شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
سردار نصراللہ خان کی مخالفت کی وجہ
جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ صوبہ سرحد میں اخوند صاحب سوات مُلّا عبدالغفور کے دو مشہور مرید تھے۔ ایک کا نام مُلّا نجم الدین ہڈّہ تھا جو مہمند علاقے میں رہتے تھے اور دوسرے پیر مانڑکی شریف سجادہ نشین علاقہ خٹک تھے جن کانام ملا عبدالوہاب تھا۔ اگرچہ یہ دونوں اخوندصاحب سوات کے مرید تھے لیکن باہم اختلاف اور عداوت پیدا ہو گئی تھی ۔ پیر صاحب مانڑکی شریف کی یہ تعلیم تھی کہ چلم اور نسوار کا استعمال حرام ہے اور نماز میں تشہد میں رفع سبابہ درست نہیں۔ سرحد کے قبائلی جو اپنے زعم میں بے قصورانگریزوں کوقتل کرتے ہیں اور اسے جہاد قرار دیتے ہیں ان کا یہ فعل حرام ہے کیونکہ جہاد بالسیف مسلمان بادشاہ کے بغیردرست نہیں۔
اس کے بالمقابل ملا صاحب ہڈہ قبائلی قتل وغارت کو جوو ہ انگریزوں کے خلاف کرتے تھے جہاد کے نام سے موسوم کرتے تھے اور لڑنے والوں کو غازی قرار دیتے تھے ۔انہوں نے رفع سبابہ کو اپنے مریدوں پرلازمی قرار دے دیا تھا اور چلم اور نسوار کے استعمال کوحرام نہیں قرار دیتے تھے ۔
ان دونوں پیروں کے اختلافات باہمی عداوت اور قتل وغارت تک پہنچ گئے اور اس کااثر سوات، بنیر،باجوڑ ، علاقہ مہمند ، آفریدی وخٹک تک پہنچ گیا اور افغانستان میں بھی ان اختلافات نے خصومت کی شکل اختیار کر لی۔سردا رنصراللہ خان کا تعلق ملا صاحب ہڈہ سے تھاکیونکہ وہ بھی انگریزوں سے جنگ و جہاد کا شائق تھا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب چونکہ احمدی تھے اور اس بناء پر ظالمانہ قتل و غارت کے مخالف تھے اس لئے سردار نصراللہ خان حضرت صاحبزادہ صاحب کا مخالف ہو گیا اور ان کو نقصان پہنچانے کے لئے تاک میں رہتاتھا۔(عاقبۃالمکذبین حصہ اول صفحہ ۳۷،۳۸)
سردار نصراللہ خان کے اصرار اور دباؤ میں آ کر دو ملاّحضرت صاحبزادہ صاحب کے خلاف فتویٰ دینے پرآمادہ ہو گئے۔ ان کے نام قاضی عبدالرزاق ملائے حضور امیر اور قاضی عبدالرؤوف قندھاری تھے۔ ان ملانوں نے اپنے فتوی ٰمیں یہ لکھا کہ اس سے قبل عبدالرحمن نام ایک شخص کو امیرعبدالرحمن خان نے قتل کروا یا تھا اس پربھی یہی الزام تھاکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مریدہے جن پر ہندوستان کے علماء نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے اس لئے اس کے ماننے والے بھی کافرہیں لہذا ہم بھی یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ مولوی عبداللطیف کو بھی کافر سمجھا جائے اور اس جرم میں سنگسار کیا جائے ۔
(قلمی مسودہ صفحہ ۴۴تا ۴۷)
انگریز انجینئرMr.Frank A Martinجس کا پہلے ذکر آ چکاہے بیان کرتاہے کہ :
’’جب امیر حبیب اللہ خان کو ملاّ(صاحب) کے قادیان جانے اور ایک نئے عقیدہ کے قبول کرنے اوراس کی تبلیغ کرنے کا علم ہوا تو اس کے حکم کے مطابق ان کو قید کرکے کابل لایا گیا جہاں امیر نے اس کے بیان لئے لیکن انہوں نے ایسے معقول جوابات دئے کہ وہ ان میں کوئی ایسا امر نہ پا سکا جو انہیں کافر اورواجب القتل ٹھہراتا ہو۔ اس کے بعد ملاّ(صاحب) کو سردار نصراللہ خان کے پاس بھجوایا گیا جس کے متعلق کہاجاتاہے کہ اس کا مذہبی علم ایک ملاّسے بھی زیادہ ہے لیکن سردار نصراللہ خان بھی ان پرکوئی الزام نہ قائم کر سکا ۔ اس پر بارہ ملاؤں کی ایک جیوری قائم کی گئی جس نے آپ سے سوالات کئے لیکن یہ لوگ بھی کوئی ایسی بات معلوم نہ کر سکے جس کی بنا پران کو سزائے موت دی جا سکتی۔ اس کی رپورٹ امیرکو کی گئی لیکن اس نے کہا کہ اس شخص کو سزا دی جانی ضروری ہے۔چنانچہ ان کو بعض ملاؤں کے پاس بھجوایا گیا جنہیں یہ ہدایت کی گئی کہ انہیں ایک کاغذ پردستخط کرنے ہونگے جس میں یہ لکھا گیاتھاکہ یہ شخص مرتد اور سزائے موت کا مستحق ہے لیکن ملاؤں کی اکثریت اس رائے پر قائم رہی کہ اس کا قصور ثابت نہیں ہو تا۔اس پران ملاؤں میں سے دو کو سردار نصراللہ خان نے سمجھا بجھاکر آمادہ کر لیا اور انہوں نے سزائے موت کا فتویٰ دے دیا ۔
(ملخص از کتاب “Under the Absolute Amir” by Frank A Martin صفحہ ۲۰۱،۲۰۴)
سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :
’’جب عصر کاآخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایاگیا۔ اور آخر بحث میں شہیدمرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھرتم عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو۔ کیا وہ واپس دنیامیں آئیں گے یانہیں۔ تو انہوں نے بڑ ی استقامت سے جواب دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے۔ قرآن کریم ان کے مرنے اور واپس نہ آنے کا گواہ ہے ۔ تب وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی بات کو سن کر اپنے کپڑے پھاڑ دئے تھے گالیاں دینے لگے اور کہااب اس شخص کے کفرمیں کیا شک رہا اور بڑی غضبناک حالت میں یہ کفرکا فتویٰ لکھاگیا ‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۴ مطبوعہ لندن)