دُرِّثمین اُردو
پیش گوئی جنگِ عظیم
یہ نشانِ زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دِن
وہ تو اِک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار
اِک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد
جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار
فاسقوں اور فاجروں پر وہ گھڑی دُشوار ہے
جس سے قیمہ بن کے پھر دیکھیں گے قیمہ کا بگھار
خوب کھل جائیگا لوگوں پہ کہ دیں کس کا ہے دیں
پاک کر دینے کا تِیرتھ کعبہ ہے یا ہر دوار
وحیِ حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ
لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قسموں کی مار
کچھ ہی ہو پر وہ نہیں رکھتا زمانہ میں نظیر
فوقِ عادت ہے کہ سمجھا جائے گا روزِ شمار
یہ جو طاعوں ملک میں ہے اسکو کچھ نسبت نہیں
اُس بلا سے وہ تو ہے اک حشر کا نقش و نگار
وقت ہے توبہ کرو جلدی مگر کچھ رحم ہو!
سُست کیوں بیٹھے ہو جیسے کوئی پی کر کوکنار
تم نہیں لوہے کے کیوں ڈرتے نہیں اس وقت سے
جس سے پڑ جائیگی اِک دم میں پہاڑوں میں بُغار
وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر
جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار
ایک دم میں غم کدے ہو جائینگے عِشرت کدے
شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہو کر سوگوار
وہ جو تھے اُونچے محل اور وہ جو تھے قصرِ بریں
پست ہو جائینگے جیسے پست ہو اِک جائے غار
ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر
جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں ان کا شمار
پر خدا کا رحم ہے کوئی بھی اس سے ڈر نہیں
اُن کو جو جھکتے ہیں اس درگہ پہ ہو کر خاکسار
یہ خوشی کی بات ہے سب کام اُس کے ہاتھ ہے
وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمرزگار
کب یہ ہوگا؟ یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر
دی خبر مجھ کو کہ وہ دِن ہوں گے ایّامِ بہار
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘
یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار
یاد کر فرقاں سے لفظِ زُلْزِلَتْ زِلْزَالَھَا
ایک دن ہو گا وہی جو غیب سے پایا قرار
سخت ماتم کے وہ دِن ہونگے مصیبت کی گھڑی
لیک وہ دِن ہونگے نیکوں کیلئے شیریں ثمار
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائینگے
جو کہ رکھتے ہیں خُدائے ذوالعجائب سے پیار
انبیاء سے بُغض بھی اَے غافلو! اچھا نہیں
دُور تر ہٹ جاؤ اس سے ہے یہ شیروں کی کچھار
کیوں نہیں ڈرتے خدا سے کیسے دل اندھے ہوئے
بے خدا ہرگز نہیں بدقسمتو! کوئی سِہار
یہ نشانِ آخری ہے کام کر جائے مگر
وَرنہ اب باقی نہیں ہے تم میں اُمیدِ سُدھار
آسماں پر اِن دنوں قہرِ خدا کا جوش ہے
کیا نہیں تم میں سے کوئی بھی رشید و ہونہار
اِس نشاں کے بعد ایماں قابلِ عزت نہیں
ایسا جامہ ہے کہ نوپوشوں کا جیسے ہو اُتار
اِس میں کیا خوبی کہ پڑ کر آگ میں پھر صاف ہوں
خوش نصیبی ہو اگر اب سے کرو دِل کی سنوار
اب تو نرمی کے گئے دن اب خدائے خشمگیں
کام وہ دکھلائے گا جیسے ہتھوڑے سے لُہار۱؎
۱؎ یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اُس عذاب کو خدا تعالیٰ نے بار بار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیا ہے اگرچہ بظاہر وہ زلزلہ ہے اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہو گا، لیکن چونکہ عادتِ الٰہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباً تو وہ زلزلہ ہے ورنہ کوئی اور جانگداز اور فوق العادت عذاب ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کی بار بار شائع کرنے کی اسی وجہ سے ضرورت پیش آئی ہے جو پہلے زلزلہ کی خبر جو اچھی طرح شائع نہیں کی گئی اس سے بہت سی جانوں کا نقصان ہوا اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ دوسری پیشگوئی میں جو زلزلہ کے بارے میں ہے جہاں تک میری طاقت ہے لوگوں کو خبر کر دوں تا شاید میری بار بار کی اشاعت سے لوگوں کے دِل میں صلاحّیت کا خیال پیدا ہو جائے اور اس عذاب کے ٹلنے کے لئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ کوئی عیسائی ہو یا ہندو یا مسلمان ہو یا کوئی شخص ہماری بیعت کرے۔ ہاں یہ ضرورت ہے کہ لوگ نیک چلنی اختیار کریں اور جرائم پیشہ ہونا چھوڑ دیں۔ منہ
اُس گھڑی شیطاں بھی ہوگا سجدہ کرنے کو کھڑا
دل میں یہ رکھ کر کہ حکمِ سجدہ ہو پھر ایک بار
بے خدا اِس وقت دنیا میں کوئی مامن نہیں
یا اگر ممکن ہو اب سے سوچ لو راہِ فرار
تم سے غائب ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں ہر گھڑی
پھرتا ہے آنکھوں کے آگے وہ زماں وہ روزگار
گر کرو توبہ تو اَب بھی خیر ہے کچھ غم نہیں
تم تو خود بنتے ہو قہرِ ذُوالمِنَن کے خواستگار
وہ خدا حِلم و تفضل میں نہیں رکھتا نظیر
کیوں پھرے جاتے ہو اُس کے حکم سے دیوانہ وار
مَیں نے روتے روتے سجدہ گاہ بھی تر کر دیا
پر نہیں اِن خشک دِل لوگوں کو خوفِ کردگار
یا الٰہی اِک نشاں اپنے کرم سے پھر دکھا
گردنیں جُھک جائیں جس سے اور مکذّب ہوں خوار
اِک کرشمہ سے دِکھا اپنی وہ عظمت اَے قدیر
جس سے دیکھے تیرے چہرے کو ہر اک غفلت شعار
تیری طاقت سے جو منکر ہیں انہیں اَب کچھ دِکھا
پھر بدل دے گُلشن و گلزار سے یہ دشتِ خار
زور سے جھٹکے اگر کھاوے زمیں کچھ غم نہیں
پر کسی ڈھب سے تزلزل سے ہو مِلّت رستگار
دین و تقویٰ گم ہوا جاتا ہے یا رب رحم کر
بے بسی سے ہم پڑے ہیں کیا کریں کیا اختیار
میرے آنسو اس غمِ دل سوز سے تھمتے نہیں
دیں کا گھر ویراں ہے اور دُنیا کے ہیں عالی منار
دیں تو اِک ناچیز ہے دُنیا ہے جو کچھ چیز ہے
آنکھ میں اُن کی جو رکھتے ہیں زر و عِزّ و وقار
جس طرف دیکھیں وہیں اِک دہریت کا جوش ہے
دیں سے ٹھٹھا اور نمازوں روزوں سے رکھتے ہیں عار
جاہ و دولت سے یہ زہریلی ہوا پیدا ہوئی
موجبِ نَخوت ہوئی رفعت کہ تھی اِک زہرِ مار
ہے بُلندی شانِ ایزد گر بشر ہووے بلند
فخر کی کچھ جا نہیں وہ ہے متاعِ مُستعار
ایسے مغروروں کی کثرت نے کیا دیں کو تباہ
ہے یہی غم میرے دل میں جس سے ہوں مَیں دِلفگار
اَے مرے پیارے مجھے اِس سیلِ غم سے کر رِہا
ورنہ ہو جائے گی جاں اس درد سے تجھ پر نثار
(از نوٹ بُک حضرت مسیح موعود علیہ السلام )