جری اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکۃ الارآء کتاب براہین احمدیہ کی اشاعت سے دفاع اسلام اور احیائے دین کی زبردست مہم کو مضبوط بنیاد فراہم ہوئی تو عرش سے فرش تک تہلکہ برپا کرنے دینے والی اس قطبی نے جہاں اپنوں کی ڈھارس بندھائی اور اہل اسلام کے سر فخر سے بلندکردیئےوہاں مخالفین اسلام کی کیمپ میں بھی کھلبلی مچادی۔
کتاب کا مسودہ و متن مکمل کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کی اشاعت اور پریس کے بھاری مصارف کے لئے بعض سرکردہ اور نامی مسلمان رؤساء و والیان ریاست کو مالی اعانت کے لئے بھی لکھا تھا تا ان کو بھی تبلیغ اسلام کی مہم میں شامل کرکے ثواب کا موقع نصیب ہو۔ چند رؤوساکی طرف سے اعانت کا وعدہ ہوا، بعض نے اعانت بھی کی، لیکن اکثر نے بے حسی اور بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ مالی اعانت کرنے والوں میں مولوی چراچ علی صاحب معتمد مدارالمہام دولت آصفیہ حیدر آباد بھی شامل تھے۔ جن کی مالی اعانت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عظیم الشان اور نابغہ روزگار خدمات اسلامیہ کا ایک ادنیٰ سا اعتراف تھا۔
یاد رہے کہ قطبی ستارہ جیسی عظمت و شہرت کی حامل اس کتاب کے حاسدین کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اور برا ہو تعصب کا، جو اس کتاب لاجواب کے بارہ میں یہ نکتہ چینی کرنے لگے کہ اس کتاب کے لئے حضور نے حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب ، سر سید احمد خان صاحب او رمولوی سید چراغ علی صاحب سے بطور علمی اعانت بھی مضامین میں مدد لی تھی۔ اس قسم کا اعتراض مولوی عبدالحق صاحب بابائے اردو نے بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے مولوی چراغ علی صاحب کی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ‘‘ اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام’’ کے نام سے کیا تو اس کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض خطوط کو قطع و برید کرکے یہ نتیجہ نکالاکہ مولوی چراغ علی صاحب سے مرزا صاحب نے بعض مضامین براہین احمدیہ کے لئے مدد لی۔ یہ ایک بے بنیاد اور بلا ثبوت اعتراض تھا ، جس کا مدلل و کافی و شافی جواب مصنف کتاب ہذا نے زیر نظر کتاب میں دے کر بلاشبہ ایک علمی و دینی خدمت انجام دی ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ تحقیق کے طالب علموں اور اعتراضات کے جوابات دینے والوں کے لئے نہایت مفید ہے۔