اور مولوی لال حسین اختر کی تنقید کا جواب
قاضی محمد نذیر فاضلمقام ختم نبوت کی حقیقت عامۃ المسلمین پر ظاہر کرنے کے لئے جماعت احمدیہ نے ہر دور میں از حد کوشش کی ہےاور اسی نہج پر غیر احمدی مخالفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں مثلاً جب مولوی مودودی نے سیاسی مقاصد کی خاطر رسالہ بنام ’’ختم نبوت‘‘ لکھا تو اس پر جماعت کی طرف سے 2 علمی جواب مرتب کئے گئے: اول ’’القول المبین فی تفسیر خاتم النبیین‘‘ اور دوسری کتاب کا نام تھا ’’رسالہ ختم نبوت پر علمی تبصرہ‘‘۔ اس پر بعض احمدی دوستوں نے مذکورہ بالا دونوں تحقیقی کتب سے بزرگان امت کے اقوال جمع کرکے ایک پمفلٹ مرتب کیا تا خودہی موازنہ ہوجائے کہ ختم نبوت پر کس گروہ کا موقف سلف صالحین سے انحراف ہے۔اس خالص علمی کاوش پر مودودی صاحب نے تو اپنے بلند بانگ دعاوی کے باوجود چپ سادھ لی البتہ مولوی لال حسین اختر نے ’’مرزائی تحریفات کا تجزیہ۔ ختم نبوت اور بزرگان امت‘‘ کے نام سے ایک 32 صفحات کا رسالہ شائع کرادیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ پر تحریف کا الزام لگایا اور مذکورہ بالا جماعتی پمفلٹ کو کذب ،افتراء اور دجل آمیزی کا پلندہ قرار دیا۔ جماعت کے پیش کردہ حوالہ جات کو اکابرین امت پر بہتانات قرار دیا ۔ الغرض پورا رسالہ ہی سخت کلامی اور درشتی کا نمونہ تھا۔