7 ستمبر 1974ء یوم الفرقان
۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو اس وقت کی قومی اسمبلی نے ایک فیصلہ کیا جسے جماعت احمدیہ کے مخالفین نے بظاہر اپنی فتح قرار دیا لیکن قرآن و حدیث کی رو سے اس فیصلہ کی کیا حیثیت ہے اور یہ فیصلہ کیسے ہوا اور کس طرح جماعت احمدیہ کی سچائی کے لئے ایک عظیم الشان نشان بن گیا اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے درج ذیل حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں۔
۱۔ فیصلہ کا اختیار
اس سلسلہ میں سب سے پہلے ایک اصولی سوال طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا دنیا کی کوئی اسمبلی کسی شخص سے اس کا یہ بنیادی حق چھین سکتی ہے کہ وہ جس مسلک کی طرف چاہے منسوب ہو یا مذہبی امور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرد کا کیا مذہب ہے اس سوال کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے کیونکہ:۔
(i)۔ قرآن کریم کسی اسمبلی یا فرد کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی شخص کے مذہب کے بارہ میں جبراً کوئی فیصلہ کرے جیسے فرمایا
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ:۲۵۷)
یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں۔
اس آیت کی رو سے دین کے معاملہ میں کسی فرد کے متعلق جبراً کوئی فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔
پھر فرمایا:۔
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ (سورة الحجرات:۱۵)
عرب کے جنگلی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ تو ان سے کہہ دے کہ تم حقیقتاً ایمان نہیں لائے۔ لیکن ہاں تم کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں کیونکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔
اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہنے کا حق دیتا ہے جنہوں نے اسلام لانے کا صرف دعویٰ کیا ہے لیکن ایمان ان کے دلوں میں ابھی داخل نہیں ہوا۔ اس لئے کسی فرد یا ادارے کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اسلام کا دعویٰ کرنے والے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے۔
(ii)۔ اقوام متحدہ کے دستور العمل میں انسان کا یہ بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو۔
(iii)۔ پاکستان کے دستور اساسی کی دفعہ نمبر۲۰ میں ہر پاکستانی کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اپنالے۔
(iv)۔فطرت انسانی اور عقل بھی کسی اسمبلی کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ کسی شخص یا فرقے کو اس حق سے محروم کیا جائے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرلے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ ایک ملک کی اسمبلی یا اکثریت کسی فرقہ کے مذہب کا فیصلہ خود کرے تو یہ اختیار تمام ممالک کو دینا ہوگا۔ اس اصول کی رو سے ہندو یا عیسائی اکثریت والے فرقوں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی دوسرے ہندو یا عیسائی فرقے کو اپنی اسمبلی سے غیر ہندو و غیر عیسائی قرار دلوائیں یا ایسا ملک جہاں ہندو یا عیسائی اکثریت میں ہیں اس ملک کی اسمبلی وہاں کی مسلمان اقلیت کے مذہب کا فیصلہ کرے۔ اس طرح یہ ایک نہایت ہی مضحکہ خیز صورت بن جائے گی۔
۲۔ آنحضرت ﷺ کے الفاظ میں مسلمان کی تعریف
(i)۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کی فہرست تیار کرنے کا ارشاد فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ
وَاکْتُبُوْا لِیْ مَنْ یَّلْفَظُ بِالْاِسْلاَمِ مِنَ النَّاسِ (بخاری کتاب الجہاد باب کتابة الامام الناس)
کہ لوگوں میں سے جو شخص اپنی زبان سے اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام میرے لئے تیار ہونے والی فہرست میں لکھ لو۔
(ii)۔ مَنْ صَلّٰی صَلٰوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذَالِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّةُ اللّٰہِ وَ ذِمَّةُ رَسُوْلِہٖ فَلاَ تَحْفِرُوْا اللّٰہَ فِیْ ذِمَّتِہٖ(صحیح بخاری کتاب الصلوة باب فضل استقبال القبلة)
ترجمہ:۔ جو شخص بھی ہمارے قبلہ (یعنی کعبہ) کی طرف منہ کر کے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی ضمانت حاصل ہے۔ پس تم خدا اور رسولؐ کی ضمانت کو مت توڑو۔
(iii)۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک دشمن کو پکڑا تو اس نے کلمہ توحید پڑھ دیا۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کردیا۔ جب آنحضور ﷺ کے سامنے اس واقعہ کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا:
اے اسامہ تم نے اسے کلمہ توحید پڑھ لینے کے باوجود قتل کردیا؟ انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسولؐ اس نے ہتھیار کے ڈر سے ایسا کہا تھا۔ تو آپؐ نے فرمایا اَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتَّی تَعْلَمَ اَقَالَھَا اَمْ لاَ (بخاری کتاب المغازی باب اسامہ بن زید) کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا کہ اس نے دل سے کہا یا نہیں؟ آپ بار بار یہ بات دہراتے جاتے تھے۔
۳۔ آئین کی رو سے مسلمان کی نئی تعریف
’’کوئی آدمی جو آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر غیر مشروط اور قطعی یقین نہیں رکھتا جو آخری نبی ہیں یا جو آنحضرتؐ کے بعد کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویدار ہو یا کسی ایسے مدعی کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ قانون اور آئین کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (آئین کی دوسری ترمیم ۷ ستمبر۱۹۷۴ء)
۴۔ فیصلہ کیسے ہوا؟
(i)۔ مولانا مفتی محمود بتاتے ہیں۔
’’اسمبلی میں قرارداد پیش ہوئی اور اس پر بحث کے لئے پوری اسمبلی کو کمیٹی کی شکل دے دی گئی۔ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کی دونوں جماعتیں خواہ لاہوری ہوں یا قادیانی ان کو اسمبلی میں لایا جائے اور ان کا مؤقف سنا جائے ۔۔۔ جب اسمبلی ہال میں میرزا ناصر آیا تو قمیص پہنے ہوئے اور شلوار و شیروانی میں ملبوس بڑی پگڑی ، طرّہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی تو ممبران نے دیکھ کر کہا کیا یہ شکل کافر کی ہے اور جب وہ بیان پڑھتا تھا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب آنحضور ﷺ کا نام لیتا تھا تو درود شریف بھی پڑھتا تھا اور تم اسے کافر کہتے ہو اور دشمن رسول کہتے ہو؟‘‘۔ (ہفت روزہ ’’لولاک‘‘ لائلپور۔ ۲۸ دسمبر۱۹۷۵ء صفحہ۱۷،۱۸)
(ii)۔ الطاف حسین قریشی مدیر ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ لاہور کا تبصرہ
’’بحث ۶ ستمبر تک چلتی رہی اور کچھ طے نہ پایا کہ دستوری ترمیم کے الفاظ کیا ہوں گے۔ ۷ ستمبر کو ۴ بجے تک ایک غیر سرکاری مسودے پر مختلف پارلیمانی قائدین کے مابین گفت و شنید ہوتی رہی۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ خفیہ کارروائی کے نتیجہ میں ایک بل تیار ہوتا اور اس پر قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں غور ہوتا اور اس کے بعد اسے بحث وتمحیص کے لئے ایوان میں پیش کردیا جاتا ۔۔۔ (لیکن) پانچ بجے کے قریب بل پڑھ کر سنایا گیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی رات سینٹ کا اجلاس طلب ہوا اور اس ایوان میں بھی کچھ وقت نہ لگا۔ ایسی روا روی اور گہما گہمی میں کچھ بھی غور و فکر نہ ہوا اور دوسری آئینی ترمیم میں چند بنیادی خامیاں رہ گئیں‘‘۔ (اردو ڈائجسٹ لاہور۔ دسمبر ۱۹۷۵ء صفحہ۵۷)
(iii)۔ الطاف حسین قریشی صاحب نے مزید لکھا:۔
’’جناب بھٹو نے مذہبی جذبہ کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا تھا پھر کیا وہ ایک سیاسی فیصلہ تھا واقعات اس کٹھن سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں‘‘۔(اردو ڈائجسٹ لاہور مارچ ۱۹۷۶ء)
۵۔ فیصلہ پر غیروں کا رد عمل
(i)۔ ’’وزیر اعظم بھٹو کی درازیٔ عمر کی دعا کرنے کی اپیل جمیعت علماء اسلام کے صدر مولانا زاہر القاسمی نے کہا کہ۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم بھٹو کے جرأتمندانہ اور بروقت اقدام کے سبب پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی ملک بن گیا ہے۔ انہوں نے یہ بات کل شام ایک مقامی ہوٹل میں جمیعت کے زیر اہتمام استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔۔۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ اب پاکستانی پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہنے میں فخر محسوس کرسکتے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اسلامی اتحاد کی علامت قرار دیا۔
بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا قادر آزاد نے کہا کہ مسٹر بھٹو نے جتنی اسلام کی خدمت کی ہے اتنی دوسرے کسی پاکستانی نے نہیں کی۔ اس موقع پر منظور کی گئی قرارداد میں ۔۔۔ ملک بھر کے عالموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ۱۳ ستمبر کو جمعہ کی نماز کے بعد وزیر اعظم بھٹو کی درازیٔ عمر کے لئے دعا کریں‘‘۔ (اخبار جنگ کراچی ۱۱ ستمبر ۱۹۷۴ء)
۶۔ فیصلہ پر جماعت احمدیہ کا رد عمل
(i)۔ جماعت احمدیہ نے ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے ایک محضر نامہ پیش کیا جس میں قومی اسمبلی کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا:۔
’’پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے معاملات پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرے جن کے متعلق فیصلہ کرنا اور غور کرنا ۔۔۔ قرآن کریم کی تعلیم اور ارشادات کے بھی سراسر منافی ہے اور بہت سی خرابیوں اور فساد کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے‘‘۔ (محضرنامہ صفحہ۱۰۔ ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز UK)
(ii)۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا:۔
’’جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہوگا مجھے پریشان کیا اور میں نے بڑی دعائیں کیں۔ یہ بھی دعا کہ اے خدا خفیہ اجلاس ہے پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے۔ ۔۔۔ بتا میں کیا کروں۔ ۔۔۔ اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہاوَسِّعْ مَکَانَکَ اِنَّا کَفَّیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ
کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرواور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں۔ ان منصوبوں کے دفاع کے لئے تیرے لئے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی‘‘۔ (الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۷۴ء)
پھر امام جماعت احمدیہ نے احباب جماعت کو یہ دعا کرنے کی تحریک فرمائی وَلاَ تُسْلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لَّا یَرْحَمُنَا (اے اللہ ہم پر) کوئی ایسا شخص مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے۔ ( افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء۔ از حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ۔ الفضل ۲۱ فروری ۱۹۷۶ء)
۷۔ فیصلہ کرنے والے کا انجام
اسمبلی کے سربراہ کو چند سال بعد ۱۸ مارچ ۱۹۷۸ء کو پنجاب ہائی کورٹ نے قتل کے ایک کیس میں سزائے موت سنادی اور ۶ فروری ۱۹۷۹ء کو سپریم کورٹ نے اس سزا کی توثیق کردی۔
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے الہام الٰہی کی بنا پر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جماعت کا ایک شدید مخالف ۵۲ سال کی عمر میں عبرتناک موت کا شکار ہوگا۔ چنانچہ کراچی کے اخبار ’’وحدت‘‘ نے لکھا کہ بھٹو کی سزائے موت کو ایک سال کے لئے مؤخر کردیا جائے تاکہ قادیانی یہ نہ کہیں کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہوگئی۔
آتش فشاں لاہور مئی ۱۹۸۱ء صفحہ۱۲ پر پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا انٹرویو شائع ہوا جس میں آپ نے اس اخبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’کراچی کے کسی اخبار میں چھپا بھی تھا کہ کم سے کم اس کو ایک سال مہلت دینی چاہئے ورنہ مرزائی کہیں گے ہماری پیشگوئی پوری ہوگئی‘‘۔
لیکن علماء کی ان اپیلوں کے باوجود ۳ اپریل ۱۹۷۹ء کو فیصلہ کرنے والی اسمبلی کے سربراہ کو ۵۲ سال کی عمر میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دینے والی عدالت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین سے کچھ عرصہ بعد انٹرویو میں پوچھا گیا:
’’بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھٹو کو پھانسی لگانے کا سامان اس کے وکیلوں اور قانونی مشیروں نے کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’سب سے بڑی منصف خدا کی ذات ہے بھٹو کا فیصلہ آسمانوں پر لکھا جا چکا تھا‘‘۔ (ماہنامہ ’’مون ڈائجسٹ‘‘ اپریل۱۹۸۴ء۔ صفحہ۲۲)
۸۔ فیصلہ کرنے والی اسمبلی
ان اراکین اسمبلی کے بارے میں ضیاء حکومت نے ایک قرطاس ابیض (White Paper) شائع کیا اور ان میں سے بیشتر کے لئے ایسے شواہد مہیا کئے جس نے انہیں خائن، راشی، جھوٹا، بدمعاملہ، بدعنوان، شرابی، زانی، اغوا میں ملوث، رسہ گیر، اسمگلر، تخریب کار وغیرہ قرار دیا۔ (قرطاس ابیض بھٹو کا دور حکومت جلد سوم صفحہ۱۸۲ تا ۱۸۵)
۹۔ ایک عظیم الشان پیشگوئی
(i)۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔
’’اِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ مِلَّةً وَ تَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلیَ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ مِلَّةً کُلُّھُمْ فِیْ النَّارِ اِلاَّ مِلَّةً وَّاحِدَةً قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ (ترمذی ابواب الایمان باب افتراق ھذہ الامة)
ترجمہ:۔ بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی لیکن ایک فرقہ کے سوا سب جہنم میں جائیں گے۔ صحابہؓ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ فرقہ جو میری اور میرے اصحابؓ کی سنت پر عمل پیرا ہوگا۔
(ii)۔ مولوی مودودی صاحب اس پیشگوئی کی وضاحت یوں کرتے ہیں:۔
’’اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طور پر یہ بیان کر دی گئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ آنحضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگی اور دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی‘‘۔ (ترجمان القرآن جنوری، فروری۱۹۴۵ء صفحہ۱۷۶۔ مرتبہ سید ابوالاعلی مودودی)
۱۰۔ پیشگوئی کا ظہور بہتر ۷۲اور ایک
(i)۔
’’آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں امت کے ۷۲ فرقے متحد و متفق ہیں۔ حنفی اور وہابی، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، اہل حدیث سب کے علماء تمام پیر اور تمام صوفی اسی مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائی کافر ہیں اور انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ اقلیت قرار دو‘‘۔ (اخبار زمیندار ۵ نومبر۱۹۵۲ء صفحہ۲۔ تحریر مولوی اختر علی خان)
(ii)۔ بہتر۷۲ فرقوں کے اجماع کا عملی اظہار:۔
’’اسلام کی تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع امت نہیں ہوا۔ اجماع امت میں ملک کے سب بڑے بڑے علمائے دین اور حاملان شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کے سیاسی راہنما کما حقہ متفق ہوئے ہیں اور صوفیائے کرام اور عارفین باللہ، برگزیدگان تصوف و طریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے۔ قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی ۷۲ فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں‘‘ (نوائے وقت۶ ،اکتوبر ۱۹۷۴ء۔ صفحہ۴)