ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
علم وعمل کے بلند مینار
علم و فضل کا کوئی تعین نہ کوئی حد
بونوں کے درمیان وہ مرد دراز قد
(مکرم عبدالسمیع نون صاحب)
ہر تخلیق کا انجام فنا ہے۔ اس لئے کسی فرد کے اپنے خالق ومالک کے حضور حاضر ہو جانے کا آخری سفر کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بلکہ ایک قدرتی عمل ہے جو اسی طرح ازل سے جاری ہوا۔ اور ابدالآباد تک چلتا رہے گا۔ لیکن ہر فرد اپنے حسن اخلاق ملکی اور ملی اور دینی خدمات کی وجہ سے زندہ رہتا ہے اور اسے ہی بقائے دوام کہتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ دور اخلاقی لحاظ سے بانجھ پن کا دور ہے اور ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے قحط الرجال کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص اپنے حسن عمل کے اور اعلیٰ اخلاق کے جاوداں نقوش چھوڑ جاتا ہے تو اسے ابدی حیات حاصل ہو جاتی ہے میر اآج کا ممدوح۔ صاحبزادہ حضرت مرزا مظفر احمد بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو دنیا چھوڑ جانے کے بعد بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ کتنی حق بات آپ کے تایا حضور نے کہی تھی کہ ؎
تو چاہے تو وہی غیر فانی بن جائے
وہ زندگی جسے سب حباب کہتے ہیں
فروری 1913ء میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت مسیح موعود کے بیٹوں کے تینوں بڑے صاحبزادگان کی اعلیٰ دینی ماحول میں تربیت ہوئی اور ان نوخیزپودوں نے خوش نما پھول کھلائے کہ ایک دنیا کواپنی خوشبوؤں سے معطر کر دیا۔ یہ تینوں بھائی اکٹھے پلے اور جوان ہوئے اور ان میں یکرنگی اور وحدت واخوت کے ایسے گہرے تعلقات خود ہم نے دیکھے۔ کہ گویا ایک مقد س مثلث کے تین زاویے تھے۔ تعلیم وتربیت پانے کے بعد ہر ایک نے اپنے اپنے رنگ میں خدمت دین اور ملکی وملی خدمات کے وہ جاوداں نقوش آہنی حیات مستعار کے دوران ثبت کئے اور نور اور روشنی کے ایسے ایسے مینار تعمیر کئے۔ جو رہتی دنیا تک راہ نمائی اور دستگیری کا کام دیتے رہیں گے قوس قزح اپنے خوش نما رنگوں کی آمیزش کی وجہ سے خوبصورت اور معصوم مشہور ہے۔ اور دلوں کو بہت بھاتی ہے۔ اسی طرح چاندنی کی ٹھنڈک اور شبنم کی پاکیزگی ملائمت اور خنکی بھی بہت دلپذیر مشہور ہے۔ مگر ان تینوں بھائیوں کے اخلاق اور ان کی دلنوازیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان قدرتی مناظر کابھی کوئی مقابلہ نہیں۔ جو کیفیت اور معنویت اور رنگ ونور ان بھائیوں نے اپنی اپنی زندگیوں میں پیدا کیا اس کا جواب نہیں۔ آج جس بھائی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ نامور سکالر، انتھک کارکن، دیانت و امانت کے درخشاں مینار ملک وملت کی بے انتہا اور بے لوث خدمت کرنے والے دین حق کی خدمت کے لئے ہر آن کمر بستہ ایک وفا شعار اور پختہ دوست تھے غرض قلم میں طاقت نہیں جو اس کے اوصاف گنوا سکے۔ نام نامی تھا۔ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب(ایم ایم احمدصاحب) یہ مخفف نام ایم ایم احمد بھی خوب مشہور ہوا۔ اور اسی نام کے ساتھ بھی ایک تقدس ایسا اتصال پکڑ گیا کہ کسی اور کو اس میں شریک ہونے کی آج تک توفیق نہیں ملی۔ ہمارے میاں صاحب آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مگر میں محسوس کر رہا ہوں کہ ان کا وجود میرے قریب آ کر سرگوشی کر رہا ہے۔ اس لہجے میں جس لہجے میں ازراہ کرم ودل نوازی 29جولائی 2001ء کی شام کو اپنے مکان پر ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب مختلف موضوعات پر باتیں کیں۔ تعلق بنانا اور نبھانا تو اس خانوادے کی خاندانی خوبصورت روایات میں شامل ہے۔ میں پہلے کسی مضمون میں بیا ن کر چکا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے 1952ء کی شام رتن باغ میں جب حضور ابھی پرنسپل کالج کے تھے۔ بعدنماز مغرب میرا ہاتھ حضرت میاں صاحب کو جو پکڑایا۔ اور اتنا کہا کہ سرگودھا کے اپنے گاؤں میں یہ واپس نہ جائے۔ اگلی صبح میں حضرت میاں صاحب کے دفتر جو مال روڈ پر واقع تھا گیا۔ تو مجھے انسپکٹر بحالیات شاہ عالمی دروازے کا حکمنامہ تھما دیا گیا۔ اور یہیں سے میرے لاء گریجوایٹ بننے کی بنیا د پڑی۔ اس تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ تعلق روز اول کی طر ح پر کیف اور پرتپاک رہا۔ یہ تعلق اگرچہ ایک نیاز مند اور مخدوم ایک ذرہ ناچیز اور خاندانی عزو وقار کے بلند وبالا مینار کے علاوہ دنیا کے بہت بڑے افسر اور بیکس اور بے نوا کے درمیان تھا۔ ادھر ایک بالکل بیکس اور بے ہنر مبتدی اور ادھر ایک منتہی ہر دو میں کسی قسم کا اشتراک منصب یاہمسری کی نسبت تلاش کرنے کار بیکارہی ہے۔ لیکن یہ فخر میرا سرمایہ ہے کہ تعلقات میں جتنی بہتری ہوسکتی تھی۔ اور جتنی بے تکلفی ممکن تھی آپ ہی کی طرف سے ہوتی تھی۔ سرگودھا میں میں نے وکالت شروع کی ہوئی تھی کہ کالج کے کسی فنکشن میں حضرت میاں ایم ایم احمد صاحب بھی لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ میں پہلے آپ کو لاہور ملا تھا اور راولپنڈی کا ایک کام کہا ہوا تھا۔ آپ نے پنڈی جانے پر وہ کام کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا تھا۔ دونوں بھائی آمنے سامنے تھے۔ جناب پرنسپل (بعدہ میرے سیدو مرشد) اور حضرت مرزا مظفر احمد صاحب۔ حضرت صاحب نے پوچھا کہ مظفر آپ نے پنڈی کب جانا ہے۔ میں ابھی آپ سے ملا ہوا نہیں تھا۔ مگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا ہوا تھا۔ کہ پچھلی طرف کھڑا ہوا ہے۔ فرمایا سمیع نون کے کام جانا ہے۔ اور مڑ کر میری طرف نگاہ کی۔ جب کہے گا چلاجاؤں گا۔ میں نے کہا۔ میاں صاحب میرا کام تو گویا ہو گیا۔ جو اتنا آپ نے میرا خیال رکھا ہوا ہے۔
29جولائی 2001ء کو میں واشنگٹن گیا تو مجھے گزشتہ 60/70 سال کے عرصہ کے سفر حیات میں بہت سے مسافر ملے۔ جنہیں میں نے الوداع کہا اپنے بھی اور غیر بھی عالم اور متقی اور راہنما اور رہبر بھی۔ مگر یہ شخص وفا اور راستی کا مجسم تھا اپنے مرشد سے تقویٰ کی ساری تفاصیل کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو رنگ لیا ہوا تھا۔ سب سے منفرد صاحب دل ستھری زندگی اور صاف ستھرا سفر۔ میں تو بیمار پڑا تھا۔ اور دل کے بائی پاس کے لئے جانے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ کہ ایک دن برادرم قریشی محمودالحسن صاحب کو فون کیا آگے سے انہوں نے بتلایا کہ نامعلوم میاں صاحب کا جنازہ کب آتا ہے۔ اس پرمجھے پتہ چلا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔ آنسو ایسے بہنے لگے۔ جیسے کسی نے صراحیاں انڈیل دی ہوں آنکھوں کے سامنے ان کے الطاف کریمانہ ان کے مقدس باپ دادا کے واقعات واحسانات اور ایک ایسی فلم چلی کہ میں بہت دیر تک اکیلا اپنے کمر ے میں بیٹھا آنسو بہاتا رہا۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف سے محبتوں اور شفقتوں کا ایسا پرکیف ریلا آیا جس سے میری محرومیوں اور بے بسی کے پر پوری طرح بھیگ گئے۔ اور اس نے مجھے سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اور میری اندرونی دیوارکو ریت کی دیوار کی صورت مسمار کر دیا۔ ان کی محبت کے مسلسل بڑھتے ہوئے گراف نے مجھے پریشان کر دیا اور میری ساری پژ مردگیوں اور پریشان حالی پر ان کی الفتوں کی چھاجوں اوس پڑ چکی تھی اور میں سوچتا تھا کہ یہ قرون اولی کے دور کا شخص کس زمانے میں آ گیا ہے۔ 30 سال قبل جب قاتلانہ حملے میں آپ کو حی وقیوم نے نئی زندگی عطا فرمائی تھی ہم کو تاہ فکر کیا اندازے لگا سکتے ہیں۔ مگر آسمانی آقا کی دادودہش کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں کیا عجب آپ کا نام جانی قربانی دینے والوں میں شامل ہو چکا ہو۔
1978ء میں پہلی بار امریکہ گیا۔ میرا قیام محترم ڈاکٹر شمیم احمد صاحب کے گھر تھا۔ جب میاں صاحب کو پتہ چلا تو ایک صبح نو بجے کے قریب میرے کمرے میں تشریف لائے اٹھ کر تعظیم بجالایا۔ اور حضرت باجی کی خیریت دریافت کی۔ فرمایا وہ ساتھ آئی ہوئی ہیں۔ اور تمہیں سلام کہتی ہیں اور ساتھ ہی حکم سنایا کہ آج رات تم ہمارے ہاں کھانا کھاؤ گے میں نے عرض کیا کہ حضرت یہ بھی آپ کا ہی گھر ہے۔ مگر فرمایا نہیں یہ سب لوگ ادھر ہی آ جائیں گے۔ چنانچہ ہم وہاں گئے۔ تو لندن میں پاکستان کا سفیر بھی آ یا ہو اتھا۔ اور بھی کئی آدمی تھے۔ کھانے سے پہلے نماز مغرب وعشاء کاوقت ہوا۔ تو نماز پڑھنے کے لئے ایک مخصوص کمرے میں گئے میں نے بہت اصرار کیا کہ جناب آج صاحب خانہ امامت کروائیں گے۔ مگر اس کے جواب میں دلفریب مسکراہٹ اور کہ میاں احمد(میاں عبدالرحیم احمد صاحب) نماز پڑھائیں گے۔ اور اس کے بعد کھانا شروع ہوا سفیر صاحب سے تعارف کروایا بہت باتیں ہوتی رہیں۔ مگر میاں صاحب کا ایک دستور تھا کہ ہمیشہ سنجیدہ اور بامقصد بات کرتے تھے۔ 1978ء میں ہی جنرل یحییٰ خان صاحب فالج سے بیمار ہو کر امریکہ گئے۔ اور واشنگٹن حضرت میاں صاحب کے گھر ہی سیدھے گئے۔ ان کے ہمرا ہ ان کا بیٹا اور بیوی بھی تھی۔ وہ تو مسلسل میاں صاحب کی کوٹھی پر ہی رہے اور جنرل صاحب کو حضرت میاں صاحب نے ہسپتال میں داخل کرادیا۔ مغربی ممالک کے طریق کے برعکس میاں صاحب کے پاس پاکستانی ڈرائیور پاکستانی باورچی اور خادم ہوتے تھے۔ وہاں شوفر والی کار تو ایک ایسی عیاشی ہے جو بڑے لارڈز ہی افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر میاں صاحب کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ وہ لوگ دو ماہ میاں صاحب کے گھر رہے۔ جس وقت واپس آئے تو صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بھی ائیر پورٹ پر سابق صدر کی بیگم کو الوداع کہنے گئیں۔ بوقت الوداع بیگم صدر یحییٰ خان صاحب نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ یا اللہ مظفر کافر ہے۔ تو ساری دنیا کو اس جیسا کافر بنا دے ہمارے ساتھ میاں صاحب کو اب کوئی غرض نہیں ہو سکتی۔ مگر جس وفا شعاری اور بلند اخلاقی کے تحت انہوں نے ہماری ہر طرح کی خبر گیری کی ہے۔ دنیا کے پردے پر کوئی ایسا انسان نہیں جو اتنی خدمت کر سکے۔ وہ رو رہی تھی۔ بے حدممنونیت کا اظہار ان سب نے اس روز کیا۔ میں جب سال 2001ء میں حضرت میاں صاحب کے گھر گیا۔ تو اس روز بھی سابق صدر کا فوٹو آپ کے کمرے میں پڑا تھا۔ میں نے پوچھا تو بتایا کہ یحییٰ خان صاحب ہمارے گھر تھے۔ تو ان کی خواہش پر فوٹو لئے پھر انہی کے کہنے پر میں نے وہ فوٹو انہیں پاکستان بھیج دئیے۔ ایک فوٹو ایسا تھا کہ دیوار کے پیچھے حضرت مسیح موعود کا بڑا فوٹو تھا۔ تو وہ میں نے نہ بھیجا کہ یحییٰ خان صاحب یہ نہ سمجھیں کہ میں انہیں خاموشی سے دعوۃ الی اللہ کر رہا ہوں۔ مگر یحییٰ خان تاڑ گئے۔ اور انہوں نے اصرار سے کہا کہ جناب وہ فوٹو بھی بھیجیں جس کے عقب میں بڑا فوٹو بڑے مرزا صاحب کا ہے۔ چنانچہ پھر میں نے انہیں وہ بھی بھجوادیا۔
زندگی میں بڑے بڑے افسرا ن سے واسطہ پڑا ہے۔ ایک بات جو انوکھی میاں صاحب میں میں نے دیکھی۔ اس کے وجوہ تلاش کرنا مشکل نہیں ہیں۔ حضرت میاں صاحب کا خاندانی وقار اور وجاہت ہی ایسی تھی۔ اور پھر اخلاق ایسے بلند اور کریمانہ کہ آپ کے ماتحت تو آپ کے مداح تھے ہی آپ کے افسر ان بالا بھی آپ کی خواہشات سے سرموانحراف نہیں کرتے تھے۔ ابتدائی سالوں 1951\52ء کی بات ہے۔ کہ آپ ایڈیشنل کمشنر بحالیات تھے۔ اور کمشنر بحالیات فدا حسین صاحب تھے۔ مگر سید فداحسین صاحب کا سارا انحصار حضرت میاں صاحب کے فیصلہ جات پر تھا۔ ممدوٹ وزارت میں آپ سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر تھے کہ تین ایم پی اے وزیر اعلیٰ کو ملنے آئے انہوں نے اندر سے کہہ بھیجا کہ اگرمیاں مظفر احمد صاحب کے خلاف کوئی بات ہے۔ تو میں آپ کو ملنے کو تیار نہیں ہوں۔ ایسے تین ڈی سی اگر پنجاب کو مل جائیں۔ تو سب معاملات طے ہو جائیں گے۔ یہ بڑی بے غیرتی ہے۔ کہ ایسا صاف ستھرا افسر آپ کو پسندنہیں۔ آپ ڈی سی سیالکوٹ تھے۔ جب لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے سیالکوٹ حکم بھیجا کہ وہاں جو قیمتی سامان پڑا تھا۔ معذوروں کے لئے وہ ریل گاڑی میں لوڈ کرا کر ہندوستان بھیجا جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ماؤنٹ بیٹن ابھی اس لالچ میں تھا کہ اسے دونوں ممالک گورنر جنرل مقرر کر لیں۔ جب حضرت میاں صاحب کو اس سازش کا علم ہوا۔ توفوراً ریلوے حکام کو حکم بھیجا کہ یہ گاڑی جو تم بھیج رہے ہو روک لو، انہوں نے عذر کیا کہ جناب لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا یہ حکم ہے۔ میاں صاحب نے فرمایا خواہ کسی کا ہو۔ تم میرے حکم کے پابند ہو۔ ہرگز گاڑی یہاں سے نہ چلے۔ اور پھر سارا سامان اتار لیا گیا۔ اور اس طرح پاکستان بڑے نقصان سے محفوظ رہا۔
مجھے ایک واقعہ آپ نے سنایا کہ نواب امیر محمد خان کالاباغ نے کہا کہ میاں صاحب آپ کل سے چیف سیکرٹری پنجاب کا عہدہ سنبھال لیں میں نے صدر ایوب خان صاحب سے بات کر لی ہے۔ میاں صاحب نے کہا کہ میں چارج نہیں لوں گا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ سابقہ چیف سیکرٹری نے میرا نام ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے لئے تجویز کیا تھا۔ اس لئے یہ محسن کشی ہے کہ اسے ہٹا کر چارج خود سنبھال لوں۔ دوسرے میں جونئیر ہوں۔ میرا حق بھی نہیں بنتا۔ نواب صاحب نے بااصرار کہا۔ مگر انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ نواب کالاباغ نے حیرت سے کہا کہ عجیب آدمی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے پر لات مار رہا ہے۔ اصول پسندی اور ایسی بلند اخلاقی کی توقع آپ جیسے باکردار انسان سے ہی کی جا سکتی تھی۔ پھر جب آپ مرکز میں گئے تو پہلے فنانس سیکرٹری اور پھر ڈپٹی چیف پلاننگ کمیشن اور پھر مشیر صدر جو عہدہ کے لحاظ سے وفاقی وزیر کے برابر تھا۔
آپ مرکز میں تھے صدر پاکستان محمد ایوب خان صاحب تھے۔ تو انہوں نے صدر صاحب کو کہا کہ نواب کالاباغ کے بیٹے مظفر خان کو وزیر لے لیں۔ وہ تو انکار کر نہیں سکتا تھا۔ جب اس بات کی خبر گورنر صاحب کو ہوئی۔ تو انہوں نے میاں صاحب کو کھانے پرمدعو کیا اور پوچھا کہ ایسی کون سی تجویز آپ نے دی ہے۔ آپ نے فرمایا تجویز منوالی ہے۔ گورنر نے کہا کہ میاں صاحب لوگ کہیں گے خود گورنر بنااور بیٹے کو وزیر بنوالیاہے۔ میاں صاحب نے کہا کیبنٹ میں آپ کی مخالفت ہوتی ہے۔ جو کوئی بھی رنگ لا سکتی ہے۔ آپ کا بیٹا وہاں بیٹھا ہوگا تو آپ کے مخالف لابی ختم ہو جائے گی اس پر گورنر بہت ممنون ہوا۔ مگر کچھ دن سوچنے کے لئے مہلت مانگی۔
غرض ایسا باوقار عزت وعظمت والا یہ انسان تھا کہ جہاں رہا قطع نظر اس کے کہ اس کا عہد ہ کیا ہے منصب کیا ہے۔ وہ نمبر ایک ہی رہا مگر دنیا جانتی تھی کہ اس کی اپنی ذاتی غرض کوئی نہیں ہوتی تھی۔ ہر ایک کا بھلا سوچنا اور بھلا کرنا اس کی فطرت کا حصہ بن چکا تھا۔ ان کی شخصیت علم وعمل کا دلآویز اور حسین مرقع تھی اقتصادیات ان کی ہاتھوں کی چھڑی تھی اور رموز حکومت گویا ان کی جیب میں تھے۔ آدمی پڑھا لکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہو۔ اور ہر مشکل مرحلے میں اللہ سے راہنمائی بھی چاہے۔ تو اس کے لئے کیا مشکل رہ جاتی ہے۔ ’’ایم ایم احمد کے انکشافات‘‘ایک صحافی نے آپ کا نہایت تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ جو کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اور جس کی ایک کاپی مجھے عنایت کی گئی تھی۔ نہایت مفید اور دلچسپ معلومات کا مجموعہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کااپنی اونچی ملازمت کے دوران نیکوں سے بھی واسطہ پڑا۔ اور دوسرے لوگوں سے بھی۔ گویا جفت خوش حالاں وبدحالاں شدم۔ ان پر پوری طرح صادق آتا ہے جو اچھے لوگ نہیں تھے۔ ان کی برائیوں سے نفور رہے۔ مگر ان کے ساتھ تعلقات کو نباہا کیونکہ دین حق بدی سے نفرت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مگر بد کی دعا اور مو عظمہ حسنہ کے ذریعے اصلاح کی کوشش کرنے پر زور دیتا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود کے زمانے میں بعض مخرجین کے رابطوں کی کنہ معلوم کرنے کیلئے ایک کمیشن حضور کے حکم سے بٹھایا گیا تھا۔ جس کے ممبران حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر اور حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور خاکسار راقم الحروف تھے۔ اسی دوران خاندان اقدس کے بعض افراد سے بھی بعض معلومات حاصل کرنا تھیں۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں مجھے راہنمائی کی ضرورت پڑی۔ تو میں صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ کے دردولت پر حاضر ہوا۔ میری گفتگو میں میری کوئی بات انہیں پسند آئی۔ یوں میں نے مودب رہنا ہی تھا۔ کہ سیدناحضرت مصلح موعود کی صاحبزادی اور سیدنا حضرت خلیفہ اول کی نواسی ہیں۔ انہوں نے مجھے بھائی بنالیا۔ جس پرمجھے آج تک بجا طو رپر فخر ہے۔ حضرت میاں صاحب پاکستان آئے تو انہوں نے موصوفہ سے کہا کہ امتہ الرشید تم نے عقل کی بات کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نون کو تم نے اپنا بھائی بنا لیا ہے۔ باجی نے یہ واقعہ مجھے سنایا تو میرے لئے مسرت اور مزید اعزاز کا موجب بنا۔
چہرہ انسان کے اندرونے کا انڈکس ہوتا ہے۔ ایک لطیف واقع سناتا ہوں۔ بہت پرانی بات ہے۔ حضرت میاں صاحب ولایت سے فارغ التحصیل ہو کرآئے تھے۔ مجھے محترم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ سیشن جج مرحو م نے سنایا کہ میں لاہور G.P.O کے پاس فٹ پاتھ پر چل رہا تھا کہ اچانک حضرت میاں صاحب کسی کام سے وہاں آئے۔ کار میں تھے کار سے اتر کر ڈاکخانہ میں گئے۔ تو میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ میں نے جوانی میں ہی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ نماز اور تہجد کا التزام بھی کرتا تھا۔ میاں صاحب کے چہرے پرنظر پڑی تو میں نے اپنے آپ کو مخاطب ہو کر کہا عزیز احمد! تو سوکوشش کرے اس نوجوان کے چہرے پر جو نور ہے۔ اسے تو ساری عمر نہیں پہنچ سکتا۔
عشق الٰہی وسے منہ پرولیاں ایہہ نشانی
کچھ عرصہ ہوا۔ روزنامہ جنگ کے میگزین میں حضرت میاں صاحب کے بارہ میں ایک مضمون چھپا اس میں مضمون نگار نے آپ کی تصویر بھی ساتھ شائع کر دی۔ میں کافی دیراسے دیکھتا رہا۔ پھر اخبار سے تصویر پھاڑ کر ڈائری میں رکھ لی۔ میاں صاحب سے خط وکتابت اکثر رہتی تھی۔ اس کے بعد جو خط لکھا تو تصویر والا واقعہ بھی لکھ ڈالا۔ آپ نے ایک بڑے لفافہ میں اپنی ایک بہت بڑی خوبصورت تصویر بھیج دی۔ کہ اخباری تصویر کو چھوڑ دو۔ اتنا شوق ہے تو یہ رکھ لو۔ چنانچہ بھی وہ میرے کمرے کی زینت ہے۔ اب جو میں نے خط لکھا تو اس میں لکھا کہ میاں صاحب تصویروں سے کام نہیں بنتا آپ سے ملاقات ہو۔ باتیں ہوں، بہت سال ہوئے آپ آئے ہی نہیں غالباً 1991ء میں آخری بار آئے تھے۔ اسلام آبا د سے 1991ء کا لکھا ہوا ایک خط میرے پاس پڑا ہے۔ تصویر کے بارہ میں لکھا کہ بہت شکریہ مل گئی ہے۔ مگر یہ باتیں نہیں کرتی۔ ؎
آپ نے تصویر بھیجی ہم نے دیکھی غور سے
ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں
مگر لکھا کہ یہ بھی کچھ نہ کچھ کام آتی ہے۔ ہم نے کمرے میں رکھی ہوئی ہے۔
میرا ذہن یادوں کا بسیرا بن گیا ہے۔ یہ یادیں بھی کچھ عجیب چیزہیں کچھ ایسی ہیں کہ ان سے دامن چھڑانا ناممکن۔ کچھ ہزار کوشش کے باوجود گرفت میں نہیں آتیں۔ آپ سے آخری ملاقات میری لینڈ امریکہ میں گزشتہ برس ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ قویٰ مضمحل ہو چکے تھے۔ عناصر میں اعتدال نہیں رہا تھا۔ مگر وہی دلیری۔ دل نوازی اور خاندانی نور اور جاہ و حشم۔ اس کی یاد چاہتا ہوں کسی طرح بھول جائے مگر اتنے پیارے شخص کی اتنی پیاری یاد کیونکر مجھے چھوڑے۔
23جولائی کو آپ نے دنیا چھوڑی۔ پھر 30جولائی کو ربوہ کی بھری محفل سے جب وہ جو خوش لباس۔ خوش گفتار اٹھ گیا۔ دلی دکھ ہوا کہ میں ان کے آخری سفر میں شامل نہ ہو سکا۔ کیونکہ عین 30جولائی کو اس وقت جب ادھر آپ کی سواری آخرت کے لئے تیار ہو رہی تھی لاہور کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر اپنے اپنے فن کامظاہرہ اور سرجن اپنے ہنر کا کمال میرے ناتواں سینے کو مشق ستم بنا کر کر رہے تھے۔
دربار خلافت کے انمول رتن، اے وہ کہ جسے شاہانہ چہرہ عطا ہوا تھا۔ تیر ی آنکھ سے ہمیشہ نور اور محبت کی پھوار برستی تھی۔ اے وہ جس کی کشادہ پیشانی، وسیع قلب ونظر کی علامت تھی۔
اے نبیرۂ مسیح پاک تو اپنے ’’چاند‘‘ باپ کی طرح غم زدہ دل کو بھانپ کر۔ اس کے سارے ہم وغم اپنے سینے میں سمولینے کی خواہش رکھتا تھا۔ جا اپنی ساری خدمات قوم وملت اور خدمات دین متین کا صلہ اپنے رب کریم سے وصول کر۔ تیرے بزرگ باپ اور مقدس دادا تجھے خوش آمدید کہیں۔ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران اعلیٰ معیار دیانت اور راست روی کا اجر تجھے تیرا خالق ومالک عطا کرے۔ جس کی رضا ہر لمحہ تیرے پیش نظر رہی۔
تم روٹھ گئے دل بیٹھ گیا اب دل کی حقیقت کیا کہئے
(الفضل 3اکتوبر 2002ء)