ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات

فہرست مضامین

جماعتی خدمات اور امارت جماعت امریکہ

حضرت صاحبزادہ مرزامظفر احمد صاحب خداتعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص اور فدائی خادم سلسلہ تھے۔ آپ کو مختلف اوقات میں کئی جہتوں سے جماعت کی خاموش اور اعلانیہ خدمت کی توفیق عطا ہوئی۔ آپ کئی جماعتی کمیٹیز کے ممبر اور سربراہ رہے۔

سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 1986ء میں بیرون پاکستان صدسالہ جوبلی منصوبہ بندی کے لئے کمیٹی قائم فرمائی تھی۔ اس سنٹرل کمیٹی کے آپ چیئر مین دوم مقرر ہوئے۔ یہ کمیٹی 1989ء تک کام کرتی رہی۔ امریکہ میں آپ کو کئی پہلوؤں سے جماعتی خدمت کی توفیق ملی۔ لیکن آپ کی خدمات دینیہ کا ایک اہم سلسلہ1989ء میں شروع ہوا جب آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ امریکہ کا امیر مقرر فرمایا۔ آپ اس منصب جلیلہ پر تا دم آخر فائز رہے۔

آپ کے دور امارت میں جماعت احمدیہ امریکہ نے مختلف میدانوں میں ترقی اور کامیابی کے کئی سنگ میل طے کئے۔ مشن ہاؤسز کی خرید، تعمیر، نئی بیوت الذکر کے قطعات اراضی کی خرید اور ان کی تعمیر، بعض بیوت الذکر میں توسیع اور تعمیر نو کے ساتھ ساتھ جماعت امریکہ مالی قربانی میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہو گئی۔ آپ کے دور میں جماعت امریکہ میں ہونے والی ترقیات کی چند جھلکیاں پیش ہیں:۔

مرکزی مقام بیت الرحمن کی تعمیر

جماعت کی اجتماعی تقریبات کے لئے جماعت امریکہ کے پاس کوئی وسیع مرکزی بیت الذکر نہ تھی۔ واشنگٹن مشن ہاؤس جماعت کی وسعت کے لحاظ سے ناکافی ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ کے دور امارت کا ایک عظیم کارنامہ جماعت احمدیہ امریکہ کی مرکزی بیت الذکر ’’بیت الرحمن‘‘ کی تعمیر ہے۔ سلور سپرنگ میری لینڈ میں تعمیر ہونے والی ’’بیت الرحمن‘‘ کا افتتاح سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 14؍اکتوبر 1994ء کو فرمایا۔ اب جماعت احمدیہ امریکہ کی تقریباً تمام اہم مرکزی تقریبات یہاں منعقد ہوتی ہیں۔ اور جماعت کے مرکزی دفاتر بھی یہاں قائم ہیں۔

مالی قربانی میں مسابقت

آپ کے دور امارت میں جماعت احمدیہ امریکہ نے مالی قربانی میں غیر معمولی ترقی کی جس کے نتیجہ میں مالی قربانی میں امریکہ دنیا بھر کے ممالک میں صف اول کا ملک بن گیا۔ چنانچہ 1996ء میں امریکہ وقف جدید میں دنیا بھر میں اول اور تحریک جدید میں دوم رہا جب کہ 1997ء وہ سال ہے جب امریکہ تحریک جدید اور وقف جدید دونوں میں دنیا بھر کے ممالک میں اول رہا۔

نئے مشن ہاؤسز کی خرید وتعمیر

جماعت امریکہ کی ترقیات اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اس میدان میں بھی آپ کے دور میں غیر معمولی ترقی ہوئی اور 2001ء تک امریکہ کے مشن ہاؤسز کی تعداد تقریباً 40 ہو چکی تھی۔ جماعت کے اولین مشن شکاگو کی پرانی بیت الصادق کی از سر نو تعمیر ہوئی جس کا افتتاح حضور انور نے 23؍اکتوبر 1994ء کوفرمایا۔ متعدد مقامات پرنئے مشن ہاؤسز اور بیو ت الذکر کی تعمیر ہوئی۔ قطعات اراضی خریدے گئے ہیں اور تعمیر ی کام زیر کارروائی ہے۔ جن میں سان فرانسسکو، پورٹ لینڈ، ڈیلس ٹیکساس، بوسٹن مشن ہاؤس کی تعمیر، اولڈ برج نیوجرسی مشن ہاؤس، البنی مشن ہاؤس نیویارک، سان ہوزے مشن ہاؤس کیلی فورنیا، میامی فلوریڈا، فلاڈیلفیا، ڈیٹرائیٹ، کولمبس اوہایو، ہیوسٹن، ورجینیا میں قطعہ اراضی اور شکاگو میں نئی عمارت وغیرہ۔ ان میں بعض پر کام جاری یا مکمل ہو چکا ہے۔

متفرق سنگ میل

لنگرخانہ کا اجراء:

آپ ہی کے دور امارت میں 1992ء میں پہلی بار جلسہ سالانہ امریکہ (منعقد ہ نیویارک) میں لنگرخانہ کا نظام جاری ہوا جو اب بڑی کامیابی کے ساتھ ہر سال جلسہ پرجاری ہے قبل ازیں بازار سے تیارہ شدہ کھانا استعمال ہوتا تھا۔

نمائش:

جماعت احمدیہ امریکہ کی نمائش کا قیام ہوا۔

MTAارتھ اسٹیشن:

جماعت احمدیہ کینیڈا اور امریکہ کے تعاون سے MTA ارتھ اسٹیشن کا قیام بیت الرحمن کے ساتھ ہوا جس کا افتتاح حضور انور نے 14؍اکتوبر 1994ء کو فرمایا۔ ارتھ اسٹیشن سے MTA کی نشریات مختلف ممالک تک پہنچائی جاتی ہیں۔ جماعتی ویب سائٹ:

1995ء میں جماعت احمدیہ کی انٹرنیٹ پر ویب سائٹ امریکہ سے قائم ہوئی اور حضور انور کا خطبہ، ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام، جماعتی تعارف اور دیگر بہت سی دینی معلومات کا انٹرنیٹ پر اجراء ہوا۔

MTAسٹوڈیو:

1996ء میں امریکہ میں ایم ٹی اے سٹوڈیو کا قیام ہوا۔

جلسہ سالانہ کی نشریات:

آپ ہی کے دور میں جلسہ سالانہ امریکہ کی کارروائی براہ راست MTA کے ذریعہ دنیا بھر میں نشر ہونی شروع ہوئی۔

حضور انور کے دورے

حضرت صاحبزادہ صاحب کو یہ اعزاز اور خوش قسمتی بھی نصیب ہوئی کہ آپ کے دورے امارت میں حضور انور نے امریکہ کے متعدد دورے فرمائے۔ چنانچہ حضور انور 1989ء، 1994ء، 1997ء اور 1998ء میں امریکہ تشریف لے گئے۔

فتح وظفر کی بشارتیں

حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو یہ سعادت اور اعزاز حاصل ہے کہ حضور انور کو کئی رؤیا وکشوف میں آپ کا وجود دکھائی دیا گیا۔ جس کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی فتح وظفر اور ترقیات سے تعبیر فرمایا۔

ایم ایم احمد کی آواز میں فتح و ظفرکی بشارت

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ 6نومبر 84ء میں فرماتے ہیں –

جن دنوں پاکستان کے حالات کی وجہ سے بعض راتیں شدید کرب میں گزریں تو صبح کے وقت اللہ تعالیٰ نے بڑی شوکت کے ساتھ الہاما ً فرمایا ’’السلام علیکم‘‘ اور یہ آواز بڑی پیاری ٗ روشن اور کھلی آواز تھی جو مرزا مظفر احمد صاحب کی معلوم ہو رہی تھی یعنی یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے میرے کمرے کی طرف آتے ہوئے باہر سے ہی السلام علیکم کہنا شروع کر دیا ہے اور داخل ہونے سے پہلے السلام علیکم کہتے ہوئے کمرے میں آ رہے ہیں – چنانچہ اس وقت تو خیال بھی نہیں تھا کہ یہ الہامی کیفیت ہے کیونکہ میں پوری طرح جاگا ہوا تھا لیکن اس وقت جو ماحول تھا اس سے تعلق کٹ گیا تھا- میرا فوری رد عمل یہ تھا کہ میں اٹھ کر باہر جا کر ان سے ملوں لیکن اسی وقت یہ کیفیت ختم ہو گئی اور مجھے پتہ چلا کہ یہ تو خداتعالیٰ نے بشارت دی ہے اور اس میں نہ صرف یہ کہ السلام علیکم کا وعدہ دیا گیا ہے بلکہ ظفر کا وعدہ بھی ساتھ عطا فرما دیا ہے کیونکہ مظفر کی آواز میں السلام علیکم پہنچانا یہ ایک بہت بڑی اور دوہری خوشخبری ہے- پہلے بھی ظفراللہ خاں ہی خداتعالیٰ نے دکھائے اور دونوں میں ظفر ایک قدر مشترک ہے- (روزنامہ الفضل 26دسمبر 98ء)

مرزا مظفر احمد میرے گلے لگ گئے

حضور انور کا ایک ایمان افروز رویا

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ سفر یورپ کا ذکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ایک موقع پر بالکل بے حیثیت اور بے حقیقت ہو کر میں نے اپنے رب سے عرض کیا- اے خدا میرے بس میں تو کچھ نہیں ہے- میرا ذہن قطعاً خالی پڑا ہے- تو نے جماعت کے لئے جو توقعات پیدا کر دی ہیں وہ میں نے تو پیدا نہیں کیں –

جماعت احمدیہ کے امام کو دنیا ایک خاص نظر سے دیکھنے آتی ہے اور ایک توقع کے ساتھ اس کا جائزہ لیتی ہے- جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں تو اس پر پورا نہیں اترسکتا- اس لئے اے خدا ! تو ہی میری مدد فرما- چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اتنی غیر معمولی مدد فرمائی کہ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں خودنہیں بول رہا کوئی اور طاقت بول رہی ہے میرے ذہن میں ازخود مضمون آتے چلے جا رہے تھے-

پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک خوف پیدا ہوا کہ اگر اللہ کی تائید ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے چھوڑ دے تو جس مقام پر اس نے فائز فرما دیا اور دنیا کی توقعات بلند کر دیں اس مقام سے تو میں ایسا گروں گا کہ لوگوں کو کچھ سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ یہ کون شخص ہے جو اب سامنے آیا ہے ٗ اس سے پہلے تو کوئی اور وجود تھا- چنانچہ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی میں میں نے دعا کی اے خدا ! تو وہ نہ بن کہ رحمت کا جلوہ دکھا کر پیچھے ہٹ جائے تو نے فضل فرمایا ہے تو پھر ساتھ رہ اور ساتھ ہی رہ اور کبھی نہ چھوڑ-

اسی رات میں نے ایک خواب دیکھی اور اس سے مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس سارے سفر کو کامیاب کرے گا اور مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا- یعنی جماعت کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا- میں نے خواب میں دیکھا کہ (بیت) بشارت سپین کے صحن میں میرے بھائی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آ کر مجھے گلے لگالیتے ہیں اور پھر چھوڑتے ہی نہیں – میں حیران کھڑا ہوں مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے- انسان سمجھتا ہے کہ اب ملاقات کافی لمبی ہو گئی ہے- اب بس کریں – لیکن وہ چمٹ جاتے ہیں اور چھوڑتے ہی نہیں – اسی حالت میں خواب ختم ہو گئی-

صبح اٹھ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے تو یہ دعا کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس سفر کو بابرکت کرے گا بلکہ باقی ساری زندگی کو بھی بابرکت کرے گا- دنیا کو جماعت سے جو توقعات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم ان کو پورا کریں گے- یہ ’’ہم‘‘ کا صیغہ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ وہاں ایک شخص مرزا طاہر احمد مرادنہیں تھا- میری دعائیں نہ اپنی ذات کے لئے تھیں نہ ایک وجود کے لئے تھیں – میری دعائیں تو اس جماعت کے لئے تھیں جو حضرت مسیح موعود (-)کی غلامی میں آج اللہ کی صفات کامظہر بنی ہوئی ہے- اس جماعت سے جو توقعات ہیں وہی اس کے خلیفہ سے ہوتی ہیں اس سے الگ توقعات تو نہیں ہوا کرتیں – پس میں اس خوشخبری کو ساری جماعت کے لئے سمجھتا ہوں – (الفضل 8مارچ 1983ء ص 2)