احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
قطع وبرید اور تحریف کا شاہکار
زیرِ نظر کتاب کی اشاعت اوّل جولائی ۲۰۰۰ء ظاہر کی گئی ہے مگر اللہ وسایا صاحب کی طرف سے رقم کردہ دیباچہ کے آخر میں اس کتاب کو ’’جدید اور خوبصورت ایڈیشن‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ جس سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ کتاب کی اشاعتِ اوّل نہیں ہے۔امر واقع یہی ہے کہ اس سے پہلے۱۹۹۴ ء میں اللہ وسایا صاحب کی طرف سے ایک کتاب ’’قومی اسمبلی میں قادیانی مقدمہ ۱۳ روزہ کارروائی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ اس وقت اﷲ وسایا صاحب نے جو مقدمہ تحریر کیا اس میںیہ لکھا:۔
’’اس وقت اسمبلی کے اراکین مفکر الاسلام مولانا مفتی محمود ، شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اور دوسرے اکابر سے اسمبلی کی کارروائی کے متعلق زبانی اور تحریری جو معلومات حاصل ہوتی رہیں۔ ممبران اسمبلی سے سوالات و جوابات کی تفصیل قلمبند ہوتی رہی۔ مولانا محمد شریف جالندھری اور مولانا محمد حیات فاتح قادیان کی یادداشتوں سمیت جو کچھ بن پڑا حاضر خدمت ہے۔‘‘
گویا اس بات کے تو اللہ وسایا صاحب خود اقبالی ہیں کہ قومی اسمبلی کی تیرہ دن کی جو مبینہ کارروائی ا نہوں نے شائع کی تھی اسے اسمبلی کے ریکارڈ سے مرتب نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ بھان متی کا کنبہ انہوں نے زبانی اور تحریری معلومات اور مختلف اراکین سے حاصل کردہ یادداشتوں سے جوڑا تھا۔ حالانکہ اسمبلی کے قواعد کی رو سے موصوف کے اکابرین اللہ وسایا صاحب کو یہ معلومات مہیا کرنے کے مجاز ہی نہیں تھے۔ لہذا اللہ وسایا صاحب نے یا تو ان مرحوم اکابرین پر قواعد کی خلاف ورزی کا داغ لگایا ،یا خود جھوٹ کے مرتکب ہوئے ۔
۱۹۹۴ ء کی اشاعت کے مقدمہ میں اﷲوسایا صاحب نے مزیدلکھا:
’’میں یہ تو عرض کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں کہ تحریک ختم نبوت 74کی یہ دوسری جلد قومی اسمبلی کی مکمل کارروائی پر مشتمل ہے ‘تاہم اگر کسی دن قدرت کو منظور ہوااور یہ کارروائی حکومت نے شائع کر دی تو انشاء اﷲالعزیز ہمیں اپنی دیانت پر اتنا اعتماد ہے کہ آپ کو سوائے تفصیل اور اجمال کے اور کوئی فرق نظر نہیں آئیگا۔‘‘
یہ ان کا دوسرا 5 اقرار تھا کہ کارروائی مکمل نہیں بلکہ بقول انکے صرف ’’اجمال‘‘ ہے ۔ حالانکہ در اصل جسے وہ اجمال قرار دے رہے تھے وہ اجمال نہیں قطع و برید اور تحریف کا شاہکار تھا۔
اب اسی کارروائی کو، جسے’’ اجمال‘‘ کے پردے میں شائع کیا گیا تھا بڑی ڈھٹائی سے’’ مکمل روداد‘‘کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے۔چنانچہ زیر نظر کتاب میں اللہ وسایا کا یہ دعویٰ ہے کہ:
’’آج سے سالہا سال پہلے جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے بارہ میں ایک کیس تھا۔ اس کیس کی پیروی کے لئے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے صدر پاکستان جناب محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم سے وفد بھجوانے کی درخواست کی۔ پاکستانی حکومت نے مولانا تقی عثمانی‘ جناب محمد افضل چیمہ‘ سید ریاض الحسن گیلانی‘ مولانا مفتی زین العابدین ‘ جناب پروفیسر غازی محمود احمد کو افریقہ بھجوا دیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ختم نبوت‘ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر اور عبدالرحمن یعقوب باوا کیس کی پیروی کیلئے افریقہ گئے۔ قومی اسمبلی میں قادیانی اور لاہوری مرزائیوں پر جو جرح ہوئی تھی‘ جناب جنرل ضیاء الحق صاحب نے اپنے خصوصی آرڈر سے پاکستانی وفد کو اس کی’’مکمل کاپی ‘‘ فراہم کر دی۔ حضرت مولانا مفتی محمود مرحوم‘ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم‘ مولانا عبدالحق صاحب مرحوم کی یادداشتوں اور ان کو بحیثیت ایک ممبر قومی اسمبلی جو کارروائی کی کاپیاں ملتی تھیں اس مواد سے زیر نظر کتاب کو جنوبی افریقہ بھیجی جانے والی اصل کارروائی کے ساتھ ملا کر کتاب کو فائنل کر دیا گیا ہے۔‘‘
گویا اب بھی موصوف واضح طور پر یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ اصل کارروائی کا مکمل ریکارڈ ہے۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’یادداشتوں کو‘‘ ضیاء الحق صاحب کی فراہم کردہ ’’مکمل کاپی‘‘ اورجنوبی افریقہ بھیجی جانے والی ’’اصل کارروائی کے ساتھ ملا کر کتاب کو فائنل کر دیا گیا ہے‘‘۔ مگر یہ بات بھی جھوٹ سے خالی نہیں۔
جنوبی افریقہ کی سپریم کورٹ میں تین مقدمات زیر سماعت آئے جن کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔ مقدمہ نمبر: 10058/82
عنوان: اسمعیل پیک بنام مسلم جوڈیشل کونسل ۔
عدالت: سپریم کورٹ جنوبی افریقہ
Cape of Good Hope
پراونشل ڈویژن
۲۔ مقدمہ نمبر: 1438/86
عنوان: محمد عباس جسیم بنام شیخ ناظم محمد وغیرہ
عدالت: سپریم کورٹ جنوبی افریقہ
Cape of Good Hope
پراونشل ڈویژن
۳۔ مقدمہ نمبر: 201/92
عنوان: شیخ ناظم محمدوغیرہ بنام محمد عباس جسیم
عدالت: سپریم کورٹ جنوبی افریقہ اپیل ڈویژن
اللہ وسایا صاحب کا کہنا یہ ہے کہ آج سے سالہا سال پہلے جنرل ضیاء الحق نے اپنے خصوصی آرڈر سے پاکستانی وفد کو اس کارروائی کی مکمل کاپی فراہم کر دی۔ جناب اللہ وسایا نہ تو پاکستانی وفد میں شریک تھے اورنہ ہی ان علماء میں ان کا نام دکھائی دیتا ہے جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے جنوبی افریقہ گئے اور نہ ہی وہ یہ بتاتے ہیں کہ وفد کے کس رکن سے انہوں نے جنوبی افریقہ بھیجی جانے والی کارروائی حاصل کی۔
جنوبی افریقہ والے مقدمات 1994 ء سے بہت پہلے سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستانی وفد بہت پہلے جنوبی افریقہ جا چکا تھا لہذا اگر جنوبی افریقہ والے مقدمہ کی پیروی کے دوران کارروائی کی نقل حاصل ہو چکی تھی تو اللہ وسایا صاحب نے اس وقت یہ ذکر کیوں نہ کیا؟اس وقت’’ مکمل ‘‘روداد 5 دستیاب تھی تو ’’اجمال ‘‘کا نقاب اوڑھنے کی کیا ضرورت
تھی ؟اور ضیاء الحق صاحب نے کس اختیار کے تحت چپکے چپکے اسمبلی کی کارروائی ان کے حوالہ کر دی؟ اور کی بھی یا نہیں اس کی سند کیا ہے؟
وزیر قانون کا ریزولیوشن اور حزب اختلاف کی تحریک ۳۰ جون ۱۹۷۴ ء کو پیش کئے گئے تھے۔ اﷲ وسایا صاحب نے کارروائی کا آغاز’’ ۵؍اگست ۱۹۷۴ء کی کارروائی ‘‘ سے کیا ہے۔ ۵؍ اگست سے تو جر ح کا آغاز ہوا ۔ ۳۰؍ جون اور ۵؍ اگست کے درمیانی عرصہ کی کارروائی بھی غائب ہے ۔ وہ بیان جس پر جرح کی گئی وہ بھی غائب ہے۔ الغرض یہ بات تو واضح ہے کہ اﷲ وسایا کی شائع کردہ کتاب قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی’’ مکمل کارروائی‘‘ ہرگز نہیں ۔ اسے مکمل کارروائی قرار دینا جھوٹ اور تلبیس کے سوا کچھ نہیں۔
۱۳ دن کی کارروائی کی جو نامکمل رپورٹ ممبران اسمبلی کو مہیا کی جاتی رہی اس کا حجم بھی دو اڑھائی ہزار صفحات سے کم نہیں تھا۔ جرح کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحب آیاتِ قرآنی‘ احادیث اور عربی حوالہ جات پڑھتے رہے جو کارروائی قلمبند کرنے والا عملہ قلمبند نہیں کر پاتا تھا اور کارروائی میں وہ حصے درج نہیں ہوتے تھے۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے طویل اقتباسات اسمبلی میں پڑھ کر سنائے تھے جن میں سے کسی کا بھی اللہ وسایا کی شائع کردہ کارروائی میں پتہ نہیں ملتا۔ بسااوقات سوالات انگریزی زبان میں ہوتے تھے اور وہ انگریزی ہی میں درج تھے ان کا کوئی ذکر اس کارروائی میں نہیں ملتا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے بعض سوالات کے جواب میں تحریری بیان بھی داخل کئے تھے وہ تحریری بیان کیا تھے، وہ کہاں ہیں؟ ان کا بھی یہاں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ وہ تفصیل سے اپنی بات سمجھانے کے لئے بیان دیتے رہے اور اراکین اسمبلی ان کے جوابات سے اتنے متأثر تھے کہ جناب مفتی محمود کی نیند اڑ گئی۔ اس بارہ میں مفتی محمود صاحب کا شائع شدہ اقرار موجود ہے۔
قومی اسمبلی کے روبرو کارروائی کے دوران اپنے محضر نامہ میں بھی اور جرح کے دوران سوالات کے جواب میں بھی امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے دیوبندی مسلک کے بزرگ مولانا قاسم نانوتوی، بریلوی مسلک کے بزرگ مولانا احمد رضا خان بریلوی، اہلِ حدیث مسلک کے بزرگ نواب صدیق الحسن خان صاحب کے
حوالہ جات اور دیگر بزرگان کے طویل حوالہ جات پیش کئے اور پڑھ کر سنائے تھے، جن کا ان دنوں قومی اسمبلی کے اراکین میں بڑا چرچا تھا ۔ اﷲ وسایا کی شائع کردہ مبینہ کارروائی میں ان حوالہ جات کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اگر واقعی ان کے پاس مکمل کارروائی موجود ہے تو ان حصوں کو شائع نہ کرنا صریح بد دیانتی ہے۔ آخر قومی اسمبلی میں بلانے کا مبیّنہ مقصد یہی تھا کہ جماعت احمدیہ کو اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔ جو وضاحتیں دی گئیں اگر وہ غائب کر دی جائیں تو سمجھا یہی جائے گا کہ ان وضاحتوں سے احمدیوں کے خلاف گمراہ کن پراپیگینڈے کا تار پود بکھر کر رہ گیا تھا۔ ورنہ وہ وضاحتیں جو بقول انکے مکمل کارروائی میں ان کے پاس موجود ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں شائع کیوں نہیں کیں۔ اور اگر مکمل ریکارڈ موجود نہیں ہے تو اپنی کتاب کو مکمل ریکارڈ کا نام کیوں دیا؟ ختمِ نبوت کے مقدس نام پر دین کی خدمت کے لئے نکلے ہیں تو یہ دھوکہ دہی اور فریب کیوں؟
بد قسمتی سے وطنِ عزیز ان دنوں مذہبی منافرت اور عدمِ رواداری کی گرفت میں ہے۔ رواداری ،برداشت اور صبروتحمّل عنقاء ہیں۔ منافرت کی فتنہ سامانیاں آزاد اور بے لگام ہیں ۔ معقولیت اور اعتدال پسندی تشدد کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ احمدیوں پر پابندیاں، مقدمات کی بھرمار ، تبلیغ پر پابندی، اخبارات و جرائد پر پابندی، اﷲ وسایا صاحب سیاسی اقتدار کی ساز باز سے ان سب زنجیروں کا بندوبست کرکے احمدیوں کو للکارتے پھرتے ہیں۔ اگر واقعی خود پر بھروسہ ہے تو احمدیوں کے ساتھ مل کر یہ مطالبہ کریں کہ احمدیوں کے جرائد اور رسائل پر پابندیاں ختم کی جائیں اورتبلیغ پر پابندی ختم کی جائے توخوب کھل جائے گاکہ کس کے نصیب میں شکست اور کس کے مقدر میں آسمان نے فتح لکھ دی ہے۔اس طرح کی جعلسازی اور مفسدانہ کارروائیوں سے حق نہ کبھی چُھپا ہے اور نہ کبھی چُھپے گا۔