حضرت یزید بن ثابتؓ
حضرت یزید بن ثابتؓ ایک بدری صحابی تھے ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو مالک بن نَجَّار سے تھا۔ حضرت یزیدؓ کے والد کا نام ثابت بن ضَحَّاک اور والدہ کا نام نَوَاربنت مالک تھا۔ حضرت یزید حضرت زیدبن ثابتؓ کے بڑے بھائی تھے۔ (اسد الغابۃ فی معرفة الصحابۃ المجلد الثانی صفحہ 137 ’’زید بن ثابت‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء) (اسد الغابۃ فی معرفة الصحابۃ المجلد الرابع صفحہ 677 ’’یزید بن ثابت‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
اور حضرت یزید بن ثابت نے دُبَیَّہْ بنت ثابت سے شادی کی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ، جزء3 صفحہ 254، ’’ثابت بن خالد‘‘ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
اور یہ بھی ان کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت یزید بن ثابتؓ غزوہ بدر اور احد دونوں میں شامل ہوئے تھے۔
حضرت یزید بن ثابتؓ کی شہادت 12 ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کے دور ِخلافت میں جنگِ یمامہ کے روز ہوئی جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق جنگِ یمامہ کے روز انہیں ایک تیر لگا تھا اور واپسی پر راستے میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد4 صفحہ 132 ’’یزید بن ثابت‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2002ء) (کتاب الثقات لابن حبان جلد1صفحہ468، دارالکتب العلمیۃ بیروت1998ء)
حضرت یزید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ ظاہر ہوا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ سب کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ جنازہ گزر گیا۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز بَابُ الْأَمْرِ بِالْقِيَامِ لِلْجَنَازَةِ حدیث1920)
یہی واقعہ ایک اور روایت میں تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان ہوا ہے۔
حضرت یزید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کے ہم راہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ ظاہر ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو آپ جلدی سے کھڑے ہوئے اور آپؐ کے صحابہ بھی تیزی سے کھڑے ہو گئے۔ وہ تب تک کھڑے رہے جب تک جنازہ گزر نہ گیا۔ حضرت یزیدؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مَیں نہیں سمجھتا کہ آپؐ کسی تکلیف یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کھڑے ہوئے تھے اور میرا خیال ہے کہ وہ کسی یہودی مرد یا عورت کا جنازہ تھا اور ہم نے آپؐ سے آپؐ کے کھڑے ہونے کی وجہ بھی دریافت نہ کی۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ مترجم جلد3 صفحہ732 کتاب الجنائز باب مَنْ قَالَ يُقَامُ لِلْجِنَازَةِ إِذَا مَرَّتْ حدیث12030، مکتبہ رحمانیہ لاہور)
پھر حضرت یزید بن ثابتؓ سے ایک اور روایت ہے کہ وہ لوگ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ یہ سنن نسائی کی ہے۔ حضرت یزید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ آپ نے ایک نئی قبر دیکھی (یہ ایک اَور واقعہ ہے۔ ایک دوسرا واقعہ بیان ہو رہا ہے) کہتے ہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ آپؐ نے ایک نئی قبر دیکھی تو فرمایا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ فلاں قبیلے کی لونڈی کی قبر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ وہ دوپہر کے وقت فوت ہوئی تھی اور آپؐ اُس وقت قیلولہ فرما رہے تھے۔ ہم نے آپؐ کو اس وجہ سے اٹھانا پسندنہیں کیا کہ آپ آرام کر رہے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اپنے پیچھے لوگوں کی صف بندی کی اور آپؐ نے اس پر چار تکبیریں کہیں یعنی اس قبر کے اوپر ہی آپؐ نے صفیں بنوا کے جنازہ پڑھا۔ پھر فرمایا کہ جب تک مَیں تمہارے درمیان ہوں جو بھی تم میں سے فوت ہو اس کی خبر مجھے ضرور دو کیونکہ میری دعا اس کے لیے رحمت ہے۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز بَابُ الصَّلَاةُ عَلَى الْقَبْرِ حدیث2022)
اسی طرح یہ روایت مسلم اور سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ ابن ماجہ میں اس طرح تفصیلاً بیان ہوا ہے کہ حضرت یزید بن ثابتؓ نے بیان کیا اور وہ زید سے بڑے تھے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ جب آپ جنت البقیع میں پہنچے تو وہاں ایک نئی قبر تھی۔ آپؐ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ فلاں عورت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا تم نے مجھے اس کے متعلق کیوں خبر نہ دی۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپؐ دوپہر کو آرام فرما رہے تھے۔ آپ روزے سے بھی تھے۔ ہم نے پسندنہ کیا کہ آپ کو تکلیف دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا فعل نہ کرو جو مَیں نہیں جانتا۔ یعنی مَیں نے تو کبھی نہیں ایسا کہا۔ تم میں سے جو کوئی بھی فوت ہو جب تک مَیں تمہارے درمیان ہوں مجھے اس کے بارے میں ضرور اطلاع کیا کرو کیونکہ اس پر میری دعا اس کے لیے باعثِ رحمت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور ہم نے آپؐ کے پیچھے صف بنائی اور آپؐ نے اس پر چار تکبیریں پڑھیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ حدیث1528)
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے ہے کہ ایک سیاہ فام خاتون کے متعلق روایت مروی ہے۔ یہ قبر پہ جنازہ پڑھنے کے بارے میں ہے جس میں یہ بیان ہے کہ وہ مسجدنبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ خاتون مسجدنبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی وہ فوت ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے چند روز نہ دیکھا تو آپؐ نے اس خاتون کے متعلق پوچھا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا تم نے مجھے اس کی اطلاع نہیں دینی تھی۔ اس عورت کی قبر کا پتا بتاؤ۔ چنانچہ آپؐ اس عورت کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کا جنازہ پڑھا۔ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰة باب کنس المسجد والتقاظ الخرق…حدیث458) (صحیح البخاری کتاب الصلوٰة بابالخدم للمسجد حدیث460)
سنن ابن ماجہ کی شرح اِنْجَازُ الْحَاجَة کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ ایک سیاہ فام خاتون تھی جس کا نام امام بیہقی نے اُمِّ مِحْجَنْ بیان کیا ہے اور ابنِ مَنْدَہ نے اس کا نام خَرْقَاءَبیان کیا ہے اور صحابیاتؓ میں سے اس کو شمار کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خرقاء اس خاتون کا نام ہو اور اُمِّ مِحْجَنْ اس کی کنیت ہو۔ یعنی دونوں نام صحیح ہیں۔ (انجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجۃ جلد4صفحہ 332، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصلاة علی القبر حدیث 1527، دارالنور اسلام آباد 2011ء)