شیخ عجم ۔ حضرت صاحبزادہ سید محمد عبدالطیف شہید افغانستان کے سوانح حیات
حضرت صاحبزادہ صاحب کا مقام شہادت
مختلف روایات میں جائے شہادت کاذکر ہے۔ایک روایت میں اسے ہندوسوزان بتایا گیا اور ایک روایت میں سنگ سیاہ کامیدان کہا گیا ہے۔ یہ دونوں مقامات ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھے۔جناب قاضی محمد یوسف صاحب اگست ۱۹۳۴ء میں ظاہر شاہ کے زمانہ میں کابل گئے تھے ان کی تحقیق درج ذیل ہے:
کوہ آسامائی کے دامن میں شہر کابل واقع ہے۔ کابل شہر کے شیر دروازہ کے باہر بجانب پشاور آدھ میل کے فاصلہ پر جنوب کی طرف ایک ٹیلہ پر بالاحصار واقع ہے۔اس قلعہ میں گزشتہ زمانہ میں امیر شیر علی رہاکرتاتھا۔ اس کے بعد انگریزی سفیر کی رہائش تھی ۔ اس کو افغانوں نے قتل کر دیا اور انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کر کے فتح حاصل کی تو انگریزی فوج نے اس قلعہ کو توڑ پھوڑ دیا ۔اس کے بعد یہ میگزین کے طور پر استعمال ہوتا رہا ۔ اس کے جنوب میں ایک پراناقبرستان ہے جس میں کابل کے امراء و رؤوساء کی قبریں ہیں ۔ اس جگہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کیا گیا تھا۔
(عاقبۃ المکذبین حصہ اول مصنفہ جناب قاضی محمد یوسف صاحب امیر صوبہ سرحد ۔ شائع شدہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۵۱،۵۲)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو اس سے ایک طرف تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت صدمہ پہنچاکہ ایک مخلص دوست جدا ہو گیا۔ اور دوسری طرف آپ کو خوشی ہوئی کہ آ پ کے متبعین میں سے ایک شخص نے ایمان و اخلاص کا یہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ سخت سے سخت دکھ اور مصائب جھیلے اور بالآخر جان دے دی مگر ایمان کوہاتھ سے نہ چھوڑا۔
سیدناظر حسین صاحب ساکن کالووالی سیداں ضلع سیالکوٹ کا بیان ہے کہ انہوں نے اگست ۱۹۰۳ء میں ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان جا کر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی تھی۔ اس سے پہلے حضرت صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف صاحب کی شہادت کاواقعہ ہوا تھا اور آپ کی شہادت کا قادیان میں بہت چرچا تھا۔ اور یہ بات بھی مشہور تھی کہ امیر حبیب اللہ خان نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قتل کے لئے بھی بعض آدمی قادیان بھجوائے ہیں۔
اگرچہ حضور کا محافظ اللہ تعالیٰ تھا مگر حضور نے ہدایت دی ہوئی تھی کہ احتیاطاً رات کو حضور کے گھر کی ڈیوڑھی میں دو آدمی پہرے کے لئے سویاکریں ۔ چنانچہ ایک رات میں اور ماسٹر عبدالحق صاحب حضورؑ کی ڈیوڑھی میں پہرے کی غرض سے سوئے تھے۔
شہادت کے بعد کابل میں وباء ہیضہ اور بعض دیگر نشانات کا ظہور
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’صبح ہوتے ہی کابل میں ہیضہ پھوٹ پڑا اور نصراللہ خان حقیقی بھائی امیر حبیب اللہ خان کا جو اصل سبب اس خونریزی کا تھا اس کے گھر میں ہیضہ پھوٹا اور اس کی بیوی اور بچہ فوت ہو گیا اور چار سو کے قریب ہر روز آدمی مرتا تھا ۔ اور شہادت کی رات آسمان سرخ ہو گیا۔‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۲۷ ۔مطبوعہ لندن)
’’سنا گیا ہے کہ جب شہید مرحوم کو ہزاروں پتھروں سے قتل کیا گیا تو انہیں دنوں میں سخت ہیضہ کابل میں پھوٹ پڑا اور بڑے بڑے ریاست کے نامی اس کا شکار ہوگئے اور بعض امیر کے رشتہ دار اور عزیز بھی اس جہان سے رخصت ہوئے ‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۷۴ ۔مطبوعہ لندن)
انگریز انجینئر Mr.A Frank Martin نے لکھا ہے کہ قتل کئے جانے سے پہلے ملاّ صاحب نے امیر کی موجودگی میں یہ پیشگوئی کی کہ اس ملک پر ایک بڑی تباہی آنے والی ہے جس کے نتیجہ میں امیر حبیب اللہ خان اور سردار نصراللہ خان کو بھی دکھ پہنچے گا۔
جس روز ملا (صاحب) کو قتل کیا گیا اس دن اچانک شام کو نوبجے کے قریب آندھی کا ایک زبردست طوفان آیا جو بہت زور شور سے آدھے گھنٹے تک جاری رہا پھر اچانک جس طرح شروع ہوا تھا تھم گیا۔ رات کے وقت اس طرح آندھی کا آنا غیرمعمولی بات تھی ۔ عام لوگ اس آندھی کے بارہ میں کہنے لگے کہ یہ ملاّ(صاحب) کی روح کے نکلنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
اس کے بعدہیضہ کی وباء آ گئی ۔ سابقہ وباؤں کومدنظررکھ کر ہیضہ ابھی چار سال تک متوقع نہیں تھا۔ اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ہیضہ کی وباء بھی ملاّ(صاحب)کی پیشگوئی کے مطابق آئی ہے ۔ اسی وجہ سے امیر حبیب اللہ خان اور شہزادہ نصراللہ خان شدید خوف میں مبتلا ہو گئے ۔ انہیں یقین تھا کہ اب ان کی موت بھی آنے والی ہے ۔ جب شہزادہ نصراللہ خان کی ایک پیاری بیوی ہیضہ سے فوت ہو گئی تو وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور غم سے نیم پاگل ہو گیا۔
مقتول ملاّ(صاحب) کے مریدوں کی بڑی تعداد تھی اور وہ بہت رسوخ اور طاقت والے بھی تھے ۔ جن دو ملاؤں نے ان کے قتل کئے جانے کا فتویٰ دیا تھا وہ بھی نہایت خوف کی حالت میں زندگی بسر کرنے لگے کیونکہ انہیں ان کے مریدوں کی جانب سے انتقام لئے جانے کا خوف رہتاتھا۔ ان میں سے ایک ملا کو ہیضہ ہوا اور وہ مرتے مرتے بچا۔
جب ۱۹۰۳ء میں وبا پھوٹی تو امیر حبیب اللہ خان نے اپنے والد امیر عبدالرحمن خان کے طریق پر فوراً اپنا سامان یعنی فرنیچر اور قالین وغیرہ کابل سے باہر پغمان بھجوانا شروع کر دیا ۔ ا س کا ارادہ تھا کہ خود بھی اگلے روز کابل سے نکل جائے گا۔
جب کابل شہر کے گورنر کو اس کے ارادہ کا علم ہوا تو وہ امیر کے پاس آیا کہ عام پھیلی ہوئی بے اطمینانی اتنی زیادہ ہیکہ اگروہ اس موقعہ پر شہر سے باہر چلا گیا تو فوج اور رعایا بغاوت کر دے گی اور وہ پھر کبھی واپس نہ آ سکے گا۔ امیر نے گورنر کامشورہ مان لیا اور اسے بہ امر مجبوری اپنے محل ارک میں ہی رہنا پڑا۔ اس نے اپنے آپ کو دو کمروں تک محدود کر لیا۔ جہاں صرف نصف درجن منظور نظر درباریوں اور نوکروں کو آنے کی اجازت تھی جو لو گ اسے ملنے آتے انہیں یہ اجازت نہ تھی کہ محل سے باہر نکلیں۔ اسے ڈر تھا کہ وہ باہر سے ہیضہ کا مرض لے آئیں گے۔
چونکہ امیر کابل سے باہر نہیں جا سکا تھا اسلئے سردار نصراللہ خان کو بھی شہر میں اپنے محل میں رہنا پڑا۔ وہ اپنا اکثر وقت جائے نماز پر گزارتا تھا۔(ملخص مفہوم از کتابUnder the absolute Amir مصنفہ Mr.Frank A Martin صفحہ ۲۰۱تا۲۰۴)
مسٹر انگس ہملٹن اپنی کتاب ’’ افغانستان‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ :
’’۱۹۰۳ء میں افغانستان کے شہر کابل اور شمال و مشرق کے صوبہ جات میں زور شور سے ہیضہ پھوٹ پڑا جو اپنی شدت کے لحاظ سے ۱۸۷۹ء کی وباء ہیضہ سے بدترتھا۔
سردار نصراللہ خان کی ایک بیوی اور بیٹا اور شاہی خاندان کے کئی افراد اورہزارہا باشندگان کابل اس وباء سے لقمہ ٔ اجل ہوئے اور شہر میں افراتفری پڑ گئی ۔ ہر شخص کو اپنی جان کی فکر لاحق ہو گیا اور دوسرے کے حالات سے بے فکر اور بے خبر ہو گیا۔(’افغانستان ‘مصنفہ مسٹر انگس ہملٹن صفحہ ۴۵۰ ۔ بحوالہ عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ ۵۷)