احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
(۵) اڑنے سے پیشتربھی ترا رنگ زرد تھا
بات دراصل یہ ہے کہ موصوف اور ان کی قبیل کے دُوسرے حضرات اس بات کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے کہ جماعت احمدیہ کا مؤقف یا جماعت احمدیہ کے ایمان واعتقاد کے بارے میں جماعت احمدیہ کا اپنا بیان اور ان کی اپنی وضاحت عوام الناس تک پہنچے ۔ یہ حضرات سیاق وسباق سے کاٹ کر عبارت پیش کر کے عوام کو گمراہ کرتے رہتے ہیں،کبھی پوری تحریر پیش نہیں کرتے اوراس بات کی تاب نہیں لاسکتے کہ کوئی اُن کی پیش کردہ کسی گمراہ کُن عبارت کو اس کے سیاق وسباق میں پیش کر کے ان کے فریب کا طلسم توڑ دے۔ اس لئے ان کی ساری کوشش اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی ہو ، لٹریچر پر پابندی ہو اور ان سے معاشرتی تعلقات پر پابندی ہو تاکہ لوگ نام نہاد علماء کی فریب دہی کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں۔ اپنی’’قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ‘‘ کی کارروائی میں بھی اﷲوسایا موصوف کو ’’اجمال‘‘ کی ضرورت اس لئے ہی پیش آئی کہ جو وضاحتیں امام جماعت احمدیہ نے پیش کیں وہ عوام کے سامنے نہ آجائیں۔ یہ حضرات عوام کو یہ تأثّر دینا چاہتے ہیں کہ احمدیوں کو پورا موقع دیا گیااور مولوی حضرات نے گویا قادیانیت جیسے کفر کو چاروں شانے چت کیا مگر اس کارروائی کی تفصیلات جو ان کی ’’عظیم فتح‘‘کی آئینہ دار ہیں عوام کے سامنے لانے کو تیار نہیں۔خود ان کی کتاب سے ظاہر ہے کہ ان کی پوری کوشش یہ رہی کہ قومی اسمبلی میں بھی جماعت احمدیہ کا پورا مؤقف سامنے نہ آنے پائے۔ان کی کوششوں کی راہ میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی شخصیت ، ان کا علم اور ان کی فراست ایک نور کی دیوار بن کرحائل ہو گئی تھی جو ان کی پیداکردہ شرارتوں اور ظلمتوں کو پاش پاش کر رہی تھی ۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیسے امام جماعت احمدیہ کے بیان کو اور اس کی تاثیرات کو ماند کر سکیں۔ان کی اس کوشش کی جھلک اﷲوسایا موصوف کی مرتب کردہ کتاب میں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
اﷲوسایا موصوف نے اپنی گمراہ کن کارروائی کے ذریعہ جو کچھ انصاف پسند قارئین کی نظر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی ہے اس کا جائزہ تو ہم آگے چل کر لیں گے۔ فی الحال کچھ مختصر نشاندہی اُن امور کی بھی ہو جائے جو ان کی کتاب میں گویا سطح پر ہی تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جنہیں وہ تہِ دامن چھپا نہیں سکے گو اس کی کوشش بہت کی۔
جو باتیں اس کتاب سے ظاہر ہیں وہ یہ ہیں:۔
(۱) کارروائی کے دوران اسمبلی میں علماء میں سے مفتی محمود صاحب، غلام غوث ہزاروی صاحب،مصطفی الازہری صاحب، ظفراحمد انصاری صاحب اور شاہ احمد نورانی صاحب گویا دیو بندی، بریلوی، ازہری ہر طبقہ فکر کے علماء موجود تھے جو اٹارنی جنرل جناب یحيٰ بختیار کو سوالات تیار کرکے دیتے تھے۔
(۲) ارکانِ اسمبلی کو جماعت احمدیہ کا پیش کردہ محضرنامہ مل چکا تھا اور وہ اس کے مندرجات سے بخوبی واقف تھے۔
(۳) اﷲوسایا کی شائع کردہ کارروائی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ محضرنامے اور بحث کا جو اصل موضوع تھا اس پر علماء کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ گیارہ دنوں کی جرح کے دوران ان علماء حضرات نے کوئی ایک سوال بھی محضرنامے میں اٹھائے گئے علمی سوالات کے بارے میں نہیں کیا۔ کسی ایک حوالے کی نشاندہی بھی علماء نے اٹارنی جنرل کے ذریعہ نہیں کروائی کہ آئمہ سلف کے جو حوالے ختمِ نبوت کے مفہوم کے بارہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دیئے گئے،ان میں سے کوئی حوالہ غلط ہے۔
ختم نبوت کا عقیدہ بحث میں ایک بنیادی حیثیت رکھتاتھا مگر آیت خاتم النبینﷺ کے سلسلے میں جو حوالے جماعت احمدیہ کے محضرنامے میں دیئے گئے تھے ان میں سے کسی ایک پر بھی بحث نہیں کی گئی۔ یہ علماء حضرات موجود نہ ہوتے تو یہ وہم گزرسکتا تھا کہ اٹارنی جنرل اس میدان کے شناور نہیں لہٰذا وہ سوالات رہ گئے ہوں۔ مگر یہاں تو نہ صرف یہ کہ علماء موجود تھے بلکہ وہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے واضح طور پر موئے آتش دیدہ کی طرح بل کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ادھرمرزا ناصر احمد ہیں کہ وہ نہایت تحمل اور بردباری سے پورے ٹھہراؤ کے ساتھ حوالوں کی جانچ پڑتال کرکے پوری وضاحتوں کے ساتھ حوالے دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ مولوی حضرات نے آیت خاتم النبینﷺ کے بارے میں مرزا ناصر احمد سے کوئی سوال پوچھے ہوں اور ان کو لاجواب کردیا ہو تو اللہ وسایا اس حصّے کو شائع نہ کریں۔
(۴) اللہ وسایا کی کتاب سے یہ بھی ظاہر ہے کہ وضاحتیں اور تفصیلات غائب کردی گئی ہیں مثلاً:۔
(i) صفحہ۱۳۹ پراٹارنی جنرل کے اس سوال کے جواب میں کہ کلمۃالفصل کے اقتباس کے حوالہ سے حقیقی مسلمان کی تعریف کیا ہے، مرزا ناصر احمد صاحب کا مختصر جواب ایک فقرہ میں درج ہے مگر جو حوالہ وہ دے رہے ہیں وہ غائب ہے۔
(ii) صفحہ۵۸ پر منیر انکوائری رپورٹ میں آئینۂ صداقت کے حوالہ سے، مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کے جواب کا ذکر ملتا ہے اور اس بارہ میں جرح بھی کی گئی ہے مگر مرزا ناصر احمد صاحب کا جواب ایک فقرہ میں درج کر کے منیر انکوائری رپورٹ میں دیئے گئے جواب کو غائب کر دیا گیا ہے تا کہ زیرِ بحث مسئلہ پر جماعت احمدیہ کا موقف واضح نہ ہو سکے۔
(iii) صفحہ ۲۸۷ پر اٹارنی جنرل کا بیان ہے کہ مرزا ناصر احمد صاحب نے زیرِ اعتراض ایک شعر کی وضاحت اسی نظم کے ایک دوسرے شعر سے کرنے کی کوشش کی، مگر وہ وضاحتی شعر کارروائی اور جرح کے دوران کہیں نظر نہیں آتا۔ آخر کیوں ؟ پھریہ مکمل ریکارڈ یا مکمل کارروائی کیسے ہوئی۔
(iv) اﷲ وسایا کی شائع شدہ کارروائی میں بار بار یہ اعتراض نظر آتا ہے کہ جواب لمبا ہے، مختصر کرنے کی ہدایت کی جائے مگر کوئی ایک لمبا جواب بھی کارروائی میں نظر نہیں آتا سب غائب کر دیئے گئے۔کوئی ایک جواب تو درج ہوتا جس سے پتہ لگ سکتا کہ غیر ضروری طوالت سے کام لیا جا رہا ہے۔
(v) ان مولوی حضرات کا تلملانا کہ جواب مختصر دیا جائے ہم خطبہ سُننے نہیں آئے، وضاحتوں سے روکا جائے، ہاں یا نہ میں جواب دیں، ان کو پابند کیا جائے کہ جواب ہاں یا نہ تک محدود رکھیں۔یہ بیٹھ کر کیوں جواب دے رہے ہیں،یہ بھی کھڑے رہیں اور جواب دیں۔یہ سب باتیں ان مولوی حضرات کی پریشانی اور اضطراب کی آئینہ دار ہیں جو اﷲ وسایا کی کتاب سے جھلکتے ہیں۔
انہی دنوں جناب مفتی محمود صاحب نے کراچی کے ایک استقبالیہ میں قومی اسمبلی کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ:۔
’’ اسمبلی میں قرارداد پیش ہوئی اور اس پر بحث کے لئے پوری اسمبلی کو کمیٹی کی شکل دے دی گئی۔ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ مرزائیوں کی دونوں جماعتیں خواہ لاہوری ہوں یا قادیانی ان کو اسمبلی میں بلایا جائے اور ان کا موقف سنا جائے تاکہ کل اگر ان کے خلاف فیصلہ کر دیا جائے تو وہ دنیا میں اور بیرونی ممالک میں یہ نہ کہیں کہ ہم کو بلائے بغیر اور موقف سنے بغیر ہمارے خلاف فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ بطور اتمام حجت کے ان کا موقف سننا ہمارے لئے ضروری تھا اس لئے ان کو بلایا گیا ۔ جب انہوں نے اپنے بیانات پڑھے تو ان پر تیرہ دن بحث ہوئی گیارہ دن مرزا ناصر پر اور دو دن صدر الدین پر جرح ہوئی۔اس میں شبہ نہیں کہ جب انہوں نے اپنا بیان پڑھا تو مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے فائدہ اُٹھایا اور یہ ثابت کیا کہ فلاں فرقے نے فلاں پر کفر کا فتوٰی دیا ہے اور فلاں نے فلاں کی تکفیر کی ہے۔مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو لے کر اسمبلیوں کے ممبران کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ مولویوں کا کام ہی صرف یہی ہے کہ وہ کفر کے فتوے دیتے ہیں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو کہ صرف قادیانیوں سے متعلق ہو۔یہ انہیں تاثر دیا۔
اس میں شک نہیں کہ ممبران اسمبلی کا ذہن ہمارے موافق نہیں تھا، بلکہ ان سے متاثر ہو چکا تھا تو ہم بڑے پریشان تھے چونکہ ارکان اسمبلی کا ذہن بھی متاثر ہوچکا تھا اور ہمارے ارکان اسمبلی دینی مزاج سے بھی واقف نہ تھے اور خصوصاً جب اسمبلی ہال میں مرزا ناصر آیا تو قمیض پہنے ہوئے اور شلواروشیروانی میں ملبوس بڑی پگڑی طرہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی۔تو ممبران نے دیکھ کر کہاکیا یہ شکل کافر کی ہے؟ اور جب وہ بیان پڑھتا تھا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب حضوراکرمﷺ کا نام لیتا تو درود شریف بھی پڑھتاتھا اور تم اسے کافر کہتے ہو،اور دشمن کہتے ہو اور پروپیگنڈے کے لحاظ سے یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے وہ مسلمان ہے تو جب وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو تمہیں کیا حق ہے کہ آپ ان کو کافر کہیں؟ تو ہم اﷲسے دست بدعا تھے کہ اے مقلب القلوب ان دلوں کو پھیر دے اگر تم نے بھی ہماری امداد نہ فرمائی تو یہ مسئلہ قیامت تک اسی مرحلہ میں رہ جائے گا اور حلنہیں ہو گا حتی کے مَیں اتنا پریشان تھا کہ بعض اوقات مجھے رات کے تین یا چار بجے تک نیند نہیں آتی تھی‘‘۔ (ہفت روزہ لولاک لائلپور۔ ۲۸؍دسمبر۱۹۷۵ء صفحہ ۱۷۔۱۸)
(۵) پانچویں بات جو اس کارروائی سے ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ مولانا مفتی محمود صاحب کی پریشانی کا حل یہ نکالا گیا کہ اصل مسئلہ کو زیر بحث لانے کی بجائے ایسے سوالات چنے گئے جو ہمیشہ سے عامۃ الناس کو اشتعال دلانے کی خاطرمولوی حضرات بیان کیا کرتے ہیں ۔
ایک متفقہ آئین میں ایک نہائت متنازعہ اور ایسی ترمیم زیرِ غور تھی جس کے نتیجہ میں مداخلت فی الدین کے ایسے نازک مسائل زیرِ بحث آنے تھے جس کی نظیر قوموں کی آئینی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ خیال تو یہ تھا کہ بڑے سنجیدہ ماحول میں گمبھیر مسائل زیرِ بحث آئیں گے، علمی مباحث ہوں گے قرآن و حدیث سے دلائل کا ایک انبار علماء کی طرف سے لگا دیا جائے گا مگر ساری کارروائی میں تیرہ روز کی جرح اور اٹارنی جنرل کی بحث میں جو سوال اٹھائے گئے ، وہ کیا تھے؟ چند پٹے ہوئے اعتراضات یعنی:۔
۱۔احمدی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔
۲۔احمدی مسلمانوں کا جنازہ نہیں پڑھتے۔
۳۔احمدی مسلمانوں میں رشتہ ناطہ نہیں کرتے۔
۴۔بانی ٔ جماعت احمدیہ کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں ۔
۵۔احمدیوں کا تصورِ جہاد عام مسلمانوں سے مختلف ہے۔
۶۔احمدیوں نے باؤنڈری کمیشن میں علیحدہ میمورینڈم کیوں داخل کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
کوئی پوچھے کیا یہ آئینی اہمیت کے سوال تھے؟ یہ سوالات بار بار فریقین کی کتب میں زیرِ بحث نہیں آچکے تھے؟ کیا اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اسی غرض کے لئے قائم کی گئی تھی ؟ اگر ایسا تھا تو ان امور کا ذکر وزیر قانون کی تحریک میں کیوں نہیں تھا ؟
اور اگر یہی بنیاد تھی تو ترمیم یوں ہونی چاہئے تھی کہ:۔
’’جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے یا کسی مسلمان کا جنازہ نہ پڑھے یا رشتہ نہ دے یا تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ کی مخالفت کر چکا ہو وہ آئین و قانون کی ا غراض کے لئے غیر مسلم ہو گا۔ ‘‘
بہرحال اللہ وسایا کی کتاب جو کہانی سنا رہی ہے اس کے مطابق تو یہی سوالات ایک سٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعے ترتیب پا کر اٹارنی جنرل کو مہیا کر دئے گئے۔ اٹارنی جنرل بے چارے کیا کرتے انہی علماء پر بھروسہ کرتے ہوئے وہی سوال پوچھتے رہے ۔ جو لوگ اِن معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں اور انہیں ان کی حقیقت معلوم ہے وہ انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اﷲوسایا موصوف نے امام جماعت احمدیہ کے جوابات کو قطع و برید یا بقول ان کے ’’اجمال‘‘ کی آڑ میں کتنا بھی مسخ کر دیا ہو جب سوال سامنے آ گیا تو جواب کے لئے اگر اسمبلی کی کارروائی مہیا نہ بھی ہو تو جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے رجوع کیا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ۔
ہم اصلاحِ احوال اور ازالۂ اشتعال انگیزی کی خاطر ان میں سے چندسوالات کے جوابات اختصار کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ جوابات کا اکثر حصہ اﷲ وسایا کی کتاب ہی کے حوالہ سے ہے اور کچھ ان کی کتاب میں درج حوالوں کے تعلق میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر اور دیگر مستند تاریخی کتب پر مبنی ہے۔مگر ان اعتراضات اور جزئیات کی طرف توجہ کرنے سے پہلے چند بنیادی سوال ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں کچھ ان کا ذکر ہو جائے۔