بجواب حرف محرمانہ
قاضی محمد نذیر فاضلڈاکٹر غلام جیلانی برق کیمل پوری کی کتاب حرف محرمانہ کا یہ تحقیقی جواب محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے نومبر 1964ء میں تیار کیا تھا جسے نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ کے صیغہ نشر واشاعت نے قریبا 700 صفحات پر طبع کروایا تھا۔ اس کتاب کی اضافی افادی حیثیت یوں بھی ہے کہ برق صاحب کی کتاب حرف محرمانہ میں درج اعتراضات احمدیت کے خلاف لکھے گئے تمام لٹریچر بالخصوص پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ’’قادیانی مذہب‘‘ کا نچوڑ ہیں۔ یوں تحقیق عارفانہ کی صورت میں ان تمام مخالفین کے رد کا سامان ہوگیا ہے۔
اس کتاب میں محترم قاضی صاحب نے ختم نبوت پر جماعتی موقف کے بیان کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مختلف تحریرات، الہامات اور ذات والا صفات پرکئے جانے والے اعتراضات کا کافی و شافی مدلل جواب پیش کیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک حسرت کا بھی اظہار کیا ہے کہ جس طرح ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنی کتاب کے آغاز میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے حوالہ جات کے پیش کرنے میں دیانت داری سے کام لیں گے اور منشاء متکلم کو بگاڑنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ للأسف!! کتاب میں وہ اپنے ہی دعویٰ سے عہدہ برا نہ ہوسکے اورخدا جانے کیوں وہ عملاً ایسا علمی وتحقیقی اہتمام نہ کرسکے ۔یوں اپنی کوشش ’’حرف محرمانہ‘‘ کو ’’حرف مجرمانہ‘‘ اور بالآخر اپنے دوسرے بھائی بندوں کی طرح ’’تحریف مجرمانہ‘‘ بنا کر ہی دم لیا۔
محترم قاضی صاحب ایک نابغہ روزگارعلمی شخصیت تھے جو ساری عمر مباحثہ ومناظرہ میں مصروف رہے ، ان نے لکھاہے کہ
’’مجھے ہمیشہ یہ حسرت رہی ہے کہ کسی مخالف مولوی کی کوئی ایسی کتاب دیکھنے میں آئے جس میں حوالہ جات قطع وبرید کئے بغیر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح منشاء کو پیش کرکے آپ پر تنقید کی گئی ہو۔ مگر افسوس ہے کہ کوئی کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گزری جس میں دیانت کے اس پہلو کو مد نظر رکھا گیا ہو۔‘‘