دُرِّثمین اُردو
مُناجات اور تبلیغِ حق
اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اَے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
کِس طرح تیرا کروں اے ذُوالمِنَن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
بدگمانوں سے بچایا مُجھ کو خود بن کر گواہ
کر دیا دشمن کو اِک حملہ سے مغلوب اور خوار
کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا
مُجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار
تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم
کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب و جوار
کِرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
یہ سراسر فضل و اِحساں ہے کہ مَیں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار
دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے
پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اَے مرے حاجت برار
اَے مرے یارِ یگانہ اَے مری جاں کی پنہ
بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تُجھ بن بکار
میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا لُطف
پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار
اے فدا ہو تیری رہ میں میراجسم و جان و دِل
مَیں نہیں پاتا کہ تُجھ سا کوئی کرتا ہو پیار
اِبتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے
گود میں تیری رہا مَیں مثلِ طفلِ شیر خوار
نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے
تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
مَیں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار
اِس قدر مُجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم
جن کا مشکل ہے کہ تا روزِ قیامت ہو شمار
آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار
تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نُصرت کے لئے
تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار
ہو گئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا
ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار
سرزمینِ ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی
جیسے ہووے برق کا اِک دم میں ہرجا اِنتشار
پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں
تا وہ نخلِ راستی اِس ملک میں لاوے ثمار
لوگ سَو بَک بَک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں
تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار
ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران و نفع و عُسْر و یُسْر
تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار
جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو
جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار
مَیں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشان
جس کو تو نے کردیا ہے قوم و دیں کا افتخار
فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار
سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار
عزّت و ذِلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں
تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار
میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کر دیا
کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار
تیرے اے میرے مُربی کیا عجائب کام ہیں
گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار
اِبتدا سے گوشۂ خلوت رہا مُجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار
اِس میں میرا جُرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رَدْ کروں حکمِ شہِ ذی الاقتدار
اب تو جو فرماں مِلا اس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ مَیں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دِلفگار
دعوتِ ہر ہَرْزَہ گو کچھ خدمتِ آساں نہیں
ہر قدم میں کوہِ ماراں ہرگزر میں دشتِ خار
چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب
پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پُکار
قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا
پھیر دے میری طرف آ جائیں پھر بے اختیار
گر کرے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو
وہ دِل سنگیں جو ہووے مثلِ سنگِ کوہسار
ہاے میری قوم نے تکذیب کر کے کیا لیا
زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثلِ غار
شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر اسوقت پر
شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار
کیا وہ سارے مرحلے طے کرچکے تھے علم کے
کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار
دل میں جو اَرماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے
دشمنِ جاں بن گئے جن پر نظر تھی بار بار
ایسے کچھ بگڑے کہ اب بننا نظر آتا نہیں
آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار
کس کے آگے ہم کہیں اس دردِ دل کا ماجرا
اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا دَرکنار
کیا کروں کیونکر کروں میں اپنی جاں زیر و زبر
کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار
اِس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضلِ حق سے معجزات
دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دِلفگار
پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا
دیکھ کر سَو سَو نشاں پھر بھی ہے تَوہِیں کاروبار
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دِل میں ہے خوفِ کردگار
دِن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار
اے مرے پیارے فِدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا
پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار
کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شورہے
خاک میں ہوگا یہ سر گر تو نہ آیا بن کے یار
فضل کے ہاتھوں سے اب اِس وقت کر میری مدد
کشتی اسلام تا ہو جائے اِس طوفاں سے پار
میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر
تا نہ خوش ہو دشمنِ دیں جس پہ ہے لعنت کی مار
میرے زخموں پر لگا مرہم کہ مَیں رنجور ہوں
میری فریادوں کو سُن مَیں ہو گیا زار و نزار
دیکھ سکتا ہی نہیں مَیں ضعفِ دینِ مصطفیٰ
مجھ کو کر اے میرے سُلطاں کامیاب و کامگار
کیا سُلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مُراد
یہ تو تیرے پر نہیں اُمّید اے میرے حصار
یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اِس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سُن لے پکار
قوم میں فِسق و فجور و معصیت کا زور ہے
چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار
ایک عالَم مر گیا ہے تیرے پانی کے بغیر
پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار
اب نہیں ہیں ہوش اپنے ان مصائب میں بجا
رحم کر بندوں پہ اپنے تا وہ ہوویں رستگار
کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں
بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سُو ہر کنار
ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا
آ گیا اس قوم پر وقتِ خزاں اندر بہار
نورِ دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہو گئی
اپنی کجرائی پہ ہر دل کر رہا ہے اعتبار
جس کو ہم نے قطرۂ صافی تھا سمجھا اور تقی
غور سے دیکھا تو کیڑے اس میں بھی پائے ہزار
دُوربینِ معرفت سے گند نکلا ہر طرف
اِس وبا نے کھا لئے ہر شاخِ ایماں کے ثمار
اَے خدا بِن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح
جل گیا ہے باغِ تقویٰ دیں کی ہے اب اِک مزار
تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو
ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار
اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں
اِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار
کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سو گئے
کس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار
عقل پر پردے پڑے سَو سَو نشاں کو دیکھ کر
نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہل نار
گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا
اس کا ہووے ستیاناس اس سے بگڑے ہوشیار
بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ
پَر کے اک ریشہ سے ہوجاتی ہے کوّوں کی قطار
حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خدا
کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار
کیا خدا نے اتقیاء کی عَوْن و نصرت چھوڑ دی
ایک فاسق اور کافر سے وہ کیوں کرتا ہے پیار
ایک بدکردار کی تائید میں اتنے نِشاں
کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار
کیا بدلتا ہے وُہ اب اس سُنت و قانون کو
جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار
آنکھ گر پھوٹی تو کیا کانوں میں بھی کچھ پڑ گیا
کیا خدا دھوکے میں ہے اور تم ہو میرے راز دار
جس کے دعویٰ کی سراسر افترا پر ہے بنا
اس کی یہ تائید ہو پھر جھوٹ سچ میں کیا نِکھار
کیا خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مِل گئی
کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حالِ زار
بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کر دیا
ورنہ تھے میری صداقت پر بَراہیں بیشمار
جہل کی تاریکیاں اور سُوءِ ظن کی تُندباد
جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار
زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت و فنا
بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اَے دیں شعار
کانٹے اپنی راہ میں بوتے ہیں ایسے بدگماں
جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب و اصطبار
یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ
پر مقدّر کو بدل دینا ہے کس کے اِختیار
سخت جاں ہیں ہم کسی کے بُغض کی پروا نہیں
دِل قوی رکھتے ہیں ہم دَردوں کی ہے ہم کو سہار
جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اَے روبۂ زار و نزار
ہے سرِ رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم
پس نہ بیٹھو میری رہ میں اَے شریرانِ دیار
سنّت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے
تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مُردار خوار
مجھ کو پَردے میں نظر آتا ہے اِک میرا مُعین
تیغ کو کھینچے ہوئے اُس پر جو کرتا ہے وہ وار
دشمنِ غافل اگر دیکھے وہ بازو وہ سلاح
ہوش ہو جائیں خطا اور بھول جائے سب نقار
اِس جہاں کا کیا کوئی داوَر نہیں اور دادگر
پھر شریر النّفس ظالم کو کہاں جائے فرار
کیوں عجب کرتے ہو گر مَیں آ گیا ہو کر مسیح
خود مسیحائی کا دَم بھرتی ہے یہ بادِ بہار
آسمان پر دعوتِ حق کے لئے اِک جوش ہے
ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار
آ رہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج
نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہِ زندہ وار
کہتے ہیں تثلیث کو اب اہلِ دانش اَلْوِدَاع
پھر ہوئے ہیں چشمۂ توحید پر از جاں نِثار
باغ میں مِلّت کے ہے کوئی گُلِ رعنا کھِلا
آئی ہے بادِ صبا گُلزار سے مستانہ وار
آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے
گو کہو دیوانہ مَیں کرتا ہوں اُس کا اِنتظار
ہر طرف ہر مُلک میں ہے بُت پرستی کا زوال
کچھ نہیں انساں پرستی کو کوئی عِزّ و وقار
آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا
دِل ہمارے ساتھ ہیں گو مُنہ کریں بک بک ہزار
اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح
نیز بِشنو از زمیں آمد امامِ کامگار
آسماں بارد نشان اَلْوَقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
اَے مکذّب کوئی اِس تکذیب کا ہے انتہا
کب تلک تو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار
مِلّت احمدؐ کی مالک نے ڈالی تھی بِنا
آج پوری ہورہی ہے اے عزیزان دیار
گلشنِ احمدؐ بنا ہے مسکن باد صبا
جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتارِ یار
ورنہ وہ ملّتؔ وہ رَہ ؔ وہ رسمؔ وہ دیں چیز کیا
سایہ افگن جس پہ نورِ حق نہیں خورشیدوار
دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہوگیا
قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال دُرِّ شاہوار
ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف
وہ بلاتے ہیں کہ ہوجائیں نہاں ہم زیر غار
نورِ دل جاتا رہا اک رسم دیں کی رہ گئی
پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلح دیں کیا بکار
راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں
وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلافِ شہریار
ہائے مارِ آستیں وُہ بن گئے دیں کے لئے
وُہ تو فربہ ہو گئے پر دیں ہوا زار و نزار
اِن غموں سے دوستو خَم ہو گئی میری کمر
مَیں تو مر جاتا اگر ہوتا نہ فضل کردگار
اِس تپش کو میری وہ جانے کہ رکھتا ہے تپش
اِس اَلَم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دِلفگار
کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا
مہر و مہ کی آنکھ غم سے ہو گئی تاریک و تار
مُفتری کہتے ہوئے اُن کو حیا آتی نہیں
کیسے عَالِم ہیں کہ اُس عَالَم سے ہیں یہ برکنار
غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
وہ ہمارا ہو گیا اُس کے ہوئے ہم جاں نِثار
مَیں کبھی آدم ؑ کبھی موسٰیؑ کبھی یعقوب ؑ ہوں
نیز ابراہیم ؑ ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صِفت کے پھل لگے
مَیں ہوا داؤد ؑ اور جالوت ہے میرا شکار
پر مسیحا بن کے مَیں بھی دیکھتا رُوئے صلیب
گر نہ ہوتا نامِ احمدؐ جس پہ میرا سب مدار
دشمنو! ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی
کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا اِنتظار
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
کیا کروں تعریف حُسنِ یار کی اور کیا لکھوں
اِک اَدا سے ہو گیا میں سیلِ نفسِ دُوں سے پار
اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا
آنکھ میں اسکی کہ ہے وہ دُور تر از صحنِ یار
اُس رُخِ روشن سے میری آنکھ بھی روشن ہوئی
ہو گئے اَسرار اُس دِلبر کے مجھ پر آشکار
قوم کے لوگو! اِدھر آؤ کہ نکلا آفتاب
وادیٔ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار
کیا تماشا ہے کہ مَیں کافر ہوں تم مومن ہوئے
پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار
کیا اچنبھی بات ہے کافر کی کرتا ہے مدد
وہ خدا جو چاہیئے تھا مومنوں کا دوستدار
اہلِ تقویٰ تھا کرم دیں بھی تمہاری آنکھ میں
جس نے ناحق ظلم کی رہ سے کیا تھا مجھ پہ وار
بے معاون مَیں نہ تھا، تھی نصرتِ حق میرے ساتھ
فتح کی دیتی تھی وحیِ حق بشارت بار بار
پر مجھے اُس نے نہ دیکھا آنکھ اُس کی بند تھی
پھر سزا پا کر لگایا سرمۂ دُنبالہ دار
نام بھی کذّاب اس کا دفتروں میں رہ گیا
اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روزِ شمار
اب کہو کِس کی ہوئی نُصرت جنابِ پاک سے
کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار
پھر اِدھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے
کیسے میرے یار نے مجھ کو بچایا بار بار
قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیرِ مکر
بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار
پھر لگایا ناخنوں تک زور بن کر اِک گروہ
پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار
ہم نِگہ میں ان کی دجّال اور بے ایماں ہوئے
آتشِ تکفیر کے اُڑتے رہے پیہم شرار
اب ذرا سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے
ہاتھ کس کا ہے کہ ردّ کرتا ہے وہ دشمن کا وار
کیوں نہیں تم سوچتے کیسے ہیں یہ پردے پڑے
دِل میں اُٹھتا ہے مرے رہ رہ کے اَب سَو سَو بخار
یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں!
ایسے کاذب کیلئے کافی تھا وہ پروردگار
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار
پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر
ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار
اِس قدر نُصرت کہاں ہوتی ہے اِک کذّاب کی
کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار
ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار
آفتابِ صبح نِکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ
دن سے ہیں بیزار اور راتوں سے وہ کرتے ہیں پیار
روشنی سے بُغض اور ظلمت پہ وہ قربان ہیں
ایسے بھی شبپر نہ ہونگے گرچہ تم ڈھونڈو ہزار
سَر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند
مرتے ہیں بِن آب وہ اور در پہ نہرِ خوشگوار
طُرفہ کیفیت ہے اُن لوگوں کی جو منکر ہوئے
یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار
پر اگر پوچھیں کہ ایسے کاذبوں کے نام لو
جن کی نُصرت سالہا سے کر رہا ہو کردگار
مُردہ ہو جاتے ہیں اس کا کچھ نہیں دیتے جواب
زرد ہو جاتا ہے منہ جیسے کوئی ہو سوگوار
ان کی قسمت میں نہیں دیں کے لئے کوئی گھڑی
ہو گئے مفتونِ دُنیا دیکھ کر اُس کا سنگار
جی چُرانا راستی سے کیا یہ دیں کا کام ہے
کیا یہی ہے زُہد و تقویٰ کیا یہی راہِ خیار
کیا قسم کھائی ہے یا کچھ پیچ قِسمت میں پڑا
روزِ روشن چھوڑ کر ہیں عاشقِ شبہائے تار
انبیاء کے طور پر حجّت ہوئی ان پر تمام
ان کے جو حملے ہیں ان میں سب نبی ہیں حصہ دار
میری نسبت جو کہیں کِیں سے وہ سب پر آتا ہے
چھوڑ دینگے کیا وہ سب کو کفر کر کے اختیار
مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مُہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار
ساٹھ سے ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی
سال ہے اب تئیسواں دعویٰ پہ از رُوئے شمار
تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں
جبکہ مَیں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار
اِس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی
پھر عجب تر یہ کہ نُصرت کے ہوئے جاری بِحار
ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں
ہر عدو پر حجّتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار
نعمتیں وُہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے
جن سے ہیں معنیٔ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ آشکار
سایہ بھی ہو جائے ہے اوقاتِ ظُلمت میں جُدا
پر رہا وُہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار
اِس قدر نُصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی
گر نہیں باور نظیریں اس کی تم لاؤ دو چار
پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر
اُس مُہَیمن سے ڈرو جو بادشاہِ ہر دو دار
یہ کہاں سے سُن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو
کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عِصیاں ہزار
نعرۂِ اِنَّا ظَلَمْنَا سُنّتِ اَبرار ہے
زہر مُنہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہو نسلِ مار
جسم کو مَل مَل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں
دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار
اپنے ایماں کو ذرا پردہ اُٹھا کر دیکھنا
مجھ کو کافر کہتے کہتے خود نہ ہوں از اہلِ نار
گر حیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیا راز ہے
وہ مری ذِلّت کو چاہیں پا رہا ہوں مَیں وقار
کیا بگاڑا اپنے مکروں سے ہمارا آج تک
اژدہا بن بن کے آئے ہو گئے پھر سُو سمار
اے فقیہو عالمو! مجھ کو سمجھ آتا نہیں
یہ نشانِ صِدق پا کر پھر یہ کِیں اور یہ نقار
صدق کو جب پایا اصحابِ رسول اللہ نے
اُس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار
پھر عجب یہ علم یہ تنقیدِ آثار و حدیث
دیکھ کر سَو سَو نشاں پھر کر رہے ہو تم فرار
بحث کرنا تم سے کیا حاصل اگر تم میں نہیں
رُوحِ انصاف و خدا ترسی کہ ہے دیں کا مدار
کیا مجھے تم چھوڑتے ہو جاہِ دنیا کے لئے
جاہِ دُنیا کب تلک دُنیا ہے خود ناپائیدار
کون دَرپردہ مجھے دیتا ہے ہر میداں میں فتح
کون ہے جو تم کو ہر دَم کر رہا ہے شرمسار
تم تو کہتے تھے کہ یہ نابود ہو جائے گا جلد
یہ ہمارے ہاتھ کے نیچے ہے اِک ادنیٰ شکار
بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی
خائب و خاسر رہے تم، ہو گیا مَیں کامگار
اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا مُعتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کِس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد ازمُرورِ روزگار
کھول کر دیکھو براہیں جو کہ ہے میری کتاب
اِس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار
اب ذرہ سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
اِس قدر امرِ نہاں پر کس بشر کو اِقتدار
قُدرتِ رحمان و مکرِ آدمی میں فرق ہے
جو نہ سمجھے وہ غبی از فرق تاپا ہے حمار
سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے
راہِ حرماں چھوڑ دو رحمت کے ہو اُمیدوار
سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا
کس کے فرماں سے میں مقصد پا گیا اور تم ہو خوار
یہ بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی
جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذِلّت کی مار
غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے
میں تو خود رکھتا ہُوں اُن کے دیں سے اور ایماں سے عار
گر یہی دیں ہے جو ہے ان کی خصائل سے عیاں
مَیں تو اِک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار
جان و دِل سے ہم نثارِ ملّتِ اسلام ہیں
لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہلِ نقار
واہ رے جوشِ جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ
جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار
ناز مت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں
اس کو ہیرا مت گماں کر ہے یہ سنگِ کوہسار
پیٹنا ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مر گئے
جبکہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار
ہے یہ گھر گرنے پہ اَے مغرور لے جلدی خبر
تا نہ دَب جائیں تِرے اہل و عیال و رِشتہ دار
یہ عجب بدقسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی
پر اُترتا ہی نہیں ہے جامِ غفلت کا خمار
ہوش میں آتے نہیں سَو سَو طرح کوشش ہوئی
ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار
دن بُرے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا
اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار
ہے غضب کہتے ہیں اب وحیِ خدا مفقود ہے
اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصّوں پر مدار
یہ عقیدہ برخلافِ گُفتۂ دادار ہے!
پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
گوہرِ وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر
اِک یہی دیں کیلئے ہے جائے عِزّ و افتخار
یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں
یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مُشکِ تتار
یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے دَر کھلیں
یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں رُوئے نگار
بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے
بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حِصار
ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں
محض قصّوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار
ہے یہی وحیِ خدا عرفانِ مولیٰ کا نشان
جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار
واہ رے باغِ محبت موت جس کی رہگذر
وصلِ یار اسکا ثمر پر ارد گرد اس کے ہیں خار
اَیسے دِل پر داغِ لعنت ہے ازل سے تا اَبد
جو نہیں اس کی طلب میں بیخود و دیوانہ وار
پر جو دُنیا کے بنے کیڑے وہ کیا ڈھونڈیں اسے
دیں اُسے ملتا ہے جو دِیں کے لئے ہو بے قرار
ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فِطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار
یاد وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں
مہدیٔ موعودِ حق اب جلد ہو گا آشکار
کون تھا جس کی تمنّا یہ نہ تھی اِک جوش سے
کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنیوالے سے پیار
پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی
سب سے اوّل ہو گئے مُنکر یہی دیں کے مِنار
پھر دوبارہ آ گئی اَحبار میں رسمِ یہود
پھر مسیحِ وقت سے دشمن ہوئے یہ جُبّہ دار
تھا نَوِشتوں میں یہی از ابتدا تا انتہا
پھر مِٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقشِ جدار
مَیں تو آیا اِس جہاں میں ابن مریم کی طرح
مَیں نہیں مامور از بہر جہاد و کارزار
پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں اُمید تھی
اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بیشمار
اَیسے مہدی کیلئے میداں کھلا تھا قوم میں
پھر تو اس پر جمع ہوتے ایکدم میں صد ہزار
پر یہ تھا رحمِ خُداوندی کہ مَیں ظاہر ہوا
آگ آتی گر نہ مَیں آتا تو پھر جاتا قرار
آگ بھی پھر آ گئی جب دیکھ کر اتنے نشاں
قوم نے مجھ کو کہا کذّاب ہے اور بدشعار
ہے یقیں یہ آگ کچھ مُدّت تلک جاتی نہیں
ہاں مگر توبہ کریں باصد نیاز و انکسار
یہ نہیں اِک اتفاقی امر تا ہوتا علاج
ہے خدا کے حکم سے یہ سب تباہی اور تبار
وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دِیں دِیا
وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار
بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا
بَن ہے یہ دنیاءِ دُوں طاعوں کرے اس میں شکار
صَیدِ طاعوں مت بنو پورے بنو تم متّقی
یہ جو ایماں ہے زباں کا، کچھ نہیں آتا بکار
موت سے گر خود ہو بے ڈر کچھ کرو بچوں پہ رحم
امن کی رہ پر چلو بَن کو کرو مت اختیار
بَن کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی
کوئی ہے رُوبہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار
اِن دلوں کو خود بدل دے اے مرے قادر خدا
تو تو ربّ العالمین ہے اور سب کا شہریار
تیرے آگے محو یا اِثبات ناممکن نہیں
جوڑنا یا توڑنا یہ کام تیرے اختیار
ٹوٹے کاموں کو بنا دے جب نگاہِ فضل ہو
پھر بنا کر توڑ دے اِک دم میں کر دے تارتار
تو ہی بگڑی کو بناوے توڑ دے جب بن چکا
تیرے بھیدوں کو نہ پاوے سَو کرے کوئی بچار
جب کوئی دل ظلمتِ عصیاں میں ہووے مبتلا
تیرے بِن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار
اِس جہاں میں خواہشِ آزادگی بے سُود ہے
اِک تری قیدِ محبت ہے جو کر دے رستگار
دِل جو خالی ہو گدازِ عشق سے وہ دِل ہے کیا
دل وُہ ہے جس کو نہیں بے دِلبر یکتا قرار
فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود
پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بہرِ یار
تلخ ہوتا ہے ثمر جبتک کہ ہو وُہ ناتمام
اِسطرح ایماں بھی ہے جبتک نہ ہو کامل پیار
تیرے مُنہ کی بھوک نے دِل کو کیا زیر و زبر
اے مرے فردوسِ اعلیٰ اب گرا مجھ پر ثمار
اَے خدا اَے چارہ سازِ درد ہم کو خود بچا
اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار
باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل
ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار
تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے
ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار
گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت ہیچ ہے
فضل پر تیرے ہے سب جُہد و عمل کا انحصار
جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں
رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار
چُھٹ گئے شیطاں سے جو تھے تیری الفت کے اسیر
جو ہوئے تیرے لئے بے برگ و بر پائی بہار
سب پیاسوں سے نِکوتر تیرے مُنہ کی ہے پیاس
جس کا دِل اس سے ہے بریاں پاگیا وُہ آبشار
جس کو تیری دُھن لگی آخر وُہ تجھ کو جا ملا
جس کو بے چینی ہے یہ وُہ پا گیا آخر قرار
عاشقی کی ہے علامت گریہ و دامانِ دشت
کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہو اشکبار
تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب
شرط رہ پر صبر ہے اور ترکِ نامِ اضطرار
مَیں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے
چل رہی ہے وُہ ہوا جو رخنہ اندازِ بہار
جیفۂ دُنیا پہ یکسر گِر گئے دُنیا کے لوگ
زندگی کیا خاک اُن کی جو کہ ہیں مُردار خوار
دِیں کو دے کر ہاتھ سے دُنیا بھی آخر جاتی ہے
کوئی آسودہ نہیں بِن عاشق و شیدائے یار
رنگِ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر
ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار
سَو چڑھے سورج نہیں بِن رُوئے دِلبر روشنی
یہ جہاں بے وصلِ دِلبر ہے شبِ تاریک و تار
اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اِک بینظیر
جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار
اِس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام
نقد پا لیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار
کون ہے جسکے عمل ہوں پاک بے انوارِ عشق
کون کرتا ہے وفا بِن اُسکے جس کا دِل فگار
غیر ہو کر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض
کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار
کون چھوڑے خوابِ شیریں کون چھوڑے اکل و شرب
کون لے خارِ مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار
عِشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر
عِشق ہے جو سر جھکا دے زیرِ تیغِ آبدار
پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جُھک گئے
وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانۂ ناپائیدار
جسکو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے
آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار
منبروں پر اُنکے سارا گالیوں کا وعظ ہے
مجلسوں میں انکی ہر دم سبّ و غیبت کاروبار
جس طرف دیکھو یہی دُنیا ہی مقصد ہو گئی
ہر طرف اُس کے لئے رغبت دِلائیں بار بار
ایک کانٹا بھی اگر دیں کیلئے اُن کو لگے
چیخ کر اس سے وہ بھاگیں شیر سے جیسے حمار
ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں
دِیں کی کچھ پروا نہیں دنیا کے غم میں سوگوار
لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اَور ہیں
مَیں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار
اے میرے پیارے بتا تُو کس طرح خوشنود ہو
نیک دِن ہوگا وُہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار
جسطرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں
ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دِل کا رازدار
نیک ظن کرنا طریقِ صالحانِ قوم ہے
لیک سو پَردے میں ہوں اُن سے نہیں ہوں آشکار
بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بد یا نیک مرد
میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرّہ وار
ابنِ مریم ہوں مگر اُترا نہیں مَیں چرخ سے
نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار
ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام
کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نے دیار
تاج و تختِ ہند قیصر کو مُبارک ہو مدام
ان کی شاہی میں مَیں پاتا ہوں رفاہِ روزگار
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا مُلک ہے سب سے جُدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
ہم تو بستے ہیں فلک پر اِس زمیں کو کیا کریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نِقار
مُلکِ روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر
گو بہت دُنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار
داغِ لعنت ہے طلب کرنا زمیں کا عِزّ و جاہ
جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار
کام کیا عِزّت سے ہم کو شہرتوں سے کیا غرض
گر وہ ذِلّت سے ہو راضی اُس پہ سَو عِزّت نثار
ہم اُسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہو گیا
چھوڑ کر دُنیائے دُوں کو ہم نے پایا وہ نِگار
دیکھتا ہوں اپنے دِل کو عرشِ ربّ العالمیں
قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار
دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر دو(۲) سَتِی
آ ملی الفت سے اُلفت ہو کے دو دِل پر سوار
دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے
ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار
کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار
اُس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے
کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائیگا زر بے شمار
تِیر تاثیرِ محبت کا خطا جاتا نہیں
تِیر اندازو! نہ ہونا سُست اس میں زینہار
ہے یہی اِک آگ تا تم کو بچاوے آگ سے
ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار
اِس سے خود آ کر ملے گا تم سے وہ یارِ ازل
اِس سے تم عرفانِ حق سے پہنو گے پُھولوں کے ہار
وہ کتابِ پاک و برتر جس کا فُرقاں نام ہے
وُہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار
جن کو ہے انکار اس سے سخت ناداں ہیں وہ لوگ
آدمی کیونکر کہیں جب اُن میں ہے حُمقِ حمار
کیا یہی اسلام کا ہے دُوسرے دینوں پہ فخر
کر دیا قِصّوں پہ سارا ختم دیں کا کاروبار
مغزِ فرقانِ مُطَہرَّ کیا یہی ہے زُہدِ خشک
کیا یہی چوہا ہے نکلا کھود کر یہ کوہسار
گر یہی اسلام ہے بس ہو گئی اُمّت ہلاک
کِس طرح رَہ مل سکے جب دیں ہی ہو تاریک و تار
مُنہ کو اپنے کیوں بگاڑا نااُمیدوں کی طرح
فیض کے در کھل رہے ہیں اپنے دامن کو پسار
کِس طرح کے تُم بشر ہو دیکھتے ہو صد نشاں
پھر وُہی ضِدّ و تعصّب اور وہی کین و نقار
بات سب پوری ہوئی پر تم وہی ناقص رہے
باغ میں ہوکر بھی قِسمت میں نہیں دیں کے ثمار
دیکھ لو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہو گئیں
جن کا ہونا تھا بعید از عقل و فہم و افتکار
اُس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیا چیز تھا
جس زمانہ میں براہیںؔ کا دیا تھا اِشتہار
پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا
کِس طرح سرعت سے شہرت ہو گئی در ہر دیار
جانتا تھا کون کیا عزّت تھی پبلک میں مجھے
کِس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار
تھے رجوعِ خلق کے اسباب مال و علم و حکم
خاندانِ فقر بھی تھا باعثِ عِزّ و وقار
لیک اِن چاروں سے مَیں محروم تھا اور بے نصیب
ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار
پھر رکھایا نام کافر ہو گیا مطعُونِ خلق
کفر کے فتووں نے مجھ کو کر دیا بے اعتبار
اِس پہ بھی میرے خدا نے یاد کر کے اپنا قول
مرجع عالم بنایا مجھ کو اور دِیں کا مدار
سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کیلئے
کر دیئے اُس نے تَبَہ جیسے کہ ہو گرد و غبار
سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
کوئی بتلائے نظیر اس کی اگر کرنا ہے وار
مکرِ انساں کو مٹا دیتا ہے انسانِ دگر
پر خدا کا کام کب بگڑے کسی سے زینہار
مفتری ہوتا ہے آخر اِس جہاں میں روسیہ
جلد تر ہوتا ہے برہم اِفترا کا کاروبار
اِفترا کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی
جو ہو مثلِ مُدّتِ فخرالرّسل فخرالخیار
حسرتوں سے میرادل پُر ہے کہ کیوں منکر ہو تم
یہ گھٹا اب جُھوم جُھوم آتی ہے دِل پر بار بار
یہ عجب آنکھیں ہیں سورج بھی نظر آتا نہیں
کچھ نہیں چھوڑا حَسد نے عقل اور سوچ اور بچار
قوم کی بدقسمتی اس سرکشی سے کُھل گئی
پر وہی ہوتا ہے جو تقدیر سے پایا قرار
قوم میں ایسے بھی پاتا ہوں جو ہیں دُنیا کے کِرْم
مقصد اُنکی زیست کا ہے شہوت و خَمر و قمار
مکر کے بل چل رہی ہے اُن کی گاڑی روز و شب
نفس و شیطاں نے اُٹھایا ہے انہیں جیسے کہار
دیں کے کاموں میں تو اُن کے لڑ کھڑاتے ہیں قدم
لیک دُنیا کے لئے ہیں نوجوان و ہوشیار
حِلّت و حُرمت کی کچھ پروا نہیں باقی رہی
ٹھونس کر مُردار پیٹوں میں نہیں لیتے ڈکار
لافِ زُہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا
ہے زباں میں سب شرف اور نیچ دِل جیسے چمار
اَے عزیزو کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ
ایک دن ہے غرق ہونا بادو چشمِ اشکبار
جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں
گلشنِ دِلبر کی راہ ہے وادیٔ غُربت کے خار
اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا
ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھا لے سارا بار
تیری عظمت کے کرِشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی
تیری قُدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار
کام دکھلائے جو تو نے میری نُصرت کے لئے
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار
کِس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا
مَیں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں پر نثار
ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال و حُسن میں
جس نے اِک چمکار سے مُجھ کو کیا دیوانہ وار
اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم
تیری قدرت سے نہیں کچھ دُور گر پائیں سُدھار
مجھ کو کافر کہتے ہیں مَیں بھی انہیں مومن کہوں
گر نہ ہو پرہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار
مجھ پہ اَے واعظ نظر کی یار نے تجھ پر نہ کی
حَیف اُس ایماں پہ جس سے کُفر بہتر لاکھ بار
روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار
وہ خدا جس نے نبی کو تھا زرِ خالص دیا
زیورِ دیں کو بناتا ہے وہ اب مثلِ سُنار
وہ دِکھاتا ہے کہ دیں میں کچھ نہیں اِکراہ و جبر
دیں تو خود کھینچے ہے دل مثلِ بُتِ سِیمیں عذار
بس یہی ہے رمز جو اُس نے کیا منع از جہاد
تا اُٹھا وے دیں کی رَہ سے جو اُٹھا تھا اِک غبار
تا دکھاوے مُنکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں
جن سے ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار
کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں
وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار
پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اِک معجزہ
معنیٔ رازِ نبوّت ہے اِسی سے آشکار
نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قومِ وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار
روشنی میں مہرِ تاباں کی بھلا کیا فرق ہو
گرچہ نِکلے روم کی سرحد سے یا از زنگبار
اے مرے پیارو !شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مُشکِ تَتار
نفس کو مارو کہ اُس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دِمار
جِس نے نفسِ دُوں کو ہمت کر کے زیر پا کیا
چیز کیا ہیں اُس کے آگے رُستم و اسفندیار
گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ اِنکسار
تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی
چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
چُپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں سِتم
دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کر دیں حالِ زار
دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو
شدتِّ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار
اِفترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے
یہ خیال، اللہ اکبر، کس قدر ہے نابکار
خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر
جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار
پاک دل پر بدگمانی ہے یہ شقوت کا نِشاں
اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار
جبکہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں
پھر مجھے کہتے ہیں کاذب دیکھ کر میرے ثمار
کیا تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھ کر اندھی ہوئی
کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو! کہ ہے روزِ شمار
آنکھ رکھتے ہو ذرا سوچو کہ یہ کیا راز ہے
کس طرح ممکن کہ وہ قدّوس ہو کاذب کا یار
یہ کرم مُجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے
بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبارِ کِردگار
مجھ کو خود اس نے دیا ہے چشمۂ توحیدِ پاک
تا لگاوے از سرِ نو باغِ دیں میں لالہ زار
دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے
پھر اگر قُدرت ہے اَے مُنکر تو یہ چادر اُتار
خِیرگی سے بدگمانی اِس قدر اچھی نہیں
اِن دنوں میں جب کہ ہے شورِ قیامت آشکار
ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر
نوحؑ کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار
صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار
پُشتیِ دیوارِ دیں اور مامنِ اسلام ہُوں
نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرقِ ایں جدار
جاہلوں میں اِس قدر کیوں بدگمانی بڑھ گئی
کچھ بُرے آئے ہیں دن یا پڑ گئی لعنت کی مار
کُچھ تو سمجھیں بات کو یہ دِل میں ارماں ہی رہا
واہ رے شیطاں عجب ان کو کیا اپنا شکار
اَے کہ ہر دم بدگمانی تیرا کاروبار ہے
دوسری قوّت کہاں گم ہو گئی اَے ہوشیار
مَیں اگر کاذب ہوں کذّابوں کی دیکھوں گا سزا
پر اگر صادق ہوں پھر کیا عُذر ہے روزِ شمار
اِس تعصّب پر نظر کرنا کہ مَیں اسلام پر
ہوں فدا پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر بار بار
مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
مَیں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار
ہائے وہ تقویٰ جو کہتے تھے کہاں مخفی ہوئی
ساربانِ نفسِ دُوں نے کس طرف پھیری مہار
کام جو دکھلائے اس خَلَّاق نے میرے لئے
کیا وہ کر سکتا ہے جو ہو مُفتری شیطاں کا یار
مَیں نے روتے روتے دامن کر دیا تَر درد سے
اب تلک تم میں وہی خشکی رہی باحالِ زار
ہائے یہ کیا ہو گیا عقلوں پہ کیا پتھر پڑے
ہو گیا آنکھوں کے آگے اُن کے دن تاریک و تار
یا کسی مخفی گُنَہ سے شامتِ اعمال ہے
جِس سے عقلیں ہو گئیں بیکار اور اک مُردہ وار
گردنوں پر اُن کی ہے سب عام لوگوں کا گُنَہ
جنکے وعظوں سے جہاں کے آ گیا دِل میں غُبار
ایسے کچھ سوئے کہ پھر جاگے نہیں ہیں اب تلک
ایسے کچھ بھولے کہ پھر نسیاں ہُوا گردن کا ہار
نوعِ انساں میں بدی کا تخم بونا ظلم ہے
وہ بدی آتی ہے اُس پر جو ہو اُس کا کاشتکار
چھوڑ کر فُرقاں کو آثارِ مخالف پر جمے
سر پہ مسلم اور بُخاری کے دیا ناحق کا بار
جبکہ ہے امکانِ کذب و کج روی اخبار میں
پھر حماقت ہے کہ رکھیں سب انہی پر اِنحصار
جبکہ ہم نے نورِ حق دیکھا ہے اپنی آنکھ سے
جبکہ خود وحیِ خدا نے دی خبر یہ بار بار
پھر یقیں کو چھوڑ کر ہم کیوں گمانوں پر چلیں
خود کہو رؤیت ہے بہتر یا نقولِ پُرغُبار
تفرقہ اسلام میں نقلوں کی کثرت سے ہوا
جِس سے ظاہر ہے کہ راہِ نقل ہے بے اعتبار
نقل کی تھی اِک خطا کاری مسیحا کی حیات
جس سے دیں نصرانیت کا ہو گیا خدمت گذار
صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر
ہو گئے شیطاں کے چیلے گردنِ دیں پر سوار
موتِ عیسیٰ کی شہادت دی خدا نے صاف صاف
پھر احادیثِ مخالف رکھتی ہیں کیا اعتبار
گر گماں صحت کا ہو پھر قابلِ تاویل ہیں
کیا حدیثوں کے لئے فرقاں پہ کر سکتے ہو وار
وہ خدا جس نے نشانوں سے مجھے تمغہ دیا
اب بھی وہ تائیدِ فُرقاں کر رہا ہے بار بار
سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں
عُمرِ دنیا سے بھی اب ہے آ گیا ہفتم ہزار۱؎
۱؎ کتبِ سابقہ اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دُنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس تک ہے۔ اِسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک حضرت آدمؑ سے اسی قدر مُدّت بحساب قمری گذری تھی جو اِس سُورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے اور اس کے رُو سے حضرت آدمؑ سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دُنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یہ حساب جو سُورہ وَ الْعَصْر کے حروف کے اعداد نکالنے سے معلوم ہوتا ہے یہود و نصاریٰ کے حساب سے قریباً بتمام و کمال ملتا ہے۔ صرف قمری اور شمسی حساب کو ملحوظ رکھ لینا چاہیے اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گذر گیا۔منہ
اس کے آتے آتے دیں کا ہوگیا قِصّہ تمام
کیا وہ تب آئے گا جب دیکھے گا اس دیں کا مزار
کشتیِ اسلام بے لُطفِ خدا اب غرق ہے
اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار
مجھ کو دے اک فوقِ عادت اے خدا جوش و تپش
جس سے ہوجاؤں مَیں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار
وہ لگا دے آگ میرے دل میں مِلّت کیلئے
شعلے پہنچیں جس سے ہر دم آسماں تک بیشمار
اے خُدا تیرے لئے ہر ذرّہ ہو میرا فدا
مجھ کو دِکھلادے بہارِ دیں کہ مَیں ہُوں اشکبار
خاکساری کو ہماری دیکھ اَے دانائے راز
کام تیرا کام ہے ہم ہو گئے اب بے قرار
اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف
نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار
ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے
بعد اس کے ظنِّ غالب کو ہیں کرتے اختیار
پھر یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں
تنگ ہو جائے مخالف پر مجالِ کارزار
باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
مَیں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار
مرہمِ عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا
میری مرہم سے شفا پائے گا ہر مُلک و دیار
جھانکتے تھے نور کو وہ روزنِ دیوار سے
لیک جب دَر کُھل گئے پھر ہو گئے شپّر شعار
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب مَیں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمّیدوار
پر ہوئے دِیں کے لئے یہ لوگ مارِ آستیں
دشمنوں کو خوش کیا اور ہو گیا آزُردہ یار
غُل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے
پاک کو ناپاک سمجھے ہو گئے مُردار خوار
گو وہ کافر کہہ کے ہم سے دُور تر ہیں جا پڑے
انکے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار
ہم نے یہ مانا کہ انکے دل ہیں پتھر ہوگئے
پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار
کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا اُمید
آیتِ لَا تَیْئَسُوْا رکھتی ہے دِل کو استوار
پیشہ ہے رونا ہمارا پیشِ ربِّ ذُوالمِنَن
یہ شجر آخر کبھی اِس نہر سے لائیں گے بار
جن میں آیا ہے مسیحِ وقت وہ مُنکر ہوئے
مر گئے تھے اِس تمنّا میں خواصِ ہر دیار
مَیں نہیں کہتا کہ میری جاں ہے سب سے پاک تر
مَیں نہیں کہتا کہ یہ میرے عمل کے ہیں ثمار
مَیں نہیں رکھتا تھا اِس دعویٰ سے اِک ذرّہ خبر
کھول کر دیکھو بَراہیں کو کہ تا ہو اِعتبار
گر کہے کوئی کہ یہ منصب تھا شایانِ قریش
وہ خُدا سے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار
مجھ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پَروا نہیں
ہو سکے تو خود بنو مہدی بحکمِ کردگار
افترا لعنت ہے اور ہر مفتری ملعون ہے
پھر لعیں وُہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار
تشنہ بیٹھے ہو کنارِ جوئے شیریں حَیف ہے
سرزمینِ ہند میں چلتی ہے نہرِ خوشگوار
اِن۱؎ نشانوں کو ذرہ سوچو کہ کس کے کام ہیں
کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار
۱؎ اب تک کئی ہزار خدا تعالیٰ کے نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں۔ زمین نے بھی میرے لئے نِشان دکھلائے اور آسمان نے بھی اور دوستوں میں بھی ظاہر ہوئے اور دشمنوں میں بھی جن کے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور ان نِشانوں کو اگر تفصیلاً جُدا جُدا شمار کیا جائے تو قریباً وُہ سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔منہ
مُفت میں ملزم خدا کے مت بنو اَے مُنکرو
یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مُفتری کا کاروبار
یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں
کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکّاروں کا کار
ایسی سُرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد
کیا نہیں ثابت یہ کرتی صِدقِ قولِ کردگار
کچھ تو سوچو ہوش کرکے کیا یہ معمولی ہے بات
جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار
مِٹ گئے حِیلے تمہارے ہو گئی حجّت تمام
اب کہو کس پر ہوئی اے مُنکرو لعنت کی مار
بندۂ درگاہ ہوں اور بندگی سے کام ہے
کچھ نہیں ہے فتح سے مطلب نہ دل میں خوفِ ہار
مت کرو بک بک بہت اُس کی دِلوں پر ہے نظر
دیکھتا ہے پاکیِ دِل کو نہ باتوں کی سنوار
کیسے پتھر پڑ گئے ہَے ہَے تمہاری عقل پر
دیں ہے مُنہ میں گرگ کے تم گرگ کے خود پاسدار
ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمدؐ پر تبر
کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار
کون سی آنکھیں جو اُس کو دیکھ کر روتی نہیں
کون سے دل ہیں جو اِس غم سے نہیں ہیں بے قرار
کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج
اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار
یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک
کیا یہ شمس الدیں نہاں ہو جائے گا اب زیرِغار
جنگِ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا
دِل گھٹا جاتا ہے یا ربّ سخت ہے یہ کارزار
ہر نبیِ وقت نے اِس جنگ کی دی تھی خبر
کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشمِ اشکبار
اَے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ
وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار
جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگِ روس اور جاپان سے
مَیں غریب اور ہے مقابل پر حریفِ نامدار
دِل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر
اے مری جاں کی پناہ فوجِ ملائک کو اُتار
بسترِ راحت کہاں اِن فکر کے ایام میں
غم سے ہر دن ہو رہا ہے بَد تر از شَب ہائے تار
لشکرِ شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھر گیا
بات مشکل ہو گئی قدرت دکھا اے میرے یار
نسلِ انساں سے مدد اب مانگنا بیکار ہے
اب ہماری ہے تری دَرگاہ میں یاربّ پُکار
کیوں کریں گے وہ مدد اُن کو مدد سے کیا غرض
ہم تو کافر ہو چکے اُن کی نظر میں بار بار
پر مجھے رہ رہ کے آتا ہے تعجب قوم سے
کیوں نہیں وہ دیکھتے جو ہو رہا ہے آشکار
شکر لِلّٰہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں
کچھ بنیں طاعوں کی صورت کچھ زلازل کے بُخار
اِک ؔ(۱) طرف طاعونِ خونی کھا رہا ہے مُلک کو
ہو رہے ہیں صد ہزاراں آدمی اُس کا شکار
دوسرؔے(۲) منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ
جس سے اِک محشر کا عالَم تھا بصد شور و پکار
ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے
جس قدر گھر گِر گئے اُن کا کروں کیونکر شمار
یا تو وہ عالی مکاں تھے زینت و زیبِ جلوس
یا ہوئے اِک ڈھیر اینٹوں کے پُر از گرد و غبار
حشر جس کو کہتے ہیں اک دم میں برپا ہو گیا
ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اِضطرار
دَب گئے نیچے پہاڑوں کے کئی دیہات و شہر
مر گئے لاکھوں بشر اور ہو گئے دُنیا سے پار
اِس نشاں کو دیکھ کر پھر بھی نہیں ہیں نرم دِل
پس خدا جانے کہ اب کس حشر کا ہے اِنتظار
وہ جو کہلاتے تھے صوفی کِیں میں سب سے بڑھ گئے
کیا یہی عادت تھی شیخِ غزنوی کی یادگار
کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں!
پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحیِ رحماں کی پھوار
پر وہی نافہم ملہم اوّل الاعدا ہوئے
آ گیا چرخِ بریں سے ان کو تکفیروں کا تار
سب نشاں بیکار اُن کے بغض کے آگے ہوئے
ہو گیا تیرِ تعصب ان کے دل میں وار پار
دیکھتے ہرگز نہیں قدرت کو اس ستّار کی
گو سناویں اُن کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار
صُوفیا! اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تِراہ
آسماں سے آ گئی میری شہادت بار بار
قُدرتِ حق ہے کہ تم بھی میرے دشمن ہو گئے
یا محبت کے وہ دِن تھے یا ہوا ایسا نقار
دھو دئیے دل سے وہ سارے صحبتِ دیریں کے رنگ
پھول بن کر ایک مُدّت تک ہوئے آخر کو خار
جس قدر نقدِ تعارف تھا وہ کھو بیٹھے تمام
آہ! کیا یہ دل میں گذرا، ہوں مَیں اس سے دِلفگار
آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر
دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار
اِک نشاں ہے آنیوالا آج۱؎ سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار
۱؎ تاریخ امروزہ ۵ ۱؍پریل ۱۹۰۵ء
آئے گا قہرِ خدا سے خلق پر اِک اِنقلاب
اِک برہنہ سے نہ یہ ہو گا کہ تا باندھے اِزار
یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جنبش کھائینگے۲؎
کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار
۲؎ خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہو گا جو نمونۂ قیامت ہو گا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا اشارہ کرتی ہے لیکن مَیں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔ ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلا دے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو۔ اور جانوروں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے۔ ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صُورت میں مَیں کاذب ٹھہروں گا۔مگر مَیں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے صرف اختلافِ مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہندو یا عیسائی ہونیکی وجہ سے کسی پر عذاب آسکتا ہے اور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں۔ یہ سب لوگ اِس تشویش سے محفوظ ہیں۔ ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور فسق و فجور میں غرق ہو اور زانی، خونی، چور، ظالم اور ناحق کے طور پر بد اندیش، بد زبان اور بدچلن ہو اُس کو اس سے ڈرنا چاہیئے اور اگر توبہ کرے تو اُس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔ قطعی نہیں ہے۔ منہ
اِک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیر و زبر
نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آبِ رود بار
رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن
صبح کر دے گی اُنہیں مثلِ درختانِ چنار
ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس
بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار(بلبل)
ہر مُسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی
راہ کو بُھولیں گے ہو کر مَست و بیخود راہوار
خون سے مُردوں کے کوہستان کے آبِ رواں
سُرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار
مضمحل ہو جائینگے اِس خوف سے سب جِنّ و انس
زار بھی ہوگا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار
اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ رباّنی نشاں
آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار
ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہِ ناشناس
اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دار و مدار
وحیِ حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا
کچھ دِنوں کر صبر ہو کر متّقی اور برُدبار
یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف
قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار
(براہین احمدیہ حِصّہ پنجم صفحہ ۹۷ ۔ مطبوعہ ۱۹۰۸ء)