ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے محاسن کا تذکرہ
(سید ساجد احمد صاحب امریکہ)
بڑے لوگوں کے بارے میں پڑھنے، سننے اور دور سے دیکھنے سے ان کے بہت سے کارناموں اور اوصاف سے آگاہی تو ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کا وہ ادراک نہیں ہوتا جو ان کے ساتھ واسطہ پڑنے سے ہوتا ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بھی ایک ویسی ہی شخصیت تھے۔ گو وہ دنیاوی لحاظ سے بڑے بڑے عہدوں پر فائزرہے۔ اور دینی لحاظ سے بھی ان کا مذہبی دنیا کے ایک مقتدر خاندان سے تعلق تھا۔ باوجود ان سب فضیلتوں کے وہ ہر کس و ناکس سے ہمدردی اور پیار سے ملتے اور پوری توجہ سے بات سنتے گویا کہ اس وقت اس گفتگو سے زیادہ اہم کوئی اور معاملہ ہی نہ ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے امریکی دوروں کے دوران دارالحکومت میں انہی کی رہائش گاہ پر فروکش ہوتے رہے۔ انہیں ملنے کے لئے کیا امیر کیا غریب، کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ، ایک جم غفیر جمع ہو جاتا۔ لیکن ان کے گھر کے دروازے کشادہ رہتے اور ہر کسی کی آؤ بھگت اور خوش آمدید ہوتی۔ اس لحاظ سے ان کا نمونہ دنیا کے دوسرے بڑے لوگوں سے مختلف تھا۔ جن کے گھروں میں بڑوں کے تو بہت چکر لگتے ہیں۔ مگر ان کے دروازے بس بڑوں کے لئے کھلتے ہیں۔ میرا صاحبزادہ ایم ایم احمد صاحب سے غائبانہ تعارف اسی وقت سے ہو گیا تھا جب میں نے بچپن میں اخبار پڑھنا شروع کیا تھا۔ صاحبزادہ مرحوم پاکستان کی انتظامیہ میں بڑے بڑے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اور اپنے کام کو ایسی ذمہ داری اور عمدگی سے ادا کیا کہ باوجود مخالفین کی مسلسل کوششوں کے نہ صرف وہ آگے ہی آگے بڑھتے رہے بلکہ بدلتی ہوئی حکومتوں اور ایک دوسرے کے شدید معاند حکمرانوں کے باجود ان کی حیثیت کا نہ بدلنا ان کی ملک کے لئے ضرورت اور ان کی خداداد قابلیت کی بڑی واضح دلیل ہے۔
پاکستان میں ایک دفعہ جب انہوں نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ ریڈیو پر سارے ملک کے سامنے پیش کیا تو میں نے بھی چھوٹی عمر کے باوجود اپنے والد کے ہمراہ بڑے شوق سے سنا۔ ان کی آواز میں ان کے والد محترم کی آواز کا رعب جلال اور دبدبہ تھا۔ اور وہی کھنک تھی جو اس آواز کے پیچھے پوشیدہ عزم اور اعتماد کی لہر سامعین کے دلوں پر ثبت کر دیتی تھی۔ ان کی ریڈیو پر ان تقریروں سے ان کے والد مکرم کی مرکزی سالانہ جلسوں پر پُرشکوہ تقریروں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ ان کی زبان اور آواز کا یہ طرز ان کی زندگی کے آخری دنوں تک قائم رہا۔ اور ان کے سلسلہ احمدیہ کی حقیقت پر یقین اور ایمان کا آئینہ رہا۔
ابھی مجھے امریکہ نقل مکانی کئے چند مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ فروری 1978ء میں مَیں نے ایک خواب میں دیکھا کہ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد مرحوم نے مجھے ایک خوبصورت اور قیمتی قلم عطا فرمایا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 65تھی اور نہ ہی میرا ان سے کوئی رابطہ تھا۔ میں فزکس پڑھا ہوا تھا اور وہ اقتصادیات اور انتظامیہ کے ماہر تھے۔ میں نوجو ان تھا وہ بڑی عمر کے تھے۔ نہ ہی میرے پاس کوئی ایسی دینی یا دنیوی ذمہ داری تھی جس کا ان سے کچھ تعلق ہوتا۔ کوئی ایسی صورت سامنے نہ تھی جو اس خواب کے پورا ہونے کا سبب بن سکتی۔ میں نے اس خواب کو اپنی ڈائری میں لکھا اور تھوڑے عرصہ بعد یہ خواب گو ڈائری میں محفوظ ہو گیا لیکن میرے ذہن سے محو ہو گیا۔
ان کی وفات سے کچھ عرصہ ہی پہلے میں نے اپنی پرانی ڈائریاں جمع کیں تو ان کے اور اق پر اتفاقاً نظر ڈالتے ہوئے یہ خواب نظر پڑا تو شیشۂ دل خداوند باری کی حمدوثنا سے لبریز ہو گیا ان کے لئے دل سے بہت دعائیں نکلیں اور شکر الٰہی کے طور پر اس ضمن میں ان کی خدمت میں بھی ایک عریضہ خواب کے ساتھ دعا کے لئے ارسال کیا یہ خواب بفضل خدا ان کی زندگی میں ہی کئی رنگ میں کئی بار پوری ہوئی فالحمدللہ۔
ان سے میرا پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب مجھے واشنگٹن میں بطور نیشنل قائد خدام مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان کے منہ بولے بیٹے مکر ظاہر مصطفی قائد تھے۔ انہوں نے اپنے گھر اجلاس کا انتظام کیا۔ اجلاس بخوبی منعقد ہوا۔
پھر آپ جماعتہائے احمدیہ امریکہ کے امیر مقررہوئے اور مجھے 1989ء تک ان کے ساتھ بطور صدر خدام الاحمدیہ امریکہ خدمتِ دین کا موقع میسر آیا۔ صاحبزادہ مرحوم کی امارت کے دور میں جماعت احمدیہ امریکہ نے اموال میں جو برکت دیکھی اس میں بفضل خدا مجلس خدام الاحمدیہ نے بھی حصہ پایا اور خدام امریکہ کا بجٹ بھی خاص برکتیں دیکھنے لگا۔ خدام الاحمدیہ کے کاموں میں مجھے ان کی پوری مدد اور ہمدردی حاصل رہی۔
صاحبزادہ مرحوم کے دور امارت میں ہی مجھے کئی سال تک امریکی انصار کے رسالے النحل کی ادارت میں تعاون کرنے کی ذمہ داری ملی۔ یہ رسالہ بفضل خدا ناظرین میں خوب مقبول ہوا۔ انہی کے دور امارت میں مجھے مجلس انصار اللہ امریکہ کے شعبۂ اشاعت کا قلمدان بھی دیا گیا۔ انہی کے ارشاد اور رہنمائی کے مطابق امریکہ میں مجلس انصار اللہ کی کارکردگی کی رپورٹیں قلم بند کرنے کا بھی موقع مجھے بفضل خدا میسر آیا۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ امریکہ کی ذیلی تنظیموں کے کام کی بیرون ممالک اشاعت ہو بلکہ امریکی تنظیموں کا دوسرے ممالک کی تنظیموں سے تعاون اور دوستی کا رابطہ قائم ہو۔
1998ء میں انہوں نے کمال مہربانی سے رسالہ ’’مسلم سن رائز‘‘ کی ادارت کا اعزاز مجھے عطا کیا۔ جسے 1921ء میں امریکہ میں سب سے پہلے مربی حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اعلائے کلمہ حق کے لئے شائع کرنا شروع کیا تھا۔ مجھے انہوں نے اس بات کی ہدایت دی کہ اس میں سلسلہ عالیہ پر اعتراضات کے جوابات باقاعدگی سے شائع ہوں۔ انہیں اس امر کا پوری طرح احساس تھا کہ آج کے بچوں نے کل قومی خدمت کا بوجھ اٹھانا ہے اور اس ذمہ داری کے ادا کرنے کو تیار کرنے کے لئے ان کی مناسب تعلیم و تربیت ضروری ہے۔ چنانچہ وہ اکثر اپنی تقریروں میں اس بات کا ذکر فرماتے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت اپنے دل نشیں انداز میں سمجھاتے۔ اسی لئے جب میں نے ان کی خدمت میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک رسالے کے جاری کرنے کی تجویز پیش کی تو انہوں نے نہ صرف میری تجویز سے پورا اتفاق کیا بلکہ اس کی افادیت اور مقبولیت بڑھانے کے لئے کئی قابل عمل اور مفید مشورے دیئے۔ اور خدام اور لجنہ کے صدروں کو مشورہ میں شامل کرنے کا ارشاد فرمایا۔ تاکہ اس مجلے کو ان دونوں تنظیموں کی پوری اعانت اور سرپرستی حاصل ہو جن کے ذمہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہم کام ہے۔ لجنہ اور خدام کے صدروں کی صوابدید کے بعد آپ نے رسالہ کے بارے میں پیش کی گئی تجاویز کا جائزہ لیا اور اس رسالے کی سرپرستی اور عمدہ انتظام کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس میں دو مربیان کے ساتھ ساتھ خدام اور لجنہ کے صدروں کے علاوہ دونوں تنظیموں میں سے ایک ایک قابل رکن مقرر فرمائے اور مجھے اس کمیٹی کے سیکرٹری کی ذمہ داری عطا فرمائی۔
جب اس رسالے کا نام رکھنے کا معاملہ زیر بحث آیا تو بہت سارے نام پیش ہو گئے۔ یہ سب نام آپ کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ اور اس رسالے کو آپ کا چنا ہوا نام ’’الہلال‘‘ دیا گیا۔ اور اسی نام سے یہ رسالہ آپ کی زندگی میں ہی شائع ہونا شروع ہو گیا۔ الحمد للہ۔
صاحبزادہ ایم ایم احمد مرحوم امریکہ میں پہلے امیر تھے جو مربی نہ تھے۔ میں نے جب بھی کوئی معاملہ ان کے سامنے پیش کیا وہ ہمیشہ پہلے اس کے بارے میں دفتری رپورٹ منگواتے اور سب حقائق کو سامنے رکھ کے فیصلہ کرتے اور جماعت کی فلاح و بہبود اور اس کے مستقبل میں کامیابی کو مطمح نظر بناتے ہوئے فیصلہ فرماتے۔
میں جب بھی ان سے ملتا وہ پوری توجہ سے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے بڑھاتے۔ پوچھنے کے لئے سوال ان کے پاس پہلے سے ہی تیار ہوتے اور جو مشورے اور ہدایات انہوں نے مجھے دینا ہوتیں وہ بھی مستحضر ہوتیں۔ اور مجھے ایسا احساس ہوتا کہ گویا وہ عرصے سے مجھے ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔ بطور امیر جتنے لوگوں سے ان کی ملاقات تھی اور جتنے مسائل اور کام اس سلسلے میں ان کے سامنے تھے۔ ان کی روشنی میں ایک فرد کے دل میں اس کی طرف اپنی توجہ کا یہ احساس پیدا کر دینا بہت اعلیٰ اخلاق اور خداداد قابلیت کا آئینہ دار ہے۔
آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بہبودی اور ترقی کی ہر تجویز کو پوری غور و فکر سے جانچتے چاہے وہ تجویز کسی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ آپ کی عمر 76سال تھی جب آپ کو جماعت احمدیہ امریکہ کی امارت کی بھاری ذمہ داری سپرد کی گئی۔ جسے آپ نے تقریباً 12سال تک بہت خوش اسلوبی اور بہت سے کامیابیوں کے ساتھ نبھایا۔ انہوں نے جماعت کے نظام کو مضبوط کیا اور ان کے عہد میں جماعت اور اس کی ذیلی تنظیموں نے کئی ریکارڈ قائم کئے۔ اتنی بڑی عمر میں خدمت کا ایسا شاندار موقع ملنا جہاں خداوندکریم کی رحمت و فضل کا ایک زندہ نشان ہے وہاں وہ ہماری جماعت کے عمر رسیدہ اور ریٹائرڈ دوستوں کے لئے ایک نمونہ بھی ہے کہ اگر وہ کمر ہمت کس لیں بفضل خدا بڑے بڑے کارنامے اپنے مقام اور مرتبے کے مطابق سر انجام دے سکتے ہیں۔ گو ان سے میرے تعلقات ایک لمبے عرصے پر حاوی نہ تھے لیکن میں یہ لکھنے سے رہ نہیں سکتا کہ میں نے انہیں ہمیشہ غیر جانب دار اور بے نفس پایا اور اپنے دل میں ہمیشہ ان لوگوں کے لئے حیرت کے جذبات پائے جنہوں نے ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ان پر ناحق الزامات لگانے کی جرأت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ جیسے اس جہان میں صاحبزادہ مرحوم نے اپنے دل، ذہن اور کردار کو ہر کدورت سے پاک رکھا، خداوند کریم ایسے ہی انہیں اگلے جگ میں بھی حوض کوثر کے پاک و صاف چشمے کے جام پلائے گا۔