ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
ایم ایم احمد صاحب کا اختتامی خطاب (ترجمہ) مسیحا بین المذاہب سمپوزیم 12اگست 2000ء
مہمانان گرامی، معزز خواتین اور حضرات!
مقررین نے آپ کے سامنے حضرت مرزا غلام احمد کی شہرہ آفاق عظیم الشان پیشگوئی کے ظہور جو ڈاکٹر الیگزنڈرڈوئی کے متعلق ہے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس موقعہ پر کچھ کتابچے بھی ہال میں بک سٹال پر رکھے گئے ہیں جن میں اس موضوع پر پوری تفصیلات دی گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سو سال قبل کے ان اخبارات کے تراشے بھی رکھے گئے ہیں جن میں ’’مقابلہ دعا‘‘ اور حضرت مسیح موعود کی ڈاکٹر ڈوئی سے متعلق پیشگوئی اور اس کے ذلت آمیز اور شرمناک انجام کے بارے میں بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ قیمتی تاریخی شواہد قارئین کی خصوصی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ میری رائے میں جن کو آخری زمانے کے مصلح کی آمد کا بے قراری سے انتظار ہے خواہ وہ عیسائی، یہودی یا مسلمان یا دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والے ہوں انہیں اس بیش بہا مواد کا خدائی صداقت کی شناخت کے لئے حقیقت پسندانہ مطالعہ کرنا چاہئے۔
کچھ مقررین نے صبر و برداشت اور رواداری کی ضرورت کے بارے میں باتیں کی ہیں۔ جن کے فقدان سے دشمنی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو مختلف عقائد کے حاملین کے درمیان تلخی پیدا کرتی ہے جس کا انجام تباہ کن ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں مَیں آپ کی خدمت میں فلسفہ تعلیمات اسلامی کے چند بنیادی عناصر پیش کرتا ہوں جن پر احمدیہ …… معاشرہ کاربند ہے اور ان کے فروغ کے لئے کوشاں ہے تاکہ انسانیت اور بین المذاہب امن و ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھ سکے۔
قرآن شریف صاف صاف دعویٰ کرتا ہے کہ: ـ
خداتعالی نے ہر قوم میں تعلیم کیلئے اپنے فرستادہ بھیجے (سورۃ ۱۶ آیت ۳۷)
اور کوئی قوم ایسی نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا نذیر نہ آیا ہو (سورۃ ۳۵ آیت ۲۵)
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تمام مذاہب کا بنیادی منبع ایک ہے۔ اس لئے ہم اس کا دعویٰ نہیں کرتے کہ سچائی پر اسلام کی اجارہ داری ہے اور دیگر مذاہب کو نکال باہر کریں۔ ہم (احمدی) خدا کے بھیجے ہوئے تمام انبیاء جیسے حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰؑ، حضرت لوطؑ اور دیگر خداتعالیٰ کے فرستادوں پر یقین رکھتے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر مختلف قوموں کی روحانی ترقی کے لئے بھیجے گئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اس وقت تک صحیح (احمدی) نہیں کہلا سکتے جب تک ہم تمام انبیاء کی نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔
اس لئے اسلامی تعلیم بین المذاہب امن و سلامتی کی فضاء کے لئے ایک زبردست قوت اتحاد رکھتی ہے۔ فی الواقع اسلام ہی اکیلا مذہب ہے جو نبوت کے عالمگیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
قرآن کریم آگے بیان کرتا ہے کہ وہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر کوئی فوقیت نہیں دیتا۔ جہاں تک فرستادہِ خدا کی صداقت کا تعلق ہے۔ یہ متفق علیہ عقیدہ ہمارے دعاوی سے متصادم نہیں ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (خاتم النبیین) رسولوں کی مہر ہیں۔ آپؐ کی تصدیق سے تمام دوسرے انبیاء کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ آپؐ افضل الانبیاء ہیں۔ آپؐ کا پیغام مختص القوم اور مختص الزمان نہیں تھا۔ آپ کا پیغام عالمگیر اور تمام انسانیت کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے تھا۔ دنیا ذرائع مواصلات کی ترقی سے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ ایک عالمگیر پیغام دینا ممکن ہو گیا ہے۔ اس سے حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری کے اس طریقے سے اظہار سے کسی دوسرے کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی۔ آپؐ بیان کرتے ہیں۔ ’’مجھے حضرت موسیٰ پر برتری نہ دو‘‘
بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ تو ایک امن و سلامتی کا مذہب ہے اور بڑے واضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے (سورۃ ۲ آیت ۲۵۷) اسلام جبراً اپنے پیغام کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتا۔ تلوار علاقوں پر فتح حاصل کر سکتی ہے لیکن دلوں پر حکومت نہیں کر سکتی۔ قوت و جبر سروں کو تو جھکا سکتا ہے ذہنوں کو نہیں۔ اگرچہ یہ موقعہ نہیں ہے کہ میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالوں لیکن اشارۃً میں نے ضروری سمجھا کہ اسلام کے بارے میں اشاعت پذیر خیالات کی تغلیط کی طرف اشارے کرتا چلوں۔ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے افرادنے 1930ء سے مشترکہ مذہبی کانفرنسوں کے انعقاد کی بنیاد ڈال رکھی ہے۔ ان کا انعقاد ہر سال دیگر عقائد کے نمائندوں کے ساتھ بین المذاہب امن و سلامتی کی فضاء کو پروان چڑھانے کے لئے ہوتا ہے۔
آج میں آپ تمام کو حضرت مرزا غلام احمد کے ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کے ساتھ ’’مقابلہ دعا‘‘ کے بتفصیل مطالعے کی دعوت دیتا ہوں اور اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے اس دعویٰ کے مطالعہ کی بھی دعوت دیتاہوں۔ جس میں آپ نے دعویٰ فرمایا کہ آپ آخری زمانے کے مصلح ہیں جن کے ظہور کے بارے میں دنیا کے تمام مذاہب میں بشارتیں اور پیش گوئیاں موجود ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے ظہور فرمانے کے وقت سے ایک عرصہ بیت گیا اور کب کا گذر چکا ہے۔ اس موضوع سے متعلق لٹریچر کی بھی نمائش کی جارہی ہے اور آپ تمام کو صداقت کی تلاش میں اس لٹریچر کو پڑھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
میں اپنے خطاب کو مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد کی ایک اور پیشگوئی پر ختم کرتا ہوں۔ جو اس غلط العام خیال و عقیدہ سے متعلق ہے کہ مسیح ؑ اپنی آمد ثانی میں اصالتاً آسمان سے فرشتوں کے پروں پر سوار ظہور فرمائیں گے (اتریں گے)
’’مسیح کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ ہمارے سب مخالف جو اب زندہ موجود ہیں (یہ 1903ء میں لکھا گیا۔ ناقل) وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسیٰؑ اِبن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے کوئی آدمی عیسیٰ ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صیلب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰؑ اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ یں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم ہویا گیا …… اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے‘‘ (تذکرہ الشہادتین صفحہ67)
یہ عظیم الشان پیش گوئی حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے 1903ء میں فرمائی تھی۔ جس کو اب ایک سو سال گذر چکا ہے۔ اور 1903ء سے ان 35405 دنوں میں سے ہر دن میں حضرت مسیح موعود کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور سچی نکلی۔ اس پر ہمارا یقین و ایمان ہے کہ کسی ذرہ بھر شک و شبہ کے بغیر بقیہ دو صدیاں بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر قوت و وضاحت کے ساتھ شہادت دیں گی کہ مسیح موعود کی پیش گو ئی سچی نکلی۔
یہ اس لئے ہے کہ مسیح کا آنا جسم عنصری کے ساتھ نہیں ہے بلکہ مسیح کا آنا اس کی روح اور حلیے میں ہے۔ اور وہ حضرت مرزا غلام احمد کے وجود باجود میں خداتعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ 1989ء میں ظاہر ہو گیا ہے۔ آپ کی یک و تنہا آواز جو قادیان کے گمنام دیہات سے بلند ہوئی تھی اب احمدیہ …… معاشرے سے ایک سو ساٹھ (160) ملکوں میں گونج رہی ہے۔ یہ اسی کی بنیاد رکھی ہوئی ہے روزافزوں رفتار سے باوصف شدید مخالفت کے چیلنجوں کے (جو اس کے خطرناک مخالفوں کے طرف سے ہیں ) بڑھ رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ سال جو ابھی اختتام پذیر ہوا ہے اس میں چار کروڑ دس لاکھ افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے ہیں۔ ابھی جن دوستوں (ساتھیوں ) نے اس دعوے کا دلجمعی سے مطالعہ نہیں کیا انہیں چاہئے کہ وہ ان اصولوں کے مطابق اس دعوے کو پرکھیں جن پر انبیاء اور مصلحین خدا کے ہمیشہ سے دعاوی کی شناخت ہوتی آئی ہے۔
میں آخر میں تمام مقررین، سامعین اور اس بین المذاہب کانفرنس کے منتظمین بالخصوص جناب اور محمود خان اور حسام حکیم اور ان کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ تمام نے کانفرنس میں شمولیت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل کرے۔
(ماہنامہ انصار اللہ ستمبر2001ء)