اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔ یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے۔
اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔
’’اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے؛ ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ وفاتِ مسیح کا معاملہ تو جملہ معترضہ کی مانند درمیان آگیا ہے۔ مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اَڑالی ۔ان لوگوں کو مناسب نہ تھاکہ اس معاملہ میں دلیری کرتے۔ قولِ خدا ،رؤیت نبی اور اجماعِ صحابہؓ،یہ تین باتیں اس کے واسطے کافی تھیں۔ ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا اصلی امر ابھی دیگر ہے۔ یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اُٹھایا گیا ہے۔ سو چو کہ جو شخص دنیاداری میں غرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اُس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد ان کی دنیاداری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں۔
یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیا داری ترقی کرے اور زندگی آرام سے گزرے۔ایسےشخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے۔ ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ توکل بھی گیا اور آج بھی گیا۔ یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتاہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔انسان کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ مَیں سچ سچ کہتاہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلاء دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔
دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گزرنے کے سوائے ہی خدا خوش ہو جائے ۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے، مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبرکرتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے لیکن ؎
عشق اوّل سرکش و خونی بود
تا گریزد ہر کہ بیرونی بود
جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دوجنّت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیبّہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصّہ مجھے بھی ملے۔ جبتک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کردے اور محسوس نہ کرلے کہ نفسِ اَمّارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔ اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے۔لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْا َسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِیْرًا (النسآء:146)
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اُٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے ،اُس کو اُٹھایا جائے گا۔مگرمومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے،اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خد اتعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کئے جائیں‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 503تا 505۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)