ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
انتقال پر ملال
(دی نیشن اور ڈان کے مضمون نگارنے لکھا)
کس طرح چند ہزار لوگ اتنی کم قوت کے استعمال سے اتنے زیادہ لوگوں اور اتنے بڑے اور مختلف النوع علاقہ پر دو سو سال تک حکومت کر گئے-
یہ علاقہ ہندوستان تھا اور حکمرانوں کا مرکزی حصہ افسانوی شہرت کی انڈین سول سروس تھی جو دنیا بھر میں بہترین تھی ایسے لوگوں میں ایک قلیل تعداد جو پاکستان کے حصہ میں آئی یا جنہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا- یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ایسے حکومتی نظم و نسق کی تعمیر کی جس نے لکھوکھہا مہاجرین کو آباد کرنے کے کٹھن کام کا سامنا کیا اور اس کے ساتھ لوگوں کی اسی قدر بڑی تعداد کی املاک کی نگہداشت کی جو ہندوستان کی جانب منتقل ہو گئے- اس عظیم الشان کام اور اس کے ساتھ جنم لینے والی ترغیبات و تحریصات سے نمٹنے کے سلسلہ میں ان میں سے اکثریت نے اپنے آپ کو اس دور کے مورخین سے خراج تحسین حاصل کرنے کا اہل ثابت کیا یعنی یہ کہ وہ لوگ ’’انتہائی منصف مزاج اور بدوں کسی جھکاؤ کے سچے اور کھرے تھے جو اپنے اختیارات کو خود غرضانہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اس طور پر استعمال کرتے تھے جسے وہ حق سمجھتے تھے‘‘- وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور قانون قدرت کے تحت یہ لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہو رہے ہیں …… اس زمرہ کے حال ہی میں انتقال کر جانے والے فرد ایم- ایم- احمد ہیں جو منگل کے روز23جولائی 2002ء) واشنگٹن میں وفات پا گئے- ابتدائی سالوں میں وہ سیالکوٹ اور میانوالی کے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے- بعد میں وہ حکومت پاکستان کے ماہر اقتصادیات کے طور پر ابھرے اور آخر میں ورلڈ بینک تک پہنچے- ایم- ایم- احمد کی نسبت زیادہ ذہانت والے لوگ موجود تھے لیکن غالباً ان سے بڑھ کر قابل اعتماداور محنتی اور کوئی نہیں تھا- اس خوبی نے انہیں وطن عزیز میں نواب آف کالا باغ (ملک امیر محمد خان سابق گورنر مغربی پاکستان – مترجم) ایوب اور یحییٰ کا منظور نظر بنا دیا اور واشنگٹن میں رابرٹ میکنا مارا کا- (پریذیڈنٹ ورلڈ بنک-مترجم) ان کی اقتصادیات کے میدان میں مہارت اور ان کی دیانتداری اور راستبازی پر سب انحصار کر سکتے تھے-‘‘ (ترجمہ روزنامہ ڈان مورخہ 24؍ جولائی 2002ء ص 3)
ایم۔ایم احمد کچھ ذاتی یادیں
(جناب منیر عطاء اللہ)
’’مرزا مظفر احمد صاحب واشنگٹن میں انتقال کر گئے- وہ لوگ جو انہیں اچھی طرح جانتے تھے ان کے ذہن و قلب کی بہت سی غیر معمولی خوبیوں کی وجہ سے انہیں یاد رکھیں گے- تقسیم برصغیر کے بعد کے پاکستانی جنہوں نے (صدر) یحییٰ کا دور دیکھا ہے ایم- ایم- احمد کی طویل اور شاندار عوامی خدمت کے ریکارڈ کے حوالے سے ان کے بارہ میں علم حاصل کر سکتے ہیں –
تقسیم ملک کے وقت وہ امرتسر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھے- انہوں نے آئندہ خدمت کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا اور اپنا سارا قیمتی سازو سامان وہیں (امرتسر میں ) چھوڑ دیا- ان کی پاکستان میں پہلی تعیناتی بطور ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ہوئی- یہ شہر وسیع پیمانے پر ہونے والی ہجرت کی ہلچل کے نتیجہ میں مظالم اور مصائب کی آماجگاہ بنا ہوا تھا- ایم- ایم- احمدنے مسلمان مہاجرین کے آرام اور آبادکاری کے لئے بے تابانہ کام کیا- اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مقتول ہندوؤں اور سکھوں کی بھی باوقار طریقے سے تدفین کے کام کو اولیت دی جائے- اس زمانے کا ایک اور واقعہ جو انہوں نے بعد میں سنایا یہ تھا کہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے (جو انڈین ریڈ کراس کی سربراہ تھیں ) نے سیالکوٹ میں موجود گورے افسران کو یہ حکم دیا کہ وہ سیالکوٹ میں محفوظ شدہ مصنوعی انسانی اعضاء کی ایک بڑی کھیپ فوری طو رپر دہلی بھجوائیں – لیکن میاں صاحب (ـجناب ایم- ایم- احمد) نے خود ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر وہ بھرے ہوئے (ریل کے) ڈبے خالی کرا لئے (کیونکہ بھیجے جانے والے اعضاء وغیرہ اب پاکستان کی ملکیت تھے- مترجم) میاں صاحب کی اگلی تعیناتی بطور ڈی- سی دور افتادہ شہر میانوالی میں ہوئی اس کا ایک اچھا پہلو یہ نکلا کہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے نتیجہ میں انہیں نواب آف کالا باغ کی طرف سے خوب تکریم ملی- یہ امر اس وقت میاں صاحب کے لئے بہت مفید ثابت ہوا جب نواب صاحب پنجاب کے گورنر بن گئے اور میاں صاحب لاہور سیکرٹریٹ میں آ گئے- جلد ہی انہیں زیادہ اہم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے اسلام آباد میں تعینات کیا گیا- صدر ایوب کے دور میں وہ یکے بعد دیگرے سیکرٹری تجارت پھر سیکرٹری وزارت خزانہ اور بالآخر پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مقرر ہوئے-صدر یحییٰ خان کے مشیر برائے اقتصادی امور کی حیثیت میں وہ غالبا ً اپنے وقت کے سب سے طاقتور سول سرونٹ تھے اور انہیں مندرجہ بالا تینوں وزارتوں کی نگرانی کے اختیارات حاصل تھے- یہ گزرے ہوئے دن جنہیں ایک زمانہ بیت گیا ایسا دور تھا جس میں مجموعی طور پر پبلک سرونٹس کی بے حد توقیر کی جاتی تھی اور محترم میاں صاحب متفقہ طو رپر بہترین لوگوں میں سے بھی بہترین تھے- ان کے پورے عرصہ ملازمت میں اختیارات کے غلط استعمال‘ ناجائز نوازشات‘ بدعنوانی اور طاقتور عناصر کی طرفداری سے متعلق کسی کھسر پھسر کا اشارہ تک نہیں ملتا- وہ ان تمام لوگوں سے جن کا ان کے ساتھ واسطہ پڑا عزت و احترام سمیٹتے ہوئے اپنی پیش نظر بلندیوں اور رفعتوں کو طے کرتے چلے گئے- جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس طرح کا اکرام و احترام آسانی سے حاصل نہیں ہوتا اور اس کے لئے اپنے فن میں زبردست مہارت کے علاوہ خاص صلاحیت کی بھی ضرورت ہوتی تھی- اپنے وسیع اختیارات اور اعلیٰ منصب کے باوجود میاں صاحب میں تکبر نام کی کوئی چیز نہیں تھی- وہ ہمہ وقت نرم گفتار تھے اور بڑے تحمل سے دوسروں کی بات سنتے تھے- وہ دائما ً ایک انصاف پسند اور درد مند انسان تھے-
سول سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد بھٹو نے انہیں ورلڈ بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے منتخب کیا یہاں بھی میکنامارا (صدر ورلڈ بنک) نے ان کی قدر و قیمت کو پہچانا اور انہیں کئی اضافی ذمہ داریاں سونپیں خاص طور پر جن کا تعلق تیسری دنیا کے ممالک کی معاشی ترقی کے مسائل سے تھا-‘‘ (دی نیشن 29؍ جولائی 2002ء ’ڈان‘ 2- اگست 2002ء ترجمہ)
ایم – ایم- احمد – ایک نادر اور باوقار شخصیت
منیر عطاء اللہ صاحب نے اپنے خراج تحسین (مطبوعہ ڈان 2؍ اگست) میں ایم ایم احمد صاحب کی خدمات کی فہرست گنوائی ہے- وہ اس وقت منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر فائز تھے جب میں 1968ء میں ان سے پہلی بار ملا- میں اعزازی طور پر ایک ماہر معاشیات کے طور پر فرائض انجام دے رہا تھا- میں ریلوے سٹیشن کے سامنے واقع منصوبہ بندی کمیشن کی پرانی عمارت میں جایا کرتا تھا- میں اپنا دن بھر کا کام ختم کرنے کے بعد وہاں بحیثیت ڈائریکٹر ایجوکیشن جاتا تھا- میں پنجاب کے سیکرٹری تعلیم کے ماتحت کام کرتا تھا- جب میں گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل تھا تو میں نے اس ادارے کو اپنے معاملات خود چلانے کے اختیارات کے حق میں زبردست تگ و دو کی تھی لیکن سیکرٹری تعلیم نے اس تجویز کی مخالفت کی- میں نے اصرار جاری رکھا- انہوں نے اس الجھن کا حل یہ نکالا کہ میرا تبادلہ بطور ڈائریکٹر ایجوکیشن راولپنڈی کر دیا- یہ ایک تعزیری اقدام تھا لیکن میں نے اسے خاموشی سے برداشت کیا-
بعد میں منصوبہ بندی اور بہبود سے متعلق اقوام متحدہ کے ایشیائی ادارہ نے مجھے بنکاک میں تعلیمی منصوبہ بندی کے ماہر کے طور پر منتخب کر لیا- اور کاغذات معاشی معاملات کی ڈویژن کو بھجوائے گئے جہاں سے منظوری کے لئے یہ حکومت پنجاب کو بھجوا دئیے گئے-سیکرٹری تعلیم نے اس کام کو بگاڑنے کی کوشش کی اور یہ بات جناب ایم- ایم- احمد کو پتہ چل گئی- انہوں نے اس کی خوب سرزنش کی کہ اس کا یہ رویہ کسی سیکرٹری کے شایان شان نہیں تھا – آخر1968ء کے ماہ اکتوبر میں مجھے یہ ملازمت کرنے کی اجازت مل گئی-
جناب ایم- ایم- احمد انتہائی درجے کے شریف النفس انسان تھے- وہ بے بس و بیکس لوگوں کی بہود کے لئے کمر بستہ رہتے تھے- انہیں معاشی اور مالیاتی امور پر مکمل گرفت حاصل تھی اور اس بات کا اندرون و بیرون ملک اعتراف کیا گیا- وہ ایک نادر شخصیت تھے-ایم- ایم- احمد کی 1968ء کی وہ نوازش میرے سامنے نمایاں ہے- چونتیس برس گزر جانے کے باوجود ایم- ایم- احمد کی ذی وقار شخصیت میرے ذہن پر نقش ہے- یہ سطور جناب ایم- ایم- احمد کے عظمت و وقار کو خراج تحسین کے طور پر رقم کی گئی ہیں – (ترجمہ روزنامہ ڈان 4؍ اگست 2002ء)
یادگار ماہ وسال
ایم۔ ایم۔ احمدنے اپنا سب کچھ پاکستان کے لئے نچھاور کر دیا
(تحریر شاہد جاوید برکی صاحب)
’’مرزا مظفر احمد صاحب جو اپنے دوستوں اور مداحوں میں زیادہ تر ایم- ایم احمدکے نام سے جانے جاتے ہیں 22جولائی 2002ء کو واشنگٹن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے- وہ کئی ماہ سے علیل چلے آتے تھے لیکن کسی خاص بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ ان پر طویل عمر اور وطن عزیز پاکستان کے بارے میں فکر مندی کا بوجھ بڑھتا گیا- وہ وطن عزیز جس سے وہ بے حد پیار کرتے تھے اور جس کی خدمت کے لئے انہوں نے اپنی پوری اور انتہائی فعال زندگی وقف کر دی تھی-
ایم – ایم- احمد 28فروری 1913ء کو ہندوستان کے شہر قادیان میں پیدا ہوئے- پہلے انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم پائی اور پھر برطانیہ کی لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے فیضیاب ہوئے- انہوں نے 1939ء میں انڈین سول سروس (آئی-سی- ایس) میں شمولیت اختیار کی- انگریزی حکومت کی طرف سے بھرتی کیا جانے والا یہ آخری گروپ تھا- 1947ء میں انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے بعد آئی- سی- ایس کا اختتام ہو گیا- اس کے ممبران سے کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی ایک جانشین ملک کا انتخاب کر لیں – یعنی یہ کہ وہ ہندو اکثریت والے ملک میں خدمات انجام دینا چاہیں گے یا پاکستان جانا چاہیں گے- جو خاص طور پر مسلمانوں کے لئے حاصل کیا گیا تھا- اکیاسی آئی- سی- ایس افسران نے جن میں ایم- ایم- احمدبھی شامل تھے پاکستان کی خدمت کے حق میں فیصلہ کیا-
جناب ایم- ایم- احمد کی ترقی اور عروج
اس بے حد قابل اور تربیت یافتہ گروہ کی اکثریت نے پاکستان کی ریاست کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا- ان میں سے بہت سے افسران کراچی چلے گئے جو کہ ملک کا پہلا دارالحکومت تھا- ایم- ایم- احمدنے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا انتخاب کیا- ایم- ایم- احمدنے یہاں جو عہدے حاصل کئے ان میں سیکرٹری خزانہ کا منصب بھی شامل تھا- بعد میں وہ پاکستان کے نئے دارالحکومت اسلام آباد چلے گئے جہاں انہوں نے متعدد اعلیٰ عہدوں پر کام کیا جن میں سیکرٹری تجارت سیکرٹری وزارت خزانہ اور ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن کے منصب شامل تھے- یحییٰ خان کے زمانہ میں ایم- ایم- احمد صدر کے مشیر مقرر ہوئے ان کا عہدہ مرکزی وزیر کے برابر تھا اور ایم- ایم – احمد اس حیثیت میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے- بعد میں مشرقی او ر مغربی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی- وہ اس بدقسمت سانحہ کے جلد بعد واشنگٹن چلے گئے اور ورلڈ بینک کے بورڈ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا منصب سنبھال لیا- جس کے دائرہ کار میں پاکستان اور بہت سے دوسرے اسلامی ممالک شامل تھے- جب بنگلہ دیش خود مختار ملک بن گیا تو ورلڈ بینک بورڈ میں پاکستان کی نشست ختم ہو گئی- ایم- ایم- احمد واشنگٹن میں قیام پذیر رہے اور پھر ورلڈ بینک اور آئی- ایم- ایف (عالمی مالیتی فنڈ) کی مشترکہ کمیٹی جو ترقیاتی کمیٹی (ڈویلپمنٹ کمیٹی) کے نام سے معروف ہے‘ کے ڈپٹی ایگزیکٹو سیکرٹری منتخب ہو گئے- وہ اس منصب سے 1984ء میں ریٹائر ہوئے-
دگرگوں حالات میں خدمات
میری سالہا سال سے ایم- ایم- احمد سے اچھی صاحب سلامت تھی- اگرچہ میں CSPمیں ان سے اکیس برس جونیئر تھا لیکن مجھے کئی مواقع پر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا- پہلی مرتبہ میر اان سے گہرا واسطہ اس وقت پڑا جب 1969ء میں جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت نے مغربی پاکستان کا ون یونٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا- آزادی وطن کے بعد مغربی پاکستان کا ون یونٹ پاکستان میں بالادستی حاصل کرنے والی سیاسی قوتوں کے درمیان قائم ہونے والے نازک توازن کا ایک حصہ تھا آئین سازی کا کام مغربی پاکستان خاص طور پر پنجاب کے ان لیڈروں نے بے حد کٹھن بنا دیا تھا جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تقسیم اختیارات کا کوئی ایسا نظام ماننے کو تیار نہیں تھے جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان ملک کے سیاسی ڈھانچہ میں غالب قوت بن جاتی- یہ نتیجہ اس صورت میں نکل سکتا تھا جبکہ پاکستان کے مختلف صوبوں کو قانون ساز اسمبلی میں آبادی کی بنیاد پر رکنیت دی جاتی- ایسی صورت میں مشرقی پاکستان جس کی آبادی مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ تھی قومی اسمبلی میں نشستوں کا غالب حصہ حاصل کر لیتا-
آخر ایک سمجھوتہ ’’برابری‘‘ کے فارمولا کی بنیاد پر طے پایا جس کے مطابق ملک کے دو بڑے وفاقی یونٹ بنائے گئے- ایک مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان – ان دونوں بڑے حصوں کو قومی اسمبلی میں برابر کی نمائندگی دی گئی- اس طرح 1956ء میں مغربی پاکستان کا ون یونٹ معرض وجود میں آیا- 1956ء کے آئین کی منسوخی اور 1962ء کے آئین کے تحت ایک نئے سیاسی ڈھانچے کے قیام کے باوصف ’’برابری کا فارمولا‘‘ قائم رہا- بہرحال فوجی حکومت کے تحت سیاسی ڈھانچے کی حد سے زیادہ مرکزیت نے بہت سے مسائل کو جنم دیا- صدر ایوب خان وفاقی حکومت پر پوری طرح چھائے رہے اور دونوں حصوں کے گورنر امیر محمد خان آف کالا باغ اور عبدالمنعم خان بالترتیب مغربی اور مشرقی پاکستان پر ایک جیسے تحکمانہ انداز میں حکومت کرتے رہے- ان تینوں ہاتھوں میں اختیارات کا اس قدر ارتکاز عوام کو راس نہ آیا- مشرقی پاکستان میں اسلام آباد کی بالادستی کے خلاف رنجیدگی بڑھتی گئی اور مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبے نواب آف کالا باغ کے تحکمانہ انداز حکومت کی وجہ سے بیگانہہوتے گئے- جب یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ’’برابری‘‘ اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ کو ختم کرکے ان تشویشناک احساسات کے حق میں عملی قدم اٹھایا-
عظیم اور فیصلہ کن خدمات
ون یونٹ کے حصے الگ الگ کرنے کا کٹھن کام اعلیٰ افسران کی ایک کمیٹی کو سونپا گیا جس کے سربراہ ایم- ایم- احمد تھے- ایم- ایم- احمد پنجاب کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ غلام اسحاق خان نے صوبہ سرحد کی نمائندگی کی- اے- جی- این قاضی نے سندھ کی اور یوسف اچکزئی نے بلوچستان کی نمائندگی کی- کمیٹی کے سیکرٹریٹ کے چار افسران یہ تھے: ظہور اظہر – ڈاکٹر ہمایوں خان‘ ڈاکٹر طارق صدیقی اور میں (شاہد جاوید برکی) کمیٹی کا کام بہت پیچیدہ تھا- اسے نہ صرف ون یونٹ کے حصے علیحدہ علیحدہ کرنے تھے بلکہ چار نئے صوبوں کو تشکیل بھی دینا تھا-
ایم- ایم- احمد اس مہم پر پورے اترے- انہوں نے کئی ہفتوں تک اپنی شخصیت کے نمایاں اوصاف- صبرو استقامت‘ عظمت و وقار اور ذہانت و فطانت سے کام لیتے ہوئے کمیٹی کی مسلسل رہنمائی کی اور گورنمنٹ کی طرف سے دئیے گئے عرصہ کے اندر اندر تمام بڑے بڑے مسائل کو سلجھا لیا- کمیٹی کا منصوبہ یکم جولائی 1970ء کو نافذ العمل ہوا اور ون یونٹ ختم ہو گیا اور سب اختیارات صوبہ بلوچستان- شمال مغربی صوبہ سرحد- پنجاب اور سندھ کو تفویض کر دئیے گئے-
ایم- ایم- احمد سے میرا دوسرا قریبی رابطہ بھی اسی دور کا ہے جب ان کے ذمہ یہ نازک کام سونپا گیا کہ وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی حکومتوں کو منصوبہ بندی کے چوتھے پنج سالہ منصوبہ کے لئے وضع کردہ اقتصادی ڈھانچے کو قبول کرنے پر آمادہ کریں – یہ پنج سالہ منصوبہ 1970ء سے 1975تک چلنا تھا- جس وقت منصوبہ بندی کمیشن نے اپنا فریم ورک پیش کیا اس وقت تک مشرقی پاکستان کے باشندے اس بات پر پختہ ہو چکے تھے کہ مغربی صوبے کی شاندار معاشی ترقی ان کے صوبہ سے سمیٹے ہوئے ذرائع کی وجہ سے جاری ہے وہ چوتھے پنج سالہ منصوبے کے دوران اس یکطرفہ جھکاؤ کی درستی چاہتے تھے-
ماہرین اقتصادیات کے دو گروپ بنائے گئے ایک کے چیئرمین مغربی پاکستان کے چیف اکانومسٹ ڈاکٹر پروفیسر حسن مقرر ہوئے اور دوسرے کے ایک بنگالی ماہر معاشیات پروفیسر نورالاسلام – مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ دونوں صوبوں کے درمیان اختلافات کا حل نکالیں – یہ بات زیادہ تعجب انگیز نہیں تھی کہ آخر دونوں گروپ الگ الگ نتائج پر پہنچے-
ایک دفعہ پھرایم- ایم- احمد کو آگے آنا پڑا تا کہ دونوں ماہرین معاشیات دھڑوں کے اختلافات کو ختم کرائیں – مغربی پاکستان کے گورنر نور خان کے مشیر اقتصادیات کی حیثیت میں میں نے کئی ایسے اجلاسات میں شرکت کی جن کی صدارت ایم- ایم- احمدنے کی تاکہ ملک کے دونوں صوبوں کے درمیان اتفاق رائے حاصل کیا جائے- انہوں نے کسی سمجھوتہ پر پہنچنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ سیاسی بخار بڑھتا ہی جا رہا تھا-
عظیم بین الاقوامی خدمات
ایم- ایم- احمد سے میری سب سے گہری رفاقت اس وقت قائم ہوئی جب 1981ء میں ترقیاتی کمیٹی (ڈویلپمنٹ کمیٹی) کے سیکرٹریٹ میں ورلڈ بینک کی نمائندگی کرنے کا کام میرے ذمہ لگایا گیا- ایم- ایم- احمد اس وقت اس کمیٹی کے ڈپٹی ایگزیکٹو سیکرٹری تھے- اس کمیٹی کو جو ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)کے درمیان ایک رابطے کی حیثیت رکھتی تھی یہ کام سونپا گیا کہ وہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان متعدد اہم معاملات کے سلسلہ میں افہام و تفہیم کو فروغ دے-
سرکاری سطح پر دی جانے والی ترقیاتی امداد جس کے متعلق یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ لیکن نمایاں طور پر بڑھتی جائے گی بالکل جمود کا شکار ہو گئی-
ایم- ایم- احمدنے مختلف حکومتوں کو یہ باور کرانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا کہ انہیں دنیا بھر میں بڑھوتری کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے مل جل کر کام کرنا ہو گا-
ایم- ایم- احمد اور مجھ (شاہد جاوید برکی) پر یہ حقیقت جلد ہی واضح ہو گئی کہ ہمیں ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ایسی مضبوط شخصیت کی ضرورت ہے جو ترقیاتی کمیٹی کی صدارت سنبھالے اور اس کی سوچ و بچارکی راہنمائی کرے- ہم نے غلام اسحاق خان کی طرف رجوع کیا جو اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ تھے- اسحاق خان اور ایم- ایم- احمد ایک د وسرے کے اچھے دوست تھے اور اسی دوستی کی وجہ سے اسحاق خان ترقیاتی کمیٹی کی صدارت کا انتخاب لڑنے پر متفق ہو گئے- ایم- ایم- احمدنے ان تمام حکومتوں کو جو کمیٹی کی رکنیت رکھتی تھیں اسحاق خان کو کامیاب امید وار بنانے پر رضا مند کر لیا- چنانچہ پاکستانی وزیر خزانہ (غلام اسحاق خان) متفقہ طور پر منتخب ہو گئے- ایم- ایم- احمد کی اعانت سے اسحاق خان نے اس ذمہ داری کو عمدگی سے نبھایا اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں کے ملکوں سے عزت پائی- غلام اسحاق خان دوسری مدت کے لئے بھی منتخب ہو گئے اور اپنی یہ ذمہ داری وزارت خزانہ سے الگ ہونے کے بعد بطور چیئرمین سینٹ بھی نبھاتے رہے-
میں یہ یادداشتیں ایم- ایم- احمد کی یاد تازہ کرنے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ’’ڈان‘‘ کے قارئین کی نذر کر رہاہوں – ایم- ایم- احمدنے اپنا سب کچھ پاکستان کے لئے نچھاور کر دیا-‘‘
ـ(ترجمہ روزنامہ ڈان انگریزی 6-8-2002)