احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
(۳) دوسری آئینی ترمیم
سال ۱۹۷۴ء میں تاریخ کا ایک انوکھا واقع رونما ہوا یعنی پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ سے احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے غیر مسلم قراردے دیا۔ اس غرض کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ ’’خصوصی کمیٹی کی تشکیل اور اس کے دائرہ کار کے بارے میں وزیر قانون نے مندرجہ ذیل تحریکات پیش کیں‘‘۔
رولز آف بزنس کے قاعدہ نمبر۲۰۵کے تحت مندر جہ ذیل تحریک پیش کرنے کا نوٹس دیتا ہوں۔
یہ کہ ’’ایوان ایک ایسی خصوصی کمیٹی تشکیل کرے جو کہ پورے ایوان پرمشتمل ہو، اس کمیٹی میں وہ اشخاص شامل ہوں جوایوان کو خطاب کرنے کا حق رکھتے ہوں۔نیز ایوان کی کارروائی میں حصہ کا استحقاق رکھتے ہوں۔ سپیکر صاحب اس خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ہوں اور یہ کمیٹی مندرجہ ذیل امُور سرانجام دے۔
(1) دین اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پر بحث کرناجو حضرت محمدﷺ کے آخری نبیؐ ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو۔
(2)کمیٹی کی جانب سے متعین کردہ میعادکے اندر اراکین سے تجاویز،مشورے،ریزولیشن وصول کرنااوران پر غورکرنا۔
(3) مندرج بالا متنازعہ امور کے بارے میں شہادت لینے کے بعداورضروری دستاویزات پر غور کرنے کے بعدسفارشات پیش کرنا۔
کمیٹی کیلئے’’کورم‘‘چالیس افراد پر مشتمل ہوگا‘ جن میں سے دس کا تعلق ان پارٹیوں سے ہو گا جو کہ قومی اسمبلی کے اندرحکومت کی مخالف ہیںیعنی حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہوں‘‘۔
30جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بھی احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے ایک قرارداد پیش کی‘ جس کا متن درج ذیل ہے۔
’’جناب سپیکر‘‘قومی اسمبلی پاکستان ۔
محترمی !
ہم حسبِ ذیل تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں!
ہرگاہ کے یہ ایک مکمل مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعوٰی کیا، نیز ہرگاہ کہ نبی ہونے کا اسکا جھوٹا اعلان‘ بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی کوششیں، اسلام کے بڑے احکام سے غداری تھی۔
نیز ہرگاہ کے وہ سامراج کی پیداوار تھا اور اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اسلام کو جھٹلاناہے۔
نیز ہرگاہ کہ پوری امتِ مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد مذکور کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اُسے اپنا مصلح یا مذہبی رہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ نیز ہر گاہ کہ ان کے پیروکار، چاہے اُنہیں کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمانوں کے ساتھ گھل مِل کر اور اسلام کاایک فرقہ ہونے کا ایک بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
نیز ہرگاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں،جو مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی کے زیر اہتمام 6اور10اپریل 1974ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دُنیا بھر کے تمام حصّوں سے 140مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی،متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت،اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے،جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعوٰی کرتی ہے۔
اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنا چاہئے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار،انہیں کوئی بھی نام دیا جائے، مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو مؤثّر بنانے کے لئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیرمسلم اقلیت کے طور پر انکے جائز حقوق ومفادات کے تحفظ کے لئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں‘‘۔
قومی اسمبلی نے پورے ایوان کو ایک خصوصی کمیٹی کی شکل دے کر جماعت احمدیہ کے نمائندگان کو اسمبلی میں پیش ہونے کا پابند کیا۔ جماعت احمدیہ نے اپنا مؤقف ایک محضرنامہ کی شکل میں پیش کردیا جس میں ایوان کی اس حیثیت اور اختیار کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ کسی کے ایمان کے بارے میں فیصلہ کرے ۔چنانچہ محضرنامہ کے آغازہی میں لکھا کہ:۔
’’پیشتر اس کے کہ ان دونوں قراردادوں میں اُٹھائے جانے والے سوالات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے ہم نہایت ادب سے یہ گزارش کرناضروری سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ اُصولی سوال طے کیا جائے کہ کیا دُنیا کی کوئی اسمبلی بھی فی ذاتہٖ اس بات کی مجاز ہے کہ:۔
اوّل:۔ کسی شخص سے یہ بنیادی حق چھین سکے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسُوب ہو؟
دوم: ۔ یا مذہبی امُور میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کسی جماعت یا فرقے یا فرد کا کیا مذہب ہے؟‘‘
جماعت احمدیہ کامؤقف یہ تھا کہ:
’’ہم ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ہمارے نزدیک رنگ ونسل اور جغرافیائی اور قومی تقسیمات سے قطع نظر ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منُسوب ہو اور دُنیا میں کوئی انسان یا انجمن یا اسمبلی اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتے ۔ اقوام متحدہ کے دستورالعمل میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہاں ہر انسان کا یہ حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منُسوب ہو‘‘۔
چنانچہ کم وبیش دس صفحات پر پھیلے ہوئے دلائل اور وجوہات بیان کرنے کے بعد محضرنامہ میں اسمبلی سے یہ اپیل کی گئی کہ:۔
’’ پاکستان کی قومی اسمبلی ایسے معاملات پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے سے گریز کرے جن کے متعلق فیصلہ کرنا اور غور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔اقوام متحدہ کے منشور اور پاکستان کے دستور اساسی کے خلاف ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم اور ارشادات نبویؐکے بھی سراسر منافی ہے اور بُہت سی خرابیوں اور فساد کو دعوت دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے امام اور ان کے ساتھ ایک وفد پیش ہواجن پر گیارہ روز تک جرح کے رنگ میں مختلف سوالات کئے جاتے رہے۔ وہ سوالات کیا تھے، ان کے جوابات کس انداز میں دیئے گئے، ان جوابات کی علمی حیثیت اور مقام و مرتبہ اور اثر آفرینی ایک الگ مضمون ہے۔ لیکن بالآخر ۷؍ ستمبر۱۹۷۴ء کو ایک قرارداد منظور کرلی گئی اور اس کی روشنی میں آئین میں ترمیم کر دی گئی جس کی رو سے یہ قرار دیا گیا کہ:۔
جو شخص حضرت محمد ﷺ، جو کہ آخری نبی ہیں ،کے آخری نبی ہونے پرقطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے۔
ترمیم سے و اضح ہے کہ مجددین، امام مہدیؑ اور عیسیٰ ؑ کے ظہور سے متعلق اُمّت مُسْلمہ کے ۱۴۰۰ سالہ مُسلَّمہ عقیدہ سے انحراف کیا گیا ہے۔ ترمیم میں’’ قطعی اور غیر مشروط‘‘ اور ’’ کسی بھی مفہوم‘‘ کے الفاظ اس بات کی بھی غمازی کر رہے ہیں کہ احمدی آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین تو ضرورمانتے ہیں۔ ترمیم پر احمدیوں کو تو دکھ ہونا ہی تھا وطن عزیز کے سنجیدہ طبقہ نے بھی اس ترمیم پر دُکھ محسوس کیا۔البتہ تنگ نظر مُلاّؤں نے جشن منائے اور تحریک ختم نبوت نے اس ساری کارروائی کا سہرہ اپنے سر باندھا اور اس بات کو 1953ء سے لیکر 1974ء تک اپنی مساعی کا نتیجہ قرار دے کر فتح و کامرانی کے ڈنکے بجائے ۔ دوسری طرف ایک سیاسی طالع آزما نے، جسے مذہب سے کوئی سروکار نہیں تھا ، اپنے خیال میں ۹۰سالہ مسئلہ حل کر دیا اور بزعم خود ایک تیر سے کئی شکار کئے۔ ترمیم تو منظور ہو گئی، مگر کیسے منظور ہوئی ، اس بارہ میں جناب الطاف حسن قریشی مدیر اُردو ڈائجسٹ نے ’’عوامی حقوق کی جنگ ‘‘ کے زیر عنوان تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
’’اس امر واقع سے انکار کی گنجائش نہیں کہ پہلی ترمیم اور دوسری ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی اور دوسری ترمیم میں بالخصوص تمام قوائد وضوابط ایک طرف رکھ دیئے گئے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ترمیم کا تعلق قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے تھا ۔ہم نے اس خطرناک پہلو کی پہلے ہی نشان دہی کی تھی کہ وزیراعظم ایک پتھر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ ایک طرف دستور میں ترمیم کرکے عوامی جذبات پر فتح حاصل کرلی جائے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کو دستوری ترمیم عجلت میں پاس کرنے کا خوگر بنا دیا جائے۔ مسٹر بھٹو نے قادیانی مسئلے کے بارے میں آخری اقدام کے لئے ۷؍ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی مگر ایسے حالات بھی پیدا کئے جن میں آخری وقت تک کوئی بات فیصلہ کُن نظر نہ آتی تھی۔ قومی اسمبلی میں کئی روز سے قادیانی مسئلے کے سلسلے میں خفیہ کارروائی ہو رہی تھی اور قادیانی جماعت کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیاتھا۔ یہ بحث ۶؍ستمبر تک چلتی رہی اور کچھ طے نہ پایاکہ دستوری ترمیم کے الفاظ کیا ہوں گے۔ ۷؍ستمبرکو چار بجے شام تک ایک غیر سرکاری مسودے پر مختلف پارلیمانی قائدین کے مابین گفت و شنید ہوتی رہی۔ ہونا یہ چاہئے تھاکہ خفیہ کارروائی کے نتیجہ میں ایک بل تیار ہوتا اور اس پر قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں غور ہوتا اور اس کے بعد اسے بحث و تمحیص کیلئے ایوان میں پیش کر دیا جاتا۔ جناب بھٹو اس پورے طریق کار کو ختم کر دینے کے درپے تھے تاکہ آئندہ کے لئے ایک مثال قائم ہو جائے۔ چنانچہ وہ آخری وقت تک طرح دیتے رہے اور پانچ بجے کے قریب بل پڑھ کر سنایاگیااور ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسی رات سینٹ کا اجلاس طلب ہوا اور اس ایوان میں بھی کچھ زیادہ وقت نہ لگا۔ اس رواروی اور گہماگہمی میں کچھ بھی غوروفکر نہ ہوااور دُوسری آئینی ترمیم میں چند بنیادی خامیاں رہ گیئں جن پر اب صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے‘‘۔(اُردو ڈائجسٹ لاہور۔دسمبرء ۱۹۷۵ء صفحہ۵۷)
تحریک ختم نبوت والوں نے جشن تو خوب منایا اور دُنیا کو یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ جماعت احمدیہ عقائد کے اعتبار سے مسلمان نہیں اور اس بات پر گویا قومی اسمبلی نے مہر ثبت کر دی ہے۔ مگر مجلس تحفظ ختمِ نبوت اور مولوی حضرات کو اپنی کامیابی پر دل سے یقین کبھی نہیں آیا اور وہ ہمیشہ ہی اپنے دل کو تسلی دلانے کیلئے کوئی نہ کوئی راہ نکالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔پہلے تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ایک صاحب، فقیر اﷲوسایاکی مرتبہ ایک کتاب’’قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ‘‘ کے نام سے شائع کی گئی ، جسے حضوری باغ روڈ ملتان سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کیا، اور اب اسی کارروائی کو ’’پارلیمنٹ میں قادیانی شکست‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔