ایم ایم احمد ۔ شخصیت اور خدمات
گرانقدر ملی خدمات
(محمد محمود طاہر صاحب)
حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ایک ممتاز ماہر اقتصادیات تھے۔ آپ عالمی مالیاتی اداروں میں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے بلکہ ان اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔ چنانچہ آپ ورلڈ بنک کے ڈائریکٹر اور آئی ایم ایف کے سٹاف میں بطور ایگزیکٹوسیکرٹری کے خدمات بجا لاتے رہے۔
وطن عزیز پاکستان کے لئے آپ نے گراں قدر ملی خدمات سرانجام دیں او رپاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر پاکستان کی تعمیر وترقی کے لئے غیر معمولی اہمیت کے منصوبے بنانے میں آپ کا کردار مثالی اور تاریخی تھا۔ ان منصوبوں کے ثمرات سے آج وطن عزیز کے عوام مستفیض ہو رہے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد 1933ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ تشریف لے گئے۔ آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا۔ وطن واپس آکر آپ نے تقسیم برصغیر سے قبل انڈین سول سروس کا آغاز کر دیا۔ اور آپ کی تعیناتی بطور افسر مال مختلف مقامات پر رہی۔ ا ور پھر آپ ڈپٹی کمشنر کے طور پر بعض اضلاع میں متعین رہے۔
مغربی پاکستان میں خدمات
مغربی پاکستان میں آپ سیکرٹری فنانس اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات رہے۔ آپ کے دستخطوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹ بھی جاری ہوئے۔ سیکرٹری فنانس کے طور پر آپ نے غیر معمولی طور پر ملک کی معاشی بہتری کے لئے کام کیا۔
ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن
آپ اپنے آپ کو ایک ماہر اقتصادیات کے طور پر منوا چکے تھے۔ صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی جوہرشناس نظر نے آپ کا انتخاب کیا اور پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے آپ کوڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن مقرر کیا۔ اس کمیشن کے صدر خود ایوب خان تھے اس لئے اس کمیشن کے جملہ امور عملی طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ہی کے پاس تھے۔ آپ کی نگرانی میں اس کمیشن نے پاکستان کی تعمیر وترقی کے لئے غیر معمولی اہمیت کے حامل ترقیاتی منصوبے شروع کئے۔ آپ نے اس کمیشن میں خدمت کے دوران پاکستان کی تعمیر کیلئے جامع پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ شروع کیا۔ جس کے ذریعہ تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور ان سے نکلنے والی نہروں کے عظیم منصوبے شروع ہوئے جو آج پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صدر پاکستان کے اقتصادی امور کے مشیر
آپ کی ملی خدمات کا سلسلہ صدر جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی جاری رہا۔ صدر یحییٰ نے آپ کو اقتصادی امور کے لئے اپنا مشیر مقرر کیا۔ یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ 1971ء کے دوران پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال انتہائی دگرگوں اور مشکلات کا شکا ر تھی۔ ان حالات میں آپ نے 1971-72ء کا کامیاب وفاقی بجٹ پیش کیا جو ایک متوازن اور پاکستانی معیشت کو سہارا دینے والا بجٹ تھا۔ یہ آپ کا ایک ایسا کارنامہ تھا جس کو اس وقت کے سیاستدانوں اور دانشوروں نے شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ اس بجٹ کی نمایاں خوبی عوام کے بوجھ کو کم کرنا اور خودانحصاری کی منزل کی نشاندہی اور عزم تھا۔
وفاقی بجٹ کو خراج تحسین
اس دور کے معروف اور مؤقر انگریزی روزنامے پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت میں صفحہ اول پر بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:۔ ’’اتوار کو عوام کا موڈ اس سے مختلف تھا جو عموماً بجٹ کے بعد ہوا کرتا تھا‘‘ ۔
قیمتوں کے چڑ ھ جانے کے امکانی خوف اور خفگی کی بجائے عوام راحت سی محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اس بے رحم تلوار سے محفوظ ہو گئے ہیں جو عمومی معاشی بدحالی اور مشرقی پاکستان کے بحران کے پیش نظر ناگزیر معلوم ہوتی تھی۔ بجٹ کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ ٹیکسوں کے عائد کرنے میں معقولیت اور خود پر انحصار کرنے کی اشد ضرورت ‘‘۔ (پاکستان ٹائمز 25 جون 1971ء)
برصغیر کے معروف صحافی میاں محمد شفیع المعروف م۔ ش اپنی ڈائری مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت میں جناب ایم ایم احمد کی بجٹ تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ ’’صدر کے اقتصادی مشیر جناب ایم۔ ایم۔ احمدنے راولپنڈی میں اپنی بجٹ تقریر کا آغاز ’’بسم اللہ(۔)‘‘ پڑھ کر کیا۔ اخبارات اس کا ذکر گول کر گئے…… میر ے خیال میں جناب ایم۔ ایم۔ احمد پہلے فنانشل ایکسپرٹ ہیں جنہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں پاکستان کے ایک نظریاتی مملکت ہونے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا۔
اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کے قیام میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو دخل حاصل تھا۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کے ساتھ اس جذبہ کو از سر نو فروغ دیں جو قیام پاکستان کا باعث ہوا تھا……
جناب ایم۔ ایم۔ احمدنے ایک غیرت مند محب الوطن پاکستانی کی حیثیت سے اس چیلنج کو بھی قبول کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو بیرونی ملکوں کی طرف سے مشروط مالی امداد کی شکل میں پاکستان کے سرپر تلوار کی طرح لٹک رہا ہے……ایم۔ ایم۔ احمد کا یہ اعلان پاکستان کے دشمنوں کے ناپاک منصوبوں پربم بن کر گرے گا‘‘۔ (نوائے وقت 29جون 1971ء)
٭بجٹ تقریر پر مبارک باد دیتے ہوئے روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ اول کی ایک خبر ملاحظہ ہو:۔’’راولپنڈی۔ 26جون۔ آج جب ایم ایم احمدنے اپنی بجٹ تقریر ختم کی تو تقریب میں موجود متعدد سرکردہ صنعتکاروں اور بنکاروں نے ایک اچھا بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ یہ تقریب حسب سابق نہایت سادہ تھی‘‘ ۔ (نوائے وقت 27؍جون 1971ء)
٭سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر انور اقبال قریشی نے بجٹ تقریر کے بارہ میں کہا:۔’’یہ بجٹ زبردست تعمیری غوروفکر کا نتیجہ ہے۔ یہ رسمی قسم کابجٹ نہیں … انہوں نے اس خیال کا اظہار کیاکہ سب حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو مسٹر ایم ایم احمدنے عمدہ کام کیا ہے۔ بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مختلف پالیسیوں کو صحیح طور پر بروئے کار لایاجائے‘‘ ۔ (ڈیلی ڈان 28؍جون 1971ء)
ڈائریکٹر ورلڈ بنک
حضرت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب بھٹو دور میں ورلڈ بنک سے منسلک ہو گئے۔ یہ پاکستان کے لئے بھی بہت بڑا اعزاز تھا کہ ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات کو ورلڈ بنک کا ڈائریکٹر اور آئی ایم ایف کے سٹاف میں بطور ایگزیکٹو سیکرٹری تعینات کیا گیا۔ اس دوران بھی آپ کو کئی لحاظ سے وطن عزیز کی خدمت کی توفیق ملی۔ او رآپ پاکستان کی معاشی بہتری کے لئے مفید مشوروں سے نوازتے رہے اور عملی کوششیں بھی کرتے رہے۔
براؤن ترمیم کے لئے گرانقدر مساعی
عالمی مالیاتی اداروں سے ریٹائر منٹ کے بعد بھی پاکستان کے لئے کئی مواقع پر آپ کو اہم خدمات کرنے کی توفیق ملی۔ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں پریسلر ترمیم کے ذریعہ عائد تھیں۔ پھر امریکن سینیٹر براؤن نے پریسلر ترمیم کے خاتمے کے لئے ترمیم پیش کی جو براؤن ترمیم کے نام سے موسوم ہے۔ اس سلسلہ میں وطن عزیز نے آپ کو بھی کوشش کرنے کیلئے کہا چنانچہ آپ نے اس بارہ میں کامیاب کوشش کی جس پر صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے پاکستان کی امریکہ میں سفیر نے آپ کا شکریہ ادا کیا۔ ہفت روزہ حرمت کے ایڈیٹر زاہد ملک نے امریکہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سے ایک انٹرویو لیا۔ جوحرمت 27؍دسمبر 1996ء میں شائع ہوا۔ براؤن ترمیم کے حوالے سے آپ نے انٹرویو میں کہا:۔ ’’ہماری تعلیم ہماری رگوں میں اور ہمارے خون میں سرایت کر چکی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے ساتھ ہر صورت میں وفاداری کو نبھانا ہے…… حال ہی میں پریسلر ترمیم کے خلاف جو براؤن ترمیم کے لئے کوشش ہوئی تھی تو اس وقت مجھے بھی ایمبیسی نے کہا کہ میں بھی اس سلسلے میں کوشش کروں۔ تو میں نے اس وقت بڑی بھر پور کوشش کی تھی یہاں تک کہ یہاں پاکستانی کمیونٹی اور تمام متعلقہ حلقوں میں خاصی دھاک بیٹھی اور حیرت سے لوگوں نے کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ ملک کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے تو ملک کے لئے بڑا کام کیا ہے اور جان کی بازی لگا کے جدوجہد کی ہے‘‘ ۔ (ہفت روزہ ’’حرمت‘‘ 27دسمبر 96ء ص11)
ہمارا دل پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے
اپنے وطن پاکستان جس کی خدمت آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ کی۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر بھی اور پھر بیرون ملک رہ کر بھی خاموش اور اعلانیہ خدمت کی توفیق پائی۔ جناب زاہد ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے جماعت احمدیہ اور اپنے جذبات اور وفا کا اظہار اپنے پاکستان کے لئے ان شاندار الفاظ میں کیا جو کہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’بہر حال ہم جہاں بھی ہوں ہمارا دل پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں اپنے وطن کی خدمت کرتے رہیں گے۔ غلط فہمیاں بالآخر دور ہو جائیں گی‘‘ ۔ (ہفت روزہ حرمت اسلام آباد 27دسمبر 1996ء تا2جنوری 1997ء ص44)
یہ حقیقت ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب نے ساری عمر ملک وقوم کی خدمت میں صرف کر دی اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور قابلیتوں کے ذریعہ نہ صرف ملک کے اندر رہ کر پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات کی توفیق پائی بلکہ بیرون ملک رہ کر بھی اپنے وطن کا نام روشن کیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کے فیض کو جاری رکھے۔ ؎
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے