دُرِّثمین اُردو
اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دِکھلائے
یہ ثمر باغِ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نور ہے نور اُٹھو دیکھو سنایا ہم نے
اور دِینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دِکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے
تھک گئے ہم تو اِنہی باتوں کو کہتے کہتے
ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے
آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے
یونہی غفلت کے لحافوں میں پڑے سوتے ہیں
وہ نہیں جاگتے سَو بار جگایا ہم نے
جل رہے ہیں یہ سبھی بغضوں میں اور کینوں میں
باز آتے نہیں ہر چند ہٹایا ہم نے
آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے!!
لو تمہیں طَور تسلی کا بتایا ہم نے
آج اِن نوروں کا اِک زور ہے اِس عاجز میں
دل کو اِن نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفی پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت
اُس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مُدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
اُس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالَم میں
لاجَرَمْ غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے
مَوردِ قہر ہوئے آنکھ میں اَغیار کے ہم
جب سے عشق اس کاتہ دل میں بٹھایا ہم نے
زُعم میں اُن کے مسیحائی کا دعویٰ میرا
اِفترا ہے جسے از خود ہی بنایا ہم نے
کافر و مُلحِد و دجّال ہمیں کہتے ہیں!
نام کیا کیا غمِ ملّت میں رکھایا ہم نے
گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں اِن لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے
تیری اُلفت سے ہے معمور مرا ہر ذرّہ
اپنے سینہ میں یہ اِک شہر بسایا ہم نے
صف دشمن کو کیا ہم نے بحُجّت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
نور دِکھلا کے تِرا سب کو کیا ملزم و خوار
سب کا دل آتش سوزاں میں جلایا ہم نے
نقشِ ہستی تری اُلفت سے مٹایا ہم نے
اپنا ہر ذرّہ تِری راہ میں اُڑایا ہم نے
تیرا مے خانہ جو اِک مَرجعِ عالَم دیکھا
خُم کا خُم منہ سے بَصد حرص لگایا ہم نے
شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے
تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو پایا ہم نے
چُھو کے دامن ترا ہر دام سے ملتی ہے نجات
لَاجَرَمْ در پہ ترے سر کو جھکایا ہم نے
دلبرا! مجھ کو قَسم ہے تری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بُھلایا ہم نے
بخدا دِل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش
جب سے دل میں یہ تیرا نقش جمایا ہم نے
دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا
نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے
ہم ہوئے خیرِ اُمم تجھ سے ہی اے خیرِ رُسلؐ
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے
قوم کے ظلم سے تنگ آکے مرے پیارے آج
شورِ محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ ۲۲۴ ۔ مطبوعہ ۱۸۹۳ء)