد ہے یہ ایسا پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے گھروں میں بہترین گھر بَنُو نَجَّار ْکا گھر ہے۔ پھر بَنُو عَبْدُ الْاَشْہَلْ کا گھر ہے پھر بنو عبدالحارث بن خَزْرَجْ کا گھر ہے۔ پھر بنو سَاعِدَہ کا گھر اور آپؐ نے انصار کے سب گھروں کو اچھا قرار دیا۔ حضرت سَعد بن عُبادہؓ ہم سے آ ملے۔ راوی بیان کر رہے ہیں تو ابواُسَیدنے کہا کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں آخر پر رکھا ہے۔ حضرت سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپؐ نے انصار کے گھروں کی فضیلت بیان کی ہے اور ہمیں آخر پر رکھا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تم خیر والوں میں سے ہو؟ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبیﷺ (1392))
واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ کے لوگ کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے مدینے سے باہر ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کے پاس آئے، وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے اور مدینہ سے مکہ جانے والوں کو اس مقام تک آ کر الوداع کہا جاتا تھا۔ اس لیے اس کو ثَنِیَّةُ الْوَدَاع کہتے تھے۔ مؤرخین، سیرت نگاروں کے نزدیک جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے ہجرت کر کے جب آپؐ قبا کی طرف سے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے اس جانب بھی ثَنِیَّةُ الْوَدَاع تھی۔ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق وہاں مدینہ کے بچوں نے آپ کا استقبال کیا اور لڑکیاں یہ گا رہی تھیں کہ
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِِ الْوَدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعٰی لِلّٰہِ دَاعِ
کہ چودھویں کی رات کا چاند ہم پر ثنیۃ الوداع کی جانب سےطلوع ہوا۔ ہم پر اللہ کا شکر واجب ہو گیا ہے جب تک کہ اللہ کا کوئی نہ کوئی پکارنے والا رہے گا۔ کچھ شارحینِ حدیث جیسے علامہ ابن حجر عسقلانی شارح بخاری ہیں۔ بخاری کی شرح لکھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن اشعار کا ذکر حضرت عائشہؓ سے بیان کردہ روایت میں ہے، جو میں نے پڑھی ہے۔ ان کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت سے ہو کیونکہ اس وقت ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مقام پر لوگوں اور بچوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا تھا کیونکہ ملک شام کی جانب سے آنے والوں کا استقبال اسی جگہ سے کیا جاتا تھا۔ جب اہل مدینہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک سے واپسی کا علم ہوا تو وہ خوشی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لیے مدینے سے باہر اس مقام پر نکلے جیسا کہ حضرت سَائِبْ بن یَزید بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے ثَنِیَّةُ الْوَدَاع گیا تھا جب آپ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ امام بیہقی نے بھی یہ بیان کیا ہے کہ بچوں نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان اشعار کے ذریعہ استقبال کیا تھا جب نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تھے۔ (معجم البلدان الجزء 2 صفحہ 100 ثَنِیَّةُ الْوَدَاع مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) (ماخوذ از جستجوئے مدینہ صفحہ403-404 مطبوعہ اور ینٹل پبلی کیشنز لاہور 2007ء) (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 267) بہرحال مؤرخین اور سیرت نگاروں کی دونوں قسم کی آرا موجود ہیں یعنی بعض کے نزدیک یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے وقت اور بعض کے نزدیک غزوۂ تبوک سے واپسی پر یہ اشعار پڑھے گئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ جب کسی سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔ چنانچہ جب آپؐ تبوک سے واپس تشریف لائے تو مدینہ میں چاشت کے وقت داخل ہوئے اور پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی۔ (مسند الامام احمدبن حنبل جلد5صفحہ414 مسند کعب بن مالکؓ حدیث 15865 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1988ء)
نماز کے بعد آپؐ لوگوں کے لیے مسجد میں تشریف فرما ہوئے اس کے بعد دو نفل پڑھنے کے بعد وہیں بیٹھ گئے اور اس وقت وہ لوگ بھی آپؐ سے ملنے کے لیے آئے جو عمداً پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ جو بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کے پیچھے رہنے والے تھے وہ آپؐ کے سامنے اپنا کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتے۔ ایسے لوگوں کی تعداد جو تھی اسّی کے قریب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے عذروں کی حقیقت جانتے ہوئے بھی یہ جانتے تھے کہ یہ غلط عذر کر رہے ہیں اس کے باوجود ان کے ظاہری بیانات کو قبول فرماتے اور ان سے درگذر فرماتے رہے اور ان کی بیعت بھی لیتے رہے اور ان کے لیے استغفار بھی کرتے رہے۔ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک حدیث4418)
لیکن جیسا کہ پہلے تفصیلی ذکر ہو چکا ہے حضرت ھِلَال بن امیہؓ حضرت مُرارہ بن ربیعؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کوئی جھوٹا عذر نہیں کیا اور اس کی وجہ سے کچھ عرصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کو برداشت کیا۔ بڑے روتے رہے، گڑگڑاتے رہے، اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہوئے جھکے رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی توبہ قبول کرنے کا اعلان بھی فرما دیا۔