حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان، جب1939ء میں وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کے طور پر شملہ ،بھارت میں مقیم تھے، نے اپنے ایک عزیز کے نام خط لکھا جو قریبا دو ہفتوں میں مکمل ہوا تھا اور کتابی شکل میں شائع کیا گیا، اس قیمتی تصنیف کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا:
’’(مصنف) نے نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی بہت عمدہ خدمت سرانجام دی ہے کیونکہ اس تصنیف میں وہ رستہ بتایا گیا ہے جس پر چل کر انسان ایک بااخلاق اور باخدا انسان بن سکتا ہے۔ دنیا میں اہل دنیا کی علمی اور اقتصادی اور سیاسی خدمت کرنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر اخلاقی اور روحانی خدمت کی طرف موجودہ مادی زمانہ میں بہت کم لوگوں کو توجہ ہے۔‘‘
دلائل سے آراستہ مربوط پندونصائح سے بھرے اس طویل خط میں مصنف کی قاری کے لئے قلبی محبت اور اس کی دینی و روحانی ترقی کے لئے فکرمندی باہم منسلک کرنے والی ایک بجلی کی رو پیدا کردیتی ہے جس سے اس زندگی بخش پیغام کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی خواہش قاری میں دوچند ہوجاتی ہے۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن انگلستان سے اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کا شائع کردہ ہے۔