دُرِّثمین اُردو
وفات مسیح ناصریؑ
کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال؟
دل میں اُٹھتا ہے مِرے سَو سَو اُبال
ابنِ مریمؑ مر گیا حق کی قَسم
داخلِ جنّت ہوا وہ محترم
مارتا ہے اُس کو فرقاں سربسر
اُس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر
وہ نہیں باہر رہا اموات سے
ہو گیا ثابت یہ تیس آیات سے
کوئی مُردوں سے کبھی آیا نہیں
یہ تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں
عہد شُد از کردگارِ بے چگوں
غور کُن در اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
اَے عزیزو! سوچ کر دیکھو ذرا
موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا؟
یہ تو رہنے کا نہیں پیارو مکاں
چل بسے سب انبیاءؑ و راستاں
ہاں نہیں پاتا کوئی اِس سے نجات
یوں ہی باتیں ہیں بنائیں واہیات
کیوں تمہیں انکار پر اصرار ہے
ہے یہ دیں یا سیرتِ کفّار ہے
برخلافِ نصّ یہ کیا جوش ہے
سوچ کر دیکھو اگر کچھ ہوش ہے
کیوں بنایا ابنِ مریمؑ کو خدا
سنّت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا
کیوں بنایا اُس کو باشانِ کبیر
غیب دان و خالق و حیّ و قدیر
مر گئے سب پر وہ مرنے سے بچا
اب تلک آئی نہیں اس پر فنا
ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا
مولوی صاحب! یہی توحید ہے
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے؟
کیا یہی توحیدِ حق کا راز تھا؟
جس پہ برسوں سے تمہیں اک ناز تھا
کیا بَشر میں ہے خدائی کا نشاں؟
اَلْاَمَاں ایسے گماں سے اَلْاَمَاں!
ہے تعجب آپ کے اِس جوش پر
فہم پر اور عقل پر اور ہوش پر
کیوں نظر آتا نہیں راہِ صواب؟
پڑ گئے کیسے یہ آنکھوں پر حجاب
کیا یہی تعلیمِ فرقاں ہے بھلا
کچھ تو آخر چاہیے خوفِ خدا
مومنوں پر کفر کا کرنا گماں
ہے یہ کیا ایمانداروں کا نشاں؟
ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدّامِ ختم المرسلیںؐ
شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں
خاکِ راہِ احمدِؐ مختار ہیں
سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان و دل اس راہ پر قربان ہے
دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا
تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب
کیوں نہیں لوگو تمہیں خوفِ عِقاب
سخت شورے او فتاد اندر زمیں
رحم کُن برخَلْق اے جاں آفریں
کچھ نمونہ اپنی قدرت کا دکھا
تجھ کو سب قدرت ہے اے ربّ الوریٰ
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۷۶۴ ۔مطبوعہ ۱۸۹۱ء )