احمدیہ مسئلہ قومی اسمبلی میں

(۸) کہ دانم مشکلاتِ لَااِلٰہ

بات واضح ہو چکی ہے مگر اٹارنی جنر ل ’’کلمۃالفصل ‘‘کے حوالہ سے پھر اسی مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے کہتے ہیں:۔

’’ اس موقع پر میں نے مرزا ناصر احمد سے پوچھاکہ ’’حقیقی مسلمان‘‘سے کیامراد ہے؟اس نے اپنے محضر نامے سے بھی سچے مسلمان کی تعریف میں کافی زیادہ تفصیلات بیان کی ہیں۔مرزا ناصر احمد نے کہا کہ’’حقیقی مسلمان‘‘کئی ایک ہیں۔میں نے پوچھا:کیا آج بھی ایسے (حقیقی مسلمان)موجود ہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی مشکل تعریف ہے۔مسلمان کی تعریف میں مرزاغلام احمد کو نبی ماننے یانہ ماننے کاکوئی ذکر نہیں۔اس لئے یہ خاصی مشکل تعریف ہے‘‘ ۔

مرزا ناصر احمد اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔

مرزا ناصر احمد:محضرنامے میں اس کا جواب صفحہ ۲۳ پر ہے۔

اٹارنی جنرل : ایک پٹھان ایک مولوی کے پاس گیا۔ میں بھی پٹھان ہوں۔ اس نے مولوی سے پوچھا کہ جنت میں جانے کا کیا طریقہ ہے۔ اس نے پہلے تو اسے کہا کہ جنت میں جانے کے لئے نمازیں پڑھیں،روزے رکھیں،اﷲاور اس کے رسول پر ایمان لائیں ۔ تو اس نے کہا کہ یہ سب کچھ کیا تو جنت میں جا سکوں گا،تو مولوی نے کہا کہ پل صراط ہوگا، جو تلوارسے تیز ، بال سے باریک ہے۔ پٹھان نے کہا آپ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ جنت میں جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ میں نے مولوی ا ورپٹھان کی بات کی ہے،آپ نے حقیقی مسلمان کی Definitionدی ہے، آپ کو دنیامیں کتنے مسلمان نظر آتے ہیں ۔‘‘

جس مشکل تعریف کا ذکر اٹارنی جنرل کر رہے ہیں وہ محضر نامہ سمیت اﷲ وسایا صاحب نے کارروائی سے غائب کردی ہے۔وہ تعریف اٹارنی جنرل نے اپنے خطاب میں بانی جماعت احمدیہ کے الفاظ میں بیان نہیں کی۔ اس کاایک حصہ ہم پیش کرتے ہیں۔

’’ اس تقریر سے معلوم ہواکہ اِسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی اِنسان کبھی اِس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوّتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخُدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا جب اُس کی غافلانہ زندگی پرایک سخت اِنقلاب وارد ہو کر اُسکے نفسِ ا مّارہ کا نقش ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مٹ جائے اور پھر اِس موت کے بعد مُحسن للہ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو۔

خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اُس کی عزت وجلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلت قبول کرنے کے لئے مُستعد ہواور اُس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں مَوتوں کو قبول کرنے کے لئے طیارہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اُس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھاجانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھَسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوّتوں کے ساتھ بھاگناچاہے۔ غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیّات چھوڑ دے اور اس کے پیوَند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کیلئے سب نفسانی تعلّقات توڑ دے۔اور خلق کی خدمت اِس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اورطُرق کی راہ سے قسّامِ اَزل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے اِن تمام امور میں محض للہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچا وے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوّت سے مدد دے اور اُن کی دنیاوآخرت دونوں کی اِصلاح کے لئے زور لگاوے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سو یہ عظیم الشّان لِلّہی طاعت وخدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حنفیّتِ تامّہ سے بھری ہوئی ہے یہی اِسلام اور اِسلام کی حقیقت اور اِسلام کا لُبّ لُباب ہے جو نفس اور خلق اور ہَوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتاہے‘‘۔(آئینہ کمالاتِ اِسلام،روحانی خزائن، جلد ۵، مطبوعہ نظارت اصلاح و ارشاد ، ربوہ صفحہ۶۰۔۶۲)

اب اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بہت مشکل تعریف نظر آتی ہے۔یحیےٰ بختیار، خود کو علامہ اقبال کا شیدائی کہتے تھے ،اُردو ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں اور عدالتی کارروائی میں انگریزی بحث کے دوران بھی بسا اوقات علامہ کے شعر پڑھتے سنا گیا ہے۔ انکو علّامہ کی زبان میں ہی سنادوں ۔ ؂

 

اگر گوئم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لااِلٰہ

اصل بات تو یہی ہے کہ کوئی اسلام کی حقیقت کو سمجھے اور خود پر غور کرے تو لرزہ ہی طاری ہو جاتا ہے ۔ علّامہ نے یہ بھی تو کہا۔ ؂

 

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اٹارنی جنرل صاحب بلاوجہ خشک مُلّاؤں کی راہ پر چل نکلے ورنہ علامہ اقبال موصوف تو مُلّاں کے مذہب کے بارے میں یہ فرما چکے ہیں ؂

 

یا رفعت افلاک میں تکبیر مسلسل

یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات

وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست

یہ مذہب مُلّا و نباتات و جمادات

اور اقبال تو حقیقی مسلمان کے بارے میں کہتے ہیں :’’ہمسایہ جبریل امیں بندۂِ مومن‘‘۔

یہ ہمسایہ جبریل امین ہونا آسان بات تو نہیں مگر حقیقی اسلام تو یہی ہے ۔ حقیقی اسلام کے بارے میں امام

جماعت احمدیہ کے بیان پر جناب اٹارنی جنرل کی طنزیہ حیرت خود باعث حیرت ہے۔

جناب اٹارنی جنرل صاحب کو تو نہ مسلمان کی آسان اور عام فہم تعریف پسند آئی ہے جس کی رُو سے ہر وہ شخص جو زبانی اقرار کرکے خود کو مسلمان کہے اسے قبول کر لیا جائے اور جس کی تعریف آنحضرتﷺ نے خود بیان کردی۔ یہ آسان تعریف ایک معاشرتی اور سیاسی تعریف ہے اس میں حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا، ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنایا یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ظاہر پہ بنا کرکے معاشرتی شناخت کے لئے یہ مسلمان کی تعریف کی جارہی ہے اور حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ یہی وہ مسلمان ہے جس کے لئے اﷲاور اسکے رسول کا ذمّہ ہے،پس تم اﷲ کے دیئے ہوئے ذمہ میں اسکے ساتھ دغابازی نہ کرو۔مگر اٹارنی جنرل صاحب کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ایک آدمی حقیقی معنوں میں مسلمان نہ ہونے کے باوجود کیسے مسلمان کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ موصوف کو علامہ اقبال کے الفاظ میں ’’کفر کم تر از کفر‘‘ کی اصطلاح دستیاب ہوگئی۔ یہی بات امام جماعت احمدیہ فرما رہے تھے کہ بعض معنوں میں کفریہ اعتقاد یا اعمال سرزدہو جانے پر اسلام کی حقیقت سے دور جا پڑتا ہے مگرچونکہ وہ زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے اس لئے اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔

جماعت احمدیہ نے اپنے تحریری بیان میںیہ مؤقف بیان کیا ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اور آئینی تعریف اختیار کی جائے جوحضرت خاتم الانبیا محمد مصطفیﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمائی اور جو اسلامی مملکت کے لئے ایک شاندار چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے ۔

جماعت احمدیہ نے اپنے تحریری بیان میں کہا :

’’ہمارے مقدس آقا ﷺ کایہ احسانِ عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ آنحضورؐ نے نہایت جامع و مانع الفاظ میں عالمِ اِسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بنیاد رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ اِس بنیاد کو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ اُمتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرا رہے گا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو سکے گا۔قرونِ اُولیٰ کے بعد گزشتہ چودہ صدیوں میں مختلف زمانوں میں مختلف علماء نے اپنی من گھڑت تعریفوں کی رُو سے جو فتاویٰ صادر فرمائے ہیں ان سے ایسی بھیانک صُورتِ حال پَیدا ہوئی ہے کہ کسی صدی کے بزرگان دین ، علمائے کرام ، صوفیاء اور اولیاء اﷲ کا اسلام بھی ا ن تعریفوں کی رُو سے بچ نہیں سکا اور کوئی ایک فرقہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جس کا کفر بعض دیگر فرقوں کے نزدیک مسلّمہ نہ ہو۔‘‘

( اس سلسلہ میں مزید تفصیلات جاننے کے لئے محضر نامہ کامتعلقہ حصہ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا۔)

اٹارنی جنرل کی اصل مشکل یہ تھی کہ وہ مولوی حضرات کے نرغے میں تھے ،سوالات پر سوالات ان کو دیئے جا رہے تھے اور وہ بے چارے وہی سوالات پوچھتے چلے جا رہے تھے۔ ان کویہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملی کہ اصل مسئلہ زیرِ بحث کیا تھا ۔ اور مولوی حضرات مسلمان کی تعریف قرآن و سنت کی رو سے متعین کرنے سے فرار اختیار کر رہے تھے اور محض اشتعال انگیزی اور ارکانِ اسمبلی کو متنفر کرنے کے لئے یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ احمدی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ حضرت امام جماعت احمدیہ بڑے وقار سے بغیر کسی مداہنت کے کفر و اسلام کا مسئلہ بیان کر رہے تھے کہ:۔

’’جماعت احمدیہ کے نزدیک فتاویٔ کفر کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عنداﷲکافر قرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حشرنشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوگا۔ اس لحاظ سے ان فتاوی کو اس دُنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے۔جہاں تک دُنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو اُمّت مسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا مجاز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے‘‘۔

لہٰذا کسی فرقہ کے فتویٰ کے باوجود کوئی دوسرا فرقہ حقیقت اسلام سے کتنا بھی دور سمجھا جائے ، ملّتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا۔

امام جماعت احمدیہ نے تو آنحضرت ﷺ کے اقوال کی روشنی میں ایک روشن اور درخشندہ شاہراہِ اتحادِملّت کی نشاندہی کر دی تھی جس پر چل کر ساری اُمّت وحدت کی لڑی میں پروئی جائے مگر یہ مذہب کے اجارہ دار اپنے فتووں کی شدّت میں کوئی کمی کرنے کو تیار نہیں اور یہ تسلیم کرنے پر راضی نہیں کہ ان کے جاری کردہ فتویٰ کے باوجود بھی کوئی مسلمان رہ سکتا ہے۔