احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں
(۶) چاراہم سوال
پہلا سوال:
اﷲوسایاصاحب کی مرتبہ کتاب پارلیمنٹ میں قادیانی شکست میں صفحہ۳۳پر ۵؍اگست ۱۹۷۴ء کی کارروائی سے آغاز کیا گیاہے اور اس کے مطابق حضرت امام جماعت پر اس دن جرح کا آغاز ہوا ۔ سب جانتے ہیں کہ گواہ پر جرح اسکے بیان پر کی جاتی ہے۔ جرح سے پہلے حضرت امام جماعت احمدیہ نے کوئی بیان بھی دیا ہو گا اٹارنی جنر ل کے بیان اور خود موصوف کی کتاب سے ظاہر ہے کہ تحریری بیان بھی داخل کیا گیا اوراسے حلف لینے کے بعد پڑھ کر سنایا بھی گیا۔ اس بیان کا ایک دوسری جگہ اٹارنی جنرل نے محضر نامے کے طور پر بھی ذکر کیاہے۔
قانونِ شہادت کے مطابق گواہ کا بنیادی اظہار اور جرح دونوں مل کر گواہ کی شہادت کہلاتے ہیں، لہٰذا اﷲوسایا موصوف سے ہمارا پہلا سوال تو یہ ہے کہ جرح کی کارروائی تحریر کرنے سے پہلے انہوں نے وہ ابتدائی، بنیادی، مفصل بیان کیوں درج نہ کیا؟ موصوف کے وہ بزرگان اور قائدین جنہوں نے اتنی محنت سے بقول اﷲوسایاصاحب زبانی اور تحریری یادداشتیں تیار کررکھی تھیں، کیا ان کے پاس یہ محضرنامہ موجود نہیں تھا؟ اس محضرنامے کی نقول تو تمام ممبران اسمبلی کو مہیا کی گئی تھیں ۔ اس کی تیاری کے بارے میں تو وہ مشکلات اسمبلی کی طرف سے درپیش نہیں تھیں جن کا اﷲوسایاکی شائع کردہ کارروائی کے دوران جگہ جگہ ذکر ملتاہے۔ پوری کارروائی میں کسی ایک ممبر نے بھی یہ سوال نہیں اُٹھایاکہ انہیں جماعت احمدیہ کے محضرنامے کی نقل نہیں ملی۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اﷲوسایا نے اس بنیادی مفصّل بیان کو چھوڑ کر جرح سے اپنی کتاب کا آغاز کیا؟ کیا ان کے بزرگان نے یہ محضرنامہ ان سے چھپا لیا اور ان کو اسکی ہوا تک نہیں لگنے دی۔ یا پھر یہ کارستانی اﷲوسایا کی اپنی ہے کہ وہ اس کو گول کر گئے اور خود یوں نقاب پوش ہوگئے کہ گویا یہ بھی ’’اجمال‘‘ ہی کا حصہ ہے۔ پورے بیان کو حذف کر دینا تو اجمال نہیں ہوتا۔ تو پھر آخرکیوں یہ کارروائی کی گئی؟
کیا صرف اس لئے کہ کہیں جماعت احمدیہ کا مؤقف ان کے اپنے الفاظ میں، عوام کے پاس نہ پہنچے اور کوئی بالغ نظر منصف مزاج قاری ان سے یہ نہ پوچھ بیٹھے کہ کارروائی کیا تھی اور نتیجہ کیا نکلا؟
یا اس لئے کہ اپنے بیان میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے واضح طور پر ایسے سوال اٹھائے تھے اور نمایاں طور پر تنقیحات وضع کرکے اسمبلی کو توجہ دلائی تھی کہ کوئی بھی فیصلہ ان تنقیحات کے جواب کے بغیرممکن نہیں۔ یا اس لئے کہ اﷲوسایاصاحب میں قوم کو یہ بتانے کا حوصلہ نہیں کہ ان حضرات کے پاس ان تنقیحات کا کوئی جواب نہیں اورانہوں نے ان تنقیحات کو نظر انداز کر کے خدا اور اس کے رسول کی نا فرمانی کی ہے۔
دوسرا سوال:
خصوصی کمیٹی کے سامنے بنیادی سوال یہ تھا کہ:۔
’’دینِ اسلام کے اندر ایسے شخص کی حیثیت یا حقیقت پربحث کرنا جو حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو ‘‘
عقیدۂِ ختمِ نبوت اورشانِ خاتم النبیینﷺ کے بارہ میں امام جماعت احمدیہ نے اپنے مفصّل اور مدلّل تحریری بیان میں کہا تھا کہ:۔
’’جماعت احمدیہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ اصولی اور بنیادی طور پر ختمِ نبوت کی ان تمام تفاسیر کو بدل و جان تسلیم کرتی ہے جن سے آنحضرت ﷺکی ارفع اور منفرد شان دوبالا ہوتی ہے اورجو بزرگانِ اُمّت نے گزشتہ تیرہ صدیوںمیں وقتاًفوقتاًبیان فرمائیں‘‘۔
اور اسکے ساتھ ضمیمہ کے طور پر تیرہ صدیوں کے بزرگانِ امت کے اسمائِ گرامی اور حوالہ جات بھی پیش کئے تھے۔
اﷲوسایا صاحب سے ہمارادوسرا سوال یہ ہے کہ موصوف کی شائع کردہ کارروائی میں کوئی ایک سوال بھی ایسا کیوں نہیں جس میں اس بارے میں جرح کی گئی ہو۔ اگر اس بیان پر جرح نہیں کی گئی تو قانون کے مطابق سمجھا جائے گا کہ بیان تسلیم کر لیا گیا ہے۔
کیا اس لئے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ حوالہ جات جن بزرگان اور صلحائے امت سے منسوب تھے وہ تمام نام اتنے معزز اور محترم ہیں کہ ان کے فرمودات رد نہیں کئے جا سکتے۔ اور مولوی حضرات میں سے کسی کی یہ مجال نہیں کہ ان بزرگوں کی حیثیت متعین کرکے انہیں خارج از دائرہ اسلام قرار دے۔
تیسراسوال:
موصوف کی کتاب’’ تحریکِ ختمِ نبوت جلد دوئم‘‘ کے باب چہارم میں جو مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کی کارروائیاں درج کی گئی ہیں اس میں۱۹۵۶ء کی مرکزی مجلس کے اجلاس مورخہ۱۲؍فروری کی کارروائی میں جو قرارداد منظورکی گئی اس میں مطالبہ یہ تھاکہ۔
’’یہ اجلاس مجلس دستور ساز سے پر زور مطالبہ کرتاہے کہ وہ اپنے اس اعلان کی روشنی میں مسلمان کی تعریف کرے۔‘‘
اﷲوسایا صاحب سے ہمارا تیسرا سوال یہ ہے کہ۳۰؍جون ۱۹۷۴ء کو جو قرارداد حزب اختلاف کی طرف سے ۳۷؍افراد کے دستخطوں سے پیش کی گئی اس میں آئین میں مسلمان کی تعریف کرنے کا مطالبہ کیوں ترک کر دیا گیا؟
کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس بارے میں امام جماعت احمدیہ نے جو سات عدد تنقیحات وضع فرما دی تھیں ان کی روشنی میں ایسا کرنا ناممکن تھا اورانہوں نے آپ کے لئے کوئی راہِ فرار نہیں چھوڑی تھی۔ اوریہ ہو نہیں سکتاتھا کہ ان سوالات پر کوئی غور کرے اور مسلمان کی تعریف کے بارہ میں وہ رویہ نہ اپنائے جو جماعت احمدیہ نے تحریری بیان میں اختیار کیا،جو یہ تھا:۔
’’دنیا بھرمیں یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی نوع معین کرنے سے قبل اس نوع کی جامع و مانع تعریف کردی جاتی ہے جو ایک کسوٹی کا کام دیتی ہے اور جب تک وہ تعریف قائم رہے اِس بات کا فیصلہ آسان ہو جاتاہے کہ کوئی فرد یا گروہ اس نوع میں داخل شمار کیا جاسکتاہے یا نہیں ۔ اس لحاظ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اس مسئلے پر مزید غور سے قبل مسلمان کی ایک جامع ومانع متّفق علیہ تعریف کی جائے جس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے متّفق ہوں بلکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اس تعریف پر اتفاق ہو ۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا ضروری ہوگا۔
(الف)۔۔۔کیا کتاب اﷲ یا آنحضرتﷺ سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرتؐ کے زمانے میں بِلا استثناء کیا گیا ہو؟ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟
(ب)۔۔۔ کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اﷲاور آنحضرتؐ نے فرمائی ہو اور خود آنحضورؐ کے زمانہ ٔمبارک میں اس کااطلاق ثابت ہو، کسی زمانہ میں بھی کوئی اور تعریف کرنا کسی کے لئے جائز قرار دیا جاسکتاہے؟
(ج)۔۔۔ مذکورہ بالا تعریف کے علاوہ مختلف زمانوں میں مختلف علماء یا فرقوں کی طرف سے اگر مسلمان کی کچھ دوسری تعریفات کی گئی ہیں تو وہ کونسی ہیں؟ اوراوّل الذکرشق میں بیان کردہ تعریف کے مقابل پر ان کی کیاشرعی حیثیت ہو گی؟
(د)۔۔۔ حضرت ابو بکر صّدیق ؓ کے زمانہ میں فتنۂ ارتداد کے وقت کیا حضرت ابوبکر صّدیق ؓ یا آپ ؐ کے صحابہؓ نے یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ آنحضورؐ کے زمانے میں رائج شدہ تعریف میں کوئی ترمیم کریں۔
(ر)۔۔۔ کیا زمانہ ٔ نبوی ؐ یا زمانہ ٔ خلافت راشدہ میں کوئی ایسی مثال نظر آتی ہے کہ کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اﷲ کے اقرار کے اور دیگر چار ارکانِ اسلام یعنی نماز ‘ زکوٰۃ ‘ روزہ اور حج پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو؟
(س)۔۔۔ اگر اس بات کی اجازت ہے کہ پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تشریح کرنے کی وجہ سے جو بعض دیگر فرقوں کے علماء کو قابلِ قبول نہ ہو، دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے جو بعض دیگر فرقوں کے نزدیک اسلام کے منافی ہے تو ایسی تشریحات اور عقائدکی تعیین بھی ضروری ہوگی تاکہ مسلمان کی مثبت تعریف میں یہ شق داخل کر دی جائے کہ پانچ ارکانِ اسلام کے باوجود اگر کسی فرقہ کے عقائد میں یہ یہ اُمور داخل ہوں تو وہ دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔‘‘
اس کے بعدمحضر نامہ میں پر زور اپیل کی گئی تھی کہ:۔
’’ اگر حقیقتاً عقل اور انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام میں جماعت احمدیہ کی حیثیت پر غور فرمانا مقصود ہے یا اسلام میں آیت خاتم النبییّن کی کسی تشریح کے قائل ہونے والے کسی فرد یا فرقہ کی حیثیت کا تعین کرنا مقصود ہے تو پھر ایسا پیمانہ تجویزکیا جائے جس میں ہر منافیٔ اسلام عقیدہ رکھنے والے کے کفر کو ماپا جاسکتاہو اور اس پیمانہ میں جماعت احمدیہ کے لئے بہرحال کوئی گنجائش نہیں ‘‘۔
اورمزید یہ کہا گیا تھا کہ:۔
’’جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہے جو قرآن عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت ﷺ سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اُس پر عمل ثابت ہو ۔ اس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرا بیوں سے مبرانہیں ہوگی بالخصوص بعد کے زمانو ں (جبکہ اسلام بٹتے بٹتے بہتّرفرقوں میں تقسیم ہو گیا ) میں کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی ردّ کرنے کے قابل ہیں کہ اُن میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رُو سے غیر مسلم قراردیا جائے گا اور اس دلدل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا ۔ ‘‘
کیا یہ درست نہیں کہ ان تنقیحات اور بنیادی سوالات کا کوئی جواب بَن نہیں پڑا تو ’’مسلمان‘‘ کی تعریف کے مطالبے سے ہی دستبردار ہو گئے؟
چوتھا سوال:
ہمارا چوتھا سوال یہ ہے کہ اﷲوسایا صاحب کی کتاب میں مسلمان کی تعریف کے بارے میں ان تنقیحات پر کوئی بحث یا جرح کیوں نہیں؟ کیاان پر جرح کی ہی نہیں گئی؟ اگر جرح کی گئی تو اسے شائع کیوں نہیں کیا گیا؟
یہ ہو نہیں سکتا کہ ان پر جرح کر کے ،بقول اﷲوسایا صاحب، مرزا ناصر احمد صاحب کو’’چاروں شانے چت‘‘ گرایا ہو اوراﷲ وسایا صاحب یہ کارنامہ عوام کے سامنے نہ لائیں۔
انہوں نے راہِ فرار اختیار کر کے خدا اور اس کے رسول کے ارشادات سے رو گردانی کی ہے۔
اس سوال پر جماعت احمدیہ کے محضر نامہ کا متعلقہ حصہ اہلِ نظر کے لئے ایک پڑھنے کی چیز ہے۔