احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
(۱۲) اے اہلِ وطن!
پاکستان کی قومی اسمبلی نے مسلمان کی تعریف تو متعین نہ کی مگر آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو آئین و قانون کی اغراض سے غیر مسلم قرار دے دیا۔احمدیوں کے لئے یہ صورت کتنی بھی ناگوار کیوں نہ ہو، مگر قانونی پوزیشن یہی ہے ،کہ پاکستان کے آئین کی رو سے احمدی غیر مسلم ٹھہرا دیئے گئے ہیں۔ احمدی حضرات اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ خدا کے حضور مسلمان ٹھہریں اور روزِ حشر آنحضرت ﷺ کی امّت میں ان کا شمار ہو، آنحضرت ﷺ کی شفاعت ان کو حاصل ہو اور حضور ﷺ کا دامن انہیں میسر رہے۔ ان کی اس خواہش کو ان سے چھینا نہیں جا سکتا۔
اپوزیشن کا ریزولیوشن اور وزیرِ قانون کی تحریک، جو ہماری اس کتاب کے پہلے باب میں پس منظر کے عنوان کے تحت درج کر دی گئی ہے، ان کا جائزہ لیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے اپنی بحث کے دوران یہ کہا کہ:۔
’’ لیکن میرا فرض ہے کہ میں معزز اراکین کی توجہ اس امر کی طرف دلاؤں کہ اگر آپ شہری آبادی کے کسی حصہ کو ایک الگ مذہبی جماعت قرار دیتے ہیں،تو پھر نہ صرف ملک کا آئین بلکہ آپ کا مذہب تقاضا کرتا ہے کہ آپ ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔ ان کو اپنے مذہب کے پرچار اور عمل کا حق دیں۔‘‘(صفحہ۲۶۱)
پھر اپنی بحث کے آخری حصہ میں اس بات کا اعادہ کیا اور کہا:۔
’’اب میں دستور کے مطابق احمدیوں کی حیثیت کے بارہ میں گزارشات کروں گا، فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، اراکین جو بھی راستہ اختیار کریں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ وہ پاکستانی ہیں اور شہریت کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔ ’’ذمی‘‘ یا دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یاد رکھئے کہ پاکستان لڑ کر حاصل نہیں کیا گیا بلکہ یہ مصالحت اور رضامندی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ ایک معاہدہ تھا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ ہندوستان میں ایک مسلمان قوم تھی اور دوسری ہندو قوم، اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ذیلی قومی گروہ تھے۔ پاکستان کی تخلیق کے ساتھ مسلمان قوم بھی تقسیم ہو گئی اور اس کا ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا۔ ہم ان کوبے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے لئے قربانیاں دی تھیں۔ چنانچہ یہ قرار پایا کہ ان کے شہری اور سیاسی حقوق ہندوؤں کے حقوق کے برابر ہوں گے۔ اسی طرح ہم پاکستان میں ہندؤوں اور دیگر اقلیتوں کو مساوی شہری اور سیاسی حقوق دیں گے۔ اس بات کا ذکر آپ کو چوہدری محمدعلی کی لکھی ہوئی کتاب، Emergence of Pakistan(ایمرجینس آف پاکستان) میں ملے گا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوا تھا جسے قائدِاعظم نے خطاب کیا تھا۔ وہ ایک نہائت مشکل دور تھا۔ بے شمار مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ قربانیا ں دی گئی تھیں ۔ اس معاہدہ کے باوجود ہندو مسلمانوں کو ذبح کر رہے تھے جس کا قدرتی طور پر پاکستان میں ردِ عمل ہوا۔ قائدِاعظم نے مسلمانوں سے پر امن رہنے کی پر سوز اپیل کی۔ وہ ہمیں اپنے وعدے کا احساس دلا رہے تھے ۔ وہ حکومتِ پاکستان کو اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کی یاددہانی کرا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا تھا:۔
’’آپ اپنے مندروں میں جانے کو آزاد ہیں، اپنی مسجدوں میں جانے کو آزاد ہیں۔‘‘
اورمزید فرمایا:۔
’’ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان،مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی طور پر نہیں بلکہ سیاسی طور پر یعنی یہ کہ سب کے لئے سیاسی آزادی برابرہو گی‘‘۔(صفحہ۳۱۶۔۳۱۷)
اس طرح آئینی ترمیم سے قبل عوام اور عالمی رائے عامہ کو اطمینان دلانے کے لئے اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ احمدیوں کے شہری حقوق محفوظ ہوں گے اور ان تحفظات کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کی جا رہی ہے۔ آئین کی ترمیم کے ذریعہ مذہب میں دخل اندازی کو سنجیدہ طبقہ نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا مگر پھر بھی یہ سمجھ کر خاموشی اختیار کر لی کہ شائد روز روز کے جھگڑوں ، تشدد پسند مولویوں اور ان کے نت نئے مطالبوں سے نجات مل جائے گی۔ لیکن احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ احمدیوں کے حقوق سلب کر لینے کے مطالبات شروع ہو گئے اور بالآخر ۱۹۸۴ء میں ایک فوجی آمر نے اپنے ناجائز اقتدار کو سہارا دینے کے لئے ایک ایسا قانون نافذ کر دیا جس سے مذہبی اذیت پسندوں کی مراد بر آئی اور احمدیوں کے لئے اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کے نام سے پکارنا اور نماز کے لئے اذان دینا، قابلِ تعزیر جرم ٹھہرا اور تین سال قید با مشقت اور غیر معین جرمانہ کی سزا مقرر کر دی گئی۔ان کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی گئی اور قانون کی دفعات میں ایسی راہیں کھول دی گئیں کہ احمدیوں کے لئے اپنے مذہبی اعتقاداور ضمیرکے مطابق نہ صرف خدا کے حضور عبادات بجا لانا محال کر دیا گیا بلکہ ان کی روز مرہ زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ السلا م علیکم کہنے پر،ماہِ رمضان میں اپنے ہی گھر میں اعتکاف بیٹھنے پر، عزیزوں دوستوں کو افطار کے لیے مدعو کرنے پر، دعوتی کارڈ پر بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم لکھنے پر مقدمات قائم ہوئے اور سزائیں دی گئیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ یہ مطالبے شروع ہو گئے کہ تین سال کی سزا نا کافی ہے۔ نت نئی صورتیں احمدیوں کو اذیت پہنچانے کی پیدا کی جانے لگیں ۔اور تو اور’ ربوہ‘ کا نام بھی تبدیل کرنے کے مطالبے ہونے لگے اور بالآخر نام تبدیل کر دیا گیا۔تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ ہر ممکن حملہ احمدیوں کی مذہبی آزادی پر کیا گیا ۔ان کی تبلیغ پر پابندی لگا کر یکطرفہ زہریلا پراپیگینڈا ان کے خلاف کیا جا رہا ہے ۔ احمدیوں کے سالانہ جلسہ اور معمول کے اجتماعات پر سرکاری احکام کے تحت پابندیاں عائد کی گئیں ۔ان کے جرائد و رسائل پر لاتعداد مقدمات قائم کئے گئے۔ غرضیکہ احمدیوں کے لئے نہ مذہبی آزادی میسر رہی، نہ آزادیٔ اظہار، نہ آزادیٔ اجتماع۔
اس ارضِ پاک میں کلمہ ٔ طیّبہ مٹانے کی مہم بھی چلائی گئی اور اس غرض کے لئے انتظامیہ اور پولیس کو استعمال کیا گیا ۔ اہلِ وطن اپنے احمدی ہم وطنوں کی مذہبی آزادی سلب ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہے۔ مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ احساس بالکل ہی اٹھ گیا ہوتا۔ایسا بھی ہوا کہ ایک موقعہ پر’’ایک مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ آئی ہوئی پولیس فورس کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ (احمدی) بغیریونیفارم کے تو کسی کو کلمہ نہیں مٹانے دیں گے‘ یہ تو سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے ہیں ‘ لیکن اگر حکومت مٹائے تو احمدی کہتے ہیں کہ ہم مزاحمت نہیں کریں گے ۔ اس صورت میں اﷲ جانے اور حکومت۔ جب وہ مجسٹریٹ اتنی بات کہہ رہا تھا ‘ تو ایس ایچ او نے کہا کہ جناب یہ باتیں تو بعد میں طے ہونگی پہلے یہ بتائیں کہ مٹائے گا کون؟ اس نے کہا کہ لازماً تم ہی مٹاؤ گے، تمہیں اسی لئے ساتھ لایا ہوں ۔ اس پر ایس ایچ او نے کہا یہ میری پیٹی ہے اور یہ میرا STAR ہے جہاں مرضی لے جائیں مگر خدا کی قسم میں کلمہ نہیں مٹاؤں گااور نہ ہی میری فورس کا کوئی آدمی کلمہ مٹائے گا۔ اس لئے جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ کلمہ کون مٹائے گا اس وقت تک یہ ساری باتیں فضول ہیں کہ کس طرح مٹایا جائے۔اس قسم کا ایک واقعہ نہیں ہوا، پاکستان کے طو ل و عرض میں ایسے کئی واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ پولیس جو پاکستان میں سب سے بدنام انتظامیہ مشہور ہے اور جسے ظالم‘ سفاک‘ بے دین اور بے غیرت کہا جاتا ہے اور ہر قسم کے گندے نام دیئے جاتے ہیں کلمہ کی محبت ایسی عظیم ہے، کلمہ کی طاقت اتنی عجیب ہے کہ ایک جگہ نہیں متعدد جگہوں سے بارہا یہ اطلاعات ملی ہیں کہ پولیس نے کلمہ مٹانے سے صاف انکار کر دیاہے اور یہ کہا کہ کوئی اور آدمی پکڑو جو کلمہ مٹائے،ہم اس کے لئے تیار نہیں۔
اسی طرح بعض مجسٹریٹس کے متعلق اطلاعیں مل رہی ہیں کہ وہ بڑے ہی مغموم حال میں سر جھکا ئے ہوئے آئے ، معذرتیں کیں اور عرض کیا کہ ہم تو مجبور ہیں ، ہم حکومت کے کارندے ہیں ، ہماری خاطر کلمہ مٹا دو ۔ احمدیوں نے کہا کہ ہم تو دنیا کی کسی حکومت کی خاطر کلمہ مٹانے کو تیار نہیں ہیں، اگر تم جبراً مٹانا چاہتے ہو تو مٹاؤ ۔ پھر مجسٹریٹ نے کہا اچھا سیڑھی لاؤ تو جواب میں کہا گیا کہ ہمارے ہاتھ سیڑھی بھی لے کر نہیںآئیں گے ۔پھر انہوں نے کسی اور سے سیڑھی منگوائی اور ایک آدمی کلمہ مٹانے کے لئے اوپر چڑھایا۔ اس وقت احمدیہ ’’ مسجد‘‘ سے ایسی درد ناک چیخیں بلند ہوئیں کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کا سب کچھ برباد ہو چکا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہا۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ خود مجسٹریٹ کی بھی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں اور ابھی کلمہ پر ایک ہی ہتھوڑی پڑی تھی کہ مجسٹریٹ نے آواز دی کہ واپس آ جاؤ ہم یہ کلمہ نہیں مٹائیں گے ۔حکومت جو چاہتی ہے ہم سے سلوک کرے، ہم اس کے لئے تیار ہیں ‘‘۔ (زھق البا طل صفحہ۱۷۸تا ۱۷۹)
’’ایک اور انتہائی دردناک واقعہ جو ہمارے علم میں آیا وہ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ ہے کہ ایک موقعہ پر جب پولیس نے بھی کلمہ مٹانے سے انکار کر دیا اور گاؤں کے سب مسلمانوں نے بھی صاف انکار کر دیا کہ ہم ہر گز یہ کلمہ نہیں مٹائیں گے تو اس بدبخت مجسٹریٹ نے سوچا کہ میں ایک عیسائی کو پکڑتا ہوں کہ وہ کلمہ مٹائے۔ چنانچہ اس نے ایک عیسائی کو کہا کہ وہ کلمہ مٹائے ۔ اس نے کہا کہ میں اپنے پادری صاحب سے پوچھ لوں۔ پادری نے یہ فتویٰ دیا کہ دیکھو !اﷲسے توہمیں کوئی دشمنی نہیں ہے خدا کی وحدانیت کا تو ہم بھی اقرارکرتے ہیں اور وہ بھی۔ اس لئے کسی عیسائی کا ہاتھ لَااِلٰہ اِلَّااﷲ کو نہیں مٹائے گا ہاں جاؤ اور (نعوذباﷲ من ذٰلک ) محمدرسول اﷲصلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم کے نام کو مٹا دو۔ اس بدبخت اور لعنتی نے یہ گوارہ کر لیا کہ ہمارے آقاومولیٰ محمد مصطفی کا نام ایک عیسائی کے ہاتھ سے مٹوا دے ‘‘۔(زھق الباطل صفحہ ۱۸۰۔۱۸۱)
امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد نے متنبہ کیا:۔
’’ مگر میں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہمارے خدا کو جس طرح اپنے نام کی غیرت ہے اسی طرح ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفی کے نام کی بھی غیرت ہے۔ محمد مصطفیٰ ﷺ خود مٹنے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر خدا کے نام کو مٹنے نہیں دیتے تھے۔ہمارا خدا نہ خود مٹ سکتا ہے اور نہ محمد ؐ کے پاک نام کو کبھی مٹنے دے گا۔ اس لئے اے اہلِ پاکستان!میں تمہیں خبردار اور متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تم میں کوئی غیرت اور حیا باقی ہے تو آؤ اور اس پاک تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ کلمہ، اس کی عزت اور اس کی حرمت کو قائم کرو‘‘۔
اور فرمایا:۔
’’پس اے اہلِ پاکستان! اگر تم اپنی بقا چاہتے ہوتو اپنی جان ، اپنی روح ، اپنے کلمہ کی حفاظت کرو۔ مَیں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اس کلمہ میں جس طرح بنانے کی طاقت ہے اس طرح مٹانے کی بھی طاقت موجود ہے۔ یہ جوڑنے والا کلمہ بھی ہے اور توڑنے والا بھی مگر ان ہاتھوں کو توڑنے والا ہے جو اس کی طرف توڑنے کے لئے اٹھیں۔ اللہ تمہیں عقل دے اور تمہیں ہدایت نصیب ہو‘‘۔(زھق الباطل صفحہ ۱۸۱ ،خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ۱۹۸۵ مسجد فضل لندن)
آخر میں ہم ا ہل وطنِ اور دانشورانِ قوم سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایک کھلی کھلی نا انصافی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جائے اورتشدد، منافرت اورعدم رواداری کے دہکتے ہوئے الاؤ سے قوم کو نجات دلائی جائے۔