شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات

فہرست مضامین

حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف کے بارہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات

’’شاہزادہ عبداللطیف کیلئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی اب ظالم کا پاداش باقی ہے ۔۔۔ افسوس کہ یہ امیر زیر آیت ’’مَنْ یَّقْتُلْ مُؤمِناً مُتَعَمِّدًا ‘‘داخل ہو گیااور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کاخوف نہ کیا۔ اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لا حاصل ہے۔ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔

اے عبداللطیف! تیرے پرہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لو گ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۰ مطبوعہ لندن)

’’شہید مرحوم نے مر کر میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور درحقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی ۔ اب تک ان میں سے ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنیٰ خدمت بجا لاتاہے وہ خیال کرتاہے کہ اس نے بڑا کام کیاہے اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے۔ حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ ا س خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی ۔ بعض ایسے ہیں کہ وہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے اور جس قوتِ ایما ن اور انتہا درجہ کے صدق و صفاکا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنیٰ امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے ۔ خدا کے سلسلہ میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی۔

لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن جس نمونہ کو اس جوانمرد نے ظاہر کر دیا اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں۔

خدا سب کووہ ایمان سکھادے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے ۔ یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے اوراس سلسلہ میں بہت داخل ہونگے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۷۔۵۸۔ مطبوعہ لندن)

’’جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتاہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے ۔ اس سے خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتاہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کر ے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۷۵۔ مطبوعہ لندن)

’’براہین احمدیہ کے صفحہ پانچ سو دس اور صفحہ پانچ سو گیارہ میں یہ پیشگوئیاں ہیں۔ ’’و ان لم یعصمک الناس یعصمک اللّٰہ من عندہ یعصمک اللّٰہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس شاتان تذبحان و کلّ من علیھا فان۔ ولاتھنوا ولا تحزنوا۔ الیس اللہ بکافٍ عبدہ۔ الم تعلم ان اللّٰہ علیٰ کلّ شیئٍ قدیر۔ و جئنا بک علیٰ ھٰؤلاء شھیدا۔ و فی اللہ اجرک۔ و یرضیٰ ععنک ربّک۔ و یتم اسمک و عسیٰ ان تحبوا شیئا و ھو شرلکم۔ و عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیرلکم و اللّٰہ یعلم و انتم لاتعلمون۔

ترجمہ:۔ اگرچہ لوگ تجھے قتل ہونے سے نہ بچائیں لیکن خدا تجھے بچائے گا۔ خدا تجھے ضرور قتل ہونے سے بچائے گا۔ اگرچہ لوگ نہ بچائیں۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ لوگ تیرے قتل کے لئے سعی اور کوشش کریں گے خواہ اپنے طورسے اور خواہ گورنمنٹ کو دکھوکہ دے کر ۔ مگر خدا ان کو ان کی تدبیروں میں نامراد رکھے گا۔۔۔۔

خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ اگرچہ میں تجھے قتل سے بچاؤں گا مگر تیری جماعت میں سے دو بکریاں ذبح کی جائیں گی ۔ ہر ایک جو زمین پر ہے آخر فنا ہوگا۔ یعنی بے گناہ اور معصوم ہونے کی حالت میں قتل کی جائیں گی۔ یہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں محاورہ ہے کہ بے گناہ اور معصوم کو بکرے یابکری سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔۔۔ یہ پیشگوئی شہیدمرحوم مولوی محمد عبداللطیف اور ان کے شاگرد عبدالرحمن کے بارہ میں ہے ۔۔۔۔ بکری کی صفتوں میں سے ایک دودھ دینا ہے اور ایک اس کا گوشت ہے جو کھایا جاتاہے ۔ یہ دونوں بکری کی صفتیں مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے پوری ہوئیں کیونکہ مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ کے وقت انواع اقسام کے معارف اور حقائق بیان کرکے مخالفوں کو دودھ دیا ۔ گو بدقسمت مخالفوں نے وہ دودھ نہ پیا اور پھینک دیا اور پھرشہید مرحوم نے اپنی جان کی قربانی سے اپنا گوشت دیا اور خون بہایا تا مخالف اس گوشت کو کھاویں اور اس خون کو پیویں یعنی محبت کے رنگ میں۔ اور اس طرح اس پاک قربانی سے فائدہ اٹھاویں اور سوچ لیں کہ جس مذہب اور جس عقیدہ پروہ قائم ہیں اور جس پر ان کے باپ دادے مر گئے کیا ایسی قربانی کبھی انہوں نے کی؟ کیا ایسا صدق اور اخلاص کبھی کسی نے دکھلایا؟ کیا ممکن ہے کہ جب تک انسان یقین سے بھر کر خدا کو نہ دیکھے وہ ایسی قربانی دے سکے؟ بے شک ایسا خون اور ایساگوشت ہمیشہ حق کے طالبوں کو اپنی طرف دعوت کرتا رہے گا جب تک کہ وہ دنیا ختم ہو جاوے۔۔۔۔ او ر چونکہ خداتعالیٰ جانتا تھاکہ اس راقم اور اس کی جماعت پر ا س ناحق کے خون سے بہت صدمہ گزرے گا اس لئے اس وحی کے ما بعد آنے والے فقروں میں تسلی اور عزا پرسی کے رنگ میں کلام نازل فرمایا جو ابھی عربی میں لکھ چکا ہوں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس مصیبت اور اس سخت صدمہ سے تم غمگین اور اداس مت ہو کیونکہ اگر دو آدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے ۔ وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور یہ لو گ جو ان دو مظلوموں کو شہید کریں گے ہم تجھ کو ان پر قیامت میں گواہ لائیں گے اور کہ کس گناہ سے انہوں نے شہید کیا تھا ۔ اور خدا تیرا اجر دے گا اور تجھ سے راضی ہو گا اور تیرے نام کو پورا کرے گا یعنی احمد کے نام کو۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا۔ اور وہی شخص خدا کی بہت تعریف کرتاہے جس پر خدا کے انعام اکرام بہت نازل ہوتے ہیں ۔ پس مطلب یہ ہے کہ خدا تجھ پرانعام اکرام کی بارش کرے گا ۔اس لئے تو سب سے زیادہ اس کا ثنا خواں ہوگا۔ تب تیرا نام جو احمد ہے پورا ہو جائے گا۔

پھر بعد اس کے فرمایا کہ ان شہیدوں کے مارے جانے سے غم مت کرو۔ ان کی شہادت میں حکمت الٰہی ہے اور بہت باتیں ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وہ وقوع میں آویں حالانکہ ان کاواقع ہونا تمہارے لئے اچھا نہیں ہوتا اور بہت امور ہیں جو تم چاہتے ہو کہ واقع نہ ہوں حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا ہوتا ہے اور خدا خوب جانتاہے کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے مگر تم نہیں جانتے ۔

اس تمام وحی الٰہی میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگرچہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتاہے۔ وَمَا رَأیْنَا ظُلْمًا اَغْیَظَ مِنْ ھٰذَا ۔ لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گے۔(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۹تا ۷۴۔ مطبوعہ لندن)

’’مولوی عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کا نمونہ دیکھ لو کہ کس صبر اور استقلال سے انہوں نے جان دی ہے ۔ ایک شخص کو باربارجان جانے کا خوف دلایاجاتاہے اور اس سے بچنے کی امید دلائی جاتی ہے کہ اگر تو اپنے اعتقاد سے بظاہر توبہ کردے تو تیری جان نہ لی جاوے گی مگر انہوں نے موت کوقبول کیا اور حق سے روگردانی پسند نہ کی۔ اب دیکھو اور سوچو کہ اسے کیا کیا تسلی اور اطمینان خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہوگاکہ وہ اس طرح پردنیا ومافیہا پردیدہ دانستہ لات مارتاہے اور موت کو اختیار کرتاہے۔اگر وہ ذرا بھی توبہ کرتے تو خدا جانے کیا کچھ ا س کی عزت کرنی تھی۔ مگر انہوں نے خدا کے لئے تمام عزتوں کو خاک میں ملایا اور جان دینی قبول کی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آخر دم تک اور سنگساری کے آخری لمحہ تک ان کو مہلت تو بہ کی دی جاتی ہے اور وہ خوب جانتے تھے کہ میرے بیوی بچے ہیں ، لاکھ ہا روپے کی جائداد ہے، دوست یار بھی ہیں ۔ ان تمام نظاروں کو پیشِ چشم رکھ کر اس آخری موت کی گھڑی میں بھی جان کی پروا نہ کی۔

آخر ایک سروراور لذت کی ہوا ان کے دل پر چلتی تھی جس کے سامنے یہ تمام فراق کے نظارے ہیچ تھے۔اگر ان کو جبراً قتل کر دیا جاتا اور جان کے بچانے کا موقعہ نہ دیا جاتا تو اور بات تھی ۔۔۔ مگر ان کو باربار موقعہ دیا گیا باوجود اس مہلت ملنے کے پھر موت اختیارکرنی بڑے ایمان کوچاہتی ہے ‘‘۔(البدر یکم دسمبر۱۹۰۳ء۔ ملفوظات جلد ۶صفحہ ۱۹۶ ۔مطبوعہ لندن)

’’وہ ایک اسوہ ٔحسنہ چھوڑ گئے ہیں۔۔۔ عبداللطیف صاحب مقید تھے زنجیریں ان کے ہاتھ پاؤں میں پڑی ہوئی تھیں ، مقابلہ کرنے کی ان کو قوت نہ تھی اور باربار جان بچانے کا موقعہ دیا جاتا تھا۔ یہ اس قسم کی شہادت واقع ہوئی ہے کہ اس کی نظیر تیرہ سوسال میں ملنی محال ہے ۔ عام معمولی زندگی کا چھوڑنا محال ہوا کرتاہے۔ حالانکہ ان کی زندگی ایک تنعم کی زندگی تھی ۔ مال، دولت، جاہ و ثروت سب کچھ موجود تھا۔ اور اگر وہ امیر کاکہنا ما ن لیتے تو ان کی عزت اور بڑھ جاتی ۔ مگرانہوں نے ان سب پر لات مار کر اور دید ہ دانستہ بال بچوں کو کچل کر موت کو قبول کیا ۔ انہوں نے بڑا تعجب انگیز نمونہ دکھلایاہے۔ اور اس قسم کے ایمان کو حاصل کرنے کی کوشش ہر ایک کو کرنی چاہئے۔ جماعت کو چاہئے کہ اس کتاب (تذکرۃ الشہادتین) کو باربار پڑھیں اور فکر کریں اور دعا کریں کہ ایساہی ایمان حاصل ہو‘‘۔ (البدر ۸؍جنوری ۱۹۰۴ء ۔ ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۳۳ ۔ مطبوعہ لندن)

’’ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں ہرمصیبت و مشکل کے اٹھانے کے لئے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہو سکتی۔۔۔۔

صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوۂ حسنہ ہے ۔ تذکرۃ الشہادتین کو باربار پڑھواور دیکھوکہ اس نے اپنے ایمان کا کیسانمونہ دکھایا ہے اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پروا نہیں کی ۔ بیوی یا بچوں کا غم اس کے ایمان پرکوئی اثر نہیں ڈال سکا۔دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نے اس کو بزدل نہیں بنایا ۔ اس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا ۔ عبداللطیف کہنے کو مارا گیا یا مرگیا مگر یقیناًسمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مر ے گا۔ اگرچہ اس کو بہت عرصہ صحبت میں رہنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن اس تھوڑی مدت میں جو وہ یہاں رہا اس نے عظیم الشان فائدہ اٹھایا ۔ اس کو قسم قسم کے لالچ دیئے گئے کہ اس کا مرتبہ و منصب بدستور قائم رہے گا مگر اس نے اس عزت افزائی اور دنیوی مفاد کی کچھ بھی پروا نہیں کی۔ ان کو ہیچ سمجھا۔ یہاں تک کہ جان جیسی عزیز شئے کو جو انسان کو ہوتی ہے اس نے مقدم نہیں کیا بلکہ دین کو مقدم کیا جس کا اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔

میں بار بار کہتا ہوں کہ اس پاک نمونہ پر غور کرو کیونکہ اس کی شہادت یہی نہیں کہ اعلیٰ ایمان کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کاعظیم الشان نشان ہے جو اَور بھی ایمان کی مضبوطی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ میں ۲۳برس پہلے سے اس شہادت کے متعلق پیشگوئی موجود تھی۔ وہاں صاف لکھا ہے شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ کیا اس وقت کوئی منصوبہ ہو سکتا تھاکہ ۲۳ یا ۲۴ سال بعد عبدالرحمن اور عبداللطیف افغانستان سے آئیں گے اور پھروہاں جا کر شہید ہونگے۔۔۔یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل ہے اور اپنے وقت پر آ کر یہ نشان پوراہو گیا۔

اس سے پہلے عبدالرحمن جومولوی عبداللطیف شہید کا شاگرد تھا، سابق امیر نے قتل کرادیا محض اس وجہ سے کہ وہ ا س سلسلہ میں داخل ہے اور یہ سلسلہ جہاد کے خلاف ہے اور عبدالرحمن جہاد کے خلاف تعلیم افغانستان میں پھیلاتاتھا۔ اور اب اس امیر نے مولوی عبداللطیف کو شہید کرا دیا۔ یہ عظیم الشان نشان جماعت کے لئے ہے۔‘‘ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء۔ ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۵۵ تا ۲۵۷۔ مطبوعہ لندن۔)

’’ہمارے دو معزز دوست کابل میں شہید ہوچکے ہیں۔انہوں نے وہاں کوئی بغاوت نہیں کی ، خون نہیں کیا اورکوئی سنگین جرم نہیں کیا ۔ صرف یہ کہاکہ جہاد حرام ہے۔۔۔ وہ نہایت نیک، راستباز اور خاموش تھے ۔ مولوی عبداللطیف صاحب تو بہت ہی کم گو تھے مگر کسی خود غرض نے جا کر امیر کابل کو کہہ دیا اور انہیں ان کے خلاف بھڑکایا کہ یہ شخص جہاد کا مخالف ہے اور آپ کے عقائد کا مخالف ہے۔ اس پر وہ ایسی بے رحمی سے قتل ہوئے کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور اس امر پر غور کر کے کہ وہ کیا گناہ تھا جس کے بدلے میں وہ قتل کئے گئے بے اختیارہر شخص کو کہنا پڑے گا کہ یہ سخت ظلم ہے جو آسمان کے نیچے ہواہے‘‘۔ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۷ء۔ ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۱۳۳ ۔ مطبوعہ لندن)

عربی اشعار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

 

وَ کَم مّنْ عِبَادٍ آثَرونی بِصِدْقھم

عَلَی النفسّ حَتّٰی خُوِّفُوا ثُمَّ دُمِّرُوا

وَ مِنْ حِزبِنا عبداللطیف فَاِنَّہٗ

اُرٰی نُورُ صِدْقٍ مِنْہُ خَلقٌ تَہَکّرُوا

جَزَی اللّٰہ عَنّا دَائِمًا ذٰلِکَ الفَتٰی

قَضٰی نَحْبَہٗ لِلّہِ فَاذْکُر وَ فَکّر

عِبَادٌ یکونُ کمبسرَاتٍ وُجُودُھُمْ

اِذَا مَا اَتَوا فَالْغَیْثُ یَأتِی وَ یَمْطر

اَتَعلمُ ابدالاً سِوَاھُمْ فَاِنَّھُمْ

رُمُوا بِالحِجَارَۃِ فَاستَقَامُوا وَاَجْمروا

(ضمیمہ براہین احمد یہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۳۲۹،۳۳۰۔ مطبوعہ لندن)
ان عربی اشعار کا ترجمہ یہ ہے:۔

بہت سے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان پر مجھ کو اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ ڈرائے گئے اور قتل کئے گئے۔ اور ہمارے گروہ میں سے مولوی عبداللطیف ہیں کیونکہ اس نے اپنے صدق کا نور ایسا دکھلایا کہ اس کے صدق سے لوگ حیران ہوگئے۔ خدا ہم سے اس جوان کو بدلہ دے۔ وہ اپنی جان خدا کی راہ میں دے چکا۔ پس سوچ اور فکر کر۔ یہ وہ بندے ہیں کہ مان سون ہوا کی طرح ان کا وجود ہوتا ہے۔ جب آتے ہیں پس ساتھ ہی بارش رحمت کی آتی ہے۔ کیا تو ان کے سوا کوئی اور لوگ ابدال جانتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ وہ لوگ ہیں جن پر پتھر چلائے گئے۔ پس انہوں نے استقامت اختیار کی اور ان کی جمعیت باطنی بحال رہی۔

اسی طرح فرمایا:۔

’’جس سلسلہ میں عبداللطیف شہید جیسے صادق اور مُلْہَم خدا نے پیدا کئے جنہوں نے جان بھی اس راہ میں قربان کردی اور خدا سے الہام پاکر میری تصدیق کی ایسے سلسلہ پر اعتراض کرناکیا یہ تقویٰ میں داخل ہے۔ ایک پارسا طبع صالح اہل علم کا ایک جھوٹے انسان کے لئے اس قدر عاشقانہ جوش کب ہو سکتاہے؟

 

کس بہر کسے سر ندہد جاں نفشاند

عشق است کہ ایں کار بہ صد صدق کناند

عشق است کہ درآتش سوزاں بنشاند

عشق است کہ برخاک مذلت غلطاند

بیعشق دلے پاک شود من نہ پذیرم

عشق است کزیں دام بہ یک دم برہاند

صاحبزادہ مولوی عبداللطیف شہید نے اپنے خون کے ساتھ سچائی کی گواہی دی ۔۔۔عبداللطیف شہید مرحوم وہ صادق اور متقی خدا کا بندہ تھا جس نے خدا کی راہ میں نہ اپنی بیوی کی پروا کی نہ بچوں کی نہ اپنی جان عزیز کی۔یہ لوگ ہیں جو حقانی علماء ہیں جن کے اقوال و اعمال پیروی کے لائق ہیں جنہوں نے اخیر تک خدا کی راہ میں اپنا صدق نباہ دیا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۱۰تا ۲۱۲۔ مطبوعہ لندن)

صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی فارسی نظم کے چند اشعار

 

آں جواں مرد و حبیب کردگار

جوہرِ خود کرد آخرآشکار

نقدجاں از بہر جاناں باختہ

دل ازیں فانی سراپرداختہ

پرُخَطَر ہست ایں بیابان حیات

صدہزاراں اژدہائش دَرجِہات

صَدہزاراں آتشے تاآسماں

صدہزاراں سیل خونخوار و دماں

صدہزاراں فَرسخے تا کوئے یار

دَشتِ پُرخار و بلائش صد ہزار

بنگرایں شوخی ازاں شیخ عجم

ایں بیاباں کرد طے از یک قدم

ایں چنیں باید خدا را بندۂ

سر پئے دلدار خود افگندۂ

اوپئے دِلدار از خود مُردہ بود

از پئے تریاق زہرے خوردہ بود

تا نہ نوشد جامِ ایں زہرے کسے

کَے رہائی یابَد اَز مرگ آں خسے

زیرِ ایں موت است پنہاں صدحیات

زندگی خواہی بخور جامِ ممات

بیں کہ ایں عبداللطیف پاک مرد

چوں پئے حق خویشتن برباد کرد

جاں بصدق آں دلستاں را دادہ است

تا کنوں در سنگہا اُفتادہ است

ایں بود رسم و رہِ صدق و وفا

ایں بود مردانِ حق را اِنتہا

از پئے آں زندہ از خود فانی اند

جاں فشاں برمسلکِ ربّانی اند

فارغ اُفتادہ زِ نام و عزّ و جاہ

دِل زکف و زِ فرق اُفتادہ کلاہ

دُور تر از خود بہ یار آمیختہ

آبرو از بہرِ رُوئے ریختہ

ذکرِ شاں ہم می دہد یاد از خدا

صدق ورزاں در جنابِ کبریا

(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۰ تا ۶۲)