دُرِّثمین اُردو
آریوں کو دعوتِ حق
اَے آریہ سماج پھنسو مت عذاب میں
کیوں مبتلا ہو یارو خیالِ خراب میں
اَے قومِ آریہ تیرے دِل کو یہ کیا ہوا
تو جاگتی ہے یا تِری باتیں ہیں خواب میں
کیا وہ خدا جو ہے تری جاں کا خدا نہیں
ایماں کی بو نہیں ترے ایسے جواب میں
گر عاشقوں کی رُوح نہیں اُس کے ہاتھ سے
پھر غیر کیلئے ہیں وہ کیوں اِضطراب میں
گر وہ الگ ہے ایسا کہ چھو بھی نہیں گیا
پھر کِس نے لکھ دیا ہے وہ دل کی کتاب میں
جس سوز میں ہیں اُس کیلئے عاشقوں کے دِل
اِتنا تو ہم نے سوز نہ دیکھا کباب میں
جامِ وصال دیتا ہے اُس کو جو مَر چکا
کچھ بھی نہیں ہے فرق یہاں شیخ و شاب میں
ملتا ہے وہ اُسی کو جو ہو خاک میں مِلا!
ظاہر کی قِیل و قال بھلا کس حساب میں
ہوتا ہے وہ اُسی کا جو اُس کا ہی ہو گیا
ہے اسکی گود میں جو گِرا اس جناب میں
پھولوں کو جا کے دیکھو اسی سے وہ آب ہے
چمکے اُسی کا نور مہ۱؎ و آفتاب میں
۱؎ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ’’خدا ہے نور زمین و آسمان کا‘‘(آیت قرآن شریف)
خوبوں کے حُسن میں بھی اُسی کا وہ نور ہے
کیا چیز حُسن ہے وہی چمکا حجاب میں
اس کی طرف ہے ہاتھ ہر اک تارِ زُلف کا
ہجراں سے اسکے رہتی ہے وہ پیچ و تاب میں
ہر چشمِ مست دیکھو اسی کو دکھاتی ہے
ہر دِل اسی کے عشق سے ہے التہاب میں
جن مُورکھوں کو کاموں پہ اسکے یقیں نہیں
پانی کو ڈھونڈتے ہیں عبث وُہ سراب میں
قُدرت سے اُس قدیر کی اِنکار کرتے ہیں!
بَکتے ہیں جیسے غرق ہو کوئی شراب میں
دِل میں نہیں کہ دیکھیں وہ اُس پاک ذات کو
ڈرتے ہیں قوم سے کہ نہ پکڑیں عتاب میں
ہم کو تو اَے عزیز دکھا اپنا وہ جمال
کب تک وُہ مُنہ رہیگا حجاب و نقاب میں
(سناتن دھرم ٹائیٹل پیج ۔ صفحہ ۲ مطبوعہ ۱۹۰۳ء )