سوشل میڈیا (Social Media)
بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار
اپنی نسلوں کومیڈیا کی برائیوں سےبچائیں
سیّدنا حضور انو ر ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 23؍اپریل 2010ء کو سوئٹزرلینڈ میں احباب جماعت اور خصوصاً نوجوان نسلوں کی تربیت کے حوالہ سے ایک نہایت اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں مختلف معاشروں میں پیدا ہونے والی اخلاقی کمزوریوں اور خصوصاً مغربی معاشرہ میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے پھیلنے والی مختلف اخلاقی برائیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کے سدّباب کے لئے والدین کے علاوہ نظام جماعت اور ذیلی تنظیموں کو بھی اُن کی ذمّہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ حضورانور نے فرمایا:
’’…بعض دفعہ اولاد بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مقابلے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ بھی ایک شرک کی قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کا انکار کر کے اولاد کی بات ماننا بھی ایک قسم کا مخفی شرک ہے۔ بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی یاد کو یہ چیزیں بھلا دیتی ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو احمدیت سے دُور ہٹے ہیں تو اولاد کی وجہ سے۔ اولاد کے بے جا لاڈ پیار نے اور اولاد کی آزادی نے اولاد کو جب دین سے ہٹایا تو خود ماں باپ بھی دین سے ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآاَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ (المنافقون:10) اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور اولادیں اللہ کے ذکرسے غافل نہ کر دیں ……‘‘۔
’’پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ، زنا، بدنظری، لڑائی جھگڑا، ظلم، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے۔ ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بچ رہا ہوں ؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے۔ زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے۔ یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہو گئی ہیں۔ گھروں میں ٹیلی وژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر بعض بدقسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تویہ جوزنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہو گئی ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں۔ بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں۔
بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ جماعتی نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ اسی طرح انصاراللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنائیں۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے۔ اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے۔ خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مرد ان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈر شپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے۔ لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر رہنمائی مل رہی ہے۔ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں۔ نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں۔ خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَا رًا(التحر یم: 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی آگ سے بچاؤ۔
آج کل تو دنیا کی چمک دمک اور لہو و لعب، مختلف قسم کی برائیاں جو مغربی معاشرے میں برائیاں نہیں کہلاتیں لیکن اسلامی تعلیم میں وہ برائیاں ہیں، اخلاق سے دور لے جانے والی ہیں، منہ پھاڑے کھڑی ہیں جو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہاپہلے روشن خیالی کے نام پر بعض غلط کام کئے جاتے ہیں اور پھر وہ برائیوں کی طرف دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ تو یہ نہ ہی تفریح ہے، نہ آزادی بلکہ تفریح اور آزادی کے نام پر آگ کے گڑھے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہے، مومنوں کو کھول کر بتا دیا کہ یہ آگ ہے۔ یہ آگ ہے، اس سے اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور اپنی اولادوں کو بھی بچاؤ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو اس معاشرے میں رہ رہے ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ یہ تمہاری زندگی کا مقصد نہیں ہے۔ یہ نہ سمجھوکہ یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ اس لہو و لعب میں پڑا جائے، یہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے تمہارے میں اور غیر میں فرق ہونا چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23؍اپریل 2010ءبمقام سوئٹزر لینڈ)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشل 14؍مئی 2010ء)
بچپن سے ہی بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں
ماحول کے اثرات بچوں کے ذہنوں پر کیسے اثرانداز ہوکر اُن کے کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نقل کا مادہ رکھا ہوا ہے جو بچپن سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ فطرت میں ہے۔ اس لئے بچہ کی فطرت میں بھی یہ نقل کا مادّہ ہے۔ اور یہ مادہ جو ہے یقینا ًہمارے فائدے کے لئے ہے لیکن اس کا غلط استعمال انسان کو تباہ بھی کر دیتا ہے یا تباہی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ یہ نقل اور ماحول کا ہی اثر ہے کہ انسان اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے، یا باقی کام سیکھتا ہے اور اچھی باتیں سیکھتا ہے، اور اچھی باتیں سیکھ کر بچہ اعلیٰ اخلاق والا بنتا ہے۔ ماں باپ نیک ہیں، نمازی ہیں، قرآن پڑھنے والے ہیں، اُس کی تلاوت کرنے والے ہیں، آپس میں پیار اور محبت سے رہنے والے ہیں، جھوٹ سے نفرت کرنے والے ہیں تو بچے بھی اُن کے زیرِ اثر نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔ لیکن اگر جھوٹ، لڑائی جھگڑا، گھر میں دوسروں کا استہزاء کرنے کی باتیں، جماعتی وقار کا بھی خیال نہ رکھنا یا اس قسم کی برائیاں جب بچہ دیکھتا ہے تو اس نقل کی فطرت کی وجہ سے یا ماحول کے اثر کی وجہ سے پھر وہ یہی برائیاں سیکھتا ہے۔ باہر جاتا ہے تو ماحول میں، دوستوں میں جو کچھ دیکھتا ہے، وہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے بار بار مَیں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، جو ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13 ؍دسمبر 2013 ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3 ؍جنوری 2014ء)
کم عمربچوں میں موبائل فون کا غیرضروری استعمال
جدید ٹیکنالوجی بشمول موبائل فون کے غلط استعمال کے نتیجے میں بچوں کے کردار پر جو منفی اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں، اُن کے بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی نوجوانوں اور بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے، جرمنی میں ہونے والے اطفال الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر، ارشاد فرمایا:
’’ پھر آج کل یہاں بچوں میں ایک بڑی بیماری ہے ماں باپ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کردو۔ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آپ کونسا بزنس کررہے ہیں ؟ آپ کوئی ایسا کام کرہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کرکے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہے۔ اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ فون سے پھر غلط باتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ فون سے لوگ رابطے کرتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے ہیں گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں اس لئے فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے اس میں بچوں کو ہوش نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئےاس سے بھی بچ کر رہیں۔ ٹی وی کا پروگرام جیسا کہ میں نے ابھی بات کی ہے اس میں بھی کارٹون یا بعض پروگرام جو معلوماتی ہوتے ہیں وہ دیکھنے چاہئیں۔ لیکن بیہودہ اور لغو پروگرام جتنے ہیں اس سے بچنا چاہئے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ جرمنی۔ 16 ؍ستمبر 2011ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍مارچ 2012ء)
غیر اخلاقی ٹیلی وژن پروگرام بلاک کریں
تفریح کی غرض سے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی گھنٹوں ٹیلی وژن کے آگے بیٹھتے ہیں جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں میں بُرائیوں کو بُرا سمجھنے کی حِس ختم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ غیر اخلاقی ٹیلی وژن پروگرام دیکھنے اور بے حیائی کی خطرناک راہ پر چلنے سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پس شیطان کے حملے سے بچنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسن قول ضروری ہے۔ ‘‘
اس ضمن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان کی آیت 70 میں ’قولِ سدید‘ کے قرآنی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت کے ساتھ مزید تاکید یہ فرمائی کہ جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ۔ جہاں خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف باتیں ہوں ان مجالس میں نہ جاؤ۔ اب یہ گھٹیا اور لغو باتیں اس زمانے میں بعض دفعہ لا شعوری طور پر گھروں کی مجلسوں میں یا اپنی مجلسوں میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ نظام کے خلاف بات ہوتی ہے۔ کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ عہدیداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں، اگر نیچے اُس پر اصلاح نہیں ہو رہی تو مجھ تک پہنچائیں۔ لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر جب وہ باتیں کرتے ہیں تو وہ لغو باتیں بن جاتی ہیں۔ کیونکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی۔ اُس میں فتنہ اور فساد اور جھگڑے مزید پیدا ہوتے ہیں۔ پھر اس زمانے میں ٹی وی پر گندی فلمیں ہیں۔ انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ہیں۔ ڈانس اور گانے وغیرہ ہیں۔ بعض انڈین فلموں میں ایسے گانے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر مانگا جا رہا ہوتا ہے، یا اُن کی بڑائی بیان کی جا رہی ہوتی ہے جس سے ایک اور سب سے بڑے اور طاقتور خدا کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ یا یہ اظہار ہو رہا ہو کہ یہ دیوی دیوتا جو ہیں، بت جو ہیں، یہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بھی لغویات ہیں، شرک ہیں۔ شرک اور جھوٹ ایک چیز ہے۔ ایسے گانوں کو بھی نہیں سننا چاہئے۔ ‘‘
حضورانور ایدہ اللہ نے مزید فرمایا:
’’پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ (حٰم سجدہ:37)اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچی ہے، ایسی باتیں شیطان پہنچائے جو احسن قول کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھو۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھو۔ اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقیناًوہ سنتا ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ؍اکتوبر 2013 ءبمقام مسجد بیت الہدیٰ، سڈنی۔ آسٹریلیا)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8 ؍نومبر2013ء)
لغو باتوں (جن میں ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ بھی شامل ہیں ) سے اعراض کرنے کے بارے میں حضورانور ایدہ اللہ نے کئی مواقع پر نصائح فرمائی ہیں۔ چنانچہ لجنہ اماء اللہ جرمنی کے ایک اجتماع میں ارشاد فرمایا:
’’پھر لغو باتیں ہیں۔ ان لغو باتوں کے لئے مَیں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں۔ وہ تو کرتی ہیں اُن کو اس سے روکنا ہی ہے، لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کےلئے جو ٹی وی اور انٹر نیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہو چکا ہے۔ اگر آپ لوگ سارا دن ایسے پروگرام دیکھ رہی ہیں جس میں کوئی تربیت نہیں ہے تو یہ لغویات ہے۔ انٹرنیٹ جوہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آ سکتیں اور بےحیائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایسے معاملات آ جاتے ہیں کہ غلط قسم کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی جال میں پھنسا لیا اور پھر اُن کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں۔ اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں۔ ٹی وی پر بے حیائی کے بہت سارے پروگرام ہیں۔ ایسے چینل والدین کو بھی بلاک) block(کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں۔ ایسے مستقل لاک(lock) ہونے چاہئیں۔ اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں توبیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون۔ اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ واری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں۔ آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17 ؍ستمبر 2011ء)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍ نومبر 2012ء)