شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
سرداران کابل کو تبلیغی خطوط
حضرت صاحبزادہ صاحب نے سیدگاہ سے سرداران کابل کو پانچ تبلیغی خطوط تحریر کئے ان میں سے ایک خط مستوی الملک بریگیڈئیر مرزا محمد حسین خان کوتوال کے نام تھا۔ دوسرا سردارشاہ غاصی عبدالقدوس خا ن اعتمادالدولہ کو لکھا۔ تیسرا مرزا عبدالرحیم خان دفتری کو ۔چوتھا حاجی باشی شاہ محمد کو اور پانچواں خط قاضی القضاۃ عبدالعزیز کے نام تھا۔
ان خطوط میں آپ نے تحریر فرمایا کہ میں حج کے ارادہ سے روانہ ہوا تھا لیکن ہندوستان میں میری ملاقات حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے ہوئی جو قادیان میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مبعوث کیاگیا ہوں اور محمد رسو ل اللہ ﷺ کے دین کی خدمت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور قرآن شریف اور احادیث کے مطابق وقت مقررہ پر آیاہوں۔ میں نے قادیان میں چند ماہ گزارے ،ان کا دعویٰ سنا ،ان کے افعال و اقوال کو غور سے دیکھا ۔ میں نے انہیں سچا پایا ۔ ان کے ملنے سے مجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا قرب حاصل ہوا۔ سو میں آپ کو آگاہ کرتاہوں کہ یہ وہی ہے جس کی آنحضرتﷺ نے اپنے بعد آنے کی پیشگوئی فرمائی تھی اور جس کے آنے کا لوگ انتظار کیا کرتے تھے۔ میں اس پر ایمان لے آیاہوں ۔ آپ کو بھی چاہئے کہ اسے مان لیں تااللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں ، آپ کی بہتری اسی میں ہے۔ میرا فرض آپ کو یہ پیغام پہنچانا تھا ۔میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو تاہوں۔
یہ خطوط آپ نے عبدالغفار خان صاحب برادر مولوی عبدالستار خان صاحب کو دئے جو انہیں لے کر بلا توقف کابل روانہ ہوگئے۔ اس وقت سردی کا موسم تھا اور برف پڑی ہوئی تھی۔
مولوی عبدالغفار صاحب نے کابل جا کر یہ خطوط مکتوب الیہم کو پہنچا دئے ۔مولوی صاحب ان تمام لوگوں کو خوب جانتے تھے۔ مرزا محمد حسین خان کوتوال نے مولوی عبدالغفار خان صاحب سے کہا کہ تم واپس چلے جاؤ خط کا جواب صاحبزادہ صاحب کو ڈاک کے ذریعہ بھجوا دیا جائے گا۔
مولوی عبدالغفار خان صاحب نے واپس آ کر حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ مجھے تو ان خطوط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ البتہ مرزا محمد حسین خان نے کہا تھاکہ تم واپس چلے جاؤ جواب ڈاک کے ذریعہ بھجوا دیا جائے گا۔ یہ سن کر حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو خطرہ معلوم ہوتاہے ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی گرفتاری اور کابل بلائے جانے کافیصلہ
حضرت صاحبزادہ صاحب نے جو خطوط سردارا ن کابل کے نام بھجوائے تھے وہ تمام امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصراللہ خان کو پہنچا دئے گئے۔ امیر نے اپنے بااعتماد مولویوں کو بلا کر دکھائے اور ان کی رائے دریافت کی تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مدعی جس کا ان خطوط میں ذکر ہے آدھا قرآن مانتاہے اور آدھا نہیں مانتا اس لئے (نعوذباللہ)کافر ہے اور جو شخص اسے مانتاہے وہ بھی کافر اورمرتد ہے ۔ اور اگر مولوی عبداللطیف صاحب کو ڈھیل دی گئی تو خطرہ ہے کہ اور بہت سے لوگ مرتد ہو جائیں گے۔
چنانچہ امیر حبیب اللہ خان نے خوست کے حاکم کے نام حکم جاری کیا کہ صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کی حفاظت میں کابل بھجوا دیاجائے ۔ اس دوران انہیں کوئی ملنے نہ آئے اور نہ ان سے کلام کرے۔
ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب سیرکو جا رہے تھے اور سیداحمد نور صاحب اور عبدالجلیل خان صاحب ساتھ تھے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور فرمایا کہ کیاتم ہتھکڑیوں کی طاقت رکھتے ہو۔ پھر سید احمد نور سے فرمایا کہ جب میں مارا جاؤں توتم میرے مرنے کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کرنا ۔ اس پر سید احمد نور رو پڑے اورعرض کی کہ میں بھی تو آپ کے ساتھ ہی ہوں میں کب آپ سے جدا ہونگا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ نہیں نہیں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہوئے تھے تو تم نے عرض کی تھی کہ حضور میں تو قادیان سے باہر نہیں جا سکتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تم سے فرمایا تھا کہ اس وقت تم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ چلے جاؤ تم بعد میں قادیان واپس آ جاؤگے ۔ حضورؑ نے یہ تمہارے بارہ میں ارشاد فرمایا تھا ، میرے بارہ میں تو نہیں فرمایا تھا ۔
جب کچھ عرصہ تک آ پ کے خطوط کا جواب نہ آیا تو بعض دوستوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگرآپ یہاں سے جانا چاہیں تو ہم آپ کو اہل وعیال سمیت لے جائیں گے ۔اس وقت موقعہ ہے آپ بنوں چلے جائیں ۔آپ نے فرمایا کہ نہیں میں ہرگزنہیں جاؤں گا ۔ مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا ہے اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ میںیہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گا۔(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۲ تا ۱۶)
سیدا حمد نور صاحب بیان کرتے ہیں کہ گرفتاری سے ایک روز پیشتر صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں آپ نے تمام واقعات تحریر کئے اس خط میں جو القاب آپ نے حضورؑ کے لئے استعمال کئے تھے وہ بہت اعلیٰ اور شیریں تھے۔ مجھے اتنے پسند آئے کہ میں نے عرض کی کہ یہ خط مجھے دے دیں میں نقل کرکے واپس کر دوں گا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے خط اپنی جیب میں ڈال لیا اور مجھے فرمایا کہ یہ خط تمہارے ہاتھ میں آجائے گا۔(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ۱۶)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’ جب گھر میں تھے اورابھی گرفتارنہیں ہوئے تھے اور نہ اس واقعہ کی کچھ خبر تھی اپنے دونوں ہاتھوں کو مخاطب کرکے فرمایا اے میرے ہاتھو! کیا تم ہتھکڑیوں کی برداشت کر لو گے۔ان کے گھرکے لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات آپ کے منہ سے نکلی ہے ؟ تب فرمایا کہ نمازعصر کے بعد تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کیا بات ہے۔تب نمازعصرکے بعدحاکم کے سپاہی آئے اور گرفتار کر لیا۔ اور گھر کے لوگوں کو انہوں نے نصیحت کی کہ میں جاتاہوں اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کرو۔ جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں چاہئے کہ وہی تمہارا ایمان اورعقیدہ ہواورگرفتاری کے بعدراہ میں چلتے وقت کہاکہ میں اس مجمع کا نوشاہ ہوں۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۲۶،۱۲۷ ۔ مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سنا ہے کہ جب ان کو پکڑ کر لے جانے لگے تو ان سے کہا گیا کہ اپنے بال بچوں سے مل لوان کو دیکھ لو مگر انہوں نے کہاکہ اب کچھ ضرورت نہیں ‘‘۔ (الحکم ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء ۔ ملفوظات جلد پنجم طبع جدید صفحہ ۴۵۷)
سیداحمد نور صاحب کا بیان ہے کہ گرفتاری کے روز عصرکاوقت قریب آیا تو گورنر نے ۵۰سوار بھجوائے جویکے بعد دیگرے سیدگاہ آنے لگے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب مسجد میں آئے اور نماز عصر پڑھائی ۔ نماز کے بعد ان سواروں نے عرض کی کہ گورنر صاحب نے پیغام دیاہے کہ میں آپ سے ملنا چاہتاہوں ۔ آپ خود آئیں گے یا میں حاضر ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا نہیں وہ ہمارے سردار ہیں میں خود ان کے پاس چلتاہوں ۔ آپ نے اپنا گھوڑا منگوایا لیکن گورنر کے بھجوائے ہوئے سواروں میں ایک اپنے گھوڑے سے اتر پڑا اور گھوڑا آپ کوسواری کے لئے پیش کر دیا۔
سوار ہونے سے پہلے آ پ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نام خط مجھے دے دیا اور کوئی بات نہ کی۔
آپ سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جب گاؤں سے باہر نکلے تو مجھ سے باتیں کرنے لگے۔فرمایا کہ جب آپ مجھے ملے تھے تو میں بہت خوش ہوا تھا اور خیال آیا تھاکہ ایک باز میرے ہاتھ آ گیاہے۔ اسی طرح میرے ساتھ گفتگو کرتے رہے ۔ میں دور تک آپ کے ساتھ چلتارہا پھر آپ نے فرمایا اب اپنے گھر چلے جاؤ۔ میں نے عرض کی میں آپ کی خدمت کے لئے ساتھ چلتاہوں ۔ آپ نے مجھے منع فرمایا اور کہا کہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکمُْ اِلَی التَّھْلُکَۃ۔ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اس گاؤں سے اپنے گھر چلے جاؤ ۔ اس پر میں آپ سے رخصت ہو گیا۔
صاحبزادہ سیدابوالحسن صاحب قدسی بیان کرتے ہیں کہ جب امیر حبیب اللہ خان کی طرف سے خوست کے حاکم عبدالرحمن خان کو حضرت صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے کابل بھجوانے کا حکم آیا تو اس نے آپ کو لکھا کہ آپ سے بات کرنی ہے ۔ آپ چھاؤنی میں آ جائیں۔ چھاؤنی خوست سے چند میل کے فاصلہ پر ہے ۔ یہ حکم سات آدمی لے کر آئے تھے ۔ اس پر آپ نماز عصر پڑھنے کے لئے مسجد چلے گئے اور نماز سے فا رغ ہو کر ان کے ساتھ روانہ ہونے کے لئے گھر نہ تشریف لے گئے بلکہ مسجد سے ہی روانہ ہو گئے ۔ ایک آدمی کو کہہ کے گھر سے قرآن مجید اور چھڑی منگوا لی اور اپنا گھوڑا منگوانے کی ہدایت کی۔
حضرت صاحبزادہ صاحب خوست چھاؤنی میں گورنر سے ملے ۔ اس نے آپ کو بتایا کہ آپ کے بارہ میں کابل سے حکم آیاہے کہ آ پ کو کوئی نہ ملے اور نہ آپ سے کلام کرے اس لئے آپ کو علیحدہ کمرہ دیا جا تاہے۔
کمرہ پر پہرہ لگا دیا گیا ۔ گورنر نے یہ رعایت برتی کہ جب آپ کے عزیز و رشتہ دار ملنے کو آتے تھے تو ان کو اجازت دے دی جاتی تھی۔ ایک روز آپ کے کچھ مرید ملنے آئے اور عرض کی کہ ہم آپ کو اور آپ کے اہل و عیال کو یہاں سے نکال کر لے جائیں گے ۔ گورنر ہمارامقابلہ نہیں کر سکتا ۔ ہماری تعداد زیادہ ہے لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے دین کی خدمت ضرور لے گا اس لئے تم ایسا کوئی منصوبہ نہ باندھو ۔ یہ نہ ہو کہ اس جگہ بھی ہم سے زیادتی ہو۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کے بڑے بیٹے صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب جن کی عمر ۱۵/۱۶سال تھی اور آپ کے ایک غیر احمدی رشتہ دار صاحبزادہ سید مزمل صاحب حاکم خوست کو ملے اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملنے کی اجازت چاہی۔ حاکم نے اجازت دے دی اور ایک کپتان کو مقرر کیا کہ وہ ملاقات کروا دے ۔ وہ اندر گئے تو دیکھا کہ آپ ایک چھوٹے سے کمرے میں محبوس ہیں اورہتھکڑی پڑی ہوئی ہے ۔ آپ نہایت سکون اور تضرع کے ساتھ نمازاداکر رہے ہیں۔
صاحبزادہ سید مزمل ایک بارسوخ سردار تھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو اس نے عرض کی کہ میں اس واسطے آیاہوں کہ آپ کو قید سے نکلواؤں ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میرا یہاں سے نکالنا ناممکن ہے ۔ صاحبزادہ مزمل نے کہا کہ آپ اس کی فکر نہ کریں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں حاکم خوست کوبتاکر علی الاعلان آپ کو نکلوا سکتاہوں ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ میں خود ہی نکلنا نہیں چاہتا ۔ میں کابل جاکر امیر حبیب اللہ خان کوتبلیغ کرنا چاہتاہوں اس لئے تم مجھے نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ صاحبزاد مزمل نے عرض کی کہ امیر آپ کی بات نہیں سنے گا ۔ وہ آپ کو قتل کروا دے گا لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے اجازت دینے سے انکارکر دیا ۔
اسی طرح وزیر ی قوم کا ایک سردار جو آپ کا مخلص معتقد تھا آپ کو ملنے آیا ۔ اس نے عرض کیا کہ میرے لئے آپ کو رہا کرانا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ اگر آپ اجازت دے دیں تو میں آپ کوعلی الاعلان اس قید سے نکال سکتاہوں لیکن آپ نے اس سے بھی یہی فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا۔(قلمی مسودہ صفحہ ۳۹)