ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
ایک انٹرویوسے اقتباسات
(از تنویر قیصر شاہد)
مملکت خداداد پاکستان کی جن مایہ ناز ہستیوں نے اپنی فقید المثال صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے وطن عزیز کے نام کو بین الاقوامی سطح پر روشن کیا ان میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ صاحب صدر یو این او، عالمی شہرت کے حامل نوبیل پرائز یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ورلڈ بنک (امریکہ) کا مقام سب سے نمایاں، ممتاز اور منفرد ہے۔ ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
ایک بے نظیر نافع الناس وجود
حضرت صاحبزادہ صاحب(ولادت 28 فروری 1913ء۔ وفات 23 جولائی 2002ء) کو جناب الٰہی نے جمعۃ المبارک کو خلعت وجود بخشا اور خدا کے فضل وکرم سے آپ کی پوری زندگی اس مبارک دن کی برکتوں سے معمور رہی۔ آپ کی پیدائش پر سلسلہ احمدیہ کے مرکزی ترجمان اخبار ’’الحکم‘‘ (قادیان) نے شمارہ 7مارچ 1913ء صفحہ 11 پر ’’مبارک‘‘ کے زیر عنوان ایک روح پرورنوٹ سپرد اشاعت کیا اور دعا کی:۔ ’’اے خدا، اے رب السماء، اس مولود کو نافع الناس اور باپ اور دادا… کی طرح رحیم اور کریم انسان بنانا۔ والدین کے لئے قرۃ العین ہو دین کا خادم… اے مالک السماء اس کو متقیوں کے لئے امام بنانا اس کو آسمانی بادشاہت کے تخت پر بٹھانا‘‘
الحمدللہ رب العرش نے یہ سب دعائیں اس شان وشوکت سے قبول فرمائیں کہ ایک عالم انگشت بدنداں ہے خصوصاً آپ نے نافع الناس او ربابرکت وجود کی حیثیت سے جو مہتم بالشان خدمات انجام دیں وہ تاریخ پاکستان کاایک سنہری باب ہیں یہ الگ امر ہے جیساکہ لاہور کے اخبار ’’چٹان‘‘ 24 دسمبر 1961ء نے اپنے اداریہ میں نہایت درد بھرے الفاظ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا تھا کہ:۔ ’’رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی کا قول ہے مسلمان قومی خدمات کی سزا دے سکتے ہیں جزاء اللہ کے پاس ہے‘‘
علامہ اقبال کا فرمودہ ہے:
روزمرہ کی سیاست میں مسلمانوں کے خدمت گزار عموماً ان کے قہر وغضب کے شکار ہو جاتے ہیں‘‘
ایک نامور اہل قلم کی ملاقات اور تاریخی انٹرویو
خداتعالیٰ جزائے عظیم بخشے۔ ملک کے نامور اہل قلم، نڈر صحافی اور روشن خیال دانشور جناب تنویر قیصر شاہد صاحب کو جو آج سے چھ برس پیشتر اپریل 1996ء میں پاکستان سے امریکی ریاست ورجینا کے پر فضا مقام پوٹامک میں تشریف لے گئے اور حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم، ایم، احمد) سے شرف ملاقات حاصل کیا اور پھر آپ سے اہم معلومات سے لبریز ایک تاریخی انٹرویو لیا۔ اس موقع پر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم انچارج احمدیہ مشن امریکہ بھی موجود تھے۔
جناب تنویر قیصر شاہد صاحب نے کمال دیانت داری اور تکنیکی مہارت اور چابکدستی سے پورا انٹرویو صفحہ قرطاس کی زینت کیا یہ قیمتی دستاویز مئی 1998ء میں دینا پبلشرز ٹمپل روڈ لاہور کی مساعی جمیلہ سے منظر عام پرآئی جس کا نام ہے:۔ ’’ایم، ایم، احمد کے انکشافات
An Interview with History”
یہ کتاب جو حضرت صاحبزادہ صاحب کی نہایت پرکشش اور جاذب نظر تصاویر کامرقع ہے 100صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل مرتب ومولف نے انتساب کے بعد آپ کی دلآویز تصویر کے نیچے درج ذیل الفاظ سپرد قلم کئے ہیں:۔ ’’ایم، ایم، احمد یعنی میاں مظفر احمد صاحب… پاکستان کا ایک نادر روزگار شخص! جنہوں نے پہلی بار لب کشائی کی ہے تو مملکت خداداد کے سیاسی اقتصادی اور سماجی موسموں کے لاتعداد پست وبلند مناظر کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ یادوں اور یادداشتوں کا اندوختہ۔ ہمارے ماضی قریب کی ایک حیرت خیز داستان‘‘
زبردست خراج تحسین
اس اجمالی مگر اثر انگیز تعارف کے بعد جناب تنویر قیصر صاحب نے دیباچہ میں آپ کی مثالی ملکی وقومی وملی خدمات کاتذکرہ کرتے ہوئے ولولہ انگیز الفاظ میں آپ کو زبردست خراج تحسین ادا کیا ہے۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:۔ لاریب جناب ایم ایم احمد پاکستان کی مستحکم اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوروکریسی کے انتہائی اہم اور وقیع رکن بلکہ رکن رکین رہے ہیں۔ ان کا سینہ بیش بہا سیاسی یادوں اور واقعات کا خزینہ اور دفینہ ہے۔ وہ ان گنت واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کی ذات اور شخصیت کے کئی پہلو ہیں ……
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جولوگ سول سروس کے لئے منتخب کئے جاتے تھے، وہ لیاقت وصلاحیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔ یہ سول سروس برطانیہ اور ہندوستان کے بہترین دماغوں پر مشتمل تھی۔ آزادی کے بعد سول سروس کا یہی ڈھانچہ پاکستان کو ورثے میں ملا۔ جو آئی سی ایس افسر پاکستان کے حصے میں آئے، وہ کچھ زیادہ تعداد میں نہیں تھے۔ چونکہ ایڈمنسٹریشن کا برا بھلا تجربہ صرف انہیں کو تھا، اس لئے نئی حکومت اور نئی مملکت پر یہ افسر چھا گئے۔
سابق آئی سی ایس جناب ایم ایم احمد کاشمار مملکت خداداد کے ایسے ہی بڑے دماغوں اور اعلیٰ منتظموں میں ہوتا تھا۔ ممکن ہے بعض لوگ ان کے نظریات سے اختلاف کریں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے پاکستان کی انتظامی اور مالی تشکیل اور استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ مختلف اوقات میں پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ مرکزی سیکرٹری خزانہ رہے۔ محکمہ بحالیات کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں رہیں۔ پلاننگ کمیشن ایسے انتہائی مشکل اور حساس شعبے کی سربراہی پر وہ فائز رہے۔ ا نہوں نے سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور زیڈاے بھٹو کی حکومتوں میں بھرپور طریقے سے متعینہ فرائض کی ادائیگی کی۔ ان حکمرانوں کے ذاتی اور سرکاری کردار کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے آخری لمحات کے نہ صرف عینی شاہد ہیں بلکہ وہ بنفس نفیس ان اہم ترین اور حساس مذاکرات میں شامل رہے جب مشرقی پاکستان کے مقدر کا فیصلہ ہو رہا تھا۔ بھٹوسے شیخ مجیب الرحمن اور تاج الدین ایسے اہم مشرقی پاکستانی سیاستدانوں کی گفتگوؤں کے وہ امین ہیں۔ ورلڈ بینک ایسے بین الاقوامی شہرت یافتہ مالیاتی ادارے میں بھی وہ طویل عرصہ تک فرائض انجام دیتے رہے۔ پاکستان کی طاقتور اور کہنہ مشق بیوروکریسی کا ایک معروف ترین نام غلام اسحق خان صاحب کا ہے جو ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے آخر کار پاکستان کے صدر بن گئے۔ جناب اسحق، ایم ایم احمد صاحب کے نہ صرف معاصرین میں شامل رہے ہیں بلکہ ان کے قریبی دوست بھی تھے۔ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر ایسے بیوروکریٹ بھی ان کے ساتھی رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق دور کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق اور آج کے وفاقی وزیر خزانہ جناب سرتاج عزیز ماضی میں جناب ایم ایم احمد کے نائبین ہوا کرتے تھے‘‘ (صفحہ8تا10)
تاریخی انٹرویو کا ابتدائی حصہ
حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا شاہکار انٹرویو کتاب کے 97صفحات پر محیط ہے جس کا لفظ لفظ قابل دید اور لائق مطالعہ ہے۔ بطور نمونہ اس کا ابتدائی حصہ (از صفحہ16تا32) ذیل میں پیش خدمت کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف حضرت صاحبزادہ صاحب کے اخلاقی، دینی اور روحانی خدّوخال کا ایک تصور نمایاں طوپر ابھرتا ہے بلکہ آپ کے نافع الناس اور پیکر خدمت ہونے کے کئی واقعاتی پہلوؤں پر بھی تیز روشنی پڑتی ہے اور یہ حقیقت مہرنیمروز کی طرح سامنے آتی ہے کہ آپ نے ہندو نواز انگریز افسروں کی مزاحمت بلکہ کھلی مخالفت کے باوجود ہمیشہ مظلوم مسلمانوں سے بے مثال محبت اور شفقت کا سلو ک کیا، ان کی خدمت کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر مرحلہ پر حب الوطنی کی قابل رشک ولائق تقلید مثالیں قائم کر دکھائیں جو آئندہ نسلوں کے لئے مینار ہ نور اور مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
اب جناب تنویر قیصر شاہد صاحب کے قلم سے انٹرویو کا ابتدائی حصہ مطالعہ فرمائیے فرماتے ہیں:۔ ’’اپنے مولد، والدین اور ابتدائی تعلیم کاذکر کرتے ہوئے جناب ایم ایم احمدنے بتایا: ’’میری پیدائش 28فروری 1913ء کو قادیان (بھارتی صوبہ پنجاب کا ایک معروف قصبہ) میں ہوئی۔ میرے والد گرامی کا نام حضرت مرزا بشیر احمد تھا اور والدہ کا نام سرور سطان۔ میرے والد مسیح موعود (۔) کے منجھلے بیٹے تھے۔ وہ ’’دین‘‘ کے اولین لوگوں میں شامل تھے۔ دراصل ہم لوگ معاشی اعتبار سے زمیندار فیملی سے تعلق رکھتے تھے مگر اس کے باوجود میرے والد صاحب نے اپنی ساری زندگی جماعتی کاموں کے لئے، (دین) کی خدمت کیلئے وقف کردی تھی۔ وہ زیادہ تر کام وہیں قادیان ہی میں کرتے تھے۔ انہو ں نے بہت سی کتابیں لکھیں جو زیادہ تر(دین) اور (دینی) تاریخ پر مبنی تھیں۔ ان کی ایک معروف تصنیف ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ ہے۔ اپنے اسلوب، تحقیقی معیار اور عقیدے کے اعتبار سے یہ اتنی بلند پایہ کتاب ہے کہ جب یہ شائع ہو کر اول اول منصہ شہود پر آئی تو ڈاکٹر علامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی ایسے صاحبان علم وفضل نے اس کی زبردست تحسین کی اور اس پر شاندار ریویو کئے۔
’’قادیان میں جماعت کے زیر انتظام ایک ہائی سکول چل رہا تھا جو اردگرد کے علاقوں میں ’’تعلیم الاسلام ہائی اسکول‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اسی ہائی اسکول سے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا جب کہ میرا بچپن بھی زیادہ تر قادیان ہی میں گزرا ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد کالج کی تعلیم حاصل کرنے کا مرحلہ آیا تو میں نے والد گرامی کی تجویز پر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا جو اس زمانے میں برصغیر کے نامور اور اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں میں سرفہرست گردانا جاتا تھا۔ میں 1929ء میں اس کالج میں داخل ہوا تھا۔ تقریباً چھ سال اس کالج میں زیر تعلیم رہا۔ اسی کالج سے میں نے تاریخ میں ماسٹر ڈگری کی‘‘۔ بیسویں صدی عیسوی کی تیس کی دہائی کے دوران جب کہ ایم ایم احمد گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک ہونہار طالب علم تھے، جی سی کے اساتذہ کا تذکرہ بڑی محبت سے کرتے ہوئے بتانے لگے: ’’جب میں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، اس زمانے میں ہمارے پرنسپل مسٹرگیرٹ ہوا کرتے تھے۔ ارد و ادب کے نامور طنزنگار او ر انگریزی ادبیات کے معروف استاد جناب احمدشاہ بخاری پطرس طلباء کو انگریزی پڑھاتے تھے، سوندھی صاحب بھی تھے جن کی ایک بیٹی نے ایک ایسے صاحب سے شادی کی جو خود بعد میں گورنمنٹ کالج کے پرنسل ہو گئے تھے۔ ایک اور پروفیسر ڈکنسن بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی انگریزی کے استاد تھے۔ عربی قاضی فضل حق صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ فارسی کے نامور استاد اور شاعر صوفی صاحب(صوفی غلام مصطفی تبسم) بھی وہیں ہوتے تھے۔ غرضیکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں علم وادب کے علماء کی ایک کہکشاں اتر آئی تھی‘‘
گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹر ڈگری کے حصول کے بعد ایم ایم احمدنے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان جانے کی ٹھانی۔ ابتدائی اقدامات کر لئے گئے مگر اس کے باوجود دل میں ایک شک سا تھا کہ نہ جانے وہاں داخلہ ملتا ہے کہ نہیں۔ چنانچہ اس دوران انہوں نے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تا کہ وقت کا بہاؤ مثبت سمت میں جاری رہے۔ ا یم ایم احمدنے مجھے بتایا:
’’1933ء میں میں لندن چلا آیا۔ آئی سی ایس کرنے کا ارادہ تھا۔ چنانچہ لندن کے سکول آف اور ینٹل اسٹڈیز میں داخلہ لے لیا تا کہ بی اے آنرز کر لیا جائے۔ ساتھ ہی مڈل ٹیمپل میں لاء کی ڈگری کیلئے بھی داخلہ لے لیا۔ لندن یونیورسٹی سے میں نے بی اے آنرز پاس کرلیا تھا، وہاں سے بھی میں نے پارٹ ون پاس کرلیا مگر قانون کی تعلیم کا پارٹ ٹو کرنے کا مرحلہ نہ آ سکا کیونکہ میں نے آئی سی ایس کر لیا تھا۔ آئی سی ایس کرنے کے بعد ایک سال کی پروبیشن ملتی تھی۔ چنانچہ میں نے یہ عرصہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں گزارا۔ انگلستان کی معروف عالم درسگاہوں میں چھ سال کا عرصہ گزارنے کے بعد میں 1938ء میں واپس ہندوستان پہنچ گیا‘‘۔
آئی سی ایس کرنا ایک کاردشوار مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ متحدہ ہندوستان کے ایک مرد حُر مولانا محمد علی جوہر بھی آئی سی ایس کرنے ہی انگلستان سدھارے تھے۔ ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی نے زندگی بھر کی جمع پونجی ان پرنچھاور کر دی مگر اس کے باوجود مولانا جو ہر آئی سی ایس کے جوہر مراد سے ہمکنار نہ ہو سکے۔ بہرحال انگلستان سے واپسی کے بعد جناب ایم ایم احمد کی پہلی پوسٹنگ ملتان میں بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر ہوئی۔
یہ وہ دور تھا جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی اور تشکیل پاکستان کا مرحلہ قریب ہی آ پہنچا تھا اور تھوڑے سے عرصے کے بعد پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔ ان دنوں ایم ایم احمد صاحب کہا ں تھے؟ انہوں نے بتایا: ’’پاکستان بننے کے بالکل آخری دنوں میں پاکپتن میں Settlement Officer کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ انہیں دنوں مجھے چیف سیکرٹری صاحب (یوپی کے اختر حسین) کا فون آیا کہ گوڑ گاؤں میں بڑی گڑبڑ ہے۔ ہندو جاٹوں نے وہاں کے مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور قتل وغارت گری بڑھتی جا رہی ہے، اس لئے ہم تمہیں وہاں بھیج رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ عام حالات میں تو سیٹلمنٹ آفیسر کو اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جاتا جب تک سیٹلمنٹ مکمل نہ ہوجائے مگر چیف سیکرٹری نے کہا کہ گورنر صاحب کا اصرار ہے کہ تمہیں وہاں بھیجا جائے۔ اس شدید ضرورت کے تحت ہم لاہور سے ہوائی جہاز بھی بھیجنے کو تیا رہیں تا کہ تم پاکپتن سے لاہو ر آؤ اور جہاز میں بیٹھ کر گوڑ گاؤں چلے جاؤ۔ میں نے کہا کہ جہاز کی ضرورت نہیں۔ میں پاکپتن سے لاہور پہنچا۔ کار میں مختصر سامان رکھا اور براستہ حصار گوڑ گاؤں پہنچ گیا۔ راستے میں میں دہلی میں اپنی بیوی کو چھوڑ گیا تھا۔
’’گوڑ گاؤں پہنچا تو وہاں حالات واقعی بہت خراب تھے۔ مسلمان دیہاتوں کا تقریباً محاصرہ کیا جا چکا تھا۔ وہاں کے ہندوجاٹوں (جو دراصل میؤ ذات کے ضدی اور خوں آشام ہندو تھے) نے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن کر دی تھیں۔ مسلمانوں کے قتل کی ان گنت وارداتیں ہو چکی تھیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دگرگوں ہوگئی تھی۔ میں نے وہاں پہنچتے ہی انگریز ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی حیثیت میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران ایک روز انبالہ سے انگریز کمشنر کا مجھے فون آیا کہ چند روز بعد گورنر صاحب (مسٹر جنکنز) آ رہے ہیں۔ تم ان کو ناشتہ دو اور تفصیل کے ساتھ ان سے ڈسکشن کرو کیونکہ وہ گاؤں کی ابتر صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کمشنر صاحب سے کہا کہ حضور، میرے پاس تو رہنے کے لئے ڈھنگ کی جگہ بھی نہیں ہے، گورنر کو کہاں بٹھاؤں گا؟ کمشنر صاحب کہنے لگے اس کی پروانہ کرو۔ گورنر صاحب کو آپ اور وہاں کے دگرگوں حالات کے بارے میں بریف کر دیا گیا ہے۔ بہرحال گورنر صاحب آئے تو میں نے ان کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی مگر لاء اینڈآرڈر کے موضوع پر لگتا تھا کہ وہ براہ راست اردگرد کے لوگوں سے معلومات لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اکیلے میں ہندوؤں اور مسلمانوں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے اختتام پر انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں قوموں نے تم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور سب نے اقرار کیا ہے کہ تم بغیر کسی تعصب کے سب کے ساتھ یکساں اور عادلانہ سلوک کر رہے ہو۔ ازاں بعد گورنر جنکنز نے مجھے کہا کہ میں تمہیں اس علاقے کا مکمل اختیار کا حامل ڈپٹی کمشنر نامزد کرتا ہوں اور تم فلاں تاریخ سے ڈی سی کا چارج سنبھال لینا‘‘۔
ایم ایم احمد بتاتے ہیں کہ گوڑ گاؤں کے علاقے میں مسلمانوں کی سلامتی اور انہیں ہند و جاٹوں کے دست استحصال اور ظلم کے شکنجے سے نجات دلانے کے لئے انہوں نے دن رات ایک کر دئیے۔ ان کی موجودگی سے خون آشام ہندو جاٹوں کوایک بار یقین ہو گیا کہ جب تک یہ شخص ایم ایم احمدنامی یہاں موجود ہے، وہ مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی نہیں کھیل سکیں گے۔ اس دوران گوڑ گاؤں ہی میں ان کی ملاقات ممتاز دولتانہ سے ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں نے انگریز ڈپٹی کمشنر سے ابھی چارج نہیں لیاتھا۔ ایک دفعہ ہم آس پاس کے علاقوں کا دورہ کرنے کیلئے باہر نکلنے کو کھڑے تھے۔ ا س اثناء میں دولتانہ صاحب(جو پاکستان بننے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے) مجھے ملنے آ گئے۔ وہ اس وقت مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ آئے تو میں ان سے خاصی دیر باتیں کرتا رہا اور علاقے کے مسلمانوں کے بارے میں تمام سوالات کا جواب دیتا رہا۔ اس دوران انگریز ڈی سی میرا انتظار کرتا رہا۔ دولتانہ صاحب میرے کلاس فیلو بھی رہے تھے۔ اس لحاظ سے بھی میں ان سے تفصیلی باتیں کرتا رہا۔ جب وہ چلے گئے تو انگریز ڈی سی مجھ سے بڑے ناراض ہوئے کہ تم نے اس شخص کو اتنا وقت کیوں دیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ دیکھئے دولتانہ صاحب مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ہیں اور اس علاقے میں مسلمانوں پر خاصا ظلم ہوا ہے اور وہ ان کے بارے ہی میں سوالات پوچھ رہے تھے اور ایک سول سرونٹ ہونے کی حیثیت میں میرا یہ فرض بنتا تھا کہ میں ان کو محصور مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پوری معلومات فراہم کروں تا کہ وہ ان معلومات کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کر سکیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر میر ی اس منطق پرچیں بہ جبیں تو بہت ہوا مگر وہ کچھ نہ بولا لیکن اس کے باطنی غصے سے میں باخبر تھا۔ ا س سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ وہ کس نظروں سے مسلمانوں کو دیکھ رہے ہیں۔ میں اور بھی چوکنا ہو گیا‘‘
آزادی کے ان خون آشام ایام کی ایک اور حکایت خونچکاں کا ذکر چھیڑتے ہوئے ایم ایم احمدنے کہا: ’’میری سر توڑ کوششوں کے باوجود ہندوؤں کی بھی انتہائی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح زک پہنچائی جائے۔ انہیں قتل کر دیاجائے۔ ان کو لوٹ لیا جائے یا ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا جائے۔ وہ ہمہ وقت شکار کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایک رات مجھے اطلاع ملی کہ ایک مسلمان گاؤں شاہ پور کا ہندوؤں نے محاصرہ کر لیا ہے اور وہ جلد ہی ہلہ بولنے والے ہیں۔ میں اس وقت پولیس کی بھاری نفری لے کر وہاں پہنچ گیا اور سات سو کے قریب بلوائیوں کو گرفتار کر لیا۔ میں دلی طور پر ان کو سخت سزا دینا چاہتا تھا تا کہ اردگر بسنے والے مزید بلوائیوں کو بھی خبر ہو جائے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ دھاندلی نہیں چلے گی۔ مگر چونکہ یہ ایک Judiciaryکیس تھا، اس لئے اس سے نبٹنا میرے لئے دشوار ہو رہاتھا۔ ان دنوں صورت یہ تھی کہ جن افراد کو چھ ماہ سے زائد عرصے کی سزا ہوتی تھی انہیں لوکل جیل کی بجائے ڈویژنل جیل میں بھیجنا پڑتا تھا اور ڈویژنل جیل انبالہ میں تھی۔ بہرحال میں نے مقامی ایس ڈی او کے تعاون سے جسے مجسٹریٹ کے اختیارات مل گئے تھے، ان زیر حراست سات سو بلوائیوں کو ایک ایک سال قید کی سز ادی۔ اس سزا کی بازگشت کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد بڑے پیمانے پر اور اجتماعی سطح پر ہندوؤں کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ مقامی مسلمانوں کے دیہاتوں اور محلوں کا محاصرہ کر کے ان کو تہ تیغ کرنا شروع کر دیں، ان کا مال واسباب لوٹ لیں یا ان کے گھروں کو آگ لگا دیں۔ اگر چہ مجھے اس کام کیلئے دن اور رات اپنے آرام پر قربان کرنے پڑے مگر میرا ضمیر مطمئن رہا کہ مجھ پرجو فرض عائد کیا گیا تھا، اس پرمیں پورا اترا اور ہندو اکثریت کے رحم وکرم پر چھوڑ دئیے گئے مسلمانوں کی میں مقدور بھر خدمت کرنے کے قابل ہو سکا‘‘
تقسیم ہندنے عجیب وغریب حالات پیدا کر دئیے تھے۔ مجموعی حیثیت میں مسلمانوں کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مسلمان سول سرونٹس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ انگریزوں کی طرف سے بھی مسلمان ایک خاص طرح کے رویے کا شکار تھے۔ گوڑ گاؤں میں حالات قدرے نارمل ہوئے تو ایم ایم احمد کا تبادلہ امرتسر کر دیا گیا۔ حالات کی بے ثباتی اپنے عروج پر تھی۔ کل کیا ہو گا؟ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ امرتسر آنے کا قصہ ایم ایم احمد یوں سناتے ہیں:۔ ’’یہ اگست 1947ء کے پہلے ہفتے کی بات ہے جب میں امرتسر پہنچا ہوں۔ ان دنوں امرتسر، گورداسپور اور فیروز پور ان متنازعہ علاقوں میں شامل تھے جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ پاکستان میں شامل ہوں گے یا بھارت میں۔ انتظامی صورت یہ تھی کہ امرتسر میں انگریز ڈپٹی کمشنر تھا اور اس کے ساتھ ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پاکستان کی اتھارٹی میں لگایا گیا تھا اور ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بھارت کی اتھارٹی میں نامزد کیا گیا تھا۔ مجھے پاکستان اتھارٹی کی طرف سے سامنے لایا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ جس طرف بھی اس علاقے کی Allocation ہوگی، اسی طرف کا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر فوری طور پر وہاں کا انتظام وانصرام سنبھال لے گا۔ میں جب امرتسر پہنچا تو وہاں کے انگریز ڈی سی نے مجھے کہا کہ بھئی میں تمہیں اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا کیونکہ ایک تو میرے گھر میں مہمان بہت آئے ہوئے ہیں، دوسرے اگر میں تمہیں رکھو ں گا تو پھر بھارت کی طرف سے آنے والے ڈی سی کو بھی اپنے ہاں ٹھہرانا پڑے گا۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ تم اپنا بندوبست خود کرو۔ اس نے مجھے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ کسی ہوٹل میں نہ ٹھہرنا بلکہ کسی دوست یا واقف کار کے گھر میں انتظام کرو۔ چنانچہ میں نے اپنے ایک مسلمان مجسٹریٹ کے گھر کا انتخاب کرلیا۔
’’خاصے دن گزر گئے مگر انگریز ڈی سی نے مجھے کوئی کام تفویض نہ کیا۔ ایک روز میں ان کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ کوئی ڈیوٹی متعین کریں۔ کہنے لگے تمہیں اگر کوئی ڈیوٹی دوں گا تو بھارتی اتھارٹی میں آنے والے ایڈیشنل ڈی سی کو بھی دینی پڑے گی۔ میں نے کہا کہ اس کے ذمے بھی کوئی نہ کوئی ڈیوٹی لگا دیں۔ چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ تم کورٹ میں میری پیشیاں سن لیا کرو اور شہر کی انتظامیہ کے بھی چھوٹے موٹے کام کر دیا کرو۔ میں نے یہ دونوں فرائض سنبھال لئے۔ میں نے امرتسر شہر کا قریب سے جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ مسلمان خوف زدہ بھی ہیں اور نہتے بھی اور دوسری طرف ہندو اور سکھ مسلح بھی ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں ان کا رویہ Hostile بھی ہے اور جارحانہ بھی۔ اس مشاہدے کی روشنی میں میں نے امرتسری مسلمانوں کو اسلحے کے لائسنس جاری کرنے شروع کر دئیے تا کہ وہ کم از کم اپنی حفاظت آپ تو کر سکیں۔ امرتسر میں کام کرتے ہوئے انہیں زیادہ دن نہیں گزرے تھے جب انہیں ایک خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا: ’’ایک روز میں کورٹ میں بیٹھا تھا‘‘۔ ایم ایم احمدنے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں پیشیاں سن رہا تھا اور کام میں مگن تھا۔ اچانک کسی نے ہم پر بم پھینکا۔ میرے ساتھ ہی لاہور والے سید وحیدالدین فقیر کے ایک قریبی رشتہ دار بیٹھے تھے جو اے ڈی ایم تھے۔ خوش قسمتی سے بم کاغذات کے ایک بڑے سے ڈھیر پر پڑا۔ اگرچہ وہ پھٹ گیا مگر اس کا اثر قدرے زائل ہو گیا۔ بم کے پھٹنے سے ایک پولیس والا مارا گیا اور وہاں بیٹھا ایک منشی شدید زخمی ہو گیا۔ ہم وہاں دبک کر بیٹھ گئے تا کہ اگر کوئی دوسرا بم بھی ہے تو پھٹ ہی جائے مگر کوئی دوسرا دھماکہ نہ ہو ااور بم پھینکنے والے لوگوں کی دھما چوکڑی اور بھگدڑ کا فائدہ اٹھا کرفرار ہو گئے۔ ا س صورتحال میں اگرچہ میں نے کام جاری رکھا مگر اس سے یہ اندازہ لگانے میں اور زیادہ آسانی ہو گئی کہ عنقریب حالات مزید کتنے بگاڑ کا شکار ہو جائیں گے اور حالات کی سنگینی میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ ہم کام کے دوران اور گھر سے کورٹ آتے وقت اور سہ پہر کے وقت گھر کی طرف جاتے وقت اور زیادہ محتاط ہو گئے‘‘۔
برصغیر کی تقسیم اور یہاں سے رخصت کے حوالے سے حکمران انگریز طبقہ چیں بہ جبیں تھا۔ ا گرچہ آزادی کے لئے ہندو بھی پیش پیش تھے مگر وہ سب کے سب تقسیم ہند کے خلاف تھے جب کہ اسلامیان ہند پاکستان کی شکل میں ایک علیحدہ وطن کے طلبگار تھے اور یہ مطالبہ ہند اور انگریزدونوں کے لئے ناگوار تھا۔ انگریز اور ہندو کی اس ناگواری نے تقسیم کے دوران متعدد بار اور کئی جگہوں پرمسلمانوں کے خلاف اقدامات کئے اور تقسیم کے لئے جو فارمولا طے پایا تھا، جگہ بہ جگہ اس کی خلاف ورزی کی۔ کچھ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ایم ایم احمد یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ ان سب معاملات کے عینی شاہد ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’امرتسر کے انگریز ڈپٹی کمشنر ایک روز میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے یوں لگتا ہے جیسے گورداسپور بھارت میں شامل کیا جائے گا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ اسی حیرانی کے عالم میں میں نے ڈی سی صاحب سے جو کہ لاہور سے تبدیل ہو کر آئے تھے، کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ گورداسپور تو مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور دوسرا یہ کہ پاکستان سے زیادہ متصل ہے۔ اس صورت میں اگر اسے بھارت میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ پارٹیشن فارمولا کی خلاف ورزی ہو گی۔ اس پر ڈی سی صاحب گڑ بڑا گئے اور اچانک کہنے لگے کہ نہیں نہیں، یہ افواہیں ہیں اور میں چونکہ لاہور سے آیا ہوں، وہاں اس قسم کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ انہیں سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے تم مت گھبراؤ۔
’’یہ گرمیوں کا موسم تھا۔ ہم لوگ چھتوں پر سوتے تھے۔ مجھے دوسرے روز انگریز ڈی سی نے پھر اپنے پاس بلایا اور کہا کہ حالات زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔ بہتر ہے تم قادیان چلے جاؤ، اور اگر امرتسر پاکستان کوملا تو میں تمہیں فون کر کے بلالوں گا تا کہ تم امرتسر کاچارج سنبھال لو۔ میں اسی رات ڈی سی کی زیر ہدایت قادیان چلا گیا۔ اس وقت جماعت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے۔ میں نے ان کے سامنے سارے حالات رکھے۔ یہ سن کر حضرت صاحب نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی الہام ہوا ہے کہ تم لوگ جہاں بھی جاؤ گے، جس حالت میں بھی ہو گے، آخر کار ایک جگہ اکٹھے ہو جاؤ گے۔ میں قادیان میں چار دن رہا پہلے دو دن تک گورداسپور پاکستان کا حصہ معلوم ہوتا تھا مگر 17 اگست 1947ء کو اعلان ہو گیا کہ یہ بھارت میں شامل کر لیا گیا ہے۔ گویا انگریز ڈی سی نے مجھے جو باتیں چند روز پہلے بتائی تھیں، اس کا واقعی علم اسے تھا۔ بہرحال اس اعلان کے ساتھ ہی قادیان بھی مشرقی پنجاب یعنی ہندوستان کا حصہ بن گیا۔ ہماری جماعت نے دو سیسنا طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر حاصل کئے اور ہم نے ان طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے قادیان کے اردگرد بسنے والے تمام مسلمانوں کو جو انتہائی کسمپرسی اور بھوک کے عالم میں دن گزار رہے تھے، زندگی کی ممکنہ ضروریات فراہم کیں۔ انہیں خوراک، لباس اور سواری مہیا کی۔ اگر آپ ان دنوں کے پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو تقریباً سبھی اخبارات ہماری ان خدمات کی تحسین کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے جو ایک ہیلی کاپٹر حاصل کیا تھا، وہ چند روز تک گورداسپور کی پولیس کے سربراہ نے بھی عاریتاً اپنے زیر استعمال رکھا۔ اس کی بدولت گورداسپور کے آس پاس کے وہ علاقے جہاں سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں اور ان کے گھروں کو گھیرے میں لے رکھا تھا، انگریز سربراہ پولیس ہیلی کاپٹر کی مدد سے فوراً وہاں پہنچا اور مسلمانوں کو محاصرین سے نجات دلائی۔ ہم نے اس ہیلی کاپٹر کے استعمال کی ان لوگوں سے کوئی فیس بھی وصول نہ کی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ یہ دراصل مسلمانوں ہی کی خدمت میں استعمال ہو رہا ہے‘‘۔
اس ہنگامہ کارزار کے دوران میں ایم ایم احمدنے اپنی اہلیہ کو قادیان میں چھوڑا اور ایک سیسنا طیارے میں سوار ہو کر لاہور آ گئے جہاں پنجاب سیکرٹریٹ میں انہیں ڈپٹی سیکرٹری کالونیز متعین کر دیا گیا۔ گورنر جنکنز کی جگہ گورنر موڈی آ گئے تھے۔ اخترحسین چیف سیکرٹری نے ایم ایم احمد کو بتایا کہ گورنر جنکنز نے جاتے جاتے تمہاری گونرر موڈی سے بڑی تعریف کی ہے اور سفارش کی ہے کہ وہ تمہیں اپنا سیکرٹری رکھ لیں: ’’مگر مجھے سیکرٹری، جو ذاتی قسم کی نوکری ہوتی ہے، کا عہدہ پسندنہ تھا‘‘ ایم ایم احمد بولے ’’مگر میں نے اختر حسین صاحب سے کہا کہ چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں، اگر وہ آرڈر کریں گے تو میں گورنر کے سیکرٹری کی بھی نوکری کر لوں گا۔ میرا یہ پیغام اختر حسین نے گورنر موڈی تک پہنچا دیا۔ گورنر نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر وہ پسندنہیں کرتا تو ہم اے سیکرٹری نہیں لگاتے‘‘۔ ایک مختصر سے وقفے کے بعد ایم ایم احمدنے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے کہا: ’’ان دنوں سیالکوٹ میں راجہ صاحب نامی ڈپٹی کمشنر تھے۔ مقامی مسلم لیگ نے ان کے خلاف زبردست مظاہرہ کیاا ور کہا کہ راجہ صاحب تقسیم کے بعد سیالکوٹ میں الجھے ہوئے معاملات کودانستہ صحیح طرح نمٹا نہیں رہے ہیں۔ مظاہروں میں ان کے خلاف اور بھی الزام عائد کئے گئے۔ چونکہ سیالکوٹ جموں وکشمیر سے متصل علاقہ تھا اور کشمیر میں لڑائی ہو رہی تھی، اس لئے بھی یہ علاقہ زیادہ حساسیت کا حامل تھا اور مسلم لیگ کا کہنا تھا کہ راجہ صاحب جہاد کشمیر سے متعلقہ معاملات میں معاون ثابت نہیں ہو رہے۔ چیف سیکرٹری اختر حسین نے مجھے طلب کیا۔ کیبنٹ میٹنگ ہوئی جس میں میں بھی حاضر تھا۔ وہاں دولتانہ صاحب، نواب ممدوٹ صاحب اور سکندر حیات صاحب موجو د تھے۔ ان کی متفقہ رائے اور حکم کے تحت مجھے سیالکوٹ میں راجہ صاحب کی جگہ ڈپٹی کمشنر لگادیا گیا۔
’’سیالکوٹ میں مسلم لیگ کے کرتا دھرتا خواجہ صفدر اور ایک شاہ نامی آدمی تھے۔ خواجہ صفدر دراصل اسی شاہ صاحب کے نائب تھے۔ بعد میں خواجہ صاحب ایم این اے بھی بنے اور قومی اسمبلی کے سپیکر بھی بننے کی کوشش کرتے رہے۔ بہت برسوں بعد وہ جنرل ضیاء الحق کی ناک کا بال تک بن گئے تھے۔ بہرحال، خواجہ صفدر اور شاہ صاحب ایسے افراد کو مہاجرین اور دوسرے لوگو ں کے لئے میری طرف سے جس قسم کی مدد کی ضرورت تھی، وہ میں نے فراہم کی۔ مسلم لیگ سے وابستہ افراد سے ہر سطح پر تعاون کرنے سے بعض لوگ میرے خلاف بدظن بھی ہو گئے۔ مثلاً ہمارے ایریا کمانڈر فوجی تھے اور انگریز تھے۔ انہوں نے مجھے ایک روزشاکی لہجے میں کہا کہ تم بارڈر تک مہاجرین کی مدد کے لئے جن افراد کے دستوں کو بھیجتے ہو وہ زیادہ تر مسلم لیگی کیوں ہوتے ہیں؟ اس طرح تو تم اپنی غیر جانبداری مجروح نہیں کر رہے؟ میں نے کہا دیکھئے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگی افراد پر ایک تو لوگ زیادہ اعتماد کرتے ہیں، دوسری ان لوگوں کی بارڈر تک آسانی سے رسائی ہے۔ ا س طرح مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ اور ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو بھی آگے تک بھیجوں گا تو ہو سکتا ہے گڑ بڑ ہو جائے۔ مگر میری وضاحت کے باوجود میرے خلاف ان کا دل صاف نہ ہوا‘‘۔
قائد اعظم کی طبیعت نڈھال تھی۔ مہاجرین کی غیر متوقع بھاری تعدادنے ان کو زیادہ پریشان کر دیا تھا اور ادھر کشمیر میں جنگ چھڑ گئی تھی۔ کشمیر کو قائد اعظم پاکستان کی شہ رگ قرار دے چکے تھے۔ جہاد کشمیر کا میدان کارزار گرم ہو گیا تھا۔ ان نازک لمحات کی کہانی ایم ایم احمد یوں سناتے ہیں: ’’سیالکوٹ سے جموں وکشمیر قریب پڑتا ہے۔ کیبنٹ نے مجھے حکم دیا کہ تم ہر ممکنہ سطح پر مجاہدین کشمیر کی مدد کرو اور جہاد کشمیر میں زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کا وسیلہ بنو۔ اس سلسلے میں مجھے جنرل شیر محمد اور بعد ازاں جنرل موسیٰ بھی ملے۔ میں نے ان سے بھی گزارش کی کہ یہاں کا ایریا کمانڈر انگریز ہے اور اسے شک ہے کہ کشمیر کے بارے میں امداد فراہم کر رہا ہوں۔ ممکن ہے یہ کبھی کوئی رکاوٹ کھڑی کر دے، اس لئے اس کا علاج کیا جانا چاہئے۔ اس دوران ایک روز عجیب واقعہ پیش آیا۔ سیالکوٹ سے باہر ایک Limb Centre بنایا گیا تھا۔ اس سنٹر میں ان افراد کاعلاج کیا جاتا تھا جن کے اعضاء سکھوں اور ہندوؤں نے ہجرت کے دوران کاٹ دئیے تھے۔ یہاں میڈیکل کا بہت زیادہ سامان پڑا ہوا تھا۔ ایک دن میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ مجھے پیغام ملا کہ ایک شخص مجھ سے ملنا چاہتا ہے مگر وہ اندر نہیں آ سکتا۔ میں خود باہر نکلا تو دیکھا وہ معذور ہے۔
اس نے مجھے بتایا کہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن، جو ریڈکراس کی چیئر پرسن تھیں Limb Centreمیں آئی ہوئی ہیں اور سنٹر کا سامان چودہ ویگنوں (ریلوے کی) میں بھر واچکی ہیں اور وہ اس سامان کو انڈیا بھجوانے کا آرڈر کر چکی ہیں۔ میں نے اسی وقت ریلوے کے ہیڈ، (سیالکوٹ میں ) اسٹیشن ماسٹر کو فون کیا کہ میں تمہیں ڈی سی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ وہ چودہ ویگنیں جنہیں لیڈی ماؤنٹ بیٹن لوڈ کروا کر انڈیا بھجوانے کا آرڈر دے چکی ہیں، بالکل ریلوے اسٹیشن سے نہیں ہلیں گی۔ اس نے میرے حکم پر عمل کیا۔ بعد میں مجھے ایک جرنیل کا فون آیا کہ تم لیڈی ماؤنٹ بیٹن اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ اس وقت میں صرف پاکستانی گورنمنٹ کا ملازم ہوں، لیڈی ماؤنٹ بیٹن یا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے احکامات کا پابندنہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ سامان بچ گیا۔ اگر مجھے بروقت اطلاع نہ ملتی تو ہم بڑے نقصان سے دو چار ہو جاتے اور یہ خسارہ کسی جگہ سے بھی پورا نہ ہو سکتا۔ انہی دنوں لیڈی ماؤنٹ بیٹن سیالکوٹ آئیں تو انہوں نے ویگنوں کا تذکرہ تک نہ کیا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ سراسر ایک غیر قانونی حرکت کا ارتکاب کر رہی تھیں‘‘۔ (صفحہ16تا32)
آہ! ؎
فروغ شمعِ محفل تو رہے گا صبح محشر تک
مگر محفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے