ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
غیر معمولی انتظامی صلاحیت کی حامل شخصیت
(امتیاز احمد راجیکی صاحب)
برسوں پہلے کی بات ہے۔ میں نے فون کیا: ’’حضرت میاں صاحب، میں امتیاز راجیکی فلاڈلفیا سے عرض کر رہا ہوں۔ ایک ذاتی مشورے اور دعا کے لئے حاضر ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ ’’ضرور، جب چاہیں تشریف لے آئیں‘‘۔ ایک متانت اورشفقت سے بھرپور نحیف سی آواز کانوں میں گونجی۔ میں اس اچانک مراد برآنے پر متعجب ہو مجھے امیدنہ تھی کہ دنیا کی ایک عظیم شخصیت، جو دینی ودنیاوی ہر دو لحاظ سے ایک منفرد مقام اور مرتبے کی حامل ہو اور جماعت ہائے احمدیہ امریکہ کی امارت کے کٹھن منصب کی بجا آوری میں ہمہ تن مصروف ہو، مجھ جیسے عاجز اور بے بضاعت شخص کو اتنی آسانی سے شرف باریابی عطا کرنے پر راضی ہو جائے گی۔ میں نے دوبارہ کچھ شرمندہ سا ہو کر معذرت خواہانہ انداز میں عرض کیا; ’’میرا مطلب ہے، آپ کی بے حد قیمتی مصروفیات میں سے کسی وقت چند منٹ لے سکتا ہوں‘‘۔ ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں، آپ دور سے آ رہے ہیں۔ جس وقت آپ کو سہولت ہو، آ جائیں۔ میں ہر وقت حاضر ہوں‘‘۔ پھر وہی شفیق آواز میرا حوصلہ بڑھانے لگی۔ چنانچہ اپنے سفر کا اندازہ کر کے میں نے ملاقات کا ایک وقت طے کر لیا اور اسی روز امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے نواح میں پوٹامک (میری لینڈ) میں واقع آپ کی کوٹھی پر حاضر ہو گیا۔ ضروری مشورے اور درخواست دعا سے فارغ ہو کر واپس لوٹا تو دل عجیب تشکر اور طمانیت کے جذبات سے لبریز تھا کہ خداتعالیٰ نے ہمیں حسن واحسان والی کیسی شفیق ہستی کے زیر سایہ رکھا ہوا ہے اور نظام جماعت کے ذریعے ہمیں گویا ایک ہی وجود بنا دیا ہے جس کا ہر دکھ سکھ سانجھا ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات نہ تھی۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھی کئی بار آپ سے شرف مصافحہ نصیب ہوا اور آپ کی قربت کی سعادتیں لوٹیں۔ اگرچہ براہ راست آپ کی ماتحتی میں کسی خدمت کا اعزاز حاصل نہ ہوا۔ مگر پچھلے دس بارہ سالوں میں جب بھی موقع ملا۔ آپ کے فیض صحبت کے کچھ نہ کچھ موتی چننے کا فخر ضرور حاصل ہوتا رہا۔
حضرت میاں صاحب مرحوم کی شخصیت ایک ہمہ جہت، ہمہ رنگ، ہمہ ذوق شخصیت تھی۔ اس کے کسی بھی پہلو پر اظہار خیال کرنا بلامبالغہ سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو کبھی ایک عظیم مدبر، مفکر، محقق، مقرر، معلم اور منتظم کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔ کبھی ایک مشیر، سفیر، وزیر اور امیر کا روپ دھار لیتی ہے۔ کبھی ریاضی کی گتھیاں سلجھا رہی ہے۔ کبھی اقتصادیات کے سبق سکھا رہی ہے۔ کبھی سیاست کے میدان کارزار میں معرکہ زن ہے تو کبھی انتظامیہ کی استاد ورہنما بنی ہوئی ہے۔ کبھی پورے کے پورے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے تو کبھی امام وقت کے ادنیٰ چاکر کی حیثیت سے خدمت دین میں ہمہ وقت مصروف ہے۔ غرض آپ ایک ایسی تہہ در تہہ شخصیت تھے جس کی ہر تہہ الٹنے پر ایک نیا جہاں دکھائی دیتا ہے ایک ایسی ہمہ گیر کتاب حیات تھے جس کا ہر ورق پلٹنے پر نیا باب نمودار ہو جاتا ہے۔ ایک ایسی انجمن جس کی ہر محفل باذوق، ایک ایسا پھول جس کی ہر خوشبو لازوال اور ایک ایسا رنگ جس کا ہر پہلو خوشنما۔ اس انجمن کے تذکروں، اس رنگ وبو کی رعنائیوں، اس حسن واحسان کی لذتوں میں لوگ مدتوں ڈوبے رہیں گے۔ لکھنے والے اپنی خیال آرائیوں کے دامن بڑھاتے چلے جائیں گے اور پڑھنے سننے والے اپنے آتش شوق کو بھڑکاتے چلے جائیں گے۔ مگر انجام محفل اس حسرت کے سوا کچھ نہ ملے گا کہ ’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عاجز کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ پچھلے دس بارہ سالوں میں امریکہ میں منعقد ہونے والی تقریباً ہر مجلس شوریٰ میں شرکت کی توفیق پائی۔ چند ایک بار رکن شوریٰ کی حیثیت سے مگر زیادہ تر ایک زائر اور ادنیٰ خادم کے طور پر۔ اس دوران میں خصوصیت سے مجھے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شخصیت، آپ کے حسن کردار، نظم وضبط، آپ کے تحمل، بردباری، معاملہ فہمی، دور اندیشی، فہم وبصیرت، علم وحکمت، خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کے احکامات وارشادات کو حقیقی گہرائی سے سمجھ کر پورے تدبر اور بصیرت کے ساتھ ان کی ترویج وتدوین اور ان پر عمل درآمد کے بندوبست کو دیکھنے کا موقع ملا۔ میں سمجھتا ہوں۔ حضرت میاں مظفر احمد صاحب کا صرف یہی کارنامہ آپ کوتاریخ احمدیت میں ہمیشہ سنہری حروف سے محفوظ کرنے کیلئے کافی ہے کہ کس طرح آپ نے امریکہ جیسے ملک میں خلافت کے بعد سب سے اہم ادارے یعنی ’’شوریٰ‘‘ کو استحکام بخشا۔ اور اپنی اولوالعزم فراست اور تدبر سے اسے ایسی مضبوط بنیادوں پرقائم کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ مستقبل کے مورخین ہی نہیں، اگر حال کے ناقدین اور علم کے متلاشی حضرات بھی نظام شوریٰ کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیں تو میں سمجھتا ہوں۔ حضرت میاں صاحب کی زیر صدارت امریکہ میں منعقد ہونے والی شوریٰ کی کارروائیوں کے ٹیپس ایک انمول خزانہ ہیں۔ امریکہ کو خداتعالیٰ نے کئی لحاظ سے اولیت اور فضیلت عطا فرمائی ہے۔ جس طرح دنیاوی معاملات میں اس کی تحریکات کے دوررس نتائج پیداہوتے ہیں۔ اسی طرح جماعتی لحاظ سے بھی یہاں کی تحریکات اور قربانیوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان تمام کارروائیوں کو یکجہتی او رمرکزیت کے تحت باریک بینی اور حسن انتظام کے ساتھ مستقل نبیادوں پر استوار کر دینا ایک کٹھن اور دشوار گزار کام ہے۔ حضرت میاں صاحب نے امریکہ میں جہاں نظام جماعت کے دوسرے شعبوں کو ایک فعال، مثبت او رمنضبط طریق پر مستحکم کیا، وہاں خصوصیت سے شوریٰ کے نظام کو اپنی حقیقی دینی روح اور جماعتی منشاء کے مطابق ڈھال دیا۔ امریکہ کی اس کامیابی میں حضو ر انور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی توجہ اور راہنمائی میں حضرت میاں صاحب مرحوم کی ذاتی شخصیت نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ آپ کے مزاج اور منتظمانہ تربیت کے خاص رنگ اور آپ کے لئے احباب جماعت کے دلوں میں خصوصی احترام، محبت اور وفا کے جذبے نے اس ’’جوئے شیر‘‘ کو آسان بنا دیا۔
مجلس شوریٰ کے اجلاسوں کے دوران میں جب میں میاں صاحب محترم کودیکھتا تو عقل دنگ رہ جاتی کہ اسی سال سے تجاوز کئے ہوئے، نحیف ونزار وجود اپنے جھکے ہوئے کندھوں اور خمیدہ کمر پر کس قدر کوہ گراں اٹھائے ہوئے ہے۔ آپ تینوں دن تمام اجلاسوں میں اول سے آخر تک شامل رہتے اور وقفوں کے دوران میں بھی پل بھر کے لئے آرام نہ لے پاتے۔ مسلسل صدران اور نمائندگان سے انفرادی ملاقاتوں میں انہیں ضروری ہدایات سے نوازتے رہتے۔ یہ تو صرف تین دن کی کارروائیاں تھیں جن کا ہم کبھی کبھار ملنے والے مشاہدہ کر پاتے۔ مگر اس کے پس منظر میں ان اجلاسوں کی تیاری اور بعد ازاں ان کی رپورٹنگ اور ان پر عملدرآمد کا مستقل جائزہ لینے میں اس پیر مغاں کی کتنی بے قرار راتیں اور دن صرف ہوتے، یہ سوچ سوچ کر میرا ذہن کھولنے لگ جاتا۔ ان سارے امور کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ فی الحقیقت شوریٰ کے اجلاسوں کو کنڈکٹ کرنا غیر معمولی عرق ریزی اور محنت کا کام ہے۔ اس میں ہمہ نوع افراد شامل ہوتے ہیں۔ مختلف رنگ ونسل، عمر ومزاج اور تعلیم وتربیت کے حامل افراد۔ مگر ان میں ایک چیز بہرحال مشترک ہوتی ہے اور وہ ہے خلوص نیت، نظام جماعت سے وفا اور اطاعت اور ایک صاحب بصیرت امیر، اپنے تدبر اور معاملہ فہمی کی بنا پر ان کی انہیں خوبیوں کے پیش نظر ان مختلف الخیال آراء سے بہترین رنگ میں فائدہ اٹھاتا ہے۔ حضرت امیر صاحب مرحوم میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ میں حددرجہ تحمل، بردباری اور نظم وضبط تھا، بڑی خوش خلقی اور دلجمعی سے مقررین کی آراء سنتے۔ ایک لحاظ سے انہیں کھل کر اظہار خیال کا موقع دیتے اور مناسب مقام پر حدود وقواعد کا پابند بھی فرما دیتے۔ غیرضروری مباحث پر فوراً کنٹرول کرتے تا کہ وقت کا ضیاع نہ ہو بلکہ اس کا بہترین مصرف ہو۔ اور انفرادی طور پر اس رنگ میں اصلاح فرماتے کہ کسی کی دلشکنی بھی نہ ہو۔ وضاحت طلب امور پر دوران تقریر ہی مقرر سے سوال بھی فرماتے اور متعلقہ سیکرٹریان کو ریمارکس پیش کرنے کے لئے بلا لیتے۔ ایک موقع پر مجھے بھی اس کا ملاجلا تلخ وشیریں تجربہ ہوا۔ میں نے ایک تجویز مختلف رنگ میں پیش کی۔ آپ نے متعلقہ سیکرٹری صاحب سے رپورٹ طلب فرمائی اور میرے نکتہ نظر کی تفصیل کے لئے استفسار شروع کر دیا۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ کیونکہ میرے پاس صرف ایک آئیڈیا تھا، اس کی تفصیلات نہیں تھیں۔ عام طور پر آپ کی مقرر کردہ سب کمیٹیوں کی رپورٹس اور تجویزات بڑی مدلل، موزوں اور حسب ضرورت حال ہوتیں اور انہیں قبول کرلیا جاتا۔ تاہم اجلاس عام میں جب انہیں پیش کیا جاتا اور نمائندگان کی رائے لی جاتی تو عندالضرورت ان تجویزات میں مناسب ترمیم وتبدل بھی فرماتے؟ بلکہ ایک بار آپ نے ایک سب کمیٹی کی تجاویز کو کلیۃً رد فرما دیا کہ جس مقصد کے تحت ایجنڈے میں سفارشات رکھی گئی تھیں، اس کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔
مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بغیر بھی اگر کوئی تجویز سامنے آتی تو آپ اس کا فوری نوٹس لیتے اور مناسب کارروائی کرتے۔ ایک دفعہ میں نے شوریٰ کے اختتام کے بعد ایک امر پر تحریری اظہار خیال کیا۔ آپ نے بڑی شفقت سے اس کا جائزہ لیا اور اپنے ہاتھ سے ایک مختصر نوٹ لکھ کر رائج طریق کی وضاحت فرمائی۔
2001ء میں آپ نے آخری بار مجلس شوریٰ میں شرکت فرمائی۔ بے حد کمزوری اور ضعف کے باوجود پوری چابکدستی اور بیدار مغزی سے تمام دنوں کی مکمل کارروائیوں میں حصہ لیا مگر جسمانی طور پر آپ بہت نحیف ہو چکے تھے اور زیادہ اٹھک بیٹھک اور چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتے تھے۔ ا س سال، امیر اور مجلس عاملہ کے انتخابات بھی تھے۔ آپ کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا کہ دوران الیکشن آپ کرسی صدارت سے اتر آتے اور نیچے آ کر عام ممبران کے ساتھ بیٹھتے، مگر اس دفعہ پہلی بار آپ نے معذرت فرمائی اور بڑی عالی ظرفی سے اجلاس کے سامنے اپنی ناگزیر مجبوری کا اظہار کیا۔ یہ آپ کی بہت کریمانہ محبت اور عظمت کردار کی عجیب عاجزانہ شان تھی کہ نہایت عالی مرتبت ہونے کے باوجود انتہائی منکسرالمزاج، غریب پرور اور شفیق ہستی تھے۔ اسی منکسر المزاجی اور عاجزی کے تحت بہت سال پہلے آپ نے ایک تجویز رکھی اور پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز سے اس کی اجازت طلب فرمائی کہ جماعت ہائے احمدیہ امریکہ بھی مالی قربانی میں آگے بڑھے اور کسی ایک چندے میں باقی دنیا کی جماعتوں سے سبقت لے جائے۔ اس مقصد کے تحت آپ نے ’’وقف جدید‘‘ کو چنا اور اس کے لئے بڑے منظم طریق پر کوششیں شروع کر دیں۔ خداتعالیٰ نے آپ کی ان عاجزانہ کوششوں کو اس طرح نوازا کہ امریکہ نہ صرف ’’وقف جدید‘‘ کے چندے میں باقی دنیا پر سبقت لے گیا بلکہ چند سالوں کے اندر اندر مجموعی مالی قربانی میں بہت آگے بڑھ گیا۔
حضرت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب کی شخصیت کا ایک اور پہلو آپ کی نصائح سے پر تقاریر کا ایک طویل سلسلہ ہے جو آپ نے جلسہ سالانہ، اجتماعات اور شوریٰ کے اجلاسوں سے فرمایا۔ اس میں خصوصیت سے سیرت وحیات طیبہ حضرت اقدس مسیح موعود کے موضوع پر آپ کے بلند پایہ خطابات ایک عجیب شان کے حامل ہیں۔ ان میں اتنا جذب، چاشنی اور گہرائی پائی جاتی ہے، جو بہت کم مقررین کو حاصل ہے۔ آپ بہت دھیما، الفاظ کے اتار چڑھاؤ اور آواز کے زیروبم سے مبرا بظاہر بے حد سادہ انداز اختیار کرتے، مگر درحقیقت اپنے اثر اور دیر پا نقش میں وہ روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والا انداز ہوتا آپ عام طور پر لکھی ہوئی تقریر کرتے جس کا ایک ایک لفظ گویا نگینوں کی طرح پرویا ہوتا۔ ایسے محسوس ہوتا کہ اس میں کسی شے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے نہ کوئی موتی اپنی جگہ سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ میں نے بڑے بڑے پر اثر شعلہ بیان مقرروں کو سنا ہے جو یقینا محفل میں سماں باندھ دیتے ہیں۔ مگر حضرت میاں صاحب جیسی دلکشی اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والی باتیں بہت کم سنی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا یہ آپ کے خالص، سچے اور بے لوث دل کی باتیں تھیں، جو براہ راست سننے والے کے دل میں اترتی جاتیں۔ اس کی کوئی تشریح کوئی توضیح، کوئی تصریح ممکن نہیں۔ اسے فصاحت وبلاغت کے کسی معیار پر پرکھا نہیں جا سکتا بلکہ حقیقتاً وہ خود ہی ایک معیار تھا، اپنی سچائی کا، اپنے سچے عاشقانہ جذبوں کا۔ آپ اپنے خطابات کے آخر میں بہت خوبصورت نصائح کرتے اور دعاؤں کی تلقین فرماتے جو سننے والوں کے رگ وپے میں نئی امنگوں، نئے ولولوں کا باعث بنتیں۔ ایک عزم نوکو جنم دیتیں اور اتنی خوبصورتی اور مضبوطی سے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتیں کہ بے ساختہ کوئی آنکھ بھیگے بغیر نہ رہ پاتی۔
آج بھیگی ہوئی آنکھوں نے اپنے محبوب امیر کو فردوس بریں کے سفر پر روانہ کر دیا۔ آپ کی ان حسین یادوں اور قیمتی ورثے کو سینوں سے لگائے ہوئے۔ جو اس نابغہ روزگار وجودنے قادیان کے روحانی ماحول میں پرورش پا کر اس حسن تربیت کے ثمر کو ہم تک پہنچایا۔ عمر بھر ہمارے ہر دکھ سکھ کو اپنے فیض رحمت سے سیراب کیا اور جماعت کو ایک ایسی لڑی میں پرو دیا جس کا ہر موتی ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے تو صیقل ہو تا جاتا ہے۔ اپنے حسن اور چمک دمک میں نکھرتا جاتا ہے۔ یہ حسن، یہ چمک، یہ نکھار یقینا عرش معلی پر آپ کے درجات کی بلندی اور تابانی کا باعث بنے گا اور اس محسن او رمظفر ومنصور وجود کے لئے آغوش رحمت باری کو وا کرنے کا سبب ہو گا۔